لبرل ازم اور قدامت پرستی

[تحریر: لال خان]
ڈرون حملے ہوں یا ملالہ کی کتاب کا ’’معمہ‘‘، میڈیا پر ہونے والی ہر بحث و تکرار کو موجودہ نظام کی حدود و قیود تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ آزاد خیال اور قدامت پرست، دونوں طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کی عقل اور دانش سرمایہ داری کی اخلاقیات، سیاسیات اور معاشیات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہیں۔ اسلامی پارٹیاں اور دایاں بازو اس سماجی جمود کے عہد میں معاشرے پر چھائی ظاہری رجعت کے بلبوطے پر جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ مذہبی اور دائیں بازو کے یہ دانشور امریکی سامراج کے جبر و استحصال کے خلاف پائی جانے والی عوامی نفرت کو بنیاد پرستی کے راستوں پر ڈال کر سماج کو ماضی بعید کے اندھیروں میں غرق کر دینا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتے ہوئے معاشی بحران، سیاسی انتشار اور سماجی خلفشار نے عوام کی نفسیات کو شل کر کے سیاسی بے حسی کی کیفیت کو جنم دیا ہے۔ لیکن ان اذیت ناک حالات میں بھی عام آدمی کے لئے رجعتی سیاست دانوں کے دلائل میں کوئی کشش موجود نہیں ہے۔ ’’غیر سول‘‘ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے یہ کروڑوں ’’جاہل‘‘ انسان اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ماضی کے تعصبات اور مذہبی بنیاد پرستی میں ان کے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ چنانچہ سماج کی بھاری اکثریت رجعتی ملاؤں اور مذہبی رہنماؤں سے نہ تو متاثر ہے اور نہ ہی ان کی سیاسی حمایت کرتی ہے۔ دوسری طرف وہ لبرل اور سیکولر حضرات ہیں جنہیں کسی انقلابی تبدیلی کا کوئی ادراک نہیں، اگر کبھی تھا تو یہ لوگ اس سے منحرف ہوچکے ہیں۔ یہ لبرل دانشور جب ’’میڈیا مناظروں‘‘ امریکی سامراج کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اپناتے ہیں تو مذہبی عناصر بغیر کسی منطقی دلیل کے بھی اپنے آپ کو سرخرو سمجھتے ہیں۔
پاکستان کا موجودہ سماجی و ریاستی ڈھانچہ پچھلی پانچ دہائیوں میں برپا ہونے والے ایک نامکمل انقلاب اور اس کے بعد مذہبی آمریت کی شکل میں آنے والے رد انقلاب کی پیداوار ہے۔ 1968-69ء میں پاکستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے اس نظام کے خلاف انقلابی بغاوت برپا کی تھی جو قیادت کے فقدان کی وجہ سے اپنے منطقی انجام تک نہ پہنچ پائی۔ ہر ادھورا انقلاب ریاستی جبر اور رد انقلاب کا پیش خیمہ ہوتا ہے۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک کی ناکامی کے بعد ضیاالحق آمریت کی شکل میں ردانقلاب کا تاریک عہد آیا۔
ضیا آمریت کے دوران ریاست، سیاست اور معاشرت کے بنیادی ڈھانچوں میں مذہبی بنیاد پرستی کے زہریلے انجیکشن لگائے گئے تھے۔ مذہبی قدامت پرستی کو سرکاری نصاب کا حصہ بنا دیا گیا۔ ملاؤں اور رجعتی عناصر کو مسلط کرکے عدلیہ اور فوج سمیت ہر ریاستی ادارے میں بنیاد پرستی اور مذہبی تعصب پر مبنی کلچر اور سوچ کو فروغ دیا گیا۔ یہ ذہنیت آج بھی ان تمام اداروں کی خصوصاً درمیانی پرتوں میں نہ صرف موجود ہے بلکہ پوری طرح سماجی اور سیاسی عوامل میں متحرک بھی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں 2000 کے قریب انتہائی خطرناک دہشت گردوں کو ’’شہادتیں‘‘ نہ ملنے کی وجہ سے بری کیا گیاہے جو رہا ہوتے ہی دوبارہ دہشت گردی کی کارووائیوں میں سرگرم ہوگئے۔ جب تک یہ موجودہ ریاستی ساخت موجود ہے یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا۔
