’’تحریکوں‘‘ تلے دبی تحریکیں

[تحریر: لال خان]
عجب بے معنی شور نے پہلے سے معاشی اور سماجی عذابوں میں گھرے عوام کے کان شل کر دئیے ہیں۔ ان جعلی تحریکوں کو بھلا کارپوریٹ میڈیا کے زور پر کب تک زندہ رکھا جاسکتا ہے؟ قادری تو فی الوقت ایک طرف ہو گیا ہے لیکن عمران خان اپنی ’’حدود‘‘ سے آگے بڑھ سکتا ہے نہ ہی واپسی اتنی آسان ہے۔ بھاری سرمایہ کاری سے تیار کردہ یہ سیاسی بلبلہ وقت سے پہلے پھٹ جانے کے خطرات سے دوچار ہے۔ مذاکرات ابھی شروع نہیں ہوتے کہ تصادم ہوجاتا ہے جس کے بعد پھر مذاکرات کی بات ہونے لگتی ہے۔ ریاست کا داخلی بحران جتنا پیچیدہ ہے، حکمران طبقے کی سیاست اتنی ہی لاحاصل۔ لوگوں نے اس بے وجہ کی سنسنی سے تنگ آکر خبریں اور ٹاک شو دیکھنا ہی چھوڑ دئیے ہیں۔ متن سے خالی اور بڑھکوں سے لبریز لمبی چوڑی تقاریر اور پریس کانفرنسیں سننے کے بعد انسان سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’موصوف کہنا کیا چاہتے تھے؟‘‘ سلگتے مسائل اور حقیقی ایشوز کا تذکرہ شاید ہی کبھی ہوتا ہو۔ مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی کتنی ہی تحریکیں ایسی ہیں جنہیں یہ کارپوریٹ میڈیا مجرمانہ خاموشی میں دفن کر دیتا ہے۔

گلگت بلتستان میں لاکھوں لوگوں کے مظاہرے اور کئی عام ہڑتالیں ہوئیں لیکن میڈیا نے بلیک آئوٹ کئے رکھا

