کس لئے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟
تحریر:جاوید ملک:-
اٹھارہ کروڑپچاس لاکھ چھ ہزار پانچ سو پندرہ نفوس پر مشتمل دنیا کی چھٹی بڑی آبادی رکھنے والے ملک پاکستان میں بڑھتی ہوئی گرانی اور بیروزگاری پر عالمی ادارہ صحت نے شدید تشویش کا اظہارکیا ہے۔ادارے کے مطابق پاکستان کے اندر اس وقت نو کروڑ سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر چکے ہیں۔ اور 2011 میں ناکام ریاستوں کی فہرست میں روانڈا ایتھوپیا برونڈی اور برما جیسی ریاستوں کو بھی پاکستان سے بہتر قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے عوام کا ریاستی اداروں سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے اور سرمایہ کاری تیزی سے ملک سے باہر کا رخ کر رہی ہے۔ اس ضمن میں جاری کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سرکاری طور پر پاکستان کے اندر 54 فیصد افراد کو مطلوبہ مقدار میں غذا میسر نہیں ہے جبکہ حقیقی معنو ں میں 78 فیصد لوگ کا شکار ہوچکے ہیں جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ صدی کے آخر میں پاکستان کا ہر فرد 10.73 کلوگرام آٹا استعمال کرتا تھا جبکہ اب ہر پاکستانی اوسطاً 7.98 کلو گرام آٹا استعمال کر رہا ہے پہلے ہر پاکستانی پانچ کلو31 گرام سبزیاں ہر ماہ استعمال کرتا تھا جبکہ اب محض وہ 3.82 کلوگرام سبزیا ں استعمال کر رہا ہے اسی طرح چاول گھی گوشت چینی پھل اور دیگر خردو نوش کی اشیاء بھی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہو رہی ہیں جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے خاندان جو پہلے صبح کے وقت ناشتہ اور دووقت کھانا کھاتے تھے ان میں سے 82 فیصد خاندانوں نے تین وقت کی غذا کو دو وقت تک اور 24 فیصد لوگ محض ایک وقت کی کم خوراکی پر زندہ ہیں ۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ حکومت نے سرکاری سطح پر ماہانہ اجرت سات ہزار روپے مقرر کر رکھی ہے جبکہ پاکستان کے اندر ایک شخص کوصرف غذا پر نو ہزا ر پچیس روپے خرچ کرنا پڑتے ہیں اٹھتیس ہزار افراد روزانہ غربت کی لکیر سے نیچے گرتے چلے جارہے ہیں۔جبکہ حکومت پاکستان کی اپنی رپورٹ کے مطابق موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے ہر غریب ترین شخص کو اپنے اوپر چار ہزار ایک سو چونتیس روپے خرچ کر نا پڑتے تھے جو اب بڑھ کر اٹھانوے سو روپے ہو چکے ہیں اسی طرح متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد موجودہ حکومت کے مسند اقتدار سنبھالنے سے پہلے اپنی خوراک پر سات ہزا رروپے خرچ کر رہے تھے جو اب بڑھ کر بارہ ہزار روپے ہوگئے ہیں یہ ایک غریب کی پوری آمدنی سے قریباً دوگنا ہے یو این او کے شعبہ خوراک کے مطابق تیزی سے بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے صرف چھبیس فیصد خاندان مہینے میں ایک بار مرغی کا گوشت یا مچھلی وغیرہ کی عیاشی برداشت کرتے ہیں جبکہ ایک ایسا ملک جہاں ہر ہزار میں سے ایک سو پینتیس بچے طبی سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہوں وہاں علاج اور تعلیم ایک اعلیٰ عیاشی کے زمرے میں چلی گئی ہے ۔گزشتہ سال پاکستان کے اندر پرائیوٹ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں نے افغانستان کل سمگل کردہ ہیروئین سے نصف سے زیادہ کمایا گویا یہ دونوں شعبے اس وقت لوگوں کو علاج اور تعلیم فراہم کرنے کی بجائے غریب طبقات میں جہالت اور بیماریاں بانٹ رہے ہیں جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ پاکستان میں اسی فیصد لوگ مستند ڈاکٹر ز سے علاج کرانے کی سکت ہی نہیں رکھتے لہذا آبادی کی یہ بڑی اکثریت عطائی ڈاکٹروں یا پھر حکیموں اور پیروں فقیروں کے ڈیروں کا رخ کرتی ہے جو انہیں عمر سے پہلے ہی موت کے سفر پر روانہ کر دیتے ہیں۔