پاکستان میں جماعت اسلامی اور افغانستان میں حزب اسلامی نے ضیا آمریت کے سیاسی فرنٹ کا کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ افغان جہاد کے دوران بہت سی دوسری مذہبی جماعتوں، مسلح گروہوں اور مدرسہ سسٹم کو بھی ریاستی طاقت اور خزانے کے ذریعے پروان چڑھایا اور مضبوط کیا گیا۔ 1947ء میں پاکستان میں کل مدارس کی تعداد صرف 189 تھی۔ 1977ء میں بھٹو حکومت کے خاتمے کے وقت پاکستان میں 900 مدارس موجود تھے۔ 1988ء میں ضیا آمریت کے خاتمے تک رجسٹرد مدرسوں کی تعداد 8000 تک پہنچ چکی تھی۔ 25000 غیر رجسٹرڈ مدارس اس کے علاوہ تھے۔ آج مدارس کی تعداد 40000 سے تجاوز کر چکی ہے جن میں 25 سے 30 لاکھ بچے ’’تعلیم‘‘ حاصل کر رہے ہیں۔ تعلیمی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، غربت میں اضافے اور مدرسوں کی تعداد میں براہ راست تناسب موجود ہے۔ ضیا آمریت کے دوران ریاست نے دانستہ طور پر کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کو فروغ دیا۔ ہیروئین تیار کرنے کی تکنیک اور لیبارٹریاں سی آئی اے نے جہادیوں کو فراہم کیں۔ 1979ء تک پاکستان میں ہیروئین یا منشیات کے عادی افراد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا تھا، 1988ء تک 650000 افراد منشیات کے عادی بن چکے تھے، 1992ء میں یہ تعداد 30 لاکھ جبکہ 1999ء میں 50لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی۔ طالبان کی ’’اسلامی امارات‘‘ کے قیام کے بعد افیون کی پیداوار میں 9 گنا ہ اضافہ ہوا اور یہ کاروبار طالبان کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ بنا۔ 1999ء میں ڈیلی ٹیلی گراف کے نمائندے کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان حکومت میں’’منشیات کے خاتمے‘‘ کے شعبے کے سربراہ عبدالرشید نے کہاکہ’’ ہم نے چرس کی پیداوار پر سخت پابندی عائد کررکھی ہے کیونکہ اس کو زیادہ ترمسلمان اور افغان استعمال کرتے ہیں لیکن افیون کی پیداوار کی اجازت ہے کیونکہ اس کو مغرب کے کافر استعمال کرتے ہیں۔‘‘ 2013ء میں پاکستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد تقریباً 65 لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور 25فیصد نوجوان اس لعنت کا شکار ہیں۔ منشیات کی پیداوار اور کاروبار نیٹو فرسز کی موجودگی میں بھی جاری ہے کیونکہ امریکہ کے بہت سے حلیف جنگجو سردار بھی اس دھندے میں ملوث ہیں۔
