لاہور: دو روزہ نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد

| رپورٹ: PYA لاہور |

مورخہ 6 اور 7 دسمبر کو نیشنل مارکسی سکول کا انعقاد پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کے زیر اہتمام لاہور میں ہوا۔ سکول میں ملک کے طول وعرض سے مشکل معاشی حالات کو شکست دیتے ہوئے 200 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔
National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan39سکول کا باقاعدہ آغاز میزبان ریجن سے آفتاب اشرف نے ملک بھر سے آئے شرکا کو خوش آمدید کہہ کر کیا۔ سکول مجموعی طور پر چار سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے دن کا پہلا سیشن ’’عالمی اور پاکستان تناظر‘‘ پر مبنی تھا۔ اس سیشن کوچیئر عدیل زیدی نے کیا اور لیڈآف میں صدام خاصخیلی نے عالمی سرمایہ داری کے 2008ء کے بحران کے پس منظراور ابھی تک اس بحران سے باہر نہ نکل سکنے کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی، انہوں نے کہا اس بحران کا تمام بوجھ دنیا بھر کے محنت کشوں پر ڈالا جا رہا ہے اور عوام کا معیار زندگی گرنے اور اضطراب کے نتیجے میں تحریکیں جنم لے رہی ہیں، انہوں نے دنیا بھر میں سیاست کے بائیں بازو کی طرف جھکاؤ اور بالخصوص یورپ میں ابھرنے والی تحریکوں کا تناظر بیان کیا۔ شام اور مشرقِ وسطیٰ میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کی شکل میں جنم لینے والی بربریت کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلامی بنیاد پرستی سامراجی پالیسیوں اور جارحیت کی ہی پیداوار ہے اور آج سرمایہ داری جس نہج پر پہنچ چکی ہے ایسے میں انتشار، دہشت گردی اور عدم استحکام اس نظام کی ناگزیز National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan31پیداوار بن چکے ہیں۔ صدام نے ریاست پاکستان کے معاشی، سماجی اور سیاسی زوال پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ آج کے عہد میں جہاں سرمایہ داری ترقی یافتہ ترین ممالک میں کوئی آسودگی اور ترقی دینے سے قاصر ہے، پاکستان اور تیسری دنیا کے دوسرے ممالک میں معاشی بحالی اور سیاسی استحکام کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اور دنیا کے کئی دوسرے ممالک کی طرح آنے والے دنوں میں جنوب ایشیا میں بھی انقلابی تحریکیں اٹھیں گی۔ لیڈآف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا جس کے بعد حیدر آباد سے اختیار عباسی، دادو سے رمیزمصرانی، ڈیرہ غازی خان سے سچل، راولپنڈی سے سہیل اختر، کوئٹہ سے رزاق، عمران کامیانہ، ملتان سے ذیشان شہزادنے بحث کو آگے بڑھایا اور عالمی تناظر کے سیاسی، معاشی اور سفارتی پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ سوالات کی روشنی میں بحث کوسمیٹ کر صدام نے سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے کہا کہ ’سوشلزم اور بربریت‘ کے نعرے کی سچائی کو آج کے حالات و واقعات خود ثابت کر رہے ہیں، سرمایہ داری تاریخی طور پر متروک ہے جسے اکھاڑ پھینکنے کے لئے انقلابی پارٹی کی تعمیر لازم ہے اور یہ عظیم فریضہ تاریخ نے نوجوان نسل کے کندھوں پر ڈال دیا ہے۔
National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan38دوپہر کے کھانے کے بعد سکول کا دوسرا سیشن شروع ہوا۔ اس سیشن کا موضوع ’’انقلابِ کیوبا‘‘ تھا جسے چیئر عمر رشید نے کیا اور مفصل لیڈ آف میں ظریف رند نے انقلابِ کیوبا کے پس منظر، واقعات، مضمرات اور اسباق بیان کئے۔ اس موقع پر چے گویرا کی شخصیت، نظریات اور جدوجہد خاص طور پر زیر بحث آئے۔ ظریف رند نے واضح کیا کہ انقلاب کے فیصلہ کن لمحات میں دارلحکومت ہوانا میں ریاست کو مفلوج کر دینے والی محنت کشوں کی عام ہڑتال کے بغیر امریکی سامراج کی کٹھ پتلی بٹیسٹا آمریت کا خاتمہ ممکن نہ تھا، چے گویرا ایک انٹرنیشنلسٹ مارکسی انقلابی تھا جس نے کیوبا کے انقلاب کو لاطینی امریکہ اور پوری دنیا میں پھیلانے کی جدوجہد زندگی کے آخری لمحے تک جاری رکھی، علاوہ ازیں وہ افسر شاہانہ مراعات سے سخت نفرت کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ جب کیوبا کا انقلاب سوویت بیوروکریسی کے تسلط میں جانے لگا تو چے گویرانے اس کے خلاف آواز اٹھائی اور سوویت یونین پر براجمان افسر شاہی سے اس کے تعلقات خراب ہوئے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا اور اسکے بعدبحث کو آگے بڑھاتے ہوئے آدم پال، کشمیر سے جمیل، راولپنڈی سے آصف رشید، فیصل آباد سے مجاہد، لاہور سے آفتاب اشرف اور فرحان گوہرنے ’پرولتاری بونا پارٹ ازم‘، گوریلا National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan16جنگ کے طریقہ کار کی محدودیت، ایک ملک میں سوشلزم کے مضمرات اور انقلاب کیوبا کی موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالی۔ سیشن کا سم اپ کرتے ہوئے ظریف رند نے انقلاب کیوبا کی حاصلات پر بات رکھی، انہوں نے کہا کہ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ ہی تھا جس کی وجہ سے کیوبا میں چند سال میں ناخواندگی اور بیروزگاری کا خاتمہ ہوا، دنیا کا بہترین نظام صحت آج کیوبا میں موجود ہے جس کا اعتراف خود سامراجی جرائد کرنے پر مجبور ہیں، چھ دہائیوں پر مبنی سامراجی پابندیوں کے باوجود لاطینی امریکہ کے دوسرے ممالک سے کہیں بلند معیار زندگی کیوبا میں ملتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چے گویرا کا گوریلا جنگ کا طریقہ کار اگرچہ درست نہیں تھا، بولیویا اور کانگو میں یہ طریقہ کار ناکام ہو کر چے کی شہادت پر منتج ہوا لیکن زندگی کے آخری ایام میں چے گویرا خود انقلاب کی حکمت عملی پر نظر ثانی کر رہا تھا جس کا سب سے بڑا ثبوت اس کے سامان میں موجود ٹراٹسکی کی کتاب ’انقلاب روس کی تاریخ‘ تھی۔ کیوبا کی موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا آج ریاست کا ایک دھڑا ’’چینی ماڈل‘‘ کے نام پر سرمایہ داری کو بحال کرنا چاہتا ہے، امریکی سفارت خانے کا قیام اسی سلسلے کی کڑی ہے، لیکن سوویت یونین کے انہدام کے بعد کے انتہائی مشکل ایام میں انقلاب کو بچانے والے کیوبا کے محنت کش اور نوجوان آج بھی ایسی ہر سامراجی واردات کے خلاف لڑیں گے، آخری تجزئیے میں کیوبا کے مستقبل کا فیصلہ لاطینی امریکہ اور پوری دنیا کے معروضی حالات کریں گے، کسی ایک ملک میں کامیاب سوشلسٹ انقلاب کیوبا کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں کا نیا عزم اور حوصلہ دے گا۔
پہلے دن کی شام، سیشنز کے اختتام پر محفل موسیقی کا اہتمام کیا گیا اور کلاسیکی گائیک ناصر خان نے فیض احمد فیض اور دوسرے شعراکی غزلیں گائیں جس پر کامریڈز نے رقص کیا اور ناصر خان نے خوب داد وصول کی۔
National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan57دوسرے دن کا پہلا اور مجموعی طور پر سکول کا تیسرا سیشن 7 دسمبر کی صبح 10 بجے شروع ہوا۔ اس سیشن کا موضوع کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب ’’سرمایہ‘‘ کا سیکشن 6 تھاجس میں سرمایہ دارانہ نظام میں Wages یعنی اجرتوں کی حرکیات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ سیشن کو چیئر رزاق نے کیا اور موضوع پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے راشد خالد نے محنت، قوت محنت، قدر، قدر زائد، قوت محنت کی قدر، اجرت اور طبقاتی جدوجہد کے ذریعے اجرت کے تعین کو بڑی خوبصورتی سے آسان الفاظ میں بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مارکس سے پہلے کے بورژوا معیشت دان محنت اور قوت محنت میں تمیز کرنے سے قاصر تھے اور ناگزیر طور پر قدر زائد اور منافع کے ماخذ کے بارے میں کنفیوژن کا شکار تھے، مارکس نے پہلی بار واضح کیا کہ سرمایہ داری میں مزدورں کی تنخواہیں محنت کی بنیاد پر نہیں بلکہ قوت محنت کی بنیاد پر متعین ہوتی ہیں، بصورت دیگر سرمایہ دار منافع نہیں کما سکتا، محنت کش کہ نہ دی گئی اجرت سے ہی منافع اور سرمایہ پیدا ہوتا ہے۔ راشد خالد نے اجرتوں کا تعین کرنے والے معاشی اور سماجی مظاہر بیان کئے، National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan24اجرت دینے کے مختلف طریقہ ہائے کار اور مختلف ممالک میں اجرتوں کے فرق کی وضاحت کی۔ عمران کامیانہ، لاہور سے عدیل زیدی، کشمیر سے مجتبیٰ، گوجرانوالہ سے صبغت وائیں، راولپنڈی سے عمار، کوئٹہ سے کریم پرہار اور ملتان سے انعم خان نے مختلف عملی مثالوں کے ذریعے سرمایہ داری میں اجرتوں کی وضاحت کی۔ سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے راشد خالد نے کہا قوت محنت کی قدر یعنی اجرت کو کم سے کم سطح پر رکھنا ہی سرمایہ دار طبقے کے لئے شرح منافع میں اضافے کی ضمانت ہوتی ہے، یوں آبادی کی وسیع اکثریت کے لئے محرومی، غربت اور قلت اس نظام کی ناگزیر پیداوار ہے، سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے جب معیشت کا مقصد منافع کی بجائے انسانی ضروریات کی تکمیل ٹھہرے گا تو کام کے اوقات کار میں کمی، بیروزگاری کے خاتمے اور اجرتوں میں اضافے سے سہل زندگی جنم لے گی جسے انسان تسخیر کائنات اور تخلیق کے لئے استعمال کرے گا۔
National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan42مجموعی طور پر چوتھا اور سکول کے آخری سیشن کا موضوع ’’مارکسزم اور ڈارونزم‘‘ تھا جس کو چیئر راشد شیخ نے کیا اور لیڈآف میں آصف رشید نے انسان کے جسمانی اور سماجی ارتقا پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے ڈارون کے نظریہ ارتقا پر مبنی اسکی کتاب “Origin of Species” کو عظیم تصنیف قرار دیا جس نے جدلیاتی مادیت کے فلسفے پر مہر تصدیق ثبت کی۔ آصف رشید نے کہا کہ ارتقا کوئی بتدریج اور سیدھی لکیر میں چلنے والا عمل نہیں ہے بلکہ ایک مقام پر جب مقدار معیار میں تبدیل ہوتی ہے تو ہمیں ارتقائی جست نظر آتی ہے اور انواع کی تبدیلی کا عمل تیز ترین ہو جاتا ہے، لہٰذا ضروری نہیں کہ ایک نوع سے دوسری نوع میں تبدیلی تمام چھوٹے چھوٹے عبوری مراحل سے گزر کر ہی مکمل ہو۔ انہوں نے Survival of Fittest کی وضاحت کرتے ہوئے کہا اس تھیوری کو انسانی سماج پر بالکل غلط انداز میں استعمال کرتے ہوئے طبقات اور نسل پرستی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جسے بورژوا دانشوروں کی جہالت ہی قرار دیا جا سکتا ہے، ڈارون نے خود اس اصطلاح کا استعمال نہیں کیا اور حیاتیاتی ارتقا کے سیاق و سباق میں اس کے معنی بالکل مختلف ہیں۔ بحث National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan61میں حصہ لیتے ہوئے کشمیر سے آمنہ، راولپنڈی سے ریحانہ، گوجرانوالہ سے صبغت وائیں، ملتان سے ماہ بلوص اسد، لاہور سے اعجاز ایوب نے جینیات، سٹیم سیل ریسرچ، سماجی ارتقا پر فریڈرک اینگلز اور مارگن کے نظریات اور انسان کے حیاتیاتی ارتقا کے مستقبل جیسے دلچسپ موضوعات کا احاطہ کیا، جس کے بعد آصف رشید نے سیشن کو سم اپ کیا۔
سکول کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے کامریڈ لال خان نے کہا کہ چین میں سرمایہ داری کی بحالی، دیوار برلن اور بعد ازاں سوویت یونین کے انہدام کے بعد کا تاریک عہد آج ختم ہورہا ہے، پوری دنیا میں سٹالنزم کی ٹوٹ پھوٹ اور مزدور تحریک کی پسپائی کا باعث بننے والے ان واقعات کے بعد ایک نئی نسل جوان ہو چکی ہے، ہم نے مشکل ترین حالات اور محدود قوتوں کے باوجود انقلابی مارکسزم کا پرچم سربلند رکھا، اس نظام کی یلغارکا مقابلہ کرتے رہے لیکن آج وقت اس نظام پر یلغار کرنے کا ہے، انہوں نے لینن کے قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مستقبل اسی کا ہے جس کے پاس نوجوان ہیں، تاریخ کا عظیم National Marxist School Winter 2015 Lahore Pakistan65ترین انقلاب برپا کرنے والی بالشویک پارٹی کی مرکزی کمیٹی کی اوسط عمر صرف 29 سال تھی۔ انہوں نے کہا کہ سرمایہ داری تاریخی طور پر متروک ہو کر بند گلی میں پھنس چکی ہے، 2008ء کے بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ بورژوا معیشت دانوں کے پاس نہیں ہے کیونکہ یہ اس نظام کا نامیاتی بحران ہے، ایسے میں انقلابی تحریکیں جنم لے رہی ہیں اور مستقبل غیر معمولی واقعات سے بھرپور ہے جس کی تیاری ایک بالشویک پارٹی کی تعمیر کے ذریعے ہی کی جاسکتی، تاریخ کے اس عظیم فریضے کی ادائیگی میں انقلابی سوشلزم اور مارکسزم کے نظریات سے لیس نوجوانوں کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