۔14اگست: آزادی کا ماتم

’’ایسے میں کون ہے جو ملکی سالمیت اور بقا کی بات کر رہا ہے؟ صرف اس ریاست کے تنخواہ دار دانشور۔ ریاست کی خودمختاری اور سالمیت پر لیکچر جھاڑنے والے وہ لوگ جو میڈیا پر بیٹھے نئے نئے ناٹک کرتے ہیں۔ ان کو اس ملک کی سالمیت اور بقا سے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ ان کو تو چھینک بھی آ جائے تو بیرون ملک معالجے کے لئے چلے جاتے ہیں، وہ تو اپنی کمائی تک اس ملک کے بینکوں میں نہیں رکھتے مبادہ کسی دن یہ دیوالیہ نہ ہو جائے‘‘

[تحریر: راشد خالد]
ہر سال کی طرح اب کی بار بھی جشنِ آزادی انتہائی جوش و خروش سے ’’بنایا‘‘ جا رہا ہے۔ 20 کروڑ انسانوں کے گلے سڑے ڈھانچوں سے ایک اور مذاق کیا جا رہا ہے جن کی پژمردہ روحیں ان کے جسموں سے بھی زیادہ گھائل ہیں۔ سالہا سال سے آزادی کے ترانے سنتے سنتے آزادی کے معانی اب اپنی اساس کھوچکے ہیں۔ ہر فرد نوحہ کناں ہے۔ ذلت، محرومی، استحصال، غربت، بھوک، بیروزگاری، بیماری اور دیگر سماجی و معاشی اذیتیں انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن کئے ہوئے ہیں۔ دہشت گردی کا آسیب ہر سر پر منڈلا رہا ہے، مذہبی جنونیت ننگا ناچ ناچ رہی ہے، ہر آنے والا حکمران بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہا ہے، لبرل اور سیکولر دانشور میڈیا پر نان ایشور کی بحثوں سے انسانی ذہنوں کو پراگندہ کر رہے ہیں، عدلیہ انصاف کے گورکھ دھندے کا ناٹک رچا رہی ہے، فوج پلاٹوں کے کاروباروں میں مصروف ہے، پولیس جعلی مقابلوں میں انسانی جانوں کے ساتھ کھیل رہی ہے۔ عوام پس رہے ہیں۔ کس گناہ کی سزا ہے یہ آزادی!
66 سال قبل برصغیر کے سینے کو ریڈ کلف لائن کے ذریعے چیر کر دو قومی ریاستوں کی تشکیل کی گئی تھی۔ دونوں طرف کے حکمران طبقات نے اس دن سے لے کر آج تک مجبور و محکوم عوام کی امیدوں کے ساتھ کھلواڑ جاری رکھا ہوا ہے۔ ڈیڑھ ارب انسانوں کی زندگیوں کے ساتھ ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ پچھلی چھ دہائیوں میں مصنوعی طور پر یہ سوچ پروان چڑھائی گئی کہ ’’برصغیر میں دو قومیں آباد تھیں، ان دونوں قوموں کی دو الگ پارٹیاں کانگریس اور مسلم لیگ تھیں اوران کی جدوجہد کے نتیجے میں دو الگ ریاستیں پاکستان اور بھارت معرض وجود میں آئیں‘‘، مگر حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی ممالک میں عوامی بغاوتوں کا آغاز ہو گیا تھااور جنگ کی وجہ سے برطانوی سامراج اتنا کمزور ہو چکا تھا کہ وہ نوآبادیاتی ممالک پر براہِ راست اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ 1946ء میں جہازیوں کی بغاوت نے برطانوی سامراج کو بوکھلا کر رکھ دیا تھا۔ یہ سال ہندوستان کے انقلاب کا سال تھا۔ تحریک کی شدت کے پیش نظر برطانوی حکومت کو ’انڈین نیشنل آرمی‘ کے سبھی گرفتار رہنماؤں کو رہا کرنا پڑا جن پر غداری کے مقدمات تھے۔ برطانوی فوج، جس کی اکثریت ہندوستانی سپاہیوں پر مشتمل تھی، میں بھی بغاوت پھوٹ پڑی۔ پہلے جبل پور کی بیرکوں میں سپاہیوں کی بغاوت، پھر ڈیرہ دھون میں گورکھا رجمنٹ کی حکومت کے خلاف بغاوت۔ برطانوی سامراج کے خلاف سب سے زبردست بغاوت کا آغاز 18 فروری 1946ء کو رائل انڈین نیوی کے جہاز ’ایچ ایم ایس تلوار‘ سے ہوا، جو بمبئی کے ساحل پر کھڑا تھا۔ پھر یہ بغاوت بمبئی سے کراچی تک پھیلی اور اس کے بعد نیوی کے تقریباََ 20 مزید بیڑے اس کی زد میں آگئے۔ نیوی کے 78 جہاز اور تقریباََ 20 ہزار جوان اس میں شریک ہو گئے۔ اس بغاوت نے نہ صرف سمندر کو بلکہ فوجی قلعوں اور بیرکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یونین جیک اتار کر پھاڑ دئے گئے اور ان کی جگہ سرخ پرچم لہرا دئے گئے۔ اس تحریک میں جس ہڑتالی کمیٹی کا اعلان کیا گیا اس کے صدر ایم ایس خان اور نائب صدر مدن سنگھ تھے۔ یہ حقیقت برصغیر میں موجود مذہبی تعصب کی سوچ کی دھجیاں بکھیرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ بغاوت کامیاب نہ ہو سکی اور اسے خون میں ڈبو دیا گیا مگر اس نے برطانوی سامراج کے نوآبادیاتی غلبے کو منطقی انجام تک پہنچا دیا۔
جہازیوں کی بغاوت برطانوی سامراج کے تسلط کے خلاف کوئی پہلی تحریک نہیں تھی۔ بلکہ بیسویں صدی میں کئی اور تحریکیں بھی ابھریں جنہوں نے ہندوستان کے سماج پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ’’غدرپارٹی‘‘ کی جدوجہد اور پارٹی قیادت کو پھانسی کی سزا، 1919-22ء اور بعد میں 1926-27ء میں محنت کشوں کی جدوجہد، 1928ء میں ’’ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن‘‘ کا قیام اور 1931ء میں بھگت سنگھ، راج گرو اور سکھ دیو کی شہادت، 1935ء میں ریلوے ورکرز کی تحریک اور اسی طرح محنت کشوں اور انقلابی نوجوانوں کی کئی دوسری تحریکیں ابھرتی رہیں۔ یہ ہندوستان میں برطانوی سامراج سے آزادی کی جدوجہد کی وہ تاریخ ہے جس کو سرکاری تاریخ اور نصاب سے حذف کر دیا گیا ہے۔ مگر تاریخ کے انکار یا انحراف سے تاریخ بدل نہیں جاتی۔ اس تمام تر جدوجہد میں اگر کانگریس اور مسلم لیگ کا کردار دیکھا جائے تو ہمیشہ ان کی قیادتوں نے برطانوی سامراج کی دلالی کا کردار ادا کیا ہے اور ان تحریکوں کی مخالفت میں ان پر کیچڑ اچھالنے کا فریضہ سرانجام دیا۔ بایاں بازو اپنی سٹالنسٹ پالیسیوں اور کمنٹرن (جو لینن اور ٹراٹسکی کے بعد سٹالن اسٹ بیوروکریسی کے کنٹرول میں تھا) پر بے جا انحصار کی وجہ سے کوئی واضح لائحہ عمل دینے میں ناکام رہا۔ ہندوستان کی تقسیم میں جہاں کانگریس اور مسلم لیگ کا کردار ہے وہیں کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا بھی اس تقسیم کی اتنی ہی ذمہ دار ہے جس نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سٹالن، چرچل، روزویلٹ معاہدے کے پیش نظر ماسکو کے احکامات کے تحت مسلمان کمیونسٹوں کو مسلم لیگ اور ہندو کمیونسٹوں کو کانگریس میں بھیجنے کی مہلک پالیسی اختیار کی۔
اگست 1947ء میں مصنوعی طور پر دوقومی جمہوری انقلابات کا آغاز ہو۔ دو قومی ریاستیں معرضِ وجود میں آگئیں۔ مگر دونوں ممالک کی بورژوازی کبھی بھی کوئی اپنا آزادانہ وجود برقرار نہ رکھ سکی بلکہ سرمائے کی منڈی میں تاخیر سے داخل ہونے کی وجہ سے ہمیشہ سامراجی ممالک پر انحصار کرتی رہی حتیٰ کہ اس کے نمائندے بھی انتہائی نا اہل رہے ہیں۔ ٹراٹسکی نے اس کے بارے میں لکھا تھا کہ ’’ہندوستان کی بورژوازی کبھی بھی ایک انقلابی جدوجہد کی قیادت کی اہل نہیں ہو سکتی۔ یہ برطانوی سرمایہ داری کی غلام ہے اور مکمل طور پر اس کی مطیع اور حاشیہ بردار ہے۔ یہ اپنی جائیدادوں کے تحفظ کے لئے سبھی حدود و قیود سے گزرنے کے لئے تیار رہتی ہے۔ یہ عوام سے انتہائی خوفزدہ رہتی ہے اور برطانوی سامراج سے سمجھوتا کرنے کے لئے مری جا رہی ہے، خواہ اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ یہ عوام کو اصلاحات کی لوریاں سنا سنا کر نیند میں غرق رکھنا چاہتی ہے۔ اس بورژوازی کا لیڈر اور پیمبر گاندھی ہے۔ وہ ایک مصنوعی لیڈر اور پیمبر ہے۔‘‘
