مالاکنڈ یونیورسٹی کی طالبات کے ساتھ ایک ملاقات اور انٹرویو

رپورٹ:ماہ بلوص:-
خیبرپختونخواہ کے اکثر علاقے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘کا میدان بنے چلے آرہے ہیں ۔طالبان اور پاکستانی فوج کی کراس فائرنگ میں عام لوگ مرتے آرہے ہیں۔اس خونریزی اور جنونیت کی فضا میں بھی اس علاقے کے نوجوان طلبا ء وطالبات یونیورسٹیوں کالجوں اورسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔9اپریل کو آل پاکستان پروگریسویوتھ الائنس کی مرکزی قیادت کے ایک وفدنے چکدرہ میں واقع یونیورسٹی آف مالاکنڈکا دورہ کیا اور وہاں نہ صرف طلبا بلکہ طالبات تک بھی سوشلسٹ نظریات کا پیغام پہنچایا۔
الائنس کے قافلے میں شریک کامریڈ ماہ بلوص نے طالبات کے کیفے ٹیریامیں طالبات سے ملاقات او ر گفتگو کی ۔اس وقت وہاں 20طالبات موجود تھیں جنہوں نے گفتگو میں حصہ لیااور بائیں بازو کے نظریات کو سراہا۔اس سلسلے میں وہاں خواتین کے حوالے سے ’’پاکستان؛ سوشلسٹ انقلاب کے بعد؟‘‘میں شامل پروگرام کو ایک لیفلیٹ کی شکل میں تقسیم کیا گیا۔
طالبات نے اپنے مسائل بتاتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی تک ان کی رسائی انتہائی مشکل ہے اور ان مشکلات میں سماجی اور معاشی رکاوٹیں نمایاں ہیں۔معاشی زوال کے عہد میں والدین اپنی بیٹیوں کی پڑھائی پر بیٹوں کی پڑھائی اور ڈگری کو زیادہ ترجیح دینے لگے ہیں۔طالبات نے بتایا کہ ان کی یونیورسٹی میں 30فیصد طالبات ہیں جن کی تعدادچھ سے سات سو کے لگ بھگ ہے ۔جبکہ یونیورسٹی میں طالبات کیلئے کوئی ہاسٹل موجود نہیں ۔طالبات کو ٹیچرز کے کوارٹرز میں کھپایا جاتاہے ہر کوارٹرمیں پانچ کمرے ہیں جبکہ چار سو کے قریب طالبات کو دس کوارٹرزمیں رہائش فراہم کی گئی ہے ۔ادارے کی طرف سے کوئی سہولت فراہم نہیں کی جارہی ہے ۔علاج معالجے کی تو قطعی کوئی سہولت میسر نہیں ہے ۔ان ’’ہاسٹلوں‘‘کا سب سے بڑا مسئلہ ’’میس‘‘ یعنی کھانے کا ہے ،یہاں کھانے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ہر ایک طالبہ کو اپنے کھانے پینے کا خود ہی بندوبست کرناہوتا ہے ۔پچھلے دنوں ایک طالبہ کھانا بناتے ہوئے سلنڈر پھٹنے سے ہلاک ہو گئی ۔اس کو اپنی ایم بی اے کی ڈگری لئے ہوئے ابھی دو ہی دن گزرے تھے اور وہ گھر جانے کی تیاری میں لگی ہوئی تھی ۔لیکن اس کی لاش ہی گھر پہنچی ۔اس واقعے کو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے دبائے رکھا اور کسی طرح باہر نہیں آنے دیا۔طالبات نے مطالبہ کیا کہ اس قسم کے واقعات کی روک تھام کیلئے یونیورسٹی میں باقاعدہ ہاسٹل قائم کئے جائیں جن میں سبھی ضرورتیں فراہم کی جائیں۔
طالبات نے بتایا کہ مہنگی تعلیم ،ہاسٹلز کی عدم موجودگی کے بعد ایک اور اہم مسئلہ مہنگی ٹرانسپورٹ کا ہے۔یونیورسٹی کی بسیں صرف دن میں چلتی ہیں۔شام میں ہونے والی کلاسز لینے کے کیے طالبات کو ٹرانسپورٹ کا خودہی انتظام کرنا پڑتا ہے،جس میں ہر ماہ 4سے5ہزار تک لگ جاتے ہیں۔اس مصائب کے بعد بھی یونیورسٹی میں تعلیم صرف گریجوایشن تک کی میسر ہے۔ماسٹرز کے لیے الگ سے پرائیویٹ کلاسز لینا پڑتی ہیں جو کہ بہت زیادہ مہنگی ہیں۔اس کے ساتھ ہی تمام طالبات نے آل پاکستان پروگریسو یوتھ الائینس کے پروگرام ، مطالبات او ر حل کے ساتھ اتفاق کیا اور اظہار یکجہتی کیا اور یونیورسٹی میں طلبا یونین کے قیام اورانتخابات کے پروگرام پر اتفاق کیا۔