تحریر:۔ فارس:-
سرمایہ دارانہ نظام کے نقطہ نظر سے موجودہ رونما ہونے والے واقعات ناپسند یدگی کے زمرے میں آتے ہیں وہ بھی اس کیفیت میں جب سرمایہ دارانہ نظام کا جا ری معاشی بحران طویل اور گہرا ہو رہا ہے۔ اس پر جلتی پرتیل چھڑکنے کے مترادف دنیا بھر میں محنت کش عوام کی سرکش تحریکیں ہیں جو حکمران طبقات اور اُن کے حاشیہ بردار دانشوروں اور مالیاتی سرمائے سے وابستہ افراد کی نیندیں حرام کیے ہوئے ہیں۔معاشی بحران کے گہرے ہونے اور سرمایہ دارانہ نظام کے ما ہرین اور مفکرین کی جانب سے بحران سے نکلنے کے کسی ممکنہ حل تک پہنچنے میں ناکامی نے نظام کے رکھوالوں کو پاگل پن کی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے اگرچہ بوژوازی مکمل ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بحران کے اثرات کو اپنی خوش لباسی اور مسکراہٹوں کے تبادلے سے زائل کرنا چاہتی ہے لیکن عرب انقلاب سے آکو پائی وال سٹریٹ تک رونما ہو چکے واقعات نے اس نظام کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔بوژوازی اپنا اعتماد کھو چکی ہے اور اسکی سانسیں اکھڑی ہوئی ہیں۔اس کی ایک وجہ ہے وہ یہ کہ ہمیں نہیں معلوم کہ اس وقت محنت کش عوام کتنے فیصد اس بات کا شعور رکھتے ہیں کہ اُن کی مو جودہ جد و جہد انسانی تاریخ کی سب سے بڑی طبقاتی خلیج کو مٹانے کی جانب گامزن ہے لیکن وہ شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے عمل سے طبقاتی جنگ کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں لیکن اس بات کا ہمیں پورا یقین ہے کہ سرمایہ دار طبقات موجود ہ اور تاریخ میں طبقاتی کشمکش کے کردار سے بخوبی واقف ہیں دراصل سرمایہ داروں کی یہی آگاہی ان کی اذیت،بے چینی اور جھنجھلاہٹ میں مزید اضافہ کر رہی ہے ایک ایسی صورتحال میں جب معاشی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید تباہی و بربادی پھیلا رہا ہو جب نظام کے تحفظ پر معمور دانشور اور مفکرین بحران سے نکلنے میں کسی حل تک پہنچنے میں نا کامی سے دوچار ہوں تو پھر ما یوسی کے بادلوں کا اور گہرا ہونا یقینی امر ہے۔نوبت یہیں ٹھر جائے تو پھر بھی قابل بر داشت ہے لیکن جب محنت کش غم و غصے سے بھر پور تحریکوں میں اُمنڈ آتے ہیں تو سر مایہ داروں کو پاگل پن کے دورے پڑنے شروع ہو جا تے ہیں۔
2008ء میں شروع ہونے والا معاشی بحران جب امریکہ سے نکل کر یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھاتو سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ میں پہلی بار عالمی بو ژوازی چین،روس اوربھارت کے حکمران طبقات کے لیے سراپا تعریف نظر آئی اور جسے ان مما لک کے حکمران طبقات پھولے نہیں سما رہے تھے۔اس کے پیچھے ایک خوش فہمی کا عنصر موجود تھاجس میں عالمی بوژوازی مبتلا تھی اور وہ یہ عنصر تھا کہ ان ممالک کے حکمران طبقات سے ایسے کردار ادا کرنے کی توقعات تھیں جسے معاشی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا مگر خوش فہمیاں جلدی دم توڑ جایا کرتی ہیں۔ آج بحران ان ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔چینی حکمران طبقے میں پڑنے والی حالیہ پھوٹ اور چینی حکومت کی طرف سے اپنے بجٹ میں داخلی دفاع کیلئے مختص رقم کا حجم جو اُس کے خارجی دفاع سے دوگنا زیادہ ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ چینی حکمرانوں کے اعصاب اور رگ پٹھے اب بحران کے دباؤ کی وجہ سے پھولنا شروع ہو گئے ہیں۔