بجلی کی دوریاں

[تحریر: لال خان]
وزیر مملکت برائے پانی و بجلی کے حکم پر صدارتی محل، وزیر اعظم سیکٹریٹ، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی بجلی منقطع کرنے کے ناٹک نے دراصل توانائی کا بحران حل کرنے میں موجودہ حکومت کی مکمل ناکامی کو ایک بار پھر عیاں کر دیا ہے۔ کچھ ہی گھنٹوں بعد طاقت کے ان ایوانوں کو بجلی کی فراہمی متعلقہ وزیر کے انکل میاں نواز شریف کے حکم پر بحال کر دی گئی تھی۔ کچھ تاخیر کے بعد موسم گرما کی آمد سے ملک کے طول و عرض میں بڑھنے والی حدت میں نواز لیگ حکومت کے وعدے اور دعوے موم کی طرح پگھلنا شروع ہوگئے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑے شہروں میں بھی کئی گھنٹے بڑھ چکا ہے۔ دیہی علاقوں میں تو 12سے 18 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ پہلے ہی جاری تھی۔
حکومتی محکموں اور اعلیٰ عہدیداران پر اربوں روپے کے واجبات اس ملک کے بالادست طبقے کی جانب سے بجلی چوری اور بلوں کی عدم ادائیگی کی معمولی سی جھلک ہے۔ عابد شیر علی ہنگامہ خیز اور متنازعہ قسم کے تبصروں اور بیانات کے حوالے سے کافی شہرت رکھتے ہیں۔حالیہ سیاسی اسٹنٹ لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر تحریک انصاف اورپیپلز پارٹی کی صوبائی حکومتوں کی جانب سے مرکزی حکومت پر کی جانے والی شدید تنقید کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔ 14 اپریل کو تحریک انصاف کے کچھ ممبران صوبائی اسمبلی نے پریس کانفرنس میں دھمکی دی تھی کہ اگر بجلی چوری کو جواز بنا کر پختونخواہ کو بجلی کی فراہمی میں خلل ڈالا گیا تو پنجاب کی ٹرانسمشن لائن کاٹ دی جائے گی۔اسی طرح 29 اپریل کو سندھ اسمبلی میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف قرار داد پاس ہوئی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں سے ان حریف سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور الزامات کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا جو گرمیوں کے لوڈ شیڈنگ کے ساتھ مزید شدت اختیار کرے گا۔جعلی تضادات اور لوٹ مار کے گرد جنم لینے والے ’’اختلافات‘‘ سے قطع نظر ان تمام پارٹیوں کا معاشی پروگرام اور نظریہ ایک ہے۔یہ شعلہ بیانیاں اور الزام تراشیاں دراصل دوسرے کئی عوامی مسائل کی طرح ملک کے ہرشہری کوسستی بجلی کی مسلسل فراہمی کے حقیقی ایشو کو منظر عام سے ہٹانے کی سازش ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ نہ صرف پشتونخواہ بلکہ دوسرے تمام صوبوں کے وسیع علاقوں میں بجلی کے بل دینے کا رواج نہیں ہے۔ کچھ علاقوں میں تو یہ سلسلہ روز اول سے چلا آرہا ہے۔ ان پسماندہ علاقوں کے عوام میں بل دینے کی سکت ہی نہیں ہے اور اب کئی دہائیوں بعد تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ بجلی استعمال کرنے کے پیسے بھی دینے پڑتے ہیں۔ایسے زیادہ تر علاقے قدیم قبائلی طرز زندگی کے حامل ہیں جہاں کی اکثریتی آبادی کا ذریعہ معاش کالی معیشت سے وابستہ ہے۔ کسی وڈیرے یا جنگجو سردار شکنجے میں جکڑے ایسے علاقوں میں اسلحے کی بہتات ہے اور ریاستی رٹ سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ یہ صورتحال اس تلخ حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ’’آزادی‘‘ کے 67 سال بعد بھی اس ملک میں جدید سرمایہ دارانہ ریاست کے بنیادی فرائض ہی ادا نہیں ہوسکے ہیں۔تاہم بل ادا نہ کرنے والے ایسے علاقوں کو بجلی کے بحران اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ قرار دینا سراسر دھوکہ دہی اور مبالغہ آرائی ہے۔ بجلی کے اصل چور پختونخواہ کے قبائلی علاقے، بلوچستان یا اندرونی سندھ میں نہیں بلکہ میٹروپولٹن شہروں کے پوش علاقوں میں رہتے ہیں۔