ٹراٹسکی کی یہ بات ہمیں ان دونوں ممالک کی اب تک کی تاریخ میں بالکل سچ ثابت ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بالخصوص پاکستان کی بورژوازی کے حوالے سے جو سامراجی آقاؤں کی آشیرباد حاصل کرنے کو ہر سطح تک جانے کے لئے تیار رہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب پاکستان نے جنم لیا اس وقت عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام قومی ریاستوں کی تشکیل کے مرحلے سے نکل کر سامراجی مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے جنم دن سے ہی یہ ریاست انتہائی کمزور اور اپنے سامراجی آقاؤں کی بغل بچہ رہی ہے۔ یہاں آج تک ریاستی استحکام کے لئے کوئی پالیسی ترتیب دی ہی نہیں جا سکی اور نہ ہی یہاں بسنے والے کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کی بہتری کی لئے کوئی معاشی یا سماجی لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ اپنے جنم سے ہی یہ ریاست انتہائی نحیف رہی ہے اور سامراجی آقاؤں کی امداد اور خیرات کی مستحق بھی۔ پھر سامراجی ممالک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور ان کے تعلقات بھی ان مفادات کی تکمیل کے لئے ہی ہوا کرتے ہیں۔ یہاں کے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں بالخصوص امریکہ کے مفادات کے تحفظ میں کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ سرمایہ داری کے عالمی ابھار نے یہاں پر بھی سرمایہ داری کو فروغ دیا لیکن ساتھ ہی ساتھ محنت کشوں کے استحصال میں بھی اضافہ ہوا۔ آمریت کے تلے سیاسی جبر نے سماج کو ایک پریشر ککر کی شکل دے دی۔ 1968-69ء میں تحریک ابھری اور اس نے ایک طویل آمریت کو اکھاڑ کر پھینک دیا مگر کسی واضح مارکسی قوت کی غیر موجودگی اسے پاپولزم کی طرف لے گئی مگر پاپولسٹ لیڈر اس انقلاب کو پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچا سکا۔ اصلاحات کی گئیں، ان اصلاحات نے کچھ سرمایہ داروں کو تو رگیدا مگر نظام کو ٹھیس نہ پہنچائی۔
ادھورا انقلاب اپنے بچوں کو کھا جاتا ہے۔ ایسا ہی ہوا، ایک اور آمریت کا دور آیا اور اس آمریت نے پاکستان کا نقشہ ہی تبدیل کر دیا۔ انقلاب کی ہر نشانی کو کھرچا گیا۔ افغان ڈالر جہاد شروع ہوا اور اس کے لئے کالے دھن کو فروغ دیا گیا۔ پھر وہ کالا دھن اس ریاست کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا۔ اسلامائزیشن کی ہوا چل پڑی۔ مذہب کے نام پر کاروبار فروغ پاتا گیا۔ اس کے بعد حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں مگر طرزِ حکمرانی وہی رہا کیونکہ اسی میں حکمران طبقات کی بقا تھی۔ ایک طرف امارت میں اضافہ ہوتا گیا اور دوسری طرف غربت، بھوک، بیماری، بیروزگاری کا ارتکازبڑھتا رہا۔ نظام مفلوج ہونے لگا۔ حکمرانوں کو مصنوعی تنفس کی ضرورت پڑی اور عالمی طاقتوں نے اس ضرورت کو قرضوں کے ذریعے پورا کیا۔ پھر تو یہ سلسلہ رکنے میں ہی نہیں آیا۔ حکمران پے در پے قرضے لینے لگے، اور کیوں نہ لیتے، جب ان کی واپسی کا سارا ذمہ پاکستان کے غریب عوام کے سر ہے۔ نئی سے نئی اور سخت سے سخت شرائط۔ وہ شرائط پوری نہیں ہو پاتیں تو بیرونی آقا قرضہ دینے سے انکار کرتے ہیں، پھر ملکی بینکوں سے قرضہ لینے کا عمل شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت پاکستان کا کل قرضہ 140 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ اندرونی قرضہ بیرونی قرضے سے بڑھ چکا ہے۔ داخلی قرضہ، کل قرضے کا 59.9 فیصد اور بیرونی قرضہ 40.1 فیصد ہے۔ ابھی IMF سے 5.3 ارب ڈالر مزید قرضہ لیا جا رہا ہے۔ اس قرضے کے حصول کے لئے انتہائی سخت شرائط عائد کی گئی ہیں اور پاکستانی حکمرانوں نے ان کی تعمیل کا عزم مصمم بھی کر لیا ہے۔ لیکن ان قرضوں سے سماجی بہتری کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس قرضے میں سے تقریباََ نصف اس سال IMF کے پہلے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں صرف ہوگا اور باقی اسلحے اور دیگر مدوں کے ساتھ ساتھ کمیشنوں کی صورت میں مختلف افراد کے بیرون ملک اکاؤنٹس میں چلے جائیں گے۔ غریبوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس وقت بھی پاکستان میں جنم لینے والا ہر بچہ 85 ہزار روپے کا مقروض ہوتا ہے۔ پاکستان کی کل قابل محنت آبادی کا نصف بیروزگار ہے اور اس تعداد میں مزید اضافہ ہی ہو گا۔ ملکی صنعت مفلوج ہو چکی اور جو رہی سہی کسر ہے وہ لوڈشیڈنگ نکال پوری کر رہی ہے۔ پاکستان کی شرح نمو میں صنعتی پیداوار کا حصہ لگاتار سمٹ رہا ہے اور اس وقت محض 13.2 فیصد رہ چکا ہے۔ اس سال شرح نمو کا جو حدف مقرر کیا گیا ہے اس میں زراعت کا حصہ 21.4 فیصد اور خدمات (Services) کا 57.7 فیصد رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدات انسانی محنت کی ہیں جو خلیجی ممالک، یورپ، امریکہ اور دیگر خطوں میں سستے مزدوروں کی شکل میں فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ محنت کش کثیر زرِ مبادلہ ملک میں بھیجتے ہیں، جو ملکی معیشت کو سہارا دینے کی ایک بڑی وجہ بھی ہیں۔ پاکستان کی معیشت میں سب سے بڑا حصہ غیر قانونی اور غیر سرکاری معیشت کا ہے۔ خود پاکستان کی وزارتِ داخلہ کے اعدادو شمار کے مطابق پاکستان کی معیشت کا تقریباََتین چوتھائی کالے دھن کی معیشت پر مبنی ہے جو کسی ضابطے اور کسی قانون کے تابع نہیں ہے۔ اسی کالے دھن کے کی بدولت ہمیں پاکستان میں بڑی معاشی سرگرمی ہوتے ہوئے نظر آتی ہے۔ پرائیویٹ بینک، نجی ہسپتال، رہائشی منصوبے، عظیم الشان پلازے، ٹرانسپورٹ کمپنیاں اور اس طرح کے دیگر نئے پھلتے پھولتے کاروبار کالے دھن کی معیشت کا ہی شاخسانہ ہیں۔
کرپشن اس ریاست کے تمام تر اداروں کی نس نس میں رچی بسی ہے اور کرپشن کو ختم کرنے کے دعویدار وں کو اندازہ نہیں کہ کرپشن کو ختم کرنے کا مطلب اس ریاست کو ختم کرنا ہے۔ حتیٰ کہ ماضی میں جس ادارے کی کافی عزت ہوا کرتی تھی، وہ فوج بھی ہر سطح پر کرپشن میں ملوث ہے۔ سپاہیوں کو چھٹی یا بونس لینے کے لئے بھی اپنے افسر کو رشوت دینا پڑتی ہے۔ فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں پر اربوں روپے کے اخراجات کرنے کے باوجود یہ ریاست اپنی رِٹ برقرار رکھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کراچی میں قتل و غارت گری کا جو بازار گرم ہے، اس کو ختم کرنے کا کسی میں یارا نہیں ہے، بلوچستان میں ہونے والا قتلِ عام اور بالخصوص شیعہ آبادی کی نسل کشی کے پیچھے چھپے ہاتھوں کو کوئی بے نقاب نہیں کر سکتا۔ ریاست کسی کو بھی تحفظ دینے میں ناکام ہو چکی ہے، سوائے حکمرانوں اور سرمایہ داروں کے۔ دہشت گرد ایک اہم شہر کی جیل پر دھاوا بول کر اپنے افراد کو اٹھا لے جاتے ہیں، اس کے بعد کونسا جرائم پیشہ گروہ ہو گا جو دہشت