8 مارچ کا پیغام

تحریر: لاجونتی

موجودہ نظام اپنی تاریخی متروکیت کے عہد میں داخل ہوچکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی ٹو ٹ پھوٹ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ بحران سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ہر اقدام حکمران طبقے کو مزید گہرے بحران کے دلدل میں دھکیلتا چلا جارہا ہے۔ اگرچہ سرمایہ داری کے اس بحران نے مجموعی طور پر محنت کش طبقے کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں لیکن محنت کش طبقے کی خواتین پھر دوہر ے تہرے استحصال کا شکار بنی ہیں۔ ذرائع پیداوار میں سرمایہ داری نے ماضی کے تمام نظاموں سے زیادہ ترقی حاصل کی اور اسی کے ساتھ ہی خواتین کو تمام شعبہ جات میں مردوں کے برابر حقوق اور آزادی کے دعوے بھی زور و شور سے کیے گئے لیکن یہ تمام تر دعوے آج اپنے الٹ میں تبدیل ہوچکے ہیں اوریہاں بسنے والی محنت کش خواتین کی زندگیاں پہلے سے کہیں زیادہ بدترین استحصال کا شکار ہیں۔
کس بھی تاریخی عہد میں تبدیلی کا تعین عورت کی آزدی سے کیا جاسکتا ہے۔ جمہوریت اور لبرلزم کا لبادہ اوڑھنے والے ممالک میں آج بھی خواتین کو فرسودہ رسم و رواج کی زنجیروں نے سب سے زیادہ جکڑا ہوا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام چونکہ ایک منڈ ی کی معیشت کا نظام ہے اس لئے عورت کی حیثیت بازار میں بکنے والی جنس سے زیادہ نہیں ہے۔ جہاں ایک طرف خواتین سرمایہ داری کے ظلم و جبر کا شکار ہیں وہیں بالخصوص تیسری دنیا کے سابقہ نوآبادیاتی ممالک میں خواتین کا استحصال بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ چاہے مغرب کے نام نہاد آزاد معاشرے ہوں یا مشرق کے غلامی میں جکڑے ہوئے ترقی پذیر معاشرے‘ عورت کی حیثیت ہر جگہ ایک جیسی ہی دکھائی دیتی ہے۔
پاکستان جیسے پسماندہ معاشروں میں عورت سے کچھ ایسے غیر فطر ی اور غیر انسانی رویوں کا تقاضا ہے جو شاید یہاں عورت کی صورتحال کو اچھی طرح واضح کرنے کے لئے کافی ہیں۔ یہاں عورت چاہے خواندہ ہے یا ناخواندہ لیکن بغیر تنخواہ کے کام کرنے والے مزدور کی طرح گھر کی دیکھ بھال کرنے والی ضرور ہے۔ ہر فرد عورت سے محض یہ تقاضا کرتاہے کہ وہ گھر کی چاردیواری میں پیدا ہو اور گھریلو مشقت کرتی ہوئی دم توڑ دے۔ دراصل یہ گھریلو مشقت ہی اسکی ذہنی نشونما میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ صرف غریب ہی نہیں بلکہ مڈ ل کلاس خاندانوں میں بھی عورت کو ایک بوجھ تصور کیا جاتا ہے۔ انہیں غیرت کے نام پرکچھ اس طرح قید کیا جاتاہے جس کا موازنہ بدترین مشقت سے بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی زندگیوں میں کوئی آرام نہیں، کوئی سکون نہیں، کوئی چھٹی نہیں اور نہ کوئی امید کی کرن ہے۔
اگرچہ سماجی پیداوار میں خواتین کا کردار مردوں سے کم نہیں لیکن اسے مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے۔ جس معاشرے میں عورت کو ایک انسان کے بجائے جنس کے طور پر دیکھا جاتا ہو وہاں اگر عورت کوئی بھی کردار ادا کرنے کے لیے میدان عمل میں آتی ہیں تو سماج میں اُسے عجیب و غریب نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کے کردار کو رد کر کے انہیں زرخرید غلام بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین کے ساتھ جنسی زیادتیاں، گھریلو تشدد، تیزابی حملے، اغوا کاری، خودکشیاں، کم عمری کی شادیاں اور اس سے بڑھ کر غیرت کے نام پر قتل آج معمول بن چکے ہیں۔
پاکستان میں آج تعلیمی اداروں، کاروباری مراکز، ہسپتال یہاں تک کہ گھروں کے اندر بھی عورت محفوظ نہیں ہے۔ صوبہ خیبر پختونخواہ کے اعلیٰ سرکاری تعلیمی اداروں میں گزشتہ کچھ عرصے سے طالبات کو جنسی ہراساں کرنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور پچھلے سات ماہ میں 100 سے زیادہ ایسے کیس رپورٹ ہوئے ہیں جس میں طالبات کو ہراساں کیا گیا۔ دوسرے صوبوں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ہے۔ اسمبلیوں میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے نام نہاد بل پاس ہوتے ہیں مگر وہ بھی حکمران طبقے کی ضد اور انا پرستی کا نشا نہ بن جاتے ہیں۔ عالمی رینکنگ میں خواتین کے حالات کے حوالے سے پاکستان 144 ممالک کی فہرست میں 143ویں نمبر پر ہے۔ جس سے یہاں کی خواتین کی بدترین زندگی کی واضح عکاسی ہوتی ہے۔