ماضی کا ’’جہاد‘‘ جسے آج کل دہشت گردی کہا جاتا ہے دراصل ایک صنعت اور منافع بخش کاروبار کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ 14 نومبر1997ء کو اسی وقت کے اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے سکیورٹی کونسل کو ’’افغانستان کی صورتحال اور عالمی امن اور سکیورٹی پر اسکے اثرات‘‘ کے موضوع اپنی رپورٹ میں واضح طور پر کہا تھاکہ ’’افغانستان میں جنگجو سرداروں، دہشت گردوں، منشیات کے سمگلروں پر مبنی بہت سے گروہ ہیں جن کو جنگ سے فائدہ ہی فائدہ ہے اور امن سے نقصان ہی نقصان ہے۔‘‘ یہ بیان اس سارے خونی کھلواڑ کی مالیاتی اور اقتصادی بنیادوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ ان جہادیوں کے سربراہ غربت سے نکل کر امارت کی انتہاؤں تک پہنچ چکے ہیں۔ جب جنگ ایک کاروبار اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے روٹی روزی کا ذریعہ بن جائے تو کون اسے چھوڑتا ہے؟
طالبان نے امریکی حمایت میں ہی افغانستان پر اقتدار مستحکم کیا تھا۔ بعد ازاں تیل کی پائپ لائنوں اور مالیاتی مفادات کے ٹکراؤ کی وجہ سے امریکہ اور طالبان کے تضادات ابھرے جو ایک نئی خونریز جنگ میں تبدیل ہوگئے۔ آج طالبان سے مذاکرات معاشی بحران کے شکار امریکی سامراج کی مجبوری ہے۔ لیکن طالبان کے درجنوں گروپ ایک دوسرے سے بھی برسر پیکار ہیں۔ کس گروپ سے کون، کیا مذاکرات کرے گا؟ مذاکرات کا آغاز ہی مشکل ہے تو انجام بھلا کیسے ممکن ہے؟ مذاکرات کے اس واویلے سے یہ مسئلہ حل ہونے والا نہیں ہے۔
طالبان نے اپنے دور حکومت میں اگر ظلم کی انتہا کی تھی تو امریکی سامراجی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ڈرون حملے تو صرف علامت ہیں۔ سامراجیوں نے افغانستان کوکلسٹر، ڈیزی کٹربموں اور دوسرے جدید اسلحے کی تجربہ گاہ میں تبدیل کر دیا ہے۔ لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ افغانستان پر امریکی قبضے کے بعد خواتین کی حالت میں کوئی بہتری آئی ہے۔ بالادست طبقے کی خواتین چند مخصوص علاقوں میں فیشن کرسکتی جبکہ محروم طبقات کی خواتین آج بھی اسی طرح مردانہ جبر اور مذہبی تسلط کا شکار ہیں جیسے طالبان کے دور میں تھیں۔
افغانستان جس آگ میں گزشتہ تین دہائیوں سے جل رہا ہے اس کے شعلے اب پاکستان کو بھی جلانے لگے ہیں۔ سماج پر بربریت کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ لیکن ریاست اور میڈیا نے عوام کے لئے مذہبی بنیاد پرستی یا امریکی سامراج کے علاوہ تیسری کسی آپشن کو ممنوع قرار دے رکھا ہے۔ قدامت پرست تجزیہ کار بالواسطہ (اور کبھی کبھی براہِ راست بھی) طالبان کی حمایت اور پیروکاری کا درس دے رہے ہیں تو لبرل اور سیکولر دانشوربالواسطہ یا براہِ راست امریکہ کو نجات دہندہ ٹھہرارہے ہیں۔ درحقیقت یہ دونوں باطل قوتیں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ عوام اس نظام کے ہاتھوں مررہے ہیں جس کو قائم رکھنے پر مذہبی بنیاد پرستی اور امریکی سامراج کا مکمل اتفاق ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت و معاشرت کا خاتمے کئے بغیر اس بربادی سے نجات ممکن نہیں۔ عظیم مارکسی استاد فریڈرک اینگلز نے کہا تھا ’’آج سے سو سال بعد انسانیت کے سامنے دو ہی راستے ہوں گے: سوشلزم یا بربریت۔‘‘ یہ تناظر آج ہمارے سامنے زندگی یا موت کا سوال بنے کھڑا ہے!

متعلقہ:
امریکی انخلاء کے بعد افغانستان؟
ملالہ کی آزمائش
امریکی سامراج: ماضی، حال اور مستقبل
افغانستان: ظلم رہے اور امن بھی ہو؟