پچھلے کچھ سالوں کے دوران محنت کش طبقات نے ملک کے طول و ارض میں کئی تحریکیں برپا کی ہیں۔ گلگت بلتستان میں گندم کی سبسڈی کے خاتمے کے خلاف لاکھوں افراد کے مظاہرے ہوئے۔ نوجوان ڈاکٹرز، نرسز اور لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تنخواہوں میں اضافے، مستقل روزگار اور دوسرے مطالبات کے لئے جرات مندانہ لڑائی لڑی، نجی اور سرکاری اداروں میں درجنوں بڑی ہڑتالیں ہوئیں، OGDCL کے محنت کشوں نے نجکاری کے خلاف کامیاب بغاوت کی، شمالی وزیرستان کے ہزاروں پناہ گزین خوراک کی قلت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے، کسانوں نے گنے کی قیمتوں میں اضافے کے لئے شوگر مل مافیا کے خلاف شاندر جدوجہد کی۔ لیکن محنت کشوں کی ان تحریکوں پر کارپوریٹ میڈیا مسلسل نظر انداز کرتا رہا۔ ’’لانگ مارچ‘‘، دھرنوں اور ’’انقلابات‘‘ کو ابھی تک ریاست کے پکے ہاتھ نہیں لگے، انہیں خبر ہی نہیں کہ ریاست کی بربریت ہوتی کیا ہے۔ ریاست اپنی اصل وحشت کے وار جب اسلام آباد میں محنت کشوں پر کر رہی تھی تو یہ دھرنے تماشائی بنے بیٹھے تھے۔ لاہوراور پنجاب کے دوسرے شہروں میں جو وحشیانہ لاٹھی چارج نرسوں پر ہوا وہ ان ’’انقلابیوں‘‘ پر ہوتا تو انہیں لگ پتا جاتا۔ لاہور میں تین دسمبر کو معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر نوکریوں میں کوٹے کے لئے مظاہرہ کرنے والے نابینا افراد نے جب ’’خادم اعلیٰ‘‘ کی سرکاری رہائش گاہ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو لاہور پولیس کے ’’جوان‘‘ ڈنڈوں کے ساتھ ان پر ٹوٹ پڑے۔ یہی سرمایہ دارانہ ریاست کی حقیقت ہے، مسلح افراد کے جتھے جن کا حتمی مقصد اکثریت پر اقلیتی حکمران طبقے کا سیاسی، سماجی اور معاشی اقتدار مسلط رکھنا ہے۔
خیبر پختونخواہ میں جماعت اسلامی کے ہمراہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے میں مصروف تحریک انصاف کی صوبائی حکومت پولیس کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے دعوے تو بہت کرتی ہے لیکن 6دسمبر کی صبح ڈیرہ اسماعیل میں ٹانک اڈا کے غریبوں کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی جب ضلع کونسل نے جماعت اسلامی کے قبضہ گروہوں کی ایما پر ’’ریاستی رٹ‘‘ قائم کرنے کے لئے دہشت گردوں اور طالبان کی بجائے غریب ریڑھی بانوں کے خلاف آپریشن شروع کردیا۔ جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے وزیر بلدیات عنایت اللہ اور وزیر مال علی خان کی آشیر باد سے انتظامی افسران اور پولیس اہلکار عمارات گرانے والے ایکسی ویٹرز، ٹریکٹر ٹرالیوں، بندوقوں اور لاٹھیوں سے لیس ہو کر ریڑھی بانوں پر ٹوٹ پڑے۔ ’’ناجائز تجاوزات‘‘ کے خلاف آپریشن کروانے والے یہ حضرات اس 84 کنال اراضی کو خود ہتھیانا چاہتے ہیں جو بلدیہ نے وزیرستان کے پناہ گزینوں کو 2015ء تک لیز پر دے رکھی ہے اور کرایہ بھی وصول کیا جاچکا ہے۔ یہ جگہ کسی بھی قانون کے تحت ناجائز تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی۔ اس کے برعکس ضلع کونسل اور تحصیل کونسل کی کھربوں روپے کی اراضی پر سرکاری مُلّا،تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے چہیتے اور ارب پتی سرمایہ دار غیر قانونی طور پرقابض ہیں مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔
آپریشن کا آغاز چھوٹی دکانوں اور ریڑھی بانوں کے سامان کو بلدیہ کی گاڑیوں میں ڈالنے سے کیا گیا۔ سرکاری اہلکاروں اور ڈی سی او نے لیز کے کاغذات اور 2015ء تک جمع کرائے گئے کرائے کی رسیدیں دیکھنے سے انکار کردیا اور دوکانوں کو مسمار کرنے کا حکم دیا۔ چھوٹے دوکانداروں نے جب اپنی اور اپنے بچوں کی روزی کو یوں لٹتے دیکھا تو خود کو دوکانوں کے اندر محصور کرلیا اور کہا کہ وہ ان دکانوں کے ملبے میں دفن ہو کر مرنا پسند کریں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے جس پر مسلح پولیس نے تشدد کا بازار گرم کردیا۔
اس ریاستی وحشت کی اطلاع جب محنت کش رہنما علی وزیر تک پہنچی تو فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ گئے اور ڈی سی او سے آپریشن معطل کرنے کو کہاجس پر تلخ کلامی اور تصادم شروع ہو گیا۔ یاد رہے کہ علی نے 2013ء کے انتخابات میں NA-42 وانا سے آزاد امیدوار کی حیثیت سے ’’امن، تعلیم، روزگار‘‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا لیکن بعد ازاں کچھ ’’فیصلہ کن عناصر‘‘ کی ایما پر انہیں تین سو ووٹوں سے ہرا دیا گیا،عدالت میں چیلنج ہو جانے کے بعد یہ نتیجہ ابھی تک متنازعہ ہے۔
مقامی نوجوانوں اور محنت کشوں کی بڑی تعداد نے صوبائی حکومت کی کھلی ناانصافی اور پولیس گردی کے خلاف احتجاج شروع کردیا اور حالات ضلعی انتظامیہ کے قابو سے باہر ہونے لگے۔ صورتحال کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے مذاکرات کے نام پر علی وزیر اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرلیا گیا جس کے رد عمل میں عوام نے پولیس پر پتھراؤ شروع کردیا۔ گرفتار ہونے والوں کو پہلے تھانے اور بعد ازاں دہشت گردوں کے لئے مخصوص ٹارچرسیل میں منتقل کردیا گیا۔ گومل یونیورسٹی اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ کو جب علی وزیر کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو انہوں نے شہر کی شاہراہوں کو بند کردیا اور احتجاج کا دائرہ وسیع ہونے لگا جس سے خوفزدہ ہو کر ضلعی انتظامیہ نے انہیں ٹارچر سیل سے فوجی چھاؤنی منتقل کردیا اور سنگین جرائم کی ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیاگیا۔ اتوار کی چھٹی اور ناقابل ضمانت دفعات کے باوجود عدالت کے باہر جمع عوام اور وکلاکے جم غفیر کی جانب سے شہر کو مکمل بند کر دینے اور عدالتوں کے بائیکاٹ کی دھمکی کے باعث مجسٹریٹ کو ضمانت منظور کرنا پڑی۔ ضلعی انتظامیہ کو بھی پسپائی اختیار کرنا پڑی جس کے بعد ریڑھی بان اور چھوٹے دوکاندار مسمار ہونے والی املاک کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔ صوبائی حکومت کی سرپرستی میں سرگرم اسلامی بنیاد پرستوں کا لینڈ مافیا فی الوقت اپنے زخم چاٹ رہا ہے مگر یہ غریب دشمن رجعتی عناصر پلٹ کر وار ضرور کریں گے۔
یہ ہے عمران خان کا ’’کرپشن سے پاک نیا خیبر پختونخواہ‘‘۔ پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت ہو یا دوسرے صوبوں میں ’’لبرل‘‘ اور ’’سیکولر‘‘پارٹیوں کا اقتدار، عوام کے مسائل کے ساتھ ساتھ ان کی تذلیل میں اضافہ ہی ہوتا چلا جارہا ہے۔ ارب پتی خواتین و حضرات، جاگیرداروں، سرمایہ داروں، رجعتی ملاؤں اور لینڈ مافیا پر مشتمل ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف حکومت کا رویہ دوسری حکومتوں سے مختلف بھلا کیسے ہوسکتا ہے؟یہ تحریک انصاف کی ہی صوبائی حکومت ہے جس نے روٹی کا مطالبہ کرنے والے IDPs پر 13 نومبر کو گولی چلوائی جس سے دو مظاہرین ہلاک ہوگئے۔

