قومی اور عالمی ضمیر

[تحریر: قمرالزماں خاں]
عمومی طور پر ’’ضمیر‘‘ کو بھی ایک مافوق الفطرت مظہر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ضمیر کو ایک سیفٹی والو یا سیکورٹی گارڈ جیسا تصوردیا گیا ہے، جو فرد یا قوموں میں مخصوص وقتوں میں ازخود جنم کے بعد برق رفتاری سے ایسے فرائض سرانجام دیتا نظر آتا ہے جن کا اس سے پیشتر شائبہ تک بھی نظر نہیں آتا۔ ایسا کرتے ہوئے گمان کیا جاتا ہے کہ ضمیر (متذکرہ عہدکے مطابق)غیراخلاقی افعال، جرائم، ظلم و جبراور عمومی طور پرممنوعہ قرار دیے گئے (تصورات کے مطابق) معاملات کے سامنے ایک ڈھال کے طور پر وجود رکھنے والا کوئی عامل ہے، جو خود کار انداز میں اپنی سرگرمیاں سرانجام دیتا ہے۔ ضمیر کی آمد اور فرائض کی انجام دہی میں حضرت خضر جیسی خصوصیات دکھائی جاتی ہیں۔ اک تماشہ ہے کہ’’قومی ضمیر‘‘ جیسی ترکیب کا استعمال کرتے ہوئے کسی بھی ملکی حدود کے اندر (طبقات، قوموں، ذات پات، اونچ نیچ، مذاہب، فرقوں سمیت متعدد ٹکریوں میں بٹے )معاشرے کو ایک ’’اکائی ‘‘ سمجھ لیا جاتا ہے۔ عام طور پر ضمیر کو انسان سے ماورا اعلی و ارفع مقام دیا جاتا ہے ‘ افعال کے بالمقابل ضمیرکارد عمل زمین کی بجائے کسی اور سیارے سے دکھائی دیتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ایسا تاثر درست بھی ہے کہ نہیں، جس کی رو سے کسی بھی شخص کے کسی رد عمل، اظہار یا عمل کو کسی طے شدہ ’’ضمیری‘‘ دستور، اخلاقیات یا قوانین کے تحت روک دیا جانا ابدی اور حتمی اصول ٹھہرا دیا گیا ہو!
عام تاثر کے برعکس ضمیر کسی ایک مخصوص فارمولے کا نام ہے اور نہ ہی اسکی کوئی مسلمہ حدود و قیود ہیں۔ ساخت کے اعتبار سے بھی ضمیرکوئی حتمی اور طے شدہ شکل وصورت کا حامل نہیں ہے۔ ضمیر کی تشبیہ فی زمانہ تو ایک ایسے سوفٹ وئیر پروگرام سے دی جاسکتی ہے جس کوکسی گروہ، طبقہ، کمیونٹی حتیٰ کہ فرد نے اپنے مخصوص نظریات، مفادات اور ضروریات کے مطابق وضع کیا ہو۔ ضمیر اصولوں اور اخلاقیات کی کسی وحدت کا نام نہیں ہے بلکہ متضاد مفادات والی قوتوں کے ضمیر کی پکار کا مختلف ہونا اور ایک دوسرے سے متصادم ہونا ناگزیر ہے۔ اکسیویں صدی کی دوسری دہائی کے جدیدتمدن کے مطابق زندگی گزارنے والے اور اسی دور میں پتھر کے عہد کی بود وباش میں ہی رہ جانے والی آبادیوں کے ایک ہی جیسے واقعات پر ایک جیسے رد عمل کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ وہ جن کا مفاد جنگوں کے پھوٹنے میں ہو ان کے ضمیر سے امن کی آشا نمودار نہیں ہوپاتی، حالت امن میں ان کا ضمیر ان کو کچوکے لگاتا ہے کہ جنگی حالات پیدا کرنے میں وہ کوتاہی کیوں برت رہے ہیں۔ چور اگر مال کے قریب سے گزرے اور کچھ نہ کرپائے تو خلش کی پیدائش اسکے ضمیر کی ذمہ داری ہوگی۔ ایک خود کش حملہ آور کے ضمیر کی تشفی شاید اپنے جسم کو عورتوں اور بچوں کے ہجوم میں اڑاکر ہوتی ہے۔ ایک قوم پرست کا متصادم و مخالف قوم کی بربادی پر رد عمل ایک بین الاقوامیت پسند جیسا نہیں ہوسکتا۔ خشک سالی، جنگوں یادیگر آفات کی بنا پر پیدا ہونے والی غذائی قلت پر ذخیرہ اندوز کا ضمیرمجبوروں اور بے بسوں پر ترس کھانے کے برعکس اس کو موقع سے فائدہ اٹھانے پر ایسے اکسائے گا کہ رات کی نیندمحال ہوجائے گی۔ اگر جہالت اور لاعلمی منافعوں کو بڑھاوا دینے میں مدد دیتی ہے تو علم کی روشنی پھیلنے کا کوئی بھی خدشہ منڈی کی قوتوں کے ضمیر کو وہ چابک تھما سکتا ہے جو انکی سوچ کی کھال ادھیڑ دے۔ بیماریوں کا پھیلاؤ فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے بورڈ آف گورنرز اور حصے داروں کو وہ طمانیت بخشتا ہے کہ جس کا بدل کوئی اور آسودگی نہیں دے سکتی۔ یہ بات قرین قیاس ہے کہ ہٹلرکا ضمیر اس کو تب کچوکے لگاتا ہوگا جب اسکے گیس چیمبروں، میدان جنگ اور دیگر عقوبت خانوں میں انسانوں کی خاصی تعداد(ہزاروں میں) لقمہ اجل نہیں بن پاتی ہوگی۔ دوسری عالمی جنگ میں وسیع قتل و عام کے بعد بھی امریکی حکمرانوں کی تشفی نہیں ہوئی تھی تو ان کو اپنے ضمیر کی وحشت مٹانے کے لئے ہار تسلیم کرکے جنگ سے باہر ہوجانے والے جاپان پر پے درپے ایٹم بم برسانے پڑے جس سے لاکھوں بے گناہ انسان لمحوں میں راکھ کا ڈھیر بن گئے۔ آج بھی ویت نام کے بچوں، خواتین اورغیر مسلح عوام کے وحشت ناک قتل عام، گوری رجمنٹوں کے ہاتھوں اجتماعی آبروریزی کے واقعات پر کسی امریکی حکمران اور ذمہ دار کے ’’ضمیر‘‘ پر کسی قسم کا بوجھ نہیں ہے، بلکہ ڈاکومنٹری اور ہالی ووڈز میں تیار کی گئی پراپگنڈہ فلموں کے ذریعے ہلاکو اورچنگیز خان سے کئی سو گنا وحشت اور بربریت کے واقعات کو بہادری کے کارناموں کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے۔

کسی جانور کی جان بچانے کے لئے ’’ترقی یافتہ‘‘ ریاستوں کی پوری مشینری کے متحرک ہوجانے والے سماجوں میں مشینوں کے سامنے کھڑے کروڑوں انسانوں (بولتی ہوئی مشینیں) کی ہر لمحہ برباد ہوتی ہوئی زندگیوں، دکھوں، نہ ختم ہونے والے افلاس اور نسل درنسل غلامی کے تسلسل کے سنگین مسائل انہی سماجوں کے دانشوروں اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کے احساسات اور جذبات کو نہ تو جھنجھوڑتے ہیں اور نہ ہی ضمیر کی چبھن کا باعث بنتے ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ کیوں کہ ضمیر کے سوفٹ وئیر کے مطابق ’’سب لوگ برابر کی سہولیات اور زندگی کی رعنائیوں کے حق دار نہیں ہوسکتے‘‘ اوریہ حق صرف حکمران اور طبقہ امرا کو حاصل ہے۔ وہ جن کا ضمیرتیسری دنیامیں کسی عورت کے چہرے پر تیزاب سے جھلس جانے پر انکے دل کو دہلا کر رکھ دیتا ہے، ان کے کان، آنکھیں اور دیگر حسیات ابوغریب جیل، گوانتا نامو بے کے عقوبت کدوں، افغانستان اوردنیا بھر میں امریکی اڈوں پر قائم تشدد گاہوں میں انسانیت سوز سلوک کے سزاوار انسانوں کے درد کو محسوس کرنے سے انکار کردیتی ہیں۔ یہاں’’ ضمیرصاحب ‘‘ کے پاس ایک ’’اینٹی تھیسز‘‘یقیناًاس بہیمانہ رویہ کو راستہ فراہم کرنے کے لئے موجود ہوگا۔ مغرب کے ’’سچ‘‘ اور ’’راست گوئی‘‘ پر استوار کئے گئے معاشروں کے پالیسی سازوں کو عراق پر حملے کے تمام جواز غلط ثابت ہونے پر کسی قسم کی پشیمانی نہیں ہے ‘حالانکہ جوازگھڑنے اور اس کے باطل ہونے کے درمیان کئی لاکھ بے گناہ قتل ہوچکے ہیں۔ افغانستان میں سمارٹ نیوکلئیربموں، کلسٹر، کیمیائی بموں کا وحشیانہ استعمال کرنے والا ’’ استعمار‘‘ دنیا بھر میں ’’ غیر ذمہ دار‘‘ ممالک ڈھونڈتا پھر رہا ہے تاکہ ان کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے روکا جاسکے اور دنیا کو ’’تباہی ‘‘سے بچایاجاسکے۔ عالمی ’’ضمیرکی آوازیں‘‘ اسرائیل کی تباہ کن ایٹمی صلاحیت اورایران کی بچگانہ بڑھک بازی پر متضاد رد عمل کا اظہار کرتی پائی جاتی ہیں، حالانکہ تمام سنجیدہ حلقوں کو علم ہے کہ ایران‘ خارجی تضادات، جنگوں، جھڑپوں جیسے حربوں کے ذریعے شدید قسم کے داخلی مسائل کو دبانے کی پالیسی پر روزاول سے ہی عمل پیرا ہے، امریکی سامراج اور اسکے مغربی حلیفوں کے ایٹمی اور ہلاکت خیز اسلحے کے سامنے پاکستان، ایران جیسے ممالک کے ایٹمی پروگروموں کی حیثیت ربڑ کے کھلونوں جیسی ہے۔
جس ضمیر نے ماضی میں اسرائیل کے وزیرِ اعظم اور ماضی قریب میں امریکی صدر کو ’’امن کا نوبل انعام‘‘ دیا اور دلوایاہے اس کو داد دینابھی لازم ہے۔ امن قائم کرنے کے لئے لاکھوں بے گناہوں کا قتل کرانے کی پالیسی کے سامنے ’’نوبل امن پرائیز‘‘ کو تو گھٹنوں کے بل ہوکر پیش کرنا چاہئے تھا، اب یہاں پر آکر حضرت’’ضمیرصاحب‘‘ کی تعریف وتشریح میں کوئی کمی نہیں رہ جاتی۔ اب دنیا بھر کے ’’لائق اوردیانت داردانشوروں‘‘ کی ٹیم کو اور ’’عالمی ضمیر‘‘ کو کبھی بھی یہ خیال آسکتا ہے کہ ناگاساکی اورہیروشیما پر ایٹم بم برسانے کا حکم جاری کرنے والے، حکم کی تعمیل کرنے والے پائلٹوں سے پہلے ایٹم بم کے خالق کو پورے میلینیم کا نوبل امن ایوارڈ دے دیا جائے تاکہ حقداروں کی حق تلفی کا بوجھ عالمی دانش، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں، دنیا بھر کی سول سوسائیٹیوں اور عالمی ضمیر کو کچوکے لگاتا نہ رہ جائے۔
