افغانستان: امن کے ناٹک

[تحریر: لال خان]
افغان صدر حامد کرزئی کی حالیہ دورہ پاکستان سے واپسی پر افغان وزارت خارجہ کا بیان، مذاکرات کی ناکامی کی غمازی کرتا ہے۔ حال ہی میں دوحہ میں قطری بادشاہت کے تعاون سے طالبان کے دفتر کے افتتاح کے بعد شروع ہونے والے ’امن مذاکرات‘ کا آغاز سے پہلے اختتام ہو گیا تھا۔ ان مذاکرات میں کرزئی حکومت نے حصہ لینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ طالبان اپنے جھنڈے، ترانے اور ’’امارت اسلامیہ افغانستان‘‘ کی حکومت کے نشان کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ حکومتی مذاکرات، جعلی معاہدوں اور انتظامی معاملات کے ذریعے افغانستان میں قیام امن کے ممکنات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

افغان جنگجو نواز شریف کی موجودگی میں اسلام آباد سمجھوتے پر دستخط کر رہے ہیں

1990ء کی دہائی کے آغاز میں میاں نواز شریف نے اپنے پہلے دور حکومت کے دوران افغانستان میں ایک دوسرے سے برسر پیکار بنیاد پرستوں اور ’’مجاہدین‘‘ کے مختلف گروپوں کے درمیان ’’سمجھوتہ اسلام آباد‘‘ کے ذریعے صلح اور امن معاہدہ کروانے کی کوشش کی تھی۔ 7مارچ 1993ء کو افغان خانہ جنگی کے تمام تر فریقین نے امن معاہدے پر دستخط کئے جس کے بعد انہیں سعودی عرب لے جایا گیا جہاں خانہ کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کر تمام جنگجو گروہوں کے سربراہان نے معاہدہ پر کاربند ہونے کا حلف دیا، تاہم حلف دینے والے رہنماؤں کے کابل پہنچنے سے پہلے ہی خانہ جنگی اور خونزیری پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے شروع ہوچکی تھی! آج ایک طرف پاکستانی معیشت انتہائی گہرے بحران اور ریاست داخلی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے تو دوسری طرف خطے میں کئی سامراجی قوتوں کی مداخلت کے باعث تنازعے کی فریقین اور بنیاد پرستوں کے دھڑوں کی تعداد 1990ء کی نسبت کہیں زیادہ ہے۔ 5جون 2013ء کو نواز شریف کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے کراچی اور بلوچستان میں خونریزی بڑھی ہے اور خیبر پختونخواہ میں دہشت گردوں کے حملوں میں شدت آچکی ہے۔ بڑھتے ہوئے معاشی بحران، سماجی افراتفری اور انارکی کے سامنے نواز شریف بے بس نظر آرہے ہیں۔ داخلی طورپر بے قابو ہوتی ہوئی صورتحال کے پیش نظر نواز شریف کی جانب سے حامد کرزئی کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات میں مدد کی پیشکش انتہائی مضحکہ خیز ہے۔
طالبان کی کوئی متفقہ اور یکجا نمائندگی موجود نہیں ہے۔ خطے میں ’’طالبان‘‘ کے نام سے پاکستان، امریکہ اور افغانستان کی فوج کے ساتھ برسرپیکار کئی گروہ اور دھڑے ہیں جن کے مفادات ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم ہیں۔ ایک زمانے میں کہا جاتا تھا کہ طالبان کو خریدا جاسکتا ہے۔ موجودہ عہد میں وہ صرف کرائے پر دستیاب ہیں۔ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور اس طرح کے دوسرے جرائم میں ملوث جنگجوؤں اور بنیاد پرستوں کے مختلف دھڑوں کی وفاداریاں بوقت ضرورت بدلتی رہتی ہیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے یہ دہشتگرد گروہ مختلف کاروباری حریفوں میں بزور طاقت معاملات اور تنازعات حل کروانے کے سلسلے میں بھی اپنی خدمات پیش کررہے ہیں۔ حالیہ عرصے میں کچھ بڑی شخصیات کے رشتہ داروں کے اغوابھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ اس پیچیدہ صورتحال میں طالبان کے کسی حقیقی یا خیالی گروپ، یا ان کے کسی رہنما سے ہونے والے مذاکرات اور معاہدے کو امن کی ضمانت بھلا کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟
دائیں بازو کے تجزیہ نگاروں کی طرف سے معاشرے پر زبردستی تھونپی گئی رائے عامہ کے برعکس افغانستان میں ماضی قریب اور حال میں لڑی جانے والی جنگیں سیاسی و معاشی محرکات اور سامراجی طاقتوں کے سٹریٹجک مفادات کا نتیجہ ہیں۔ قیمتی معدنیات سے بھرپور اس بدنصیب ملک کے سنگلاخ اوروسیع و عریض بیابان آج ایک نئی ’’گریٹ گیم‘‘ کا محورو مرکز بن چکے ہیں۔ آج بربریت، تباہ حالی، جنگ اور غربت کی علامت بن چکا افغانستان ماضی میں اعلیٰ ثقافت اور تہذیب و تمدن کا گھر تھا۔ کابل ’’وسطی ایشیا کے پیرس‘‘کے نام سے جانا جاتا تھا۔ افغانستان جنوبی ایشیا کا واحد ملک ہے جہاں اپریل 1978ء میں جاگیرداری اور سرمایہ داری اکھاڑ دینے والا سوشلسٹ انقلاب برپا ہواتھا۔ انقلابی قیادت کی تمام تر غلطیوں، نظریاتی کمزوریوں اور افغانستان کی معاشی پسماندگی کے باوجود اس انقلاب کے بعد استحصال زدہ عوام کی نجات اور خوشحالی کے اقدامات کئے گئے۔ داخلی کمزوریوں اور امریکی سامراج کی جارحیت کے باعث اس انقلاب کو کچل دیا گیا۔ ہر انقلاب کے ناکامی رد انقلاب کا خوفناک اور تاریک عہد اپنے ساتھ لاتی ہے۔ یہی رد انقلاب پچھلی تین دہائیوں سے افغانستان کے عوام کو تاراج کررہا ہے۔ آج سامراجی کارپوریٹ اجارہ داریاں، بھوکے گدھوں کی طرح افغانستان پر حملہ آور ہیں اور اس کے وسیع معدنی ذخائر کو لوٹنے کے لئے بے تاب ہیں۔ 2014ء میں نیٹو اور امریکی فوجوں کے جزوی انخلا کے بعد یہ تنازعہ نئی اور زیادہ خوفناک شکل اختیار کر جائے گا۔
افغانستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری چین کر رہا ہے۔ 26 اگست کو چینی سرمایہ کاروں کے ایک وفد نے افغان حکومت سے تین ارب ڈالر کے ایک معاہدے کی شرائط پر نظر ثانی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ چین کی ’’چائنہ میٹلرجیکل گروپ‘‘ اور ’’جیانگ زی کاپر‘‘ نامی اجاریہ داریاں افغانستان میں سرمایہ کاری کیلئے آسان شرائط چاہتی ہیں جس کے تحت انہیں افغان حکومت کو کم سے کم ٹیکس دینا پڑے اور معدنیات نکالنے کے بدلے میں ریلوے ٹریک اور پاور پلانٹ وغیرہ تعمیر نہ کرنے پڑیں۔ ’’انٹگریٹی واچ افغانستان‘‘ کے جاوید نورانی کے مطابق ’’چینی سرمایہ کار وہ شرائط (آفرز) معاہدے سے ختم کروانا چاہتے ہیں جن کی بنیاد پر انہوں نے اس ٹھیکہ کی بولی جیتی تھی۔ ‘‘تانبے کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیاں دریائے آمو کے دو شاخے میں موجود گیس اور تیل کے بڑے ذخائر پر نظر جمائے ہوئے ہیں۔ لیکن امریکی اور یورپی اجارہ داریاں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھی ہیں۔ آخر کار انہوں نے اس جنگ میں ٹھیک ٹھاک سرمایہ کاری کی ہے اور اب منافع کمانے کا وقت ہے۔ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے لئے روسی بھی چال بازی کررہے ہیں۔ بھارت، جس کی اپنی آبادی کی اکثریت بدترین غربت کا شکار ہے، افغانستان میں 2.7 ارب ڈالر کی ’’امداد‘‘ دے چکا ہے۔ اسی طرح سعودی اور ایرانی بھی اس خطے میں اپنا سامراجی اثرو روسوخ قائم رکھنے کے لئے متحرک ہیں اور تنازعے کے اہم فریق ہیں۔ پاکستان کی ’’سٹریٹجک گہرائی‘‘ کی پالیسی بھی نیٹو کے انخلا کے بعد ختم ہونے والی نہیں ہے۔ کاروباری ریاستی اسٹیبلشمنٹ اور سرکش جرنیل اپنی سلطنت اور دولت میں اضافے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ان ریاستی عناصر کو پاکستان کے کرپٹ اور رجعتی حکمران طبقے کی کم از کم خاموش حمایت ضرور حاصل ہے جس کی نظر افغان منڈی پر ہے۔
سامراجیوں کی طرح کرزئی حکومت کو بھی افغان عوام سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ حکومت سر تا پا کرپشن اور بدعنوانی میں ڈوبی ہوئی ہے۔ کرزئی حکومت کے اہلکاروں کو اس سامراجی لوٹ مار میں اپنے حصے اور کمیشن کے علاوہ کسی چیز سے کوئی غرض نہیں ہے۔ افغانستان میں ریاستی اہلکاروں سے لے کر انتہا پسند مذہبی جنگجو گروہوں تک، سب منشیات کے منافع بخش کاروبار میں ملوث ہیں اور اس مافیائی نیٹ ورک میں اپنا اثرورسوخ بڑھا کر زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی تگ و دو کررہے ہیں۔ افغانستان کے عوام سامراجیوں کی دہشت گردی اور کالے دھن پر پل رہے بنیاد پرستوں کی بربریت سے برباد ہورہے ہیں۔ نیٹو فوجوں کے جزوی انخلا سے یہ تباہی ختم نہیں ہوگی۔ یہ پیچیدہ صورتحال امن اور استحکام کی ضامن نہیں ہے۔
برطانوی راج کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے والے پشتون سرکشوں کو تقسیم کرنے کے لئے انگریزوں نے 1893ء میں ڈیورنڈ لائن کھینچی تھی۔ یہ سرحد پشتونوں کو تقسیم کرنے کی سکت اب کھو چکی ہے۔ اس جعلی سرحد کے دونوں اطراف کے استحصال زدہ محنت کش عوام کو طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر سامراجی استحصال اور بنیاد پرستوں کی وحشت کے خلاف لڑنا ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان میں دو الگ انقلابات نہیں ہوں گے۔ دونوں ممالک میں ایک یکجاانقلاب کے ذریعے تمام تر بربریت اور خونریزی کی جڑ، سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنا ہوگا۔ اس انقلاب کی گونج دنیا میں بہت دور تک سنائی دے گی!

متعلقہ:
افغان ثور انقلاب کے چونتیس سال۔ جب تخت گرائے اور تاج اچھالے گئے
مذہبی جنون کے کاروبار
امریکی سامراج: ماضی، حال اور مستقبل
امریکہ: دوست یا دشمن؟