اسی طرح سے روس میں الیکشن کے موقع پرہونے والی دھاندلی اور پھر اس کے خلاف ابھرنے والی تحریک نے روسی معشیت کے مجرمانہ کردار کو واضح کیا ہے۔دوسری طرف ہندوستان کا حکمران طبقہ بھی ا پنی تاریخی تاخیر زدگی اور خصی پن کی وجہ سے اپنی ترقی کے تسلسل کو جاری رکھنے کے لئے عالمی بوژوازی سے ہی امیدیں اور توقعات وابستہ کیے ہوئے ہے۔28فروری کوہونے والی ہڑتال جس میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کر کے حکمرانوں کو باور کرایا ہے کہ ہماری زندگیوں کو برباد کر کے تمھارے شیشے کے محل محفوط نہیں رہ سکتے۔
اس صورتحال میں دیکھا جائے تو عالمی حکمران طبقات ایک بند گلی میں محبوس اور مقید ہو کر رہ گئے ہیں اور کوئی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ان کے اندر ہونے والی لڑائیاں اور چیخ و پکاردراصل سرمایہ دارانہ نظام اور دانش وفلسفے کی متروکیت کے اظہار کے سوا کچھ نہیں ہے۔بڑھتی گھٹن اور جمود کی کیفیت نے اُن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو ہی ماؤف کر دیا ہے ۔سرمایہ دار اژدھوں کی مانند ہیں جو محنت کش عوام کی محنت کے ثمر کو ہڑپ کرتے جا رہے ہیں مگر محنت کش طبقہ بھی ان سرمایہ داروں اور اس نظام کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے تاریخ کے میدان میں اتر چکا ہے۔محنت کش طبقے نے اس نظام کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف طویل جدوجہد کی ہے کئی بار اسے پسپائیاں اورشکستیں ہوئیں لیکن وہ ہر پسپائی اور شکست سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھتا رہا۔1871ء کا پیرس کمیون،1917ء کا سوویت انقلاب اور 1949ء کا چینی انقلاب تاریخ کے وہ بڑے واقعات ہیں جنھوں نے تاریخ میں محنت کو سرمائے پر فتح و کامرانی عطاکی۔
اس سے ہٹ کر بھی پوری دنیا میں محنت کش طبقے نے اپنی جدوجہد سے ایک تاریخ رقم کی ہے ایسا ہی واقعہ یکم مئی1886ء میں شکاگو کے مزدوروں سے منسوب ہے جہاں مزدوروں نے اپنے کام کے اوقات کار کم کرنے اوراپنی تنخواہوں میں اضا فے کے لئے پر امن احتجاج کیا تھاسرمایہ دار طبقات نے ظلم و جبر کے ہتھکنڈے اپنا کرمزدوروں کو ان کا حق دینے کے بجائے ان کی پر امن جدوجہد کو کچلنے کا راستہ اپنایا۔جسے کئی مزدوروں کو قتل کر دیا گیا۔زندہ بچ جانے والے مزدوروں نے اپنے ساتھیوں کے لہو سے اپنے کپڑے سرخ کر کے اپنی قمیضوں کو سرخ پرچم کے طور پر لہرا کر جد وجہد کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا۔1889ء میں مزدوروں کی بین الاقوامی تنظیم دوسری انٹر نیشنل کی کانگریس میں اینگلز کی کوششوں سے یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا گیا اُس وقت سے لے کر آج تک ہر سال دنیا بھر کے مزدوریوم مئی کو مزدور ڈے کے طور پر مناتے ہیں اگرچہ سرمایہ دار طبقات نے اس دن کی اہمیت کو دھندلا کر پیش کرنے کی کوشش کی،اگرچہ مزدور جد وجہد کی داعی ٹریڈ یونین اور نام نہاد سوشلسٹوں نے بھی سوویت یونین کے انہدام کے بعدمزدور جدوجہد اور یوم مئی ایسے پروگرامات سے بھی توبہ تائب کر لی تھی لیکن سچائی کو جتنی دبانے کی کوشش کی جائے وہ اتنی ہی شدت کے ساتھ پھر سے منظر عام پر ابھرتی ہے۔