یو این او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہورہا ہے جہاں پر امیر ممالک جن میں سعودی عرب متحدہ عرب امارات قطر اور دیگر شامل ہیں وہ اپنے اثرو رسوخ کی بنا پر تیزی سے بڑے پیمانے پر پاکستان میں زرعی اراضی خرید رہے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں اب تک 1200.662 ایکڑ اراضی کی خریداری کی جاچکی ہے یا پھر عرب اور دوسرے سرمایہ دار ممالک ان زمینوں کو لیز پر حاصل کر چکے ہیں حکومت بلوچستان کے علاقہ میں چالیس میلین ڈالر کے عوض چالیس ہزار ایکڑ اراضی حاصل کرنے کے سودے مکمل ہوچکے ہیں او ر یو اے ای اسی سال پاکستان میں ایک ملین ایکڑ زمین حاصل کرے گا ۔فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان ممالک میں پاکستان سمیت دیگر زرعی ممالک میں زمینیں خریدنے کی دور لگی ہوئی ہے ان ممالک کی حکومتوں نے” میپ سروسز گروپ” الربی ” اور القدر سمیت دیگر ناموں سے کمپنیاں قائم کر رکھی ہیں جبکہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہاتوں میں آباد ہے اور آبادی کے بڑھتے ہوئے بوجھ کے ساتھ ساتھ ایشیائے خوردونوشت کی قیمتوں میں اضافے نے چوراسی فیصد پاکستانیوں کو ناصرف مالی مشکلات سے دو چار کر رکھا ہے بلکہ معاشی مشکلات کی وجہ سے اسی فیصد سے زائد لوگ مختلف ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند سال میں کھانے پینے کی چیزوں کی قیمتوں میں بے پنا ہ اضافے کے پیش نظر عرب اور دوسرے ممالک نے زراعت کے شعبے میں سرمایہ داری کا سلسلہ شروع کیا ہے یہ ممالک پاکستان میں جدید طریقوں سے پیداوار کریں گے۔جس سے ناصرف آبادی کا ایک بڑا حصہ بیروزگار ہوجائے گا بلکہ پاکستان کا ضلعی سیکٹر بھی بڑی حد تک ان غیر ملکی سرمایہ داروں کے کنٹرول میں چلا جائے گا۔رپورٹ کے مطابق جو زمینیں پاکستانی حکمرانوں اور جاگیر داروں نے غیر ملکیوں کو نرنوے سالہ لیز یا مالکانہ حقوق پر دی ہیں ان سرمایہ کاروں نے ان کی حفاظت کے لیے دو ارب ڈالر خرچ کرکے اپنے حفاظتی دستے قائم کیے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ جو ممالک پاکستان میں زرعی اور لاؤ سٹاک کے فارمز قائم کر رہے ہیں ان کی پیداوار ان ممالک کے عوام کے لیے نہیں بلکہ عالمی منڈی کے لیے ہوگی۔
دنیا بھر میں مالدار ممالک اورملٹی نیشنل کمپنیاں جس تیزی سے زرعی زمینیں خرید رہی ہیں اس سے نظر آتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں وہ اپنے سرمائے اور اثرورسوخ کی بنا پر پاکستان سمیت دیگر غریب اور پسماندہ ممالک کی زرعی زمینوں کے بڑے حصے کے مالک بن جائیں گے۔ان زمینوں کی فروخت کے خلاف بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک میں کسانوں نے تحریکیں شروع کر دی ہیں تاہم پاکستان کے اندر یہ حقائق بہت کم لوگوں کو معلوم ہیں کہ ان کی زرعی زمینوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ریولیشنری ڈیموگریسی کے مطابق ضرورت اس امر کی ہے کہ کسان مزدور طلباء اور نوجوان مل کر ان اجارہ داریوں کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک شروع کریں ورنہ دوسری صورت میں پاکستان اور دنیا بھر کے سرمایہ داروں کی ملی بھگت پاکستان کے کسانوں اور غریبوں کی آئندہ نسلوں کو معاشی سماجی طور پر تباہ کر دیں گی ۔تجزیہ نگار ڈاکٹر فرخ سلیم کے” مطابق پاکستان میں معاشی انحطاط پذیری کا آغاز ہوچکا ہے زندہ رہنے کی لاگت بڑھتی چلی جارہی ہے اور زندگی کے امکانات مخدوش ہوتے جارہے ہیں”۔مبصرین کے مطابق پاکستان کے اندر اتنے وسائل موجود ہیں کہ اگر انہیں منافع کی بجائے عوام کے ضروریات کے لیے خرچ کیا جائے تو صرف دس سال کے اندر پاکستان سے ہر طرح کی غربت بیماری بیروزگاری جہالت اور محرومی کا خاتمہ ہوسکتا ہے اور انسان حقیقی معنوں میں زندگی کی رعنائیت آزادی حاصل کرکے ایک ایسے تخلیقی سفر پر روانہ ہوسکتا ہے۔جس کامحنت کش طبقہ خواب بھی نہیں دیکھ رہامگر یہ ناصرف ممکن ہے بلکہ آنے والے دنوں میں ہونے جارہا ہے ۔