ہندوستان: فریب جلد ٹوٹے گا!

[تحریر: آدم پال، لال خان]
نریندرا مودی کے وزیراعظم بننے پر نواز شریف کی حلف برداری میں شرکت کے باوجود بری خبریں بی جے پی کی نئی حکومت کا استقبال کر رہی ہیں۔ 3 جون کو دیہی ترقی کے نئے وفاقی وزیر اور ممبئی کے ہندو انتہا پسند راہنما گوپی ناتھ منڈے کی ایک ٹریفک حادثے میں ہلاکت کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کی ریاست میں دو دلت لڑکیوں کے گینگ ریپ کے بعد قتل پر اٹھنے والی تحریک پر انتشار دور کے آغاز کی نشاندہی کر رہی ہے۔ لیکن اسی دوران مودی کی مہنگی ترین انتخابی مہم پر بھاری سرمایہ کاری کرنے والے سرمایہ دار بھی سود سمیت اپنی رقم کی واپسی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں بڑی سے بڑی جمہوریت بھی سرمائے کی غلام ہے اور داخلہ و خارجہ سے لے کر تمام پالیسیاں اور منصوبہ بندی سرمائے کے آقاؤں کے مفادات کے لیے ترتیب دی جاتی ہیں۔ اسی طبقاتی نظام میں حل تلاش کرنے والے پوری دنیا کے لبرل اور سیکولر دانشور اور تجزیہ نگار حالیہ عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی (BJP) کی بڑے پیمانے پر فتح اور دائیں بازو کے پاپولسٹ سیاسی رہنما کے طور پر نریندرا مودی کے ابھار سے حیران و پریشان ہیں۔ یہ حضرات امید لگائے ہوئے تھے کہ شاید انتخابات کے نتائج کارپوریٹ میڈیا کی پیشین گوئی سے مختلف ہوجائیں لیکن BJP نے نہ صرف لوک سبھا میں گزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی اکثریت حاصل کی ہے بلکہ کانگریس کے کئی سینئر رہنماؤں کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔ کانگریس کی شکست میں اگرچہ کرپشن اور مہنگائی جیسے عوامل نے اہم کردار ادا کیا ہے تاہم BJP کی فتح کی وجوہات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں۔
کانگریس کے دس سالہ دور اقتدار کے پہلے سات، آٹھ سالوں میں ہندوستانی معیشت 8 سے 10 فیصد کی شرح نمو سے بڑھتی رہی۔ لیکن عالمی سرمایہ داری کے کریش کے بعد، دوسری نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ کی طرح ہندوستانی معیشت بھی بحران کا شکار ہونے لگی اور شرح نمو 4.4 فیصد تک سکڑ گئی۔ یہ معاشی گراوٹ تاحال جاری ہے۔ ہندوستانی معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران نے براہِ راست درمیانے طبقے کو متاثر کیا ہے، جو اپنے حجم میں امریکہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ 35 کروڑ افراد پر مشتمل بھارتی مڈل کلاس اور پیٹی بورژوازی کی بے چینی اور تذبذب کا اثر آبادی کی نچلی پرتوں کی نفسیات پر بھی مرتب ہوا۔ ہندوستان کی کل ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں سے 81 کروڑ افراد انتہائی غربت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ کانگریس حکومت کی غذائی امداد اور ’’انکم سپورٹ‘‘ کی سکیمیں آبادی کی اس وسیع اکثریت کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں جس کا رد عمل حالیہ انتخابات کے نتائج میں واضح طور پردیکھا جاسکتا ہے۔