ضمیر کی خلش، ضمیر کی آوازاوربے ضمیری جیسی اصطلاحوں کے پیچھے چھپے ہوئے نظریات، مقاصداور سیاق وسباق کی وضاحت کئے بغیرہی ان سے مطلوبہ نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں ورنہ معاشرے میں انارکی کا خطرہ پیدا ہوجاتا ہے، ان اصطلاحوں کا آزادانہ استعمال کرنے والے ’’ذہن ساز‘‘ دانش وروں کو عوام الناس کی معصومیت اور اپنی ہوشیاری کا ادراک تازہ دم کرنے کا کام دیتا ہے۔ اکثریت کو کنگال اور دنیا بھر کی ایک معمولی اقلیت کو مالا مال کرنے والی معیشت کے کوڑے کی ضربیں لگانے سے پہلے درد کم کرنے کی غرض سے دنیا بھر کے لوگوں کو ’’اعلی اخلاقیات ‘‘کے اصولوں کی پٹیاں باندھ دی جاتی ہیں یہ پٹیاں دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور تھنک ٹینکوں میں مناسب اجرتوں پر کام کرنے والے ماہرین تیار کرتے ہیں۔ ہر استحصال اور لوٹ مارکا شکار ہونے والے کے لئے ’’مہذب ‘‘ہونا ضروری ہے تاکہ وہ حکمرانوں کے طے کردہ اصولِ شہریت، تہذیب وتمدن، دینیات، پاک بازی، احترامِ قانون اور ’’عالمی قواعد وضوابط‘‘ کے خلاف واویلا نہ مچاسکے۔ حکمران وقت کی تابعداری اور اطاعت کی ضرورت کو یقینی بنانے کے لئے دینیات کی ’’اعلی تعلیمات‘‘ کو نصاب کا حصہ بنانے پراکسویں صدی کا جدید شعورحائل نہیں ہوتا۔ سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی، فلکیات کی جدید معلومات او ر نئی دریافتوں کے باوجود جنیاتی علوم کو مسخ کرکے استحصال، نسلی امتیاز، قومی برتری اور اونچ نیچ کے جائز ہونے کے فلسفے کو پھیلاتے ہوئے ’’ضمیریاتی ٹیکنالوجی‘‘  کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ موجودہ ’’عالمی ترقی‘‘ جس میں دنیا کی دو تہائی سے زیادہ آبادی‘ غربت کی لکیر کے متوازی آچکی ہے ‘ میں ایک نئی سہولت معرض وجود میں آچکی ہے‘ یہ ہے ’’ضمیر کی پرائیویٹایزیشن‘‘  کی پالیسی۔ کسی خبر رساں ایجنسی کے ذریعے اس خبر کو اس طرح جاری کیا جاسکتا ہے کہ ’’ضمیر کی پرائیویٹایزیشن‘‘ پالیسی نے ماضی میں غیر ضروری ’’کچوکے‘‘ لگانے کے عمل کی روک تھام میں موثر کردار ادا کرکے ’’عالمی ضمیر‘‘ کی ترقی کی راہ میں تمام رکاوٹوں کو عبور کرلیا ہے۔ حتمی سچ، حتمی اخلاقیات کی طرح حتمی ضمیر کے نظریے کو صرف رسمی منطق ہی پذیری بخش سکتی ہے کیوں کہ یہ حتمی جمود کے قانون کی پیروکارہے جبکہ بہتے سماجوں اور ناکام ہوکر ٹوٹتے نظریات اور انقلابات کی جستوں میں کچھ بھی حتمی اور ابدی نہیں نظر آتا۔ جیسے لیون ٹراٹسکی کہتا ہے کہ ’’نظریے کی کسی بھی قسم سے زیادہ اخلاقیات کا کردار زیادہ طبقاتی ہے‘‘، اسی طرح رائج الوقت منڈی کی معیشت کی سپورٹ میں طے شدہ اصولوں کی اس وقت موت واقع ہوجائے گی جب اس بکھرتے اور زوال کی کھائیوں میں گرتے نظام کو فیصلہ کن شکست ہوکر ملکیت کے رشتے بدل جائیں گے۔ ذاتی ملکیت اور اشتراکیت کی اخلاقیات کا موازنہ موت اور زندگی کے تضادسے کم کسی طور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب ’’ میری اور تیری‘‘ کی جگہ’’ ہماری‘‘  کا لفظ حاوی ہوجائے گا تو پھر سرمایہ دارانہ نظام کی ساری اصطلاحوں کا ٹھکانہ بس تاریخ کا کوڑا دان ہی بنے گا۔