فوجی عدالتیں: دہشت سے وحشت کا علاج؟

[تحریر: پارس جان]
بھاری مینڈیٹ والی یہ جمہوری حکومت 20 ماہ میں ہی سیاسی دیوالیہ پن کے قریب پہنچ گئی ہے۔ ذرا یادوں کے دریچے وا کیجئے اور اس بیہودہ اور متعفن ’جشنِ جمہوریت ‘ پر ایک نظر ڈالیئے جب ایک منتخب حکومت کے پانچ سال کی تکمیل کے بعد اقتدار کی پر امن طریقے سے دوسری منتخب شدہ حکومت کو منتقلی کو جمہوریت کے سفر میں ناقابلِ مراجعت اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا تھا۔ خوابوں اور خیالوں کے ایسے قلعے تعمیر کیے گئے کہ اب وہ خواب شرمندہ تعبیر ہونے کی بجائے محض شرمندہ شرمندہ سے نظر آ رہے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ یہ حکومت اس ملک کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک فوجی آمر (پرویز مشرف) کو تختہ دار پر لٹکائے گی، انڈیا کے ساتھ بہترین سفارتی و تجارتی تعلقات قائم کیئے جائیں گے، توانائی کے بحران پر صرف 6 ماہ میں قابو پا لیا جائے گاوغیرہ وغیرہ۔ بہت سے نام نہاد ترقی پسند انہی وجوہات کی بنیاد پر حکومت کی حمایت کر رہے تھے۔ لیکن وہ محض ظاہریت پر مبنی تجزیئے کر رہے تھے اور درپردہ تضادات کو یکسر فراموش کر چکے تھے۔ آج صورتحال ان کی توقعات سے بالکل مختلف ہے۔ پرویز مشرف کے ٹرائل کو میڈیا پر جتنا اچھالا جا رہا تھا، آج اس پر اتنی ہی دبیز خاموشی کی مہر لگا دی گئی ہے۔ اگر مشرف کو سزا ہوتی تو ایک نئی رسم چل پڑنی تھی جس سے دیو ہیکل طاقت کے منبعوں کے پاؤں سے زمین سرک سکتی تھی اور پھر معاملہ ایک فرد سے آگے نکل کر ایک ادارے کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر سکتا تھا، اس لیے تمام تر داخلی انتشار کے باوجود ریاستی اداروں نے مشرف کو ہر حال میں تحفظ دینے کا فیصلہ کیا اور حکومت کو دیگر بے شمار مصنوعی بحرانوں سے دوچار کر کے اپنی غیر مشروط اطاعت پر (وہ بھی اسی تنخواہ پر) کام کرنے پرمجبور کر دیا۔ جمہوریت کے ’بے چارے‘ قدردانوں کی نیک تمنائیں ان کے ’معصوم‘ جذبات کی قبروں میں دفن ہو گئیں۔ مشرف کو عدالتی انجام تک پہنچانے کے خواہشمند اب فوجی عدالتوں کی مدح سرائی میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ اگر اس ملک میں کبھی وہ سورج طلوع ہوگا جس کی روشنی میں کسی ایک یا بہت سے جرنیلوں اور آمروں کو عبرتناک سزائیں دی جائیں گی تو ایسا محض محنت کشوں کی حقیقی جمہوری یلغار کے بلبوتے پر ہی ممکن ہو سکے گا۔ 1789ء کا عظیم انقلابِ فرانس اور 1917ء کا بالشویک انقلاب اس کی یادگار مثالیں ہیں۔
ضربِ عضب کے آغاز کو سات ماہ کے لگ بھگ ہو چکے۔ خوش فہم دانشوروں اور سول سوسائٹی کے مختلف حلقوں کی توقعات کے برعکس ابھی تک کوئی تسلی بخش نتائج برآمد ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ اس آپریشن سے قبل گزشتہ حکومت کے دور سے مسلسل طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی پر طویل لا حاصل بحثیں نظر آتی رہیں۔ مذہبی پارٹیوں، علما و مشائخ اور دیگر دائیں بازو کی جماعتوں اور ریاستی دھڑوں کے دباؤ کے بعد بالآخر مذاکرات کے ناٹک کا باقاعدہ آغاز بھی کیا گیا۔ مذاکرات کے مختلف ادوار میں حکومتی کمیٹی کی طرف سے تمام تر رعایتوں اور پسپائیوں کے باوجود مذاکرات نتیجہ خیز نہ ہو سکے۔ دہشت گردی کے واقعات میں عددی حوالے سے اگرچہ نسبتاً کمی واقع ہوئی مگر شدت اور تاثر کے حوالے سے انتہائی ہولناک دہشت گردی کے واقعات عین انہی دنوں میں برپا ہوئے۔ اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لانے کے باوجود ریاست طالبان کے مختلف دھڑوں کو مذاکرات کی میز کے گرد جمع کرنے میں ناکام ہو گئی۔ پھر جون میں کراچی ایئر پورٹ پر طالبان کے حملے کے بعد بالآخر حکومت کو امریکی دباؤ کے زیرِ اثرطالبان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی کو ترک کر کے آپریشن کا آغاز کرنا پڑا۔
