فریاد کر کے بھی دیکھ لو

[تحریر: لال خان]
بلوچستان کے گمشدہ افراد کی بازیابی کے لئے 27 اکتوبر 2013ء کو کوئٹہ سے شروع ہونے والا لانگ مارچ ایک طویل اور کٹھن سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچ گیا ہے۔ 60 سالہ ماما قدیر بلوچ کی قیادت میں اس لانگ مارچ نے پہلے مرحلے میں کوئٹہ سے کراچی تک 730 کلومیٹر کا سفر طے کیا جہاں سے 23 نومبر کو دوسرے مرحلے کا آغاز وسط دسمبر میں کیاگیا۔ یوں مجموعی طور پر لانگ مارچ کے شرکا نے 3000 کلومیٹر کا طویل سفر پیدل طے کیا۔ اس سفر کو تاریخ کے بڑے پیدل مارچوں میں شمار کیا جارہا ہے۔ ماما قدیر کے کارواں میں 9 خواتین اور تین بچوں سمیت کل 26 افراد شریک ہیں۔ اس لانگ مارچ کو میڈیا پر کوریج آخری دنوں میں ہی ملنا شروع ہوئی۔ تاہم شرکا نے انتہائی ثابت قدمی، استقلال اور ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنا سفر مکمل کیا ہے جس سے بلوچستان میں گم شدہ افراد کا سلگتا ہوا مسئلہ ایک بار پھر منظر عام پر آگیا ہے۔
مختلف علاقوں میں لانگ مارچ کی طرف عام لوگوں نے ملے جلے رد عمل کا مظاہرہ کیا۔ عام طور پر قوم پرست یا بائیں بازو کی چھوٹی تنظیمیں مختلف علاقوں میں مارچ کا استقبال کرتی نظر آئیں۔ اس کے علاوہ ریاستی ایجنسیوں نے مارچ کو روکنے کی کوشش بھی کی۔ ماما قدیر کے بقول رینالہ خورد کے قریب ایک ٹرک نے شرکا کو کچلنے کی کوشش کی جس سے ایک خاتون سمیت دو مارچ میں شریک دو افراد زخمی ہوئے۔ ٹرک ڈرائیور کو پکڑ کے پولیس کے حوالے کیا گیا جہاں سے وہ حسب روایت ’’فرار‘‘ ہوگیا۔ اس کے علاوہ پولیس اور خفیہ اداروں کی جانب سے وقتاً فوقتاً دھمکیاں بھی دی جاتی رہیں۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود لانگ مارچ کے شرکا آخر کار اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو ہی گئے۔
ماما قدیر بلوچ کے مطابق اب تک بلوچستان سے 19200 افراد کو ’’اٹھایا‘‘ جاچکا ہے جن میں سے 2200 افراد کی مسخ شدہ لاشیں مل چکی ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور بلوچستان کے دوسرے علاقوں میں فوجی آپریشن بھی جاری ہے جس میں یکم مارچ کو مزید 19 افراد کو مارا گیا ہے۔ ماماقدیر کے مطابق ’’حکومت پاکستان، پارلیمان اور سپریم کورٹ ایجنسیوں کے سامنے بے بس ہیں اور بلوچ سیاسی کارکنان کو اٹھانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ بلوچستان کے سیاستدان بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے لئے امید کی آخری کرن اقوام متحدہ ہے۔ ‘‘
لانگ مارچ کے شرکا کی جرات اور بہادری جتنی قابل تحسین ہے، اقوام متحدہ سے کسی بھلائی اور نجات کی امید اتنی ہی افسوس ناک ہے۔ اقوام متحدہ سامراجی طاقتوں کے ڈسکشن کلب کے علاوہ اور کیا ہے؟ اس دارے کا مقصدسامراج کی قتل و غارت گری اور مالیاتی استحصال کو قانونی جواز فراہم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لینن نے اقوام متحدہ کی بانی تنظیم ’’اقوام کی انجمن‘‘ (League of Nations) کو ’’چوروں کا باورچی خانہ‘‘ قرار دیا تھا۔ تاریخ میں کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں سامراجی مفادات کے خلاف مظلوم قومیتوں کے حقوق اور آزادی کو اہمیت بھی دی گئی ہو۔ اسلام آباد میں جس ادارے کے دفتر میں ماما قدیر نے اپنی پٹیشن جمع کروانی ہے وہ عالمی رہزنوں اور ڈاکوؤں کے چندے پر چلتا ہے۔ دنیا بھر میں لوٹ مار کرنے والی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کی نمائندہ سامراجی ریاستیں اپنے سٹریٹجک مفادات کے تحت اس ادارے کی پالیسیاں ترتیب دیتی ہیں۔
اقوام متحدہ میں ’’انسانی حقوق‘‘ نامی کسی چیز پر کوئی بحث ہوتی بھی ہے تو اس کا مقصد دکھاوے کی کاروائی کرنا ہوتا ہے۔ اس ادارے کی قراردادیں کے چکر میں فلسطینی اور کشمیری عوام کی نسلیں گزر گئی ہیں۔ اسرائیل کی وحشت کے خلاف جنرل اسمبلی میں پاس ہونے والی لا تعداد قراردادوں پر آج تک عمل درآمد نہیں ہوسکا ہے۔ کشمیر کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ سامراجی جبر کے ساتھ ساتھ معاشی اور سماجی استحصال کا شکار کشمیر اور فلسطین کے عوام نے بہت عرصہ پہلے اقوام متحدہ کی طرف دیکھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کا طریقہ واردات بھی پاکستانی عدلیہ سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں معاملے کو اتنا طول دیا جاتا ہے کہ بات ’آئی گئی‘ ہوجاتی ہے۔ کشمیر اورفلسطین میں نئی نسل اب معاشی اور سماجی مسائل کے حل کے لئے اپنے زور بازو پر انحصار کرتے ہوئے مظاہرے اور تحریکیں برپا کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔
اس وقت سیکیورٹی کونسل کے پانچ میں سے دو ممبران بلوچستان میں جاری کئی فریقی پراکسی جنگ میں براہ راست ملوث ہیں۔ یہ سامراجی قوتیں بلوچستان کے معدنی وسائل اور گوادر بندرگاہ پر کنٹرول کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار ہیں۔ سیکیورٹی کونسل ایک غیر منتخب آمرانہ ادارہ ہے جس میں ایک بھی مستقل ممبر ویٹو کر کے کسی قرار دار کو کوڑے دان میں پھینک سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اگر سامراجی قوتوں کی آپسی چپقلش میں کوئی قراردار ویٹو ہوجائے تو بھی انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ 2003ء میں کیا سیکیورٹی کونسل امریکہ اور برطانیہ کو عراق پر چڑھائی سے روک پائی تھی؟ امریکہ کے ہاتھوں سرعام ذلیل و رسوا ہونے کے بعد اقوام متحدہ نے اس کا کیا بگاڑ لیا ہے؟ حال میں شام کی مثال سب کے سامنے ہے جہاں سامراجی قوتوں کی پراکسی جنگ ڈیڑھ لاکھ افراد کی جان لے چکی ہے اور ساتھ ہی ساتھ سیکیورٹی کونسل ’’امداد‘‘ کی قراردادیں بھی پاس کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ایوانوں میں فیصلے کچھ بھی ہوں، سامراجی قوتیں اپنی واردات بلا روک ٹوک جاری رکھتی ہیں۔