کانگریس اور بائیں بازو سمیت نام نہاد ’’سیکولر‘‘ پارٹیوں نے ماضی کے مذہبی فسادات میں مودی کے کردار کے پیش نظر سیکولرازم کا کارڈ استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ووٹ ڈالنے والے عوام کی ترجیحات میں معاشی مسائل سرفہرست تھے۔ پیچیدہ آئنی و قانونی معاملات اور نام نہاد ’’سیکولرازم‘‘ کی بجائے انتخابی مہم کے دوران مودی اور BJP نے بڑی عیاری سے مہنگائی اور کرپشن جیسے مسائل پر سیاست کرتے ہوئے نوکریوں کی فراہمی، غربت کے خاتمے اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے منافقانہ وعدے کئے۔ مودی نے غریب عوام کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے اپنے بچپن کی محرومی اور سیاست کے عاجزانہ آغاز کا بھی خوب چرچا کیا۔ مودی کی شخصیت کے ہر پہلو کی طرح بچپن کی غربت کی ’’گلیمرآئزیشن‘‘ بھی عوام کو دھوکہ دینے کا بیہودہ ہتھکنڈا ہے۔
مودی کی اصل طاقت عوام کے ووٹ کی بجائے سرمایہ دار طبقے اور طاقتور جرائم پیشہ مافیا کی حمایت ہے۔ گزشتہ سال نومبر میں ہی ہندوستان کے سو بڑے سرمایہ داروں میں سے 72نے وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر مودی کو پسندیدہ قرار دیا تھا۔ اسی طرح عالمی سرمایہ داری کی پالیسیاں طے کرنے والی ایک کمپنی گولڈمین ساچز نے واضح طور پر مودی کی حمایت کی تھی۔
حالیہ الیکشن ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن تھا جس میں BJP نے ووٹ خریدنے، جلسے کروانے اور مخالف امیدواروں کو پیسے دے کر دستبردار کروانے کے لئے اپنے سرمایہ دار ’’ڈونرز‘‘ کا پیسہ پانی کی طرح بہایا۔ BJP کے انتخابی اخراجات تمام پارٹیوں سے زیادہ تھے اور الیکٹرانک میڈیا پر ریکارڈ ائیر ٹائم کے ساتھ ساتھ اخبارات میں پارٹی کے اشتہاروں کی بھرمار تھی۔ خود سرمایہ دار ہونے کے ناطے میڈیا مالکان نے ایک کرشماتی رہنما کے طور پر مودی کا تشخص ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
منتخب ہونے والی لوک سبھا میں کروڑ پتی اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ روزنامہ ’’دی ہندو‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات میں کامیاب ہونے والے ’’ایک تہائی سیاستدانوں پر جرائم کے الزامات یا مقدمے ہیں۔ ۔ ۔ سولہویں لوک سبھا میں جرائم کے مقدمات کا سامنا کرنے والے سیاستدانوں کی تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ 2004ء میں 24 اور 2009ء میں 30 فیصد کے برعکس اب کی بار 34 فیصد ممبران پر مقدمات قائم ہیں۔ مجموعی طور پر جرائم پیشہ افراد کے انتخابات میں جیتنے کے امکانات صاف ماضی رکھنے والوں کی نسبت دوگنا ہیں۔ اسی طرح لوک سبھا کے 82 فیصد ممبران کے اثاثے ایک کروڑ سے زیادہ ہیں۔ 2004ء میں یہ شرح 30فیصد، جبکہ 2009ء میں 58 فیصد تھی۔‘‘ رپورٹ میں دئیے گئے اعداد و شمار ’’ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘‘ نامی ادارے کی جانب سے شائع کئے گئے ہیں۔