یوم مئی کے ضمن میں بھی یہی صورتحال ہے یہ عالمی محنت کش طبقے کی محنت کی اکائی پر جڑت کا دن ہے اس بار یوم مئی کو پوری دنیا کے مزدور زیادہ جوش وخروش کے ساتھ منانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔یوم مئی 2012ء اس حوالے سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ پھر عرب انقلاب اور آکوپائی وال سٹریٹ ایسے واقعات کے رونما ہونے کے دور میں منایا جا رہا ہے۔ان واقعات نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو احساس دلایا ہیکہ اگر آج بھی وہ متحد ہو کر ان سرمایہ داروں کے خلاف لڑیں تو وہ ان سرمایہ داروں کی حاکمیت کو اکھاڑ کر پھینک سکتے ہیں۔اس صورتحال میں یوم مئی اپنی اصل روح کے ساتھ پوری دنیا کے محنت کشوں کے احساسات کو جاگزیں کرے گاکہ یہ دن کسی خاص قوم،رنگ ونسل،مذہب یا فرقے کا نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کے محنت کشوں کا دن ہے اسلئے یہ دن پوری دنیا کے محنت کشوں کو متحد کرنے اور متحد ہونے کی تلقین کرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اس سال یوم مئی اہم اثرات مرتب کرے گا۔حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ کے خلاف عوام میں اور با لخصوص نوجوانوں میں شدید غم وغصہ پا یا جاتا ہے ان دنوں پاکستان میں ایک نعرہ بہت مقبول ہو رہا ہے کہ ساڈا حق ،اتھے رکھ۔یوم مئی اس نعرے کو وہ حقیقی معنی دے سکتا ہے، جنھیں نو جوان سمجھ کر اپنی جد و جہد کے کردار کواس نظام کے خلاف جدوجہد میں منظم کر سکتے ہیں۔65سال سے پاکستان کے حکمرانوں نے محنت کش طبقے کے ا ستحصال کے لئے مذہبی،قومی اور لسانی تعصبات کو استعمال کیا تاکہ محنت کشوں کے شعور کو مسخ کیا جا سکے ۔موجودہ صورتحال میں حکمران ایک بار پھر انہی تعصبات کی آگ کو بھڑکانے پر عمل پیرا ہیں۔ذرائع ابلاغ کے تمام تر شور و غل کے باوجود محنت کش عوام نے ان مذہبی اور قومی غیرت کے جذبات بھڑکانے والے لیڈروں اور پارٹیوں کے حوالے سے عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے اسکی اہم وجہ یہ ھیکہ اسوقت افق پر حاوی تمام سیاسی پارٹیاں اور متحارب قوتیں محنت کش عوام کے سامنے اپنی قدر و منزلت کھو چکی ہیں۔ یوں یوم مئی 2012ء پورے ملک کے محنت کشوں کو محنت کی اساس اور اکائی پر جڑت کا پیغام دیتا ہے۔ پاکستان کے محنت کش اپنی زندگی کے تجربات سے سیکھتے ہوئے سرمائے کے جبر کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے متحد ہو کر جد وجہد کے میدان میں اتریں گے۔اس دفعہ یوم مئی کے حوالے سے مختلف ٹریڈ یونینوں اور طلباء تنظیموں نے پروگرامات تشکیل دے دئیے ہیں جسے ہم بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یوم مئی بڑے پیمانے پر منایا جائے گا۔ فکری زوال پذیری کی وجہ سے مختلف قوم پرست پارٹیوں کی نچلی پرتوں میں اور خاص کر نوجوانوں میںیوم مئی کے حوالے سے بحث و مباحثے ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ بہت سی قوم پرست پارٹیاں بھی اس دن کو منانے کا اعلان کرچکی ہیں۔