آپریشن کے آغاز پر پھر قومی یکجہتی اور ملی جذبات کو خوب اچھالا گیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ فوج اور سکیورٹی ادارے سنجیدگی اور یگانگت کے ساتھ دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کے لیے پر عزم ہیں اور ساری قوم کو فوج کی اخلاقی اور عملی معاونت کرنی چاہیے۔ لیکن عالمی میڈیا کی رپورٹس نے پہلے دن سے ہی اس آپریشن کو متنازعہ بنا دیا تھا۔ خاص طور پر وزیرستان سے ہجرت کرنے والے IDPs کے انٹرویوز جو عالمی میڈیا پر نشر ہوئے ان میں صاف طور پر یہ وضاحت موجود تھی کہ آپریشن سے قبل ہی ’اچھے‘ طالبان کو محفوظ راستوں کے ذریعے افغانستان یا سرحدی علاقوں کی طرف منتقل کر دیا گیا تھا۔ پہلے ہی دن سے نام نہاد جمہوری حکومت خارجہ اور داخلہ پالیسی کے حوالے سے ریاستی ایجنسیوں کے شدید دباؤ میں تھی اور اس دباؤ کو قائم رکھنے کے لیے ’دھرنوں‘ اور احتجاج کے ڈرامے کی ایک نئی قسط بھی ریلیز کر دی گئی تاکہ آپریشن اورفوج کی حکمتِ عملی کے معاملے میں حکومت زیادہ نکتہ چینی سے کام نہ لے سکے۔ سینکڑوں ’مبینہ‘ دہشت گردوں کی ہلاکت اور ہزاروں کی گرفتاریوں کے باوجود جب دہشت گردی کا یہ عفریت قابو میں نہیں آ پا رہا تھا تو ’پاک‘ فوج کی عظمت کے سامنے سنجیدہ سوالیہ نشان لگائے جانے شروع ہو گئے تھے۔ ان سوالات سے عوامی توجہ کو مبذول کرانے کے لیے ماضی کا آزمودہ ’نسخہ کیمیا‘ استعمال کرتے ہوئے مشرقی سرحد پر بھارت کے ساتھ منظم کشیدگی پیدا کی گئی اور سیالکوٹ اور کشمیر سیکٹروں پر گولہ باری کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اور اس سرحدی کشیدگی کو ضربِ عضب کی فیصلہ کن کامیابی کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ قرار دے کر اپنی نااہلی کا تمام تر ملبہ بھارتی جارحیت پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔
ابھی اس آپریشن کے ناٹک میں ایک ڈرامائی تبدیلی اس وقت آئی جب 16 دسمبر کو پشاور میں ایک آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے بربریت کی انتہا کرتے ہوئے 150 (حکومتی اعدادو شمار) کے لگ بھگ معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس واقعے نے عوامی صبر اور قوتِ برداشت میں شدید دراڑیں ڈال دیں اور ایک عمومی نفرت اس سطح تک پہنچ رہی تھی کہ خفیہ اداروں نے اس کو بھانپتے ہوئے ریاست کو اس واقعے کے خلاف شدید ردِ عمل کا کم از کم تاثر دینے کی تنبیہہ کر دی۔ مختلف دہشت گردوں کو دی جانے والی پھانسیاں اور دیگر ریاستی ’پھرتیاں ‘اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ آرمی چیف، DG آئی ایس آئی کے ہمراہ فوراً کابل پہنچے اور افغان حکومت کی شدید سرزنش کی اور یہ باور کروایا کہ افغان سکیورٹی ادارے سرحد پار دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ اس سفارتی دوغلے پن سے ماورا کون نہیں جانتا کہ اپنے اپنے مفادات کے تحت دونوں ممالک اور انکے سامراجی پشت پناہ دہشت گردوں کو بطور ریاستی اثاثوں کے استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ دوسری طرف د ہشتگردی کے خلاف یہ جنگ اب ایسے مرحلے پر آپہنچی ہے جہاں ایک بھیانک خانہ جنگی کے آثار نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ دہشت گردی درحقیقت کالی معیشت کے وائرس سے پھیلنے والا ایک مالیاتی سرطان ہے اور اس ’مدبر‘ حکومت اور ان کے خیر خواہان نے اس سرطان سے نجات حاصل کرنے کے لیے اسی ’’عطار کے لونڈے‘‘ سے رجوع کیا ہے جس کے سبب یہ سرطان جراحی طلب ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اس پالیسی کا نتیجہ ظاہر ہے کہ مزید بربادی اور خونریزی کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
