لوڈ شیڈنگ کا حل یا بربادی کا راستہ؟

[تحریر: قمرالزماں خاں]
اقتدار سنبھالنے کے ایک ہفتے کے اندر بجلی اور تیل کے نرخ تین دفعہ بڑھانے کے بعد اب قیمتوں کے اضافے کے میدان میں ’’ایٹمی حملہ‘‘ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ حکمرانوں کے میڈیا میں دوستوں نے نام نہاد ’’سروے‘‘ کرانے کے بعد ٹیلی وژن چینلز پر تکرار کے ساتھ اعلانات کرنا شروع کردئے ہیں کہ لوگ ’’بجلی کی مسلسل فراہمی‘‘ کی شر ط پرتیس فی صد تک بجلی کے نرخوں میں اضافے کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں۔ یہ مضحکہ خیز ’’سروے ‘‘ 8 لاکھ مربع کلومیٹر میں پھیلے ہوئے ملک کے انیس بیس کروڑ لوگوں میں سے صرف چند سو لوگوں کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کا عوام کے دردناک مصائب، منشا اورخواہشات کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں۔ پاکستانی حکمرانوں کی موج ہے کہ ہر بحران انکے اپنے اثاثے اور منافع بڑھانے کے علاوہ مختلف النوع سامراجی قوتوں کی خدمت گزاری کے بہت سے مواقع فراہم کرتا ہے، جس میں سے انکے لئے کک بیکس کے روشن مواقع موجود ہوتے ہیں۔ بجلی کا بحران اگرچہ سابق حکومت کی شرمناک شکست کا باعث بنا لیکن موجودہ حکمرانوں اوربجلی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے انکے ملکی اور غیر ملکی دوستوں کی آنے والی نسلوں کے تابناک مستقبل کی نوید سنا رہا ہے۔ بجلی کے بحران کو حل کرنے کے منصوبے اگر شروع بھی کردیے جاتے ہیں تو حکومت کے (اب تک کے) متعدد دعووں کی سیریل کے آخری دعوے کے مطابق لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ چار سال بعد یعنی 2017ء تک ہوگا، مگرحیران کن بات یہ ہے بجلی کے نرخوں میں قیامت خیز اضافہ دو مہینوں بعدہی ہوجائے گا جبکہ لوڈشیڈنگ اگلے چار سال تک جاری رہے گی۔ حکومت کا دعویٰ کہ بجلی کا ایک یونٹ 16.6 روپے کا پیدا ہوتا ہے انتہائی مبالغہ آمیزی، جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی ہے۔ پیداوری قیمت16.6 روپے فی یونٹ صرف اسی صورت میں ہوسکتی ہے اگراس پیدا ہونے والے یونٹ کوتین چار دفعہ صارف سے پہلے خودہی مصنوعی طور پر بیچا اور خریدا جائے (یعنی پبلک سیکٹر نجی کمپنیوں کو اپنی سستی بجلی بیچے اور بعد ازاں یہی بجلی زیادہ قیمت پر تقسیم کار کمپنیاں آئی پی پیز سے خرید کر صارف تک پہنچائیں) اور قیمت ہر مرحلے پر بڑھتے ہوئے حکومت کے طے شدہ اہداف تک پہنچ جائے۔ بجلی کے ایک یونٹ کی پیداواری لاگت کیا ہے؟ اس پر حکومت اور اسکے حلیف میڈیا کا پراپیگنڈہ بدیانتی اور لوٹ مار کی نفسیات کا عکاس ہے۔ حقیقت فوری طور پر آشکار ہوجائے گی اگر پیداوار سے صارف تک پہنچنے کے ہر مرحلے کو عوام الناس کے سامنے کھول کررکھ دیاجائے۔ پیداواری قیمت بڑھانے میں انٹرنیشنل انرجی پرووائڈرز کے ساتھ کئے گئے معاہدہ جات، شرائط اور حربوں سے عوام کی آگاہی، تقسیم کارکمپنیوں کے ڈائریکٹرز اور اعلی حکام سمیت واپڈاافسروں اور اراکین بورڈز کے بھاری بھرکم معاوضے اور بیرونی دوروں کے اخراجات، بجلی پیدا کرنے کے نام نہاد منصوبوں پر ضائع کئے جانے والی خطیر رقمیں اورغریب صارفین پر عائدٹیکسوں کی تفصیلات کو عام کرنا ضروری ہے جس سے حقائق واضح ہوجائیں گے۔ بجلی کی قیمتوں میں بے پناہ اضافے کا منصو بہ واضح طور پر نجی شعبے میں بجلی بنانے کے والے ملکی اور غیر ملکی ’یاردوستوں‘ کو ’نوازنے‘ کا ایک قانونی ہتھکنڈہ نظر آرہا ہے۔ البتہ درآمدی تیل کے عامل کی وجہ سے اسکی قیمتوں میں اضافے اور روپے کی قدر میں کمی ایسے عناصر ہے جس کا تدارک کرنے کے لئے تیل سے پیدا ہونے والی بجلی کو متبادل وسائل پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے جس کے لئے مالیاتی وسائل سے زیادہ غلامی کی نفسیات سے چھٹکارا اور سامراجی اداروں کی دکھائی راہ کی بجائے اپنے ملک اور عوام کے مفادات کو مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے! سر دست موجودہ حکمران طبقے کے تمام دھڑے اس سوچ اور احساس سے ماورا دنیا میں زندگی بسر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں پہیہ الٹا گھوم رہا ہے، شمالی امریکہ کے بولیویا جیسے غریب ملک میں بجلی کے بحران کا حل نیشنلائیزیشن کرکے نکالا گیا ہے، یہاں نج کاری کا فریب کیا جارہا ہے جس سے بجلی کا سستا اور پورا ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
بجلی کے نرخوں میں قیامت خیز اضافہ بجلی کی چوری میں کمی کی بجائے اس میں اضافے کا باعث بنے گا۔ اس ضمن میں تین سال کی سزااور جرمانے زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکیں گے بلکہ اسکا ردعمل بہت شدید نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ اگربجلی حقیقی پیداواری قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر ہی مہیا کی جانے ہے اور ساتھ میں لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے چھٹکارے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی، انفراسٹرکچر کی فرسودگی کی وجہ سے بجلی کی ٹرپنگ اور وولٹیج معمول بن چکی ہے تو پھر سزااور جرمانے صارفین کی بجائے حکمرانوں اور اداروں سے کروڑوں روپے سالانہ تنخواہ اور مراعات لینے والے افسروں کو ہونے چاہئے۔ اگر بجلی چوری کرنا قابل تعزیر جرم ہے تو بجلی کی پیداواری صلاحیت ضرورت سے زائد ہونے کے باوجود لوڈ شیڈنگ بھی قابل تعزیر جرم ہونا چاہئے۔ چوری پر سزا ضرور دی جانی چاہئے مگر بجلی کے نرخوں کی چور بازاری کے ذریعیبیس کروڑ عوام کو لوٹنے کے جرم میں بھی سر بازار سزا دی جانی چاہئے۔ لوڈ شیڈنگ حالیہ سالوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مملکت خداداد پاکستان، سرمایہ دارانہ نظام کے جس تاریخی حصے میں ساکت و جامدرہ جانے پر مجبور ہوگئی ہے اس کے ساختی بحران کا ایک پہلوہے۔ جیسے چھیاسٹھ سالوں میں کروڑوں انسانوں کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں کیا جاسکاکیونکہ پانی کی ذخیرہ گاہوں اور انفراسٹرکچر میں درکار اضافہ نہ ہوسکا۔ تعلیم کو عام، یکساں اور مفت نہیں کیا جاسکا اور خواندگی مبالغہ آمیز دعووں کے ساتھ صرف چالیس بیالیس فی صد تک ہوسکی، اسی طرح پاکستان کے ہمہ قسم کے فوجی و سول حکمران اس ملک کو جدیدریاست بنانا تو درکنار اس سمت معمولی پیش رفت بھی نہیں کرسکے۔ بجلی، نکاسی آب، ریل، آبپاشی کا دم توڑتا نظام ہو، انڈسٹریل انفراسٹرکچر کی بوسیدگی اور پسماندگی ہو یا سماجی، قومی، مذہبی، ثقافتی اور زندگی کو بلند انسانی معیار تک پہنچانے میں ناکامی جیسے مسائل، حقیقی وجہ ’’قومی جمہوری انقلاب‘‘ کے مراحل کا طے نہ ہونا ہے۔ پاکستان اور اس جیسی تاریخ میں پیچھے رہ جانے والی مملکتوں میں چھوٹی اور زیر دست قومیتوں کوشدید استحصال اور قومی مسئلہ، عورتوں کے حقوق، مذہب اور ریاست کا تعلق، مذہبی اقلیتوں کا مسئلہ، جمہوریت کا قیام جیسے مسائل کا سامنا اسی وجہ سے ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جو مسائل کئی سو سال پہلے حل ہوچکے ہیں یہاں ان میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ ان ناکامیوں اور شکستوں کا ذمہ دار حکومتی ناکامی یا افراد کی نااہلی کو ٹھہرایا جانا ایک جرم ہے۔ ہر پانچ سال بعد یا کچھ سالوں بعد ایک ’’ناکام‘‘ حکومت کی جگہ پر ایک ’’نئی حکومت‘‘ ایک بار پھر ناکام ہونے کے لئے آجاتی ہے۔ مگر ہر حکومت کی ناکامی کو ’’نظام کی ناکامی‘‘ تسلیم کرنے کی بجائے چند ’’ذمہ دار افراد‘‘ ڈھونڈکر ساری ناکامی کی جوتیوں کاہار انکے گلے میں لٹکادیا جاتا ہے۔ یہی وجہ بحرانوں کو حل کرنے کی بجائے بڑھانے کا باعث بن رہی ہے۔ موجودہ نظام معیشت اس قابل نہیں رہا کہ وہ ترقی یافتہ سماجوں کے مسائل حل کرسکے، پاکستان جیسے ملک میں تو اس قسم کی توقع ہی جہالت یا بدیانتی کی پیدوار ہے۔ پاکستان میں (چند ایک سالوں کے استشنا سے) پچھلے تیس چالیس سالوں میں لوڈشیڈنگ کا عفریت عوام کو اپنے غیض و غضب کا شکار بنارہا ہے۔ آج کی معیشت جس کو ’’ٹریکل ڈاؤن اکانومی‘‘ کہا جاتا ہے میں زیادہ تر کٹوتیوں پر زور دیا جاتا ہے اور ریاستی املاک کی فروختگی سے اخراجات اور خسارے پورے کرنے کی ترکیب نکالی جاتی ہے۔ عالمی سطح پر نج کاری کے اس عمل نے کمزور معیشتوں کو برباد کرنے، اجارہ داریوں کے فروغ اور مصنوعات کو مہنگا کرنے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری اور افلاس کو خوب بڑھایا ہے اور یہی نتائج پاکستان میں 1990ء کی دہائی میں نواز شریف اوربے نظیر بھٹو کی حکومتوں کی نج کاری سے مرتب ہوئے ہیں۔ شریف برادران خوش قسمت ہیں کہ سماج کے تمام بحران انکے حلیفوں اور ساتھیوں کی معاشی خوشحالی کیلئے نت نئے دریچے کھولنے کا باعث بن رہے ہیں۔ میاں برادران نج کاری کے اصطلاح کو اپنے اور اپنے قریبی ساتھیوں کے کاروبار میں اضافے کو ذہن میں رکھ کراستعمال کرتے ہیں جیسے ماضی کی حکومتوں میں میاں منشا ء کو مسلم کمرشل بنک کا محض پنسٹھ کروڑ میں دیے جانے کا میگاسکینڈل شامل ہے، جب کہ اسکا ایک سال کا منافع بھی اس رقم سے دگنا تھااور پھر سیمنٹ، گھی، شوگر ملزسمیت متعدد صنعتوں پر اپنے من پسند گروپوں کی اجارہ داری قائم کرانا۔ موجودہ عہد میں بجلی ایک ایسا آئٹم ہے جس کی قلت اور مانگ سرمایہ دارانہ منڈی میں بے نظیر منافع کے مواقع فراہم کررہی ہے۔ حکومتی عزائم کو مدنظر رکھا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ صنعتی اور کمرشل صارف کے لئے فی یونٹ قیمت بیس سے پچیس روپے تک کی جاسکتی ہے، ایسا کرنے کے لئے ذہن سازی کا عمل جاری ہے۔ گھریلو صارفین کو بھی کم از کم سولہ سترہ روپے فی یونٹ بیچا جائے گا اور نام نہاد سب سڈی کا اطلاق دو سو یونٹ تک کا استعمال کرنے والے صارفین پر ہوگا، تیز میٹروں کی موجودگی میں اور پچاس سنٹی گریڈکی گرمی میں شہری علاقوں میں کسی بھی گھر میں استعمال ہونے والی بجلی دو سویونٹ سے بہرحال زیادہ ہوتی ہے۔ صوبوں کے مشترکہ مفادات کی کونسل میں کیا مسودہ رکھا گیا ابھی ساری تفصیلات آنا باقی ہیں۔ آنے والے دنوں میں بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کے لئے قانون سازی خارج از امکان نہیں ہے کیوں کہ شریف برادران اپنے خلاف کسی قسم کے احتجاج کو برداشت کرنے کا حوصلہ اور جمہوری رویہ نہیں رکھتے۔ پچھلی حکومت میں احتجاجی کیمپ لگانے اور ہر وقت لوڈ شیڈنگ کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والے موجودہ حکمرانوں نے نام نہاد گردشی قرضے کا اسی فیصد سے زائد ادا کردیا ہے مگر پھر بھی اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ اب نہ کوئی کیمپ ہے اور نہ کسی احتجاج کو برداشت کیا جارہا ہے بلکہ آواز اٹھانے والوں پر ڈنڈے برسائے جارہے ہیں۔ میاں نواز شریف کے چہرے اور لوڈ شیڈنگ کے بارے میں سنجیدگی کو موضوع بنانے والوں کو ’’ قرض اتارو، ملک سنوارو‘‘ کا ٹوپی ڈرامہ ذہن میں رکھنا چاہئے۔ بجلی کا مسئلہ نج کاری اور نجی سرمایہ کاری سے حل ہونے کی بجائے سنگین تر نوعیت اختیار کرتا جائے گا جس میں مہنگائی کا اتنا بڑا طوفان برپا ہوگاجو سب کو برباد کرکے رکھ دیگا!

متعلقہ:
لوڈشیڈنگ کا اندھیر
برق گرتی ہے تو۔۔۔؟
بھارت کی تاریکی
بجلی کا بحران اور جھٹکوں کی سیاست
بجلی کا مصنوعی بحران اور اس کا حل