ہندو شاونسٹ اور بنیاد پرست سیاسی جماعت کی انتخابی فتح میں سب سے اہم کردار مجموعی طور پر نیم رجعتی معروض اور معاشی جبر و استحصال سے نجات کا راستہ دکھانے والی موضوعی سیاسی قوت کی عدم موجودگی نے ادا کیا ہے۔ سونیا گاندھی کے کٹھ پتلی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے دور حکومت میں ان نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو جاری رکھا جن کا آغاز انہوں نے خود 1991ء میں بطور وزیر خزانہ کیا تھا۔ 1947ء کے بعد اپنائے گئے ریاستی سرمایہ داری اور کینشین ازم کے معاشی ماڈل (جسے ’’نہرووین سوشلزم‘‘ بھی کہا جاتا تھا) کو مسمار کر کے نجکاری اور منڈی کو بیرونی سرمائے کے لئے کھولنے کا آغاز نوے کی دہائی میں کانگریس نے ہی کیا تھا۔ اس کے بعد اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بننے والی BJP حکومت نے ان پالیسیوں کے نفاذ کو اور بھی تیز کردیااور ہندوستان کی تاریخ کی سب سے بڑی نجکاری کی گئی۔ 2004ء کے انتخابات میں واجپائی کو شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ’’چمکتے ہوئے بھارت‘‘ (Shining India) کی اصطلاح BJP نے ہی اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت اور محرومی کو چھپانے کے لئے ایجاد کی تھی۔
ثانوی نوعیت کی تبدیلیوں اور طریقہ واردات میں فرق کے علاوہ کانگریس اورBJP کی معاشی پالیسیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ بھارتی عوام کے پاس حقیقی متبادل صرف کمیونسٹ پارٹیوں اور لیفٹ فرنٹ کی صورت میں ہی موجود تھا لیکن بائیں بازو کی سٹالن اسٹ قیادت اپنے نظریاتی جرائم اور غداریوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کی قیادت کا تاریخی فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما 1990ء کی دہائی تک ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ کے تباہ کن نظرئیے کے تحت ’’ترقی پسند‘‘ بورژوازی کو ڈھونڈتے رہے تاکہ قومی جمہوری انقلاب کا عمل مکمل کرسکیں۔ دوسرے تمام تر سابقہ نوآبادیاتی ممالک کی طرح بھارت کا حکمران طبقہ اور سرمایہ دارنہ صرف جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکام رہے ہیں بلکہ استحصال اور لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لئے ہندو بنیاد پرستی پر انحصار کرتے ہیں۔ نتیجتاً BJP ایک بار پھر اقتدار میں ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کی ’’ترقی پسندی‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔ لیکن کیمونسٹ پارٹیوں کے ’’نظریہ دانوں‘‘ کا ’’مرحلہ وار انقلاب‘‘ بھی اب قصہ ماضی ہوگیا ہے۔ سوویت یونین میں سٹالن ازم کے انہدام کے بعد سے مرحلہ وار انقلاب میں بس سرمایہ داری کا مرحلہ ہی بچا ہے۔ یہ حضرات سوشلزم اور سوشلسٹ انقلاب کی لفاظی کو بھی ترک کر کے مکمل طور پر پارلیمانی سیاست کی بھول بھلیوں میں غرق ہوگئے ہیں۔ لینن نے اس پالیسی کو ’’ پارلیمانی جہالت کی بیماری ‘‘ قرار دیا تھا۔ بائیں بازو کے یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کو ترک کر کے پارٹی پروگرام کو تھوڑا ’’نرم‘‘ کر دینے سے انتخابات میں زیادہ بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ نظریات سے انحراف کی اس پالیسی کے الٹ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بائیں بازو کا نام ونشان ہی مٹ گیا ہے۔ 2004ء میں 64 سے کم ہوکر حالیہ انتخابات میں کمیونسٹ پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد گیارہ پر آگئی ہے!