حکومت کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی سمیت تمام نام نہاد جمہوری پارٹیوں نے ملٹری کورٹس کے قیام کی حمایت کر دی۔ ’’مضبوط‘‘ پارلیمان نے اکثریتِ رائے سے 21 ویں ترمیم کی منظوری دے دی۔ دو روز قبل آصف علی زرداری نے برملا اعلان کیا کہ فوجی عدالتیں قائم کر کے ملک کو خانہ جنگی سے بچا لیا گیا۔ اس سے قبل 27 دسمبر کو بے نظیر کی برسی کے موقع پر موصوف خود فرما چکے ہیں کہ یہی عدالتیں کل کو سیاسی قیادتوں کے خلاف استعمال کی جا سکتی ہیں۔ ’ماں جیسی‘ ریاست کے طلبگار چوہدری اعتزاز سمیت جمہوریت کے تمام چیمپئین ملٹری کورٹس کے حامی ہیں۔ رضا ربانی نے ’جنابِ ضمیر‘ کی ہلکی سی ’ڈانٹ ڈپٹ‘ کے بعد ترمیم کے حق میں ووٹ دے ہی دیا۔ ظاہر ہے کہ سینیٹ کی نشست سے منسلک دیگر مراعات کے سامنے بیچارہ ضمیر اور کر بھی کیا سکتا تھا۔ لیکن اسے تاریخی مضحکہ کہا جائے یا المیہ کہ جماعتِ اسلامی، جمیعت علمائے اسلام اور تحریکِ انصاف نے ترمیم کی مخالفت کر دی۔ ریاست کی پروردہ ان پارٹیوں کے بظاہر جمہوری طرزِ عمل سے خود ریاستی اداروں کے اندر شدید مخاصمت اور تعصب کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہ تذبذب کم ہونے کی بجائے اور شدت اختیار کرے گا۔ تحریکِ انصاف احتجاجی تحریک کا ایک اور نیا کھلواڑ شروع کر سکتی ہے۔ دوسری طرف لال مسجد کے خطیب مولانا عبدلعزیز پر ہونے والی تنقید اب بڑھتے ہوئے مدارس کے عمومی کردار کو حدف بنانا شروع ہو گئی ہے اور شاید اب اس پراسس کوواپسی کی طرف موڑنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ اس سے مختلف مذہبی انٹرپرائززکے مالکان علما و مشائخ بھی ردِ عمل میں جارحانہ رویہ اپنا سکتے ہیں۔ ان میں بہت سے کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے سربراہان اور مشیران بھی موجود ہیں اور انکا ردِ عمل خود انکے ریاستی آقاؤں کے کنٹرول سے بھی باہر ہو سکتا ہے۔ یوں ضربِ عضب کی تقدیر میں ناکامی اور نامرادی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
یہ بات درست ہے کہ ملٹری کورٹس کے قیام اور قومی یکجہتی کی مہم سے بظاہر فوج کو وقتی کامیابی اور توانائی مل رہی ہے لیکن اندرونِ خانہ ISI اور فوج کی ہائی کمان میں شدید تذبذب اور ہیجان پایا جا رہا ہے۔ ان کو خود علم ہے کہ وہ ایک ایسی لڑائی شروع کر چکے ہیں جس کا کوئی انت نہیں۔ وہ اپنی افغان سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں اور دوسری طرف خود انکی اپنی بھڑکائی ہوئی آگ کے شعلے ان کے اپنے گھروں کی طرف لپک رہے ہیں۔ مشرف کی طرف سے شروع کی گئی ڈبل گیم نے ریاستی یکسوئی کو چکنا چور کر دیا ہے۔ 11 جنوری کو پھرISI کے DG لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر نے افغانستان کا دورہ کیا۔ یہ گزشتہ دو ماہ میں کابل کا تیسرا ہنگامی دورہ ہے۔ ہر ملاقات میں دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کا اعلان کیا جاتا ہے۔ امریکی خود شدید معاشی بحران سے دوچار ہیں اور انکے بھی ریاستی اداروں میں ٹوٹ پھوٹ واضح ہونا شروع ہو گئی ہے۔ وہ پاکستانی افواج کو سابقہ تنخواہ پر ہی کام کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ امریکی سرپرستی میں ایک مستحکم افغانستان میں انڈیا، ایران کے ساتھ پاکستانی ریاستی اداروں کا ورکنگ کو آرڈی نیشن قائم کیا جائے۔ اسی پالیسی کو تقویت دینے کے لیے پھر امریکی وزیرِ خارجہ جان کیری ایک وفد کے ہمراہ دو روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے ہیں۔ لیکن امریکیوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ اندھوں سے آنکھیں مانگ رہے ہیں۔ پاکستانی حکومت اور فوج امریکیوں کو وہ چیز کبھی نہیں دے سکتی جو خود انکے کنٹرول میں نہیں۔ دوسری طرف سعودی اور ایرانی پراکسی اور اس میں قطری اور ترکی تڑکے نے مذہبی جنونیت میں فرقہ وارانہ تصادم کو مزید مالیاتی آکسیجن فراہم کی ہے اور خفیہ ادارے اور ان کے اندر مختلف با اثر افراد براہِ راست اس خون خرابے میں ملوث ہیں اور وفاداریوں کی خریدو فروخت اپنے عروج پر پہنچتی جا رہی ہے۔ چینی سامراج کے وظیفہ خوار بہت تیزی سے مال کمانا چاہتے ہیں لیکن حالات قابو میں نہیں کر پا رہے۔ انہیں خون خرابے کے اس تسلسل میں امن کے وقفے بھی درکار ہیں جو ناپید ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ سکولوں میں لمبے عرصے کی تعطیلات اور تعلیمی اداروں کے باہر مورچے تعمیر کرنے سے فوج کے عدم اعتماد اور ضعف کا پردہ فاش ہو رہا ہے۔ اسکے نئی نسل پر جو ثقافتی اور نفسیاتی اثرات مرتب ہو رہے ہیں وہ سوچ کر ہی لرزہ طاری ہوجاتا ہے۔ بچوں پر نئے تعلیمی نظام کے ذریعے بے پناہ بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ بستوں کا وزن بڑھتا جا رہا ہے جبکہ کھیلنے کے لیے وقت اور جگہیں نا پید ہوتی جا رہی ہیں۔ 10 جنوری کو خفیہ اداروں نے کراچی میں محمد دانش نامی ایک جعلی کیپٹن کو گرفتار کیا جو اپنی اسی جعلی شناخت کے ذریعے انتہائی اہم اور حساس میٹنگز میں بھی شریک ہو چکا تھا۔ اس سے اس ادارے کی فرسودگی اور ناکارگی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ایک ایسی فوج سے کسی بھی جنگ یا آپریشن کی کامیابی کاتصور کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔
تمام دانشور، سیاستدان، صحافی، دفاعی تجزیہ کار اور حتیٰ کہ معیشت دان بھی تمام مسائل کا سیاسی یا انتظامی حل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ مرض کی وجوہات کی بجائے علامات کا تدارک کررہے ہیں اور مرض اور مہلک اور ناقابلِ علاج سطح پر پہنچ گیا ہے۔ بہت سے ’مخلص‘ خواتین و حضرات ملٹری کورٹس کی اس لیئے حمایت کر رہے ہیں کہ انکے خیال میں اسکی حمایت نہ کرنے کا مطلب دہشت گردوں کی حمایت کرنا ہو گا۔ یہ میکانکی سوچ سوائے اپنے ناخن چبانے کے اور کچھ نہیں کر سکتی۔ KPK اور پنجاب میں 3,3 جبکہ سندھ میں 2 اور بلوچستان میں 1 کل ملا کر 9 فوجی عدالتوں کا قیام کسی دہشت گرد سے نمٹنے کے لیے ہے اور نا ہی کسی کارپوریٹ دلال کی سرزنی کے لیے ہے بلکہ محنت کش عوام کی مزاحمت پر شدید حملوں کو مد نظر رکھ کر کیا گیا ہے۔ مسئلہ اپنی بنیاد میں معاشی ہے۔ کالی معیشت پر کوئی انگشت نمائی کرنے کو تیار نہیں۔ آپریشنز کے نام پر عوام پر مزید معاشی بوجھ لادا جا رہا ہے۔
