سقوطِ ڈھاکہ: تاریخ کا تلخ سبق

[تحریر: آدم پال]
1947ء کے خونی بٹوارے کے زخم کیا کم تھے کہ اس دھرتی کو 1971ء میں اس سامراجی نظام کی ایک اور خونریزی دیکھنی پڑی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے جبر کو قائم رکھنے کے لیے حکمرانوں نے چار لاکھ خواتین کی آبروریزی کی اور بیس لاکھ سے زائد افراد کا قتل عام کر کے انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم کیا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک جو مشرقی و مغربی پاکستان میں تیزی سے پھیلنے کے ساتھ ساتھ مغربی بنگال کے راستے پورے ہندوستان اور خطے کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی، قیادت کی نااہلی اور حکمران طبقات کے ظالمانہ ہتھکنڈوں کا شکار ہو کر آگ اور خون میں ڈبو دی گئی۔ معاشی و سماجی نظام کی تبدیلی کے نعرے زوا ل پذیر ہو کر قوم پرستی کی زنجیروں میں قید ہو گئے اور انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں انقلاب ردِ انقلاب میں تبدیل ہو گیا۔ خطے کے حکمران طبقات نے اس سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کے لیے ایک اور خونی بٹوارہ کر دیا۔ 1947ء میں برطانوی سامراج نے اس خطے کے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اپنی بالواسطہ حکمرانی کو جاری رکھا تو 1971ء میں حکمران طبقات نے محنت کش طبقے کی یکجہتی اور جڑت کو قومی بنیادوں پر زائل کر کے لاکھوں بے گناہوں کے لہو کو اس طبقاتی نظام کا ایندھن بنا ڈالا۔ اتنے خونی بٹواروں کے بعد بھی یہ نظام اس خطے کے محنت کشوں کوذلت اور محرومیوں کے سوا کچھ نہیں دے سکا۔
ایوب آمریت کے خلاف ابھرنے والی انقلابی تحریک جہاں مغربی پاکستان میں روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کے گرد مرتکز ہو رہی تھی وہاں مشرقی پاکستان میں سلگتے ہوئے معاشی مسائل اور قومی جبر تحریک کو آگے کی جانب لے کر جا رہے تھے۔ مشرقی پاکستان کی کمیونسٹ قیادت جب مرحلہ وار انقلاب کے غلط نظریات کے باعث ا س تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کے ساتھ نہیں جوڑ سکی تو شیخ مجیب کی قیادت میں قوم پرستوں کو قدم جمانے کا موقع ملا۔ آج چار دہائیوں سے زائد گزرنے کے بعد یہ واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر’’ قومی آزادی‘‘ کا حصول بنگالی عوام کا کوئی ایک مسئلہ حل نہیں کر پایا۔ اگر اس تحریک کو سرمایہ دارانہ نظام کی تبدیلی کے ساتھ جوڑتے ہوئے پورے خطے کے محنت کش طبقے کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کیا جاتا اور اس طبقاتی نظام کا خاتمہ کر دیا جاتا تو نہ صرف قومی جبر سے نجات ملتی بلکہ محنت کش عوام کے تمام معاشی اور سماجی مسائل بھی حل کیے جا سکتے تھے۔ برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد میں بنگال کے انقلابیوں کا کردار آغاز سے ہی نمایا ں تھا۔ اسی بنیاد پر 1905ء میں بنگال کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کر کے اس تحریک کو زائل کرنے کی کوشش کی گئی۔ سامراجی حکمرانوں کے ایما پر ڈھاکہ میں مسلم لیگ کا قیام بھی اسی گھناؤنی سازش کا حصہ تھا۔ لیکن ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت ہونے والے اس فیصلے کے خلاف پورے ہندوستان میں عوامی تحریک بھڑک اٹھی۔ تحریک اتنے وسیع پیمانے پر پھیل رہی تھی اور اتنی شدید تھی کہ برطانوی سامراج کو 1911ء میں یہ فیصلہ واپس لینا پڑا اور بنگال کی تقسیم کا خاتمہ ہوا۔ 1947ء میں دوبارہ جب پورے ہندوستان کا خونی بٹوار ہ کیا گیا تو پھر بنگال کو سامراجی مقاصد کے لیے چیر دیا گیا۔