بائیں بازو کے دیوالیہ پن نے عوام میں پائی جانے والی مایوسی اور قنوطیت میں اضافہ کیا ہے۔ بھارت کے محنت کش طبقے کا سیاسی تحرک کسی حد تک جمود اور شعور وقتی طور پر پستی کا شکار ہے۔ ان حالات کی پچھلی صدی کی پہلی دہائی کے روس سے گہری مماثلت ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے 1909ء میں لکھا تھا کہ ’’جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھرتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، دلیر اور عقلمند ہوجاتی ہے۔ یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے اور ان حقائق کو عمومی صورتحال سے منسلک کرتی ہے۔ ۔ ۔ اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتاہے تو عوامی سوچ کا رخ پستی کی طرف ہوتا ہے۔ عوامی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جاگرتی ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوجاتی ہے۔ حماقت بڑھتی جاتی ہے اور دانت نکال کر عقل مند تجزئیے کی کسی شکل پر ہنستی اور اس کی تذلیل کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میدان میں بس یہی حماقت موجود ہے۔ ۔ ۔ ‘‘
مودی کی فتح زیادہ پائیدار اور دوررس ثابت نہیں ہوگی۔ BJP پہلے ہی لوٹ مار اور سیاسی عہدوں کے گرد جنم لینے والے داخلی تضادات، سازشوں، دھڑے بازیوں اور مختلف رہنماؤں کے مابین تنازعات کا شکار ہے۔ عوامی اخراجات میں کٹوتیوں جیسے معاشی معاملات اور خارجہ پالیسی، خاص کر پاکستان اور چین سے تعلقات، پر یقیناًپارٹی کے اندر مزید اختلافات جنم لیں گے۔ اسی طرح نوکریوں، کمیشن، ٹھیکوں، کرپشن اور سیاسی مفادات کے گرد جنم لینے والی لڑائیاں بھی راشٹریا سوائم سیوک سنگھ (RSS)، بجرنگ دل، وشوا ہندو پریشد اور دوسرے ہندو بنیاد پرست گروپوں کو مزید دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم کرنے کا موجب بنیں گی۔ سشما سوراج کو وزیر خارجہ بنانے کے باوجود مودی پارٹی کے اندر ابھرنے والے اختلافات کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکے گا۔ سشما مودی سے سینئر ہونے کے باعث خود پارٹی کی جانب سے وزیر اعظم بننے کی خواہشمند تھی لیکن اس میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ ایل کے ایڈوانی نے بھی مودی کی شدید مخالفت کی تھی اور مدھیہ پردیش کے2005ء سے چلے آ رہے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو وزیر اعظم کے امیدوار کے طور پر سامنے لانے کی کوشش کی تھی، جس میں اسے ناکامی ہوئی تھی۔
انتخابات کے بعد پارٹی اجلاس میں مودی نے ایڈوانی کی تعریف و توصیف اور بعد ازاں کابینہ میں پارٹی میں موجودہ مخالفین کی شمولیت سے ان دراڑوں کو بند کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اقتدار کی ہوس اور سرمایہ داروں کی پشت پناہی ابھی تک ان مخالفتوں پر پردہ ڈالے ہوئے ہے۔ لیکن ان کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ گوپی ناتھ منڈے کی حادثے میں ہلاکت کو بھی محتاط انداز میں سازش قرار دیا جا رہا ہے۔