سرکاری معیشت عملاً دیوالیہ پن کے قریب پہنچ چکی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں کمی کے معاشی فوائد کی عوامی پائپ لائن کو منقطع کر کے مرتی ہوئی معیشت کو آکسیجن سپلائی کی جا رہی ہے۔ یکم جنوری تک عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 47 فی صد کمی ہوئی ہے جبکہ ملکی سطح پر صرف 27 فیصد کمی کی گئی ہے۔ گزشتہ برس بھی قرضوں کی بیساکھی پر ہی ملک کو چلایا گیا۔ دو ارب ڈالر یورو بانڈز سے حاصل ہوئے، ایک ارب ڈالرسکوک بانڈز اور جبکہ ڈیڑھ ارب ڈالر سعودی عرب سے مڈل ایسٹ میں فرقہ وارانہ خدمات کی فروخت سے حاصل کیے گئے۔ ترسیلاتِ زر میں بھی 19 فیصد اضافہ ہوا۔ لیکن یہ سب ذرائع پائیدار نہیں ہیں۔ بڑے پیمانے پر گردشی قرضوں کی ادائیگی کے باوجود اس سے زیادہ گردشی قرضہ بڑھتا جا رہا ہے۔ تمام ادارے اس بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ PSO کا حالیہ بحران اس کی اہم مثال ہے۔ تیل اور فرنس آئل کے ملکی ذخائر صرف 11 روز کی ضروریات پورا کر سکتے ہیں۔ PSO نے پاور کمپنیوں کو تیل کی سپلائی 50 فیصد تک کم کردی ہے جس سے لوڈ شیڈنگ 18 گھنٹوں تک پہنچ گئی ہے۔ فرنس آئل کے عالمی منڈی کے تمام آرڈرز منسوخ ہو چکے ہیں۔ بینکوں نے PSO کومزید قرضہ دینے سے ہاتھ کھینچ لیے ہیں۔ ادارے کو 48 ارب روپے کی فوری ضرورت ہے۔ گیس کی لوڈشیڈنگ نے محنت کشوں کے لیے پہلے سے موجود عذابوں میں مزید اضافہ کیا ہے۔ ایل پی جی بیچنے والے ہوشربا منافع کما رہے ہیں جبکہ عام استعمال کے لیے اس کی بھی رشنگ کی جا رہی ہے۔ گھروں میں دوبارہ لکڑی کے چولہے استعمال میں آ رہے ہیں۔ اکیسویں صد ی میں اس جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک کے محنت کش عوام لالٹینوں، موم بتیوں اور اوپلوں کی جانب رجوع کر رہے ہیں جو موجودہ نظام کے رکھوالوں پرایک طمانچہ ہے۔ لیکن دوسری جانب ان حکمرانوں کے محلوں میں ہر جدید سہولت اور پر تعیش رہن سہن موجود ہے۔ گیس اور بجلی کے علاوہ دیگرتمام اداروں کی حالت بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں۔ نجکاری کو ان تمام مسائل کا حل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ IMF سے مزید 6.7 ارب ڈالر کے قرضے کی شرائط بھی عوام کو ہی پوری کرنی ہوں گی۔ جس سے لاکھوں مزید گھرانوں کے سروں پر بیروزگاری کی ننگی تلوار لٹک رہی ہے۔ اس معاشی کیفیت میں فوج ریاستی اقتدار پر برائے راست براجمان نہیں ہونا چاہتی۔
ضربِ عضب کا مالیاتی خمیازہ بھی آخری تجزیئے میں محنت کش عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس آپریشن پر ہونے والے اخراجات پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام سے پورے کیے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں اس ترقیاتی بجٹ سے مزید 258 ارب روپے کی کٹوتی کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ پہلے ہی اس بجٹ کو 525 ارب روپے سے کم کر کے 477 ارب روپے کر دیا گیا تھا۔ ان کٹوتیوں کے ہمراہ جنرل سیلز ٹیکس میں بھی 5 فیصد ظالمانہ اضافے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس سے مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کی انتہائی لکیر سے نیچے گرنے والے افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ متوقع ہے۔ حکومت کی طرف سے بڑے بڑے میٹرو بس اور موٹرو ے کی طرز کے منصوبے شروع کیئے جا رہے ہیں تاکہ معیشت کا پہیہ چلتا رہے لیکن ان منصوبوں سے بھی عوام کے معیارِ زندگی کو براہِ راست کوئی بڑھاوا ملنے کا مکان نہیں۔ مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھے گا۔ حکومتی اخراجات کو پورا کرنے اور بیلنس شیٹ کو متوازن رکھنے کے لیے حکومت کو مزید ٹی بلز اور اندرونی قرضوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ پہلے ہی بینکوں کی حکومتی بلوں میں سرمایہ کاری ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہے۔ اس صورتحال میں مزید نوٹ چھاپنے ہوں گے اور افراطِ زر سے مہنگائی کا اژدہا بے لگام بھی ہو سکتا ہے۔ لوگوں کی بڑی اکثریت کی سرکاری معیشت تک نارسائی پھر انہیں کالی معیشت کی طرف مائل ہو نے پر مجبورکرے گی۔ اور یہی معاشی پسماندگی اور غربت کی دلدل ہی وہ بنیادی نرسری ہے جہاں دہشت گردی کا خام مال تیار ہو رہا ہے۔ اس نرسری کو ختم کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف کوئی جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔
ملک کی تمام تر سیاسی قیادت اس حقیقت سے جان بوجھ کر چشم پوشی کر رہی ہے۔ تحریکِ انصاف اور طاہر القادری کے مصنوعی متبادل کو عوام نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ MQM اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ روز تنظیمی کمیٹیوں میں ردو بدل اندرونی بے چینی اور بے یقینی کی غمازی کر رہا ہے۔ الطاف بھائی نے MQM کے اندر مارشل لا کے نفاذ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ ایک طرف داخلی لڑائیوں میں کارکنان بڑی تعداد میں مارے جا رہے ہیں تو دوسری طرف کراچی میں جاری آپریشن میں بھی MQM کے دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات منکشف ہو رہے ہیں۔ احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ذریعے اب MQM کے لیے طاقت کے کھیل میں زیادہ حصہ وصولی کا امکان کم سے کم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ تمام قوم پرست پارٹیاں بھی کسی نہ کسی ریاستی یا سامراجی طاقت کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں۔ عوامی تحریک کے پاس فی الوقت کوئی سیاسی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے وہ کہیں اظہار نہیں کر پا رہی۔ پیپلز پارٹی کے اندر لوٹ مار پر تضادات شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ آصف علی زرداری پہلے ہی مشرف پر سندھ حکومت کو گرانے کی سازش کے الزامات عائد کر چکا ہے۔ مخدوم امین فہیم کی ناراضگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ سندھ حکومت میں اس سے پہلے بھی بہت سے اختلافات منظرِ عام پر آ چکے ہیں۔ زرداری کے ساتھ مصنوعی تضاد کو ابھار کر بلاول کو مستقبل کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کچھ سادہ دل اس مصنوعی تضاد کو بہت سنجیدہ لے رہے ہیں۔ خاندانی اثاثوں یا دولت کے استعمال پر اگر کوئی وقتی ڈیڈ لاک ہو بھی جائے تو اسے سیاسی طور پر ایک لمبے عرصے تک استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ فوجی عدالتوں کی حمایت نے پارٹی کی رہی سہی ساکھ کو ایک اور دھچکا بھی لگا یا ہے۔ پارٹی کی موجودہ قیادت شاید ماضی کی عوامی حمایت دوبارہ کبھی حاصل نہ کر پائے۔ ان حالات کے بطن میں پکنے والا عوامی لاوا جب پھٹے گا تو وہ ایک نئی پیپلزپارٹی کو جنم دے گا۔ جو شکل و صورت اور پروگرام کے ساتھ ساتھ شاید ایک نئے نام کے ساتھ سیاسی افق پر وارد ہوگی۔ کوئی ہیرو، مسیحایا نجات دہندہ نہیں بلکہ ایک اجتماعی قیادت ہی عوام کو اس معاشی و ریاستی بربریت اور نیم ریاستی دہشت گردی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلا سکتی ہے۔

متعلقہ:

آستین کے سانپ!

پاکستان: بربادیوں کی داستان

نظام زر میں ’’گڈ گورننس‘‘

خوف کا کاروبار

کتنی دہشت گردیوں سے لڑنا ہوگا؟