بجلی کے بلوں کے سب سے بڑے ڈیفالٹر کھرب پتی سرمایہ دار اور صنعت کار ہیں۔ شریف فیملی بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس ملک کے حکمران طبقے نے پچھلی چھ دہائیوں میں اور کچھ کیا ہو یا نہیں، لوٹ مارکو ایک نئی ’’جدت‘‘ بہرحال دی ہے۔بڑے سرمایہ داروں کے پاس بجلی اور ٹیکس چوری کو ’’شفاف‘‘ اور ناقابل سراغ بنانے کے ایک سو ایک طریقے موجود ہیں۔ یہ حضرات یاتو خود طاقت کے ایوانوں میں بیٹھے ہیں یا پھر سیاستدانوں اور ریاست کی ملٹری و سویلین افسر شاہی کے ساتھ گہرے مراسم رکھتے ہیں ۔بڑے سرمایہ دار اور جاگیر دار خاندانوں کے افرادہر بڑی سیاسی جماعت میں موجود ہیں۔حکومت یا اپوزیشن میں کوئی بھی ہو، یہ گنگا ہمیشہ بہتی رہتی ہے۔مخلوط حکومتوں کا رواج بھی اسی چکر میں نکالا گیا ہے۔علاوہ ازیں جہاں ریاستی مشیری نیچے سے لے کر اوپر تک کرپشن میں لتھڑی ہو وہاں سرمایہ داروں کے لئے بجلی چوری کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہتا۔ سرمایہ دار، سیاستدان اور بیوروکریسی اس ڈاکہ زنی میں پارٹنر ہیں۔ تیسری دنیا کی بورژوازی میں اتنی سکت ہی نہیں ہے کہ چوری اور کرپشن کے بغیر اپنا اقتصادی وجود برقرار رکھ سکے۔حکومت اور ریاست کی سرپرستی میں کسٹم ڈیوٹی، قرضے اور براہ راست انکم ٹیکس معاف کروانے والا یہ طبقہ اب ایک نشئی کی طرح بدعنوانی کا عادی ہوگیا ہے۔
مقامی حکمرانوں کی غارت گری کے شانہ بشانہ سامراجی استحصال بھی جاری و ساری ہے۔پچھلی دو دہائیوں میں بجلی کے شعبے میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کرنے والی غیر ملکی کارپوریٹ جونکیں ہر سال اربوں ڈالر کے منافعے ملک سے باہر منتقل کرتی ہیں۔ سامراج کے کمیشن ایجنٹوں کا کردار ادا کرنے والے پاکستانی حکمران بجلی کے نرخ اپنے سامراجی آقاؤں کے حکم پر ہی بڑھاتے ہیں۔ IPPs سے کئے گئے معاہدوں کے تحت ریاست ہر قسم کی صورتحال میں ان کمپنیوں کی بلند شرح منافع کو یقینی بنانے کی پابند ہے۔ یہ ’’آزاد منڈی کی معیشت‘‘ ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی یہ نجی کمپنیاں اپنی پیداواری صلاحیت سے کہیں کم پیداوار کرتی ہیں۔ بجلی کی پیداوار، صارف کو فراہمی، بلوں کی کولیکشن اور نجی کمپنیوں کو ادائیگی اور ان کمپنیوں کی جانب سے آگے تیل کی کمپنیوں کو ادائیگی کے اس گھمبیر چکر میں قدم قدم پر کمیشن ایجنٹ اور چور بیٹھے ہیں۔ریاست کی معاشی بدحالی، افسر شاہانہ بدانتظامی اور سرخ فیتے کی وجہ سے صورتحال مزید ابتر ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے ’’گردشی قرضہ‘‘ بڑھتا رہتا ہے۔ اپنی انتہا پر یہ قرضہ 500 ارب روپے تک پہنچ گیا تھا جسے موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد نوٹ چھاپ کے اور آئی ایم ایف سے قرضہ لے کر ادا کیا لیکن ادائیگی کے صرف دس ہفتوں بعد گردشی قرضے کا ہجم 155 ارب روپے جبکہ مارچ 2014ء میں 250 ارب تک پہنچ گیا۔ اس مہینے یہ رقم 300 ارب روپے سے تجاوز کرچکی ہے اور نجی کمپنیاں بجلی کی رسد منقطع کررہی ہیں۔ریکارڈ مالی اور بجٹ خسارے کی وجہ سے حکومت کے پاس ادائیگی کے پیسے نہیں ہیں۔کئی دہائیوں تک فنڈنگ نہ ہونے کے باعث پانی سے بجلی بنانے والے ریاستی پاور پلانٹس کی پیداواری صلاحیت انتہائی کم ہوچکی ہے۔ یہ موسم گرما بھی ہمیشہ کی طرح عوام کے لئے کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوگا!
پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت گرمیوں کی ڈیمانڈسے بھی زیادہ ہے۔ پہلے سے موجود IPPsاور دوسرے پاور پلانٹس 23000میگاواٹ سے زائد بجلی پیدا کرسکتے ہیں جبکہ زیادہ سے زیادہ طلب 17000میگا واٹ ہے۔ شمسی توانائی اور کوئلے سے بجلی بنانے کے نئے منصوبوں سے زائد پیداواری صلاحیت بڑھنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ کی اذیت میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوگا۔ عوام پہلے ہی 1990ء کی دہائی میں اپنائی جانے والی نیو لبرل معاشی پالیسیوں کے عذاب سے دوچار ہیں لیکن موجودہ حکومت مزید نجکاری کے لئے پر تول رہی ہے۔ نجی شعبے کی ملکیت میں شروع کئے جانے والے بجلی کے نئے اور پرانے منصوبوں کے علاوہ 31ریاستی یونٹوں کو بھی پراویٹائز کیا جارہا ہے۔ مقامی سرمایہ داروں کے علاوہ چینی اور دوسری غیر ملکی کمپنیاں اس شعبے میں عوام کی سہولت کی بجائے بلند شرح منافع کے لئے سرمایہ کاری کررہی ہیں۔ منافع کے حصول کے لئے یہ سرمایہ کار بجلی کی قیمت کم کرنے کی بجائے مزید بڑھائیں گے۔مہنگائی اور افراط زر کی وجہ سے سکڑتی ہوئی قوت خرید کے پیش نظر یہ ’نئی بجلی‘ عوام کی پہنچ سے اور بھی دور جائے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیزمنافع اور شرح منافع میں اضافے کے لئے پیدا کی جاتی ہے۔ اجرت میں کمی اور قیمت میں اضافہ اس نظام کی بنیادی ضرورت ہے چنانچہ آنے والے دنوں میں بجلی کی قیمت کے ساتھ ساتھ لوڈ شیڈنگ بھی بڑھے گی۔بجلی کی پیداوار اور سپلائی کو نجی شعبے اور منافع کی زنجیروں سے آزاد کرواکر عوامی ملکیت میں دئیے بغیر اس مسئلے کا حل ناممکن ہے۔اسی طرح دوسری بنیادی ضروریات زندگی کی فراہمی بھی صنعت، زراعت اور معیشت کے فیصلہ کن شعبوں کو قومی تحویل میں لیتے ہوئے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے سے مشروط ہے۔سماج اور معیشت کے ڈھانچوں میں بنیادی تبدیلی برپا کرکے ہی نسل انسان سرمایہ داری کی اس تاریک سرنگ سے نکل کر ایک نئی صبح کا نظارا کرسکتی ہے!

متعلقہ:
لوڈ شیڈنگ کا حل یا بربادی کا راستہ؟
لوڈ شیڈنگ کا عذاب، گردشی قرضے کا گرداب
بجلی کے بحران اور نجکاری کے حوالے سے واپڈا ہائیڈرو یونین فیصل آباد کے زونل چئیرمین عبدالغفار گجر کا انٹرویو
لوڈشیڈنگ کا اندھیر
برق گرتی ہے تو۔۔۔؟