ڈاکٹر نجیب

1992ء میں جب ڈاکٹر نجیب اللہ اقتدار سے معزول ہوئے تو انہوں نے کو ملک چھوڑنے کا مشورہ رد کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے کابل دفتر میں پناہ لے لی۔ ستمبر 1996ء میں مذہبی جنونیوں نے بغیر کسی مزاحمت کے انہیں اقوام متحدہ کے دفتر سے نکال کر بے دردی سے قتل کیاجس کے بعد ڈاکٹر نجیب اور ان کے بھائی کی لاشوں کو مسخ کرکے کابل کے چوراہے میں کھمبوں سے لٹکا دیا گیا۔ اقوام متحدہ اور ’’عالمی کمیونٹی‘‘ (جس کی سول سوسائٹی بہت دلدادہ ہے) خاموش تماشائی بنے رہے۔ یہ اقوام متحدہ دراصل ’’اقوام غیر متحدہ‘‘ ہے جس میں طاقتور معاشی اور فوجی طاقتیں سفارتی ناٹک کرتی ہیں اور غریب ممالک کے سفارتکا ر اور حکمران ان ڈراموں میں ایکسٹراکا کردار ادا کرتے ہیں۔
مشہور مارکسی دانشور ایلن ووڈز کے الفاظ میں اقوام متحدہ ’’سامراج کی داشتہ‘‘ ہے۔ یہ ادارہ بلوچستان جیسے خطوں میں جاری مختلف سامراجی اور علاقائی طاقتوں کے درمیان بالواسطہ جنگ اور ریاستی جبر کا کوئی حل پیش نہیں کرسکتا۔ ماما قدیر کے مطابق ریاستی خفیہ ایجنسیاں اگر پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے قابو میں نہیں ہیں تو بیچاری اقوام متحدہ کیا کرلے گی؟اگر پچھلے ستر سال کے واقعات اور تجربات سے بھی کوئی اقوام متحدہ کا کردار نہیں سمجھ پایا تو اسے کج فہمی ہی کہا جاسکتا ہے۔