میڈیا اور ریاست کے کچھ حصوں کی مدد سے چلائی جانے والی وکلا اور ’’سول سوسائٹی‘‘ کی جعلی تحریک کے برعکس 18 اکتوبر کو لاکھوں محنت کش اور غریب نوجوان سڑکوں پر امڈ آئے تھے

مقامی اور عالمی سطح پر ایسی بے شمار مثالیں ہیں جب حکمران طبقے اور ریاست نے حقیقی تحریک کو زائل کرنے کے لئے کارپوریٹ میڈیا اور مڈل کلاس کے کچھ حصوں کے ذریعے جعلی تحریکیں پیدا کیں۔ پاکستان میں مارچ 2007ء کی وکلاتحریک کا مقصد اور کردار بھی یہی تھا لیکن یہ مصنوعی تحریک ایک حقیقی تحریک کو روکنے میں ناکام رہی۔ 18 اکتوبر کو بینظیر کی وطن واپسی پر میڈیا کی ’’مرضی و منشا‘‘ کے برخلاف طبقاتی بنیادوں پر ایک حقیقی تحریک ابھری اور لاکھوں افراد سڑکوں پر امڈ آئے۔ یہ الگ بات ہے کہ انقلابی قیادت اور پروگرام میسر نہ آنے پر بینظیر کے قتل کے بعد یہ تحریک زائل ہوگئی۔
ڈیرہ اسماعیل خان کا یہ واقعہ بہت سے اسباق اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ محنت کش عوام اور نوجوان جب طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر استحصالی طبقے سے ٹکراتے ہیں تو ریاست کا ننگا جبر بھی پاش پاش ہوجاتا ہے۔ انقلابی تحریکیں حکمران طبقے کی دانش، صحافت اور ذرائع ابلاغ کے بلبوطے پر نہیں بلکہ ان کو چیر کر ابھرتی اور آگے بڑھتی ہیں۔ لیکن ایک خاص مقداری اور معیاری سطح پر پہنچ جانے کے بعد کارپوریٹ میڈیا بھی ان تحریکوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ مقابلہ بازی کی منڈی میں منافع کمانے کے لئے یہ بھی ضروری ہوجاتا ہے!

متعلقہ:

دولت والوں کی تکرار، عوام بیزار