معاشی حوالے سے بات کی جائے تو ’’ٹریکل ڈاؤن اکانومی‘‘ پر مبنی مودی کے ’’ گجرات ماڈل‘‘ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس نام نہاد معاشی ماڈل کو اب زوال پذیر بھارتی معیشت کی بحالی کا نسخہ قرار دیا جارہا ہے۔ درحقیقت مودی کے دور حکومت میں گجرات کی بلند شرح نمو غریب عوام کے لئے معاشی اور سماجی طور پر تباہ کن ثابت ہوئی ہے۔ ’’کاؤنٹر کرنٹس‘‘ پر شائع ہونے ایک مضمون میں کویتا کرشن لکھتی ہیں کہ’’مودی کے گجرات ماڈل کی خاص بات کیا ہے؟ گجرات میں نافذ کی جانے والی نیو لبرل معاشی پالیسیوں نے عوام کی زندگیوں پر وہی مضر اثرات مرتب کئے جن سے پورے ملک کے عوام دوچار ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ایک معمول بن چکا ہے۔ تعلیم، علاج اور غذائیت کے اشاریے ہولناک سماج کی خوفناک منظر کشی کررہے ہیں۔ خاص طور پر خواتین اور بچوں کی حالت زار تشویش ناک ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس (عالمی سطح پر بھوک کے اعشاریے) کے مطابق گجرات بھارت کی ان پانچ ریاستوں میں شامل ہے جہاں بھوک سب سے زیادہ ہے اور عالمی سطح پر اس کی حالت ہیٹی جیسے ممالک سے بھی بدتر ہے۔ چار سال سے کم عمر کے 80 فیصد بچے جبکہ 60 فیصد حاملہ خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں (مودی ہنس کر اسے خواتین کی ’’ڈائیٹنگ‘‘ کا نتیجہ قرار دیتا ہے) کرپشن اور سرمایہ دارانہ استحصال میں گجرات اپنی مثال آپ ہے۔ مودی اور من موہن کی معاشی پالیسیوں میں کوئی فرق نہیں۔ لیکن سامراجی اجاریہ داریاں گجرات میں سرمایہ کاری کو کیوں ترجیح دیتی ہیں؟ کیونکہ ریاست میں بیروزگاری کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور صنعت میں کنٹریکٹ ملازمین کی شرح بھارت میں سب سے زیادہ ہے (یوں سرمایہ داروں کو کم سے کم اجرت پر مزدور میسر ہیں)۔ یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ ہڑتالوں، تالہ بندیوں اور فسادات کے واقعات بھی گجرات میں سب سے زیادہ ہیں۔ ‘‘
مودی نے گجرات میں ٹریڈ یونین اور محنت کشوں کی ہڑتالوں کو بے دردی سے کچلنے کے کئی ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ مقامی سرمایہ داروں اور سامراجی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے یوں ہی اسے اپنا ’’محبوب‘‘ نہیں بنا لیا ہے۔ محنت کشوں کے حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، لبرلائزیشن، سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت دینے کی نیو لبرل معاشی پالیسیاں انتہائی ڈھٹائی سے نافذ کی ہیں۔ اس معاشی بربریت کے نتیجے میں پھیلنے والی بھوک اور لاعلاجی سے مرنے والے ان گنت بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا قاتل نریندرا مودی ہے۔ اس کے وزیراعظم بن جانے کے بعد یہی ’’گجرات ماڈل‘‘ پورے ہندوستان پر لاگو کرنے کی کوشش کی جائے گی جس سے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔ تاہم ایک ریاست اور ہندوستان جیسے کثیرالقومیتی اور وسیع ملک پر حکومت کرنے میں بہت فرق ہے۔ اس حقیقت کا ادراک مودی کو جلد ہی ہوجائے گا!
مودی کے برسر اقتدار آتے ہی عالمی سرمایہ داری کے نمائندوں نے اس کے لیے ایجنڈا بھی طے کر دیا ہے۔ 17 مئی کو اکانومسٹ نے اپنے ایک مضمون میں واضح طور پر وہ ہدایات جاری کیں جن پر مودی کو عمل کرنا ہے۔
’’نریندرامودی وزیر اعظم بننے جا رہا ہے۔ سرمایہ کار اس پر بہت خوش ہیں۔ انہیں اس کا ماضی پسند ہے جب اس نے کاروبار دوست گجرات حکومت کو کامیابی سے چلایا، اور اس کا وکاس (ترقی) کا نعرہ‘‘