یہاں خواتین کے حقوق کو ملائیت اور لبرلزم کے مابین ایک لڑائی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے خواتین کی حالت زار تو خیر کیا بہتر ہونی ہے لیکن حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ ضرورہوتا ہے۔ دیہاتوں میں ضروری خوراک کی عدم دستیابی کی وجہ سے صحت کی کیفیت جہاں بالعموم محنت کش طبقے میں انتہائی خراب ہے وہاں عورتوں میں یہ صورتحال مزید ابتری کا شکار ہے۔ ضروری وٹامنز اور نمکیات کی کمی کی وجہ سے جسمانی اور ذہنی اعتبار سے مائیں معذور بچوں کو جنم دیتی ہیں جوکہ ساری نسل انسانی کے لیے کسی المیے سے کم نہیں۔ یہاں شہروں اور قصبوں میں بے گھر بچوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس خوفناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے کہ موجود نظام ناکام ہوچکا ہے۔ اپنے تاریخی زوال کے اس عہد میں یہ نظام بڑے گھناؤ نے انداز میں اپنا ظلم ڈ ھا رہا ہے۔ ماں اور بچے کی حالت کبھی اتنی خراب نہیں تھی جتنی کہ آج ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی اور سیاسی بدحالی نے سماج کی محروم پرتوں کو بغاوت کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ آج پوری دنیا میں اس نظام کے خلاف محنت کش طبقے میں نفرت اور غصہ بڑھتا ہی چلا جارہا ہے جس کا اظہار ہمیں تحریکوں اور بغاوتوں کی شکل میں نظر آتا ہے۔ خواتین کا کردار ان تحریکوں میں سر فہرست ہے۔ عورت کی آزادی کی اس عظیم جدوجہد کا آغاز یقیناًباشعور محنت کش خواتین ہی کریں گی۔ عورت کو پیچھے چھوڑ کر سماج کے لئے آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ ماضی کی تمام تحریکوں، ہڑتالوں اور انقلابات میں محنت کش خواتین کی شاندار انقلابی روایات ہمیں آج بھی عورت کے لازوال انقلابی کردار پر یقین دلاتی ہیں۔ آکو پائی وال سٹریٹ کی تحریک، عرب انقلاب اور دنیا بھر میں ابھرنے والی تمام تحریکوں میں ہمیں خواتین اگلی صفحوں میں لڑاکا کردار ادا کرتی نظر آئی ہیں۔ یہاں تک کہ انقلاب فرانس سے لے کے بالشویک انقلاب تک محنت کش خواتین کا کردار نہ صرف ہر اول تھا بلکہ ان دونوں انقلابات کا آغاز ہی خواتین نے کیا تھا۔
8 مارچ یعنی محنت کش خواتین کے عالمی دن کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے لیکن اس کی حقیقی تاریخ کو مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ 8 مارچ کی بنیاد دوسری انٹرنیشنل سے وابستہ محنت کش خواتین کی عالمی کانفرنس میں رکھی گئی تھی جس میں مختلف ممالک سے 100 سے زائد خواتین نے شرکت کی تھی۔ اس دن کو منانے کا آغاز اس لئے کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعے خواتین کو ووٹنگ کا حق حاصل ہو، ملازمتوں کے دوران جنسی تعصب کا خاتمہ ہو اور خواتین کی آزادی و نجات کی جدوجہد کو سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑا جا سکے۔
آج بین الاقوامی پیمانے پر عورتوں کی حالت زار ایک نئی انقلابی سرکشی کی متقاضی ہے۔ آج کی عورت بدترین غلامی کا شکار ہے اور غلام مائیں کبھی بھی آزادمعاشرے پیدا نہیں کرسکتیں۔ حقیقی معنوں میں آزاد معاشرہ صرف طبقات سے پاک معاشرہ ہی ہو سکتا ہے۔ سوشلزم میں محنت کش طبقے کی مشترکہ تنظیم سے چلنے والی منصوبہ بند معیشت کے تحت ہی وہ معاشرہ تعمیر ہوگا جس میں عورت کی گھریلو غلامی اور عصمت فروشی کا بھی خاتمہ ہوگا اور انسانیت کو ایسی غلاظتوں سے نجات ملے گی۔ ایسے سماج میں خواتین کی تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں پوری طرح اجاگر ہونگی اور وہ سماجی پیداواری عمل کا بھرپور حصہ بن سکیں گی۔ بنیادی ضروریات کے حصول اور مانگ و محرومی کے خاتمے سے ہی عورت حقیقی طور پر آزاد ہوسکتی ہے۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہوگا جب ایک منصوبہ بند معیشت‘ نجی ملکیت اور منافع خوری سے آزاد ہوکر اشیائے صرف کی بہتات پیدا کرے گی اور سماجی انفراسٹرکچر کے اس معیار کو جنم دے گی جہاں انسانی محنت سے تیار کردہ مشینری اور ٹیکنالوجی انسان کو محکوم کرنے کے بجائے اس کی زندگی کو سہل کرنے کا موجب بنیں گی۔