قوم پرستوں کے لئے یہ بڑا کڑا وقت ہے وہ آگے بڑھیں یا پیچھے ہٹیں ان کے پاؤں تلے سے زمین سرکنے لگی ہے یہ ایک اہم تبدیلی ہے جوصورتحال کو مزید تبدیلی کی جانب لے جائے گی۔یہ صورتحال مارکسسٹوں کیلئے اپنے اثرورسوخ اور قوتوں میں اضافے کا موجب بن سکتی ہے اس کیفیت میں ہم محنت کش طبقے کے عالمی انقلاب کے سائنسی پروگرام کے ساتھ اور ایک بین الاقوامی پرولتاری تنظیم کی تعمیر کے احساس کے ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کی بڑی تعداد کو اپنے ساتھ جیت سکتے ہیں۔بالخصوص نوجوانوں کو توجہ دیتے ہوئے ان کے سامنے ایک انقلابی قیادت کی ضرورت اسکی تعمیر اورکردار کے حوالے سے تمام سوالات کو واضح کرنے کی ضرورت ہے۔دوسرے افق پر حاوی رجعت پر مبنی اطاعت پرستی اور شخصیت پرستی کو مسترد کرتے ہوئے ایک سائنسی نظرئیے،لائحہ عمل اور طریقہ کار پر مبنی متوازن سوچ کو اپنانے کی طرف نوجوانوں کو راغب کرنا چاہئیے۔ موجودہ عہد میں ہونے والے واقعات نے پھران بنیادی سوالوں کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی ہے کہ؛ زندہ کیوں رہا جائے ؟اور لڑا کس لئے جائے؟سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخی متروکیت اور محنت کش طبقات کے اوپر ظلم وستم نے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو مذکورہ سوالات کے متعلق سوچنے اور غوروفکر کرنے کی جانب راغب کیا ہے۔تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس وقت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی طبقاتی خلیج موجود ہے۔کیونکہ جب تک طبقات رہیں گے طبقاتی کشمکش بھی رہے گی۔اس لئے ایک طبقات سے پاک معاشرے کے قیام کیلئے ہمیں بہر صورت اس نظام کو تبدیل کرنا ہو گا اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کو اکھاڑ کر پھینکنا ہو گا۔کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام اب متروکیت کی اس کیفیت میں ہے جسے مہنگائی،بیروزگاری،غربت، جہالت جنگیں اور جرائم برآمد ہو رہے ہیں۔یہ نظام جتنا عرصہ باقی رہے گا یہ اتنا ہی خونخواراور وحشی ہو کر انسانیت کو تہ و تیغ اور تاراج کرتا رہے گا۔موجودہ دور میں پوری دنیا میں محنت کش طبقے کی ابھرنے والی تحریکیں، حکمران طبقے میں پھوٹ،درمیانے طبقے کا تذبذب کی کیفیت میں مبتلا ہونا ایک عہد کے خاتمے اور ایک نئے عہد کے جنم کی نوید دے رہا ہے۔عرب انقلاب اور آکو پائی وال سٹریٹ موومنٹ نے ایک بار پھراس سچائی کو سامنے لایا ہے جسے 1940ء میں ٹراٹسکی نے ان الفاظ میں بیان کیا تھا،کہ آج کا بحران سمٹ کر قیادت کے بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔ تیونس،مصر اور لیبیا میں ہونے والے واقعات نے ایک انقلابی قیادت کے فقدان اور ضرورت کے سوال کو سامنے لایا ہے۔یہی سبق ہمیں دنیا کے دیگر خطوں میں ہونے والے واقعات سے ملتا ہے آج کا اہم اور انقلابی فریضہ محنت کشوں کی بین الاقوامی تنظیم کی تعمیر ہے۔ایک بین الاقوامی پرولتاری تنظیم کے بغیر محنت کشوں کا عالمی انقلاب نہیں کیا جا سکتا یہ ایک سادہ سی سچائی ہے جسے ہمیں ہر وقت دل و دماغ میں رکھنا ہو گا۔آج سٹالنزم سے لے کر اصلاح پسندی تک تما م نظریات متروک ہو چکے ہیں۔ٹراٹسکی ازم لگ بھگ ایک صدی تک راندہ درگاہ بننے کے بعد بھر پور سچائی کے ساتھ پہلے سے زیادہ توانا ہو کر پوری دنیا کی مظلوم اقوام اور محنت کش طبقے کی نجات کا راستہ بن کر سامنے آیا ہے۔ہمیں چاہیے کے تاریخ کے عائد کیے ہوئے اس انقلابی فر یضے کی تکمیل کیلیئے جد و جہد کے عمل کو تیز کریں۔
مارکسی لینینی بنیادوں پر ایک پرولتاری انٹر نیشنل کی تعمیر کرتے ہوئے آگے بڑھو۔ یہی یوم مئی کا پیغام ہے۔آگے بڑھو کے منزل پکارتی ہے!