ایم کیو ایم کی بے چینی

[تحریر: لال خان]
ایم کیو ایم کی قیادت کی جانب سے بے قاعدہ وقفوں کے بعد باقاعدگی سے داغے جانے والے اشتعال انگیز اور متنازعہ بیانات پاکستانی سیاست کی تنزلی کی واضح علامت بن چکے ہیں۔ موجودہ وقت کی سیاست بنیادی طور پر اس معاشی بحران کی عکاسی کررہی ہے جس نے سماجی ارتقا کو جام کرکے بدبودار اور تعفن آمیز کر دیا ہے۔ ’’حفاظت‘‘ کے پیش نظر لندن میں مقیم الطاف حسین کا حالیہ عجیب و غریب اور ہیجان انگیز بیان دراصل ایم کیو ایم کی گرتی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنے کی ’’شاک تھراپی‘‘ کا حصہ ہے۔ دہشت گردی، طالبان اور ملک کی حالیہ صورتحال پراظہار خیال کرتے ہوئے الطاف حسین نے منگل کے روز کہا ہے کہ ’’ہمیں جمہوریت سے زیادہ پاکستان عزیز ہے اور ہم جمہوریت کے نام پر اپنے ملک کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے ہیں۔ ۔ ۔ اگر ملک سلامت رہا تو جمہوریت بھی پھل پھول سکتی ہے۔ اگر جمہوری حکومت دہشت گردی کے معاملے میں فوج سے تعاون نہیں کرتی تو فوج کو چاہئے کہ اپنی مرضی سے قدم اٹھائے۔ ‘‘
سرمائے کی اس سیاست میں مفادات بدلتے ہیں تو وفاداریاں بھی بدل جاتی ہیں۔ فوج اور ایم کیو ایم کے درمیان تعلقات کی نوعیت پچھلی دو دہائیوں کے دوران مسلسل بدلتی رہی ہے۔ یہ ’’لو- ہیٹ‘‘قسم کا رشتہ ہے۔ ایم کیو ایم کی قیادت کے فوج اور ریاست سے متعلق بیانات کبھی تو اتنے سخت ہوتے ہیں کہ غداری کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن پھر بوقت ضرورت دوستی اور محبت کے عہد بھی آتے ہیں اور الطاف بھائی فوج کی خوشامد میں آخری حد تک چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح ریاست جہاں بوقت ضرورت ایم کیو ایم کا ’’تعاون‘‘ حاصل کرتی ہے وہاں زیادہ من مانی پر لگام بھی کھینچ دیتی ہے۔
کراچی، حیدرآباد اور سندھ کے کچھ دوسرے شہری علاقوں میں آباد مہاجروں کی نمائندہ جماعت کے طور پر ایم کیو ایم کا ابھار ایک رجعتی عہد کا نتیجہ تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا تاریک ترین زمانہ تھا جب ضیا الحق کی قیادت میں رد انقلاب محنت کش عوام اور نظریاتی سیاست کو کچل رہا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور بایاں بازو ریاستی جبر کا خاص ہدف تھے۔ اس عہد میں سماج پر ریاست کی جانب سے ٹھونسی جانے والی مذہبی رجعت نے نہ صرف ترقی پسند رجحانات کو نشانہ بنا کر طبقاتی کشمکش کو ماند کیا بلکہ محنت کش طبقے، خاص کر عوام کی پسماندہ پرتوں میں فرقہ وارانہ، لسانی اور نسلی تعصبات نے جنم لیا۔ تحریک کی ایک طویل پسپائی کی کیفیت میں حکمران طبقے کے تعصبات کا علمبردار درمیانہ طبقہ بن جاتا ہے۔ محنت کش طبقہ جب سیاسی طور پر متحرک نہ ہو ہو تو معاشرے پر مڈل کلاس اور شعوری طور پر پچھڑی ہوئی پرتوں کی رجعتی سوچ حاوی ہوجاتی ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر کراچی میں لسانی بنیادوں پر ایم کیو ایم کے ابھار نے محنت کش طبقے کی جڑت کو توڑ کر ضیا الحق آمریت کے ہاتھ اور بھی مضبوط کئے۔ آل پاکستان مہاجر سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (APMSO) کو اولین سیاسی بنیادیں نظریاتی طور پر دو حریف طلبہ تنظیموں، اسلامی جمعیت طلبہ (IJT) اورنیشنل سٹوڈنٹ فیڈریشن (NSF)، کا پس منظر رکھنے والے درمیانے طبقے کے طلبہ اور نوجوان سیاسی کارکنوں نے فراہم کی تھیں۔ یہ ایک انوکھا آمیزہ تھا۔ 1972ء کے بعد سے کراچی میں طبقاتی بنیادوں پر ہونے والی سیاست کے زوال سے پیدا ہونے والے خلا کو لسانیت نے پر کیا۔ ’’مہاجروں‘‘ کے اس سماج میں سموئے نہ جاسکنے کی وجہ سے ان کی بیگانگی، بے یقینی اور عدم تحفظ کے احساس کو استعمال کرتے ہوئے ایم کیو ایم پروان چڑھی۔
ایم کیو ایم کا یہ دعویٰ بالکل درست ہے کہ یہ مڈل کلاس کی سیاسی جماعت ہے۔ مڈل کلاس سماجی طورانتہائی متضاد کردار کی حامل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بالکل بے صبر ہوتی ہے۔ یہ طبقہ بیک وقت بڑے سرمایہ داروں سے حسد کی بنیاد پر نفرت اور ان جیسا بن جانے کی خواہش کا شکار ہوتا ہے۔ انقلابی عہد میں درمیانے طبقے کے کچھ حصے یا افراد عوامی تحریکوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں تاہم بحیثیت مجموعی مڈل کلاس کا کردار رد انقلابی ہوتا ہے۔ حکمران طبقے کا حصہ بن جانے کا جنون سماجی جمود اور ٹھہراؤ کے وقتوں میں مڈل کلاس کو رجعت اور رد انقلابی قوتوں کا ہراول دستہ بنا دیتا ہے۔ نازی جرمنی سے لے کر موجودہ وقت میں مذہبی بنیاد پرستی تک، فسطائیت یا فاشزم کی سماجی بنیاد ہمیشہ درمیانہ طبقہ ہی ہوتا۔ کارل مارکس اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’لوئس بوناپارٹ کی اٹھارہویں برومئیر‘‘ میں پیٹی بورژوازی یا مڈل کلاس کے طبقاتی کردار کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ’’پیٹی بورژوازی ایک ’عبوری طبقہ‘ ہے جس میں دو متضاد طبقات کے ایک دوسرے سے بیک وقت ٹکرانے والے مفادات ایک دوسرے کو کند کردیتے ہیں۔ لہٰذہ اس طبقے کے افراد خود کو طبقاتی تضادات سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ ‘‘
بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر تقریباً تین دہائیوں تک اقتدار میں رہنے کے باوجود ایم کیو ایم کے علاقوں میں عوام کی حالت زار کے مزید ابتر ہوجانے کی وجہ سے اس کی سماجی بنیادیں اور سیاسی حمایت اندر سے کھوکھلی ہوچکی ہے۔ لسانی تعصب اور نفرت کو ابھار کر سیاست کرنے کی چالبازی اب زیادہ کارگر نہیں رہی ہے۔ ایم کیو ایم نے قوم پرستی، سیکولر ازم اور لبرل ازم کے لبادے میں ہمیشہ سرمایہ دارانہ نظام کا دفاع کیا ہے۔ ’’جمہوری نظام‘‘ میں شامل ایک جماعت کی جانب سے ’’دہشت گردی‘‘ کو جواز بنا کر فوج کو اقتدار پر قبضہ کی دعوت جمہوریت اور آمریت کے جعلی تضاد کا پول بھی کھول رہی ہے۔ اس ملک کی سیاست، ریاست اور معیشت میں فوج کا کردار ہمیشہ فیصلہ کن رہا ہے۔ لوٹ مار اور استحصال کے معاملے میں ہمیشہ ریاستی اداروں کا محتاج رہنے والا پاکستان کا کرپٹ حکمران طبقہ اور اس کے سیاسی نمائندہ کبھی بھی ریاست کے سب سے طاقتور ادارے سے ٹکر مول نہیں لے سکتے۔