’’سب سے پہلے اسے بوسیدہ بینکوں سے نپٹنا ہو گا۔ ۔ ۔ گہری مالیاتی اصلاحات بھی بہت اہم ہیں۔‘‘
’’گزشتہ نصف صدی میں مشرقی ایشیائی ممالک نے دیہی غیر ہنر مند مزدوروں کو روزگار دے کر بہت ترقی کی ہے۔ ہندوستان کو بھی اب ایسا ہی کرنا ہو گا۔ چین میں مزدوری کی قیمت بڑھ رہی ہے اور بڑی کمپنیاں اپنی سرمایہ کاری متبادل جگہوں پر منتقل کر رہی ہیں۔ عسکری تنازعات کے باعث جاپانی کمپنیاں بھی چین سے اپنی سرمایہ کاری منتقل کرنے جا رہی ہیں۔ 2010ء سے اب تک بھارتی روپیہ بھی چینی یوان کے مقابلے میں ایک تہائی تک گر چکا ہے، جس سے ہندوستان کا محنت کش زیادہ سستا ہو ا ہے۔ ۔ ۔
اگر ہندوستان کو ایک مینوفیکچرنگ سنٹر بننا ہے تو نئی حکومت کو ملک کی کاروبار دوست ساکھ کو بحال کرنا ہو گا۔ کچھ علاقوں میں ریاست کی عملداری کم کرنے کی ضرورت ہے یعنی قدیم لیبر قوانین کو ختم کرنا ہو گا۔ دوسرے علاقوں میں ریاست کی عملداری بڑھانے کی ضرورت ہے یعنی بجلی کی قابل اعتماد فراہمی اورکمپنیوں کی زمین کی خریداری کے معاہدوں پر پوری قوت کے ساتھ عملدرآمد‘‘۔
ہدایات واضح ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کار سستی مزدوری کے لیے ہندوستان کے محنت کشوں کا استحصال کرنے کے لیے گدھ کی طرح پر تول رہے ہیں۔ پوری دنیا کی طرح یہاں بھی غیر ملکی سرمایہ کار اپنی دولت میں کئی گنا اضافہ کر کے اسے مغربی دنیا کے محفوظ بینکوں میں رکھیں گے اور استحصال زدہ محنت کش غربت اور محرومی کی دلدل میں مزید دھنستے چلے جائیں گے۔
ا سی طرح مالیاتی اصلاحات کا حقیقی معنی بینکوں کی نجکاری ہے جن کا بڑا حصہ ابھی بھی ریاستی کنٹرول میں ہے۔ نجی بینکوں کے لیے مزید نئے لائسنسوں کا اجرا اور ان کے لیے قواعد و ضوابط میں نرمی بھی ایجنڈے کے اہم نکات ہیں۔ ان اقدامات سے نہ صرف لاکھوں ملازمین کا روزگار داؤ پر لگے گا بلکہ ہندوستان کی معیشت جو ابھی تک آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہے اس میں پھنسنے کی طرف جائے گی۔ کانگریس حکومت پہلے ہی ریزرو بینک آف انڈیا کے گورنر کے عہدے پرآئی ایم ایف کے سابقہ ملازم رگھو رام راجن کی تقرری سے اس عمل کا آغاز کر چکی ہے۔ ہندوستان کی سوا ارب آبادی کو اپنے قرضوں کے سودی چکر میں جکڑنے کا آئی ایم ایف کے پاس سنہری موقع ہے۔ اسی طرح مالیاتی’اصلاحات ‘بھی نئے معاشی بحرانوں کی راہ ہموار کریں گی۔
پہلے ہی BJP حکومت انتہائی تلخ حالات میں برسر اقتدار آئی ہے۔ معاشی بحران جتنا گہرا ہے، سرمایہ داروں کے مطالبات، دباؤ اور مڈل کلاس کی امیدیں اتنی ہی زیادہ ہیں۔ نئی حکومت کے سامنے ایک اور اہم مسئلہ Stagflation (معاشی جمود کے ساتھ بڑھتا ہوا افراطِ زر) ہوگا۔ معیشت کی شرح نمو 4.4فیصد تک گر جانے کے باوجود 8.6فیصد کا افراطِ زر عوام کی قوت خرید کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔ افراطِ زر کی یہ شرح ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے مالیاتی سرمایہ کاری کے ادارے جے پی مارگن کے ماہرین نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’75 سے 80 فیصد مسائل مرکزی حکومت کے قابو سے باہر ہیں۔ پچھلی حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے چند ایک (تعمیراتی) منصوبے مکمل کر کے کچھ مہینوں کے لئے تو معاشی شرح نمو کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ ۔ ۔ لیکن مستقل بنیادوں پر معیشت کی بحالی ایک بڑا چیلنج ہے جس میں وقت بھی لگے گا۔‘‘