’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ میں پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی کے فاشسٹ گروہوں نے بدترین جنگی جرائم کا ارتکاب کیا

پاکستان کے قیام کے بعدجہاں نومولود حکمران طبقے نے محنت کشوں کو نوچنا شروع کیا وہاں مشرقی بنگال کا قومی استحصال بھی شدت اختیار کرتا گیا۔ جناح نے جب بنگالی زبان کی زرخیز تاریخ کو رد کرتے ہوئے اردو کو قومی زبان قرار دیا تو’’ارضِ پاک‘‘ پرمظلوم قومیتوں کے استحصال کی سمت کا تعین بھی ہو گیا۔ تاریخ کے میدان میں تاخیر سے ظہور پذیر ہونے کے باعث یہاں کا سرمایہ دار طبقہ کبھی بھی سامراجی غلامی سے مکمل نجات حاصل کرنے کے قابل نہیں تھا۔ یورپ کے سرمایہ دارانہ انقلابات کے باعث قائم ہونے والی جدید قومی ریاستوں کی طرز پر یہاں ترقی پسند سرمایہ داری کی استواری کا امکان نہ اس وقت تھا نہ آج ہے۔ یہاں کا حکمران طبقہ کسی انقلاب کے ذریعے اقتدار میں نہیں آیا تھا بلکہ سامراج کی کاسہ لیسی اور گماشتگی کے باعث اسے یہ حکمرانی بھیک میں ملی تھی۔ اس لیے جہاں سامراجی آقاؤں کی خدمت اور ان کے مفادات کا تحفظ ان کی اولین ذمہ داری تھی وہاں اس خدمت کے عوض لوٹ مار میں اپنا کمیشن وصول کرنا بھی وہ اپنا حق سمجھتے تھے۔ ریاست کے دیگر اداروں کی طرح پاکستان کی فوج بھی ایسی ہی طرز پر تعمیر کی گئی جس طرح کوئی سامراجی طاقت کسی مقبوضہ نو آبادی میں فوج بناتی ہے۔ مشرقی پاکستان میں لاکھوں عورتوں کا بلاد کار اور لاکھوں افراد کا قتل عام کروانے والے فوجی جرنیل دوسری عالمی جنگ میں برطانوی فوج کی ویت نام، برما اور دیگر محاذوں پر بربریت کا حصہ رہ چکے تھے اور ان امور میں تربیت یافتہ تھے۔ اس فریضے میں جماعت اسلامی نے ان کے شانہ بشانہ حصہ لیا اور ’البدر‘ اور ’الشمس‘ کے رضاکاروں کے ذریعے ظلم اور بربریت کی اندوہناک داستانیں لکھی گئیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں فوج کے ہاتھوں طلبہ کو صفوں میں کھڑا کر کے گولیاں مارنے کی ویڈیو تو اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہے۔ اسی طرح ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ میں فوج کے ہاتھوں ہونے والے دیگر مظالم بھی منظر عام پر آ چکے ہیں۔

1970ء، کوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی کا جلسہ

قیام پاکستان کے دو سال بعد مشرقی بنگال میں مولانا بھاشانی کی صدارت میں عوامی لیگ کا قیام سماجی بے چینی کا ایک اظہار تھا۔ اس کے چار بنیادی نکات ’’جمہوریت، سوشلزم، سیکولرازم اور نیشنلزم‘‘ تھے۔ بعد ازاں حسین شہید سہروردی کے وزیر اعظم بننے اور امریکہ کی سامراجی پالیسیوں کا حصہ بننے کے باعث بھاشانی نے 1957ء میں عوامی لیگ سے الگ ہو کر مشرقی اور مغربی پاکستان کی بائیں بازو کی مختلف قوتوں کو ملا کر ڈھاکہ میں ہی نیشنل عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی۔ ایوب آمریت کے خلاف طلبا اور مزدوروں کی تحریکوں میں اس پارٹی کا اہم کردار رہا۔ مصر میں نہر سوئز کی نیشنلائزیشن سے لے کر بہت سے افریقی اور ایشیائی ممالک میں ابھرنے والی عوامی تحریکوں اور بائیں بازو کی حکومتوں نے اس پارٹی پر اہم اثرات مرتب کئے لیکن سٹالنزم کی غلط نظریاتی بنیادوں کے باعث یہ محنت کشوں اور طلبہ کو کبھی بھی مکمل سماجی تبدیلی کی جانب نہیں لے جا سکی۔ یہاں تک کہ 1965ء کے ’’بنیادی جمہوریت‘‘ کے انتخابات میں بھاشانی کو چین کی جانب سے مجبور کیا گیا کہ وہ ایوب خان کی مخالفت سے دستبردار ہو جائیں۔ چین کی بیوروکریٹک قیادت کے دباؤ پر ہی بھاشانی ایوب خان کے خلاف 1968-69ء کی انقلابی تحریک کو بھی نظر انداز کرتے رہے جس کے باعث عوامی لیگ، شخ مجیب کی قیادت میں اپنا حلقہ اثر وسیع کرنے میں کامیاب ہوئی۔ 1970ء کے انتخابات میں مولانا بھاشانی نے انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا جس کے باعث شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان کی قومی اسمبلی کی169 نشستوں میں سے 167 پر کامیابی حاصل کی۔