ایم کیو ایم کے سیاسی پراپیگنڈا کا بنیادی نقطہ جاگیر داری کا خاتمہ ہے حالانکہ جاگیر داری اپنی کلاسیکی یورپی شکل میں کبھی بھی اس خطے میں رائج نہیں رہی ہے۔ آج جاگیر داری کی صرف باقیات موجود ہیں۔ پاکستان میں رائج اور حاوی معاشی و سماجی نظام سرمایہ داری ہے جس کا بڑا حصہ مافیائی اور کالی معیشت پر مبنی ہے۔ ایم کیو ایم سمیت سیاسی افق پر موجود تمام بڑی سیاسی جماعتیں (کالے یا سفید)سرمائے پر منحصر ہیں۔ لہٰذہ سابق بائیں بازو سے لے کر ایم کیو ایم تک، جاگیر داری کے خلاف بیان بازی یا تو نظریاتی دیوالیہ پن کی علامت ہے یا پھر دانستہ سیاسی سٹنٹ ہے۔
فی الوقت ایم کیو ایم اپنی گرتی ہوئی ساکھ کر برقرار رکھنے کے لئے ہر حربہ استعمال کررہی ہے تاہم اسکا اندرونی انتشار اور ٹوٹ پھوٹ ماضی کی نسبت کہیں زیادہ شدید ہے۔ علاوہ ازیں کراچی کی سیاست اور ’’معیشت‘‘ میں ’’طالبان‘‘ کی شکل میں نئے حصہ داروں کی شمولیت نے ایم کیو ایم قیادت کی بے چینی اور تذبذب میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ فوجی آپریشن کے حق میں نکالی جانے والی ریلیاں اور فوجی کی حمایت میں دئیے جانے والے بیانات اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ تاہم کراچی کے معاملات کو ’’کنٹرول‘‘ میں رکھنے کے لئے فوج ایک زوال پزیر قوت پر انحصار نہیں کرے گی۔ ماضی میں ایم کیو ایم کی خدمات حاصل کرنے والے سرمایہ داربھی اب کسی متبادل سیاسی’’ قوت‘‘ کی تلاش میں ہیں اورایسے کئی متبادل موجود بھی ہیں۔
کراچی، حیدر آباد اور سندھ کے دوسرے شہروں میں ایم کیو ایم کی حمایت قائم رہنے کے امکانات نہایت مخدوش ہیں۔ بڑھتا ہوا معاشی و سماجی بحران سیاسی انتشار میں بھی اضافہ کررہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی آپسی چپقلش اور عدم اعتماد کے ساتھ ساتھ داخلی ٹوٹ پھوٹ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ فوج سمیت ریاست کے ہر ادارے میں اندرونی تضادات موجود ہیں۔ سیاسی اور ریاستی ڈھانچوں کا خلفشار سماجی بربادی میں مزید اضافہ کرے گا۔ متروک سرمایہ دارانہ نظام وہ بیماری ہے جس کی اذیت پورے سماج کر اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ مسلسل عدم استحکام، جرائم، کرپشن، بھتہ خوری اور دہشت گردی میں اضافہ ہی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ یہ نظام اپنی جائزاور قانونی بنیادوں پر مزید چلنے سے قاصر ہے۔ بربادی، محرومی، مہنگائی، بے روزگاری اور قتل و غارت گری کا یہ معمول ہمیشہ قائم نہیں رہ سکتا۔ محنت کش عوام کے دل و دماغ میں پکنے والا غم و غصہ جب انقلاب کی شکل میں پھٹے گا تو اس استحصالی نظام پرچڑھے منافقانہ سیاست اور جمہوریت کے لبادے کو تار تار کردے گا۔

متعلقہ:
شناخت کا ابہام
کراچی: شہرِ بے اماں۔۔۔
ایم کیو ایم: دولت کی سیاست کا تشدد