پاکستان کی طرح ہندوستان کے وسیع حصے میں بھی صنعت کاری کے لئے ساز گار انفراسٹرکچر ہی موجود نہیں ہے۔ زمین کے حصول سے متعلق نئی قانون سازی نے فیکٹریاں لگانے کے لئے جگہ کی خریداری کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’وزیر خزانہ ارون جیٹلی نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ محنت کی منڈی میں فوری اصلاحات یا غریبوں کے لئے شروع کئے گئے فلاحی منصوبوں کی بڑے پیمانے پر بندش کے امکانات بہت کم ہیں۔ 1984ء کے بعد سب سے بڑی پارلیمانی فتح اور اصلاحات کے وعدوں کے باوجود کوئی جارحانہ قدم اٹھانے کی صورت میں مودی کو کئی اطراف سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی وجہ سے (سرمایہ کاری کے) نئے مواقع کی متلاشی غیر ملکی کمپنیاں مایوس ہوسکتی ہیں۔ ‘‘ان حالات کے پیش نظر ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کو چڑھا مودی کا ’’خمار‘‘ جلد ہی اتر جائے گا۔
مودی اگر سرمایہ کاروں کی توقعات پر جلد از جلد پورا نہیں اترتا تو عالمی سطح پر معاشی بحران کے اس دور میں ہندوستان سے سرمائے کی پرواز میں تیزی آسکتی ہے جس سے معیشت کی شرح نمو مزید گر جائے گی۔ اگر بھارتی حکمران طبقے اورسامراجی سرمایہ کاروں کی ایما پر عوام دشمن پالیسیاں نافذ کی جاتی ہیں تو BJP حکومت کو شدید رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حاوی ذرائع ابلاغ جس قوت کو دانستہ طور پر نظر انداز کر رہے ہیں وہ ہندوستان کا محنت کش طبقہ اور غریب عوام ہیں۔ مودی کی انتخابی مہم چلانے والی بے صبری مڈل کلاس کا شوق بھی جلد ہی پورا ہوجائے گا۔ اپنے ابتدائی دنوں میں ہی مودی حکومت کو بحرانات اور مسائل کے تابڑ توڑ حملوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس تذبذب میں داخلی اور خارجی سطح پر ایک کے بعد دوسری غلطی سر زد ہو گی۔ اسی خطرے کے پیش نظر ابھی تک مودی انتہائی احتیاط سے کام لے رہا ہے اور متنازعہ ایشوز پر رائے نہیں دے رہا۔
لیکن سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت، بیروزگاری اور محرومی سماجی ہیجان اور بے چینی کو جنم دے گی۔ پہلے ہی گزشتہ سال دلی میں ہونے والا گینگ ریپ کا ایک واقعہ پورے ہندوستان میں ایک بڑی تحریک کا باعث بنا تھا۔ اب پھر یوپی میں دو دلت لڑکیوں کا گینگ ریپ اور قتل جس میں پولیس اہلکار بھی ملوث تھے حکمرانوں سے نفرت کے اظہار کا باعث بن رہا ہے۔ اس واقعے کے بعد یو پی میں سماج وادی پارٹی کی حکومت کے خلاف احتجاج کیے جا رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں ایسے سماجی ایشوز پر وفاقی حکومت کے خلاف بھی احتجاجی تحریکیں ابھرنے کے امکانات موجود ہیں۔ بینکوں اور دوسرے اداروں کی نجکاری کے خلاف بھی ٹریڈ یونینوں کو میدان میں آنا پڑے گا۔
اس صورتحال میں ہندوستان کے نوجوانوں اور محنت کش طبقے کی اس رجعتی اور استحصالی حکومت کے خلاف اچانک بغاوت دنیا کو حیران کر سکتی ہیں۔ مودی رد انقلاب کا وہ کوڑا ثابت ہوسکتا ہے جس کی ضرب سے ہندوستان کاانقلاب آگے بڑھے گا!