’’خونی اتوار‘‘ کا تصوراتی خاکہ

تاریخ گواہ ہے کہ فریاد کرنے والوں کو جابر حکمران دوگنی سزادیتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے آگے فریاد کرنے کی نامرادی کے واقعات سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ 1905ء میں روس کے محکوموں نے بھی ایسی ہی غلطی کی تھی۔ ہزاروں محنت کش فادرگیپون کی قیادت میں، برفانی طوفان کے تھپیڑوں سے لڑتے ہوئے اپنی فریادی پٹیشن لے کر شہنشاہ روس (زار) کے سرما محل کی طرف جارہے تھے۔ اس پر امن جلوس میں بالشویک پارٹی کے کامریڈ ایک لیف لیٹ بانٹ رہے تھے جس میں لکھا تھا کہ یہ بادشاہ ظالم اور جابر ہے، اس کے سامنے فریاد کرنے کی بجائے انقلاب کا راستہ اختیار کیا جائے۔ اس وقت تک روسی عوام کی اکثریت زار کو ’’باپ‘‘ کا لقب دیتی تھی اور اس سے بہت سی خوش فہمیاں وابستہ تھیں تھیں۔ کچھ محنت کشوں نے ان انقلابیوں کو شر پسند قرار دے کر لعن طعن کی اور پیچھے دھکیل دیا۔ جب یہ فریادی جلوس سرما محل کے قریب پہنچا تو زارکی فوج نے گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ سینکڑوں مزدور ہلاک ہوگئے۔ اتنا خون بہا کہ سفید برف سے اٹا ہوا محل کے سامنے کا میدان سرخ ہوگیا۔ کچھ دیر پہلے بالشویک انقلابیوں کو مسترد کرنے والے محنت کش اب رہنمائی حاصل کرنے کے لئے انہیں ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ اس واقعے نے روس کے محنت کش طبقے کو بہت بڑا سبق سکھایا۔ روسی محنت کش عوام نے فریاد کا طریقہ کار ہمیشہ کے لئے ترک کر کے طبقاتی جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ یہ جدوجہد میں 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب پر منتج ہوئی۔
بلوچستان میں مسلح جدوجہد کی کئی کاوشیں کی گئی ہیں۔ قربانیوں کی ایک طویل داستان کے باوجود بلوچستان کے باسیوں کا قومی اور طبقاتی استحصال آج بھی جاری ہے۔ بلوچستان میں ریاستی جبر سے لے کر غربت، محرومی اور بے روزگاری کے مسائل اس نظام میں حل ہونے والے نہیں ہیں۔ یہ متروک سیاست، معیشت اور ریاست استحصال اور جبر کو بڑھا سکتی ہے ، کم نہیں کرسکتی۔ اس غلامی اور محرومی سے نکلنے کے لئے طبقاتی بنیادوں پر انقلابی سیاست کو منظم اور متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی اس نظام کی زنجیروں کو توڑ کر انسانیت کو ہر ذلت سے نجات دلا سکتا ہے!

متعلقہ:
بلوچستان کے گھاؤکب بھریں گے؟
پاک چین معاشی راہداریاں: ہمالیہ سے بلند دوستی یا لوٹ مارکے نئے راستے؟
بلوچستان: ظلمتوں میں انقلاب بھی سلگ رہا ہے۔ ۔ ۔
ویڈیو: بلوچستان میں آگ اور خون کا کھیل۔ ۔ ۔ ذمہ دار کون؟
بلوچستان: نواز شریف کی ’فیاضی‘
کشمیر کی پکار
فلسطین کے رستے ہوئے زخم