مولانا بھاشانی جلسہ عام سے خطاب کررہے ہیں۔ چینی بیوروکریسی کے حکم پر بھاشانی کی علیحدگی نے تحریک کی قوم پرستانہ زوال پزیری میں اہم کردار ادا کیا

درحقیقت 1970ء کے انتخابات کے انعقاد کا مقصداس انقلابی تحریک کو ’’جمہوری‘‘ بنیادوں پر زائل کرنا تھا جو ملک کے دونوں حصوں میں سوشلسٹ انقلاب کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ کمیونسٹ قیادتوں کے نظریاتی ابہام اور بالشویک طرز کی حقیقی انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں اس تحریک کو پارلیمانی سیاست کی پیچیدگیوں میں الجھانا آسان ہوگیا۔ لیکن تحریک تمام تر جبر کے باوجود تیزی سے آگے بڑھ  رہی تھی اور سرمایہ دارانہ نظام لرز رہا تھا۔ ایسے میں طلبہ اور محنت کشوں کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں حکمران طبقات نے ان سے بد ترین انتقام لیا۔ برطانوی سامراج سے نجات حاصل کرنے والوں پر 1971ء میں ہندوستان اور پاکستان کے حکمرانوں نے سامراجی جبر کے پہار توڑ دیے۔ بھارتی فوج کی مشرقی بنگال میں مداخلت کا مقصد پاکستانی فوج سے تصادم نہیں بلکہ اس کے ساتھ مل کر انقلابی تحریک کو کچلنا تھا جو پورے خطے میں پھیل رہی تھی۔ انگریزی جریدے ٹائم میں اس وقت پیٹر ہیزل ہرسٹ نے لکھا تھا کہ’’سرخ بنگال اسلام آباد سے زیادہ دہلی کے لیے خطرہ ہے‘‘۔ آج بھی انٹر نیٹ پر مختلف ویڈیوز میں وہ مناظر دیکھے جا سکتے ہیں جب مشرقی پاکستان میں بھارتی فوجی، پاکستان فوج کو عوام کے غیض و غضب سے بچاتے ہوئے محفوظ مقام کی جانب لے کر جا رہے ہیں۔ برطانوی فوج میں اکٹھے تربیت حاصل کرنے والے دونوں ممالک کے جرنیلوں کی ’’جنگ‘‘ کے دوران خوش گپیوں اور محفلوں کی داستانیں تو آج بھی زبان زد عام ہیں۔
عالمی سطح پر موجود تیز ترین تبدیلیوں کے عہد میں سرخ بنگال طاقتوں کا توازن تبدیل کر سکتا تھا۔ اسی خطرے کے پیش نظر امریکی بحری بیڑہ بھی خلیج بنگال میں موجود تھا تا کہ پاکستانی فوج کے بد ترین مظالم کی ناکامی کے بعد اگر ہندوستانی فوج بھی ناکام ہوتی ہے تو وہ اس تحریک کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ انقلاب میں ابھرے ہوئے عوام کو فوجی جبر کے ساتھ نہیں کچلا جا سکتا بلکہ قیادتوں کی نظریاتی غداریاں تحریکوں کو برباد کرتی ہیں۔

’’جنرل ٹائیگرنیازی‘‘ کی کمان میں پاکستانی فوجی 16 دسمبر کو بھارتی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال رہے ہیں

لاکھوں افراد کی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والی ’’آزادی‘‘ میں بنگلہ دیش کے محنت کش آج بھی غربت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ان پر ظلم اور استحصال کرنے والے اب پاکستان کی بجائے بنگلہ دیش کے حکمران طبقات ہیں۔ عالمی مالیاتی اداروں اور سامراج کا جبر و استحصال نہ صرف موجود ہے بلکہ 1971ء کے بعد پاکستان کی طرح بنگلہ دیش میں بھی کئی گنا بڑھا ہے۔ عالمی منڈی کی جکڑ بندیاں بھی پہلے سے زیادہ سخت ہوئی ہیں۔ گارمنٹس کی صنعت کے لاکھوں محنت کش آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں اور انتہائی بے سر و سامانی کی کیفیت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیاکے سستے ترین محنت کشوں میں شمار ہونے والے بنگلہ دیش کے محنت کش ملٹی نیشنل کمپنیوں کا منافع بڑھانے والا خام مال بن کے رہ گئے ہیں۔ کبھی فیکٹریوں میں لگنے والی آگ میں جھلس کر اور کبھی ناقص عمارت کے انہدام سے مرنے والے محنت کش آج بھی اپنے بنیادی حقوق کی جدوجہد میں سرگرداں ہیں۔

سرمایہ دارانہ معیشت کے بلند ’’گروتھ ریٹ‘‘ کے نتیجے میں بنگلہ دیش کے 54 فیصد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں

عوامی لیگ کی موجودہ حکومت آزادی کے 43 سال بعد بھی انہیں بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہے اور حقیقی مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے 1971ء کے مجرموں کو سزائیں دینے کی کاروائی کر رہی ہے۔ 1971ء کے مجرموں کو سزا ضرور ملنی چاہیے۔ جن لوگوں نے سامراجی فوج کے ساتھ مل کر خواتین کے ساتھ جبری زیادتی کی اور قتل عام میں حصہ لیا ان کو کیفر کردار تک پہنچانا انتہائی ضروری ہے لیکن ان سے کہیں بڑے مجرم وہ حکمران اور ان کا نظام ہے جو نسل در نسل محنت کش عوام کو غربت، محرومی، بھوک، بیماری اور ناخواندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق کئے ہوئے ہیں۔ بنگلہ دیش کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں غربت کے باعث عصمت فروشی کا رجحان مسلسل بڑھ رہا ہے۔ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے جسم بیچنے والی بنت حوا کا مجرم کون ہے؟
1971ء کے قتل عام میں اصل خون اس انقلابی تحریک کا ہوا تھا جو بر صغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی جانب بڑھ رہی تھی۔ اگر ایک انقلابی پارٹی اس تحریک کو سوشلسٹ انقلاب کی منزل سے ہمکنار کر دیتی تو آج یہاں کا جغرافیہ اور تاریخ مختلف ہوتے۔ برصغیر دنیا کی سب سے زیادہ غربت پالنے والے خطے کی بجائے انسانی تہذیب کی ترقی اور امن کا گہوارہ ہوتا۔ تاریخ سے اہم اسباق اخذ کرنا انقلابیوں کا ہمیشہ سے بنیادی فریضہ رہا ہے۔ سقوطِ ڈھاکہ کے واقعات اس ادھوری جدوجہد کو مکمل کرنے کا درس دیتے ہیں۔ ایک ایسی جدوجہد جس میں قومی آزادی کی تحریکوں کو طبقاتی کشمکش کے ساتھ جوڑتے ہوئے اس طبقاتی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ رنگ، نسل، زبان، مذہب اور دیگر تمام تعصبات سے بالا تر ہوکر امیر اور غریب کی اس حتمی لڑائی کی صف بندی کی جائے اور اپنے طبقاتی دشمنوں سے ماضی کے تمام جرائم کا انتقام لیتے ہوئے یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرکے انسانیت کی حقیقی تاریخ کا آغاز کیا جائے۔

متعلقہ:

بنگلہ دیش کا خلفشار

سقوط بنگال کی اوجھل تاریخ

سقوطِ بنگال کی اصل داستان

سانحہ رانا پلازہ بنگلہ دیش: سرمایہ دارانہ شرح نمو کا حقیقی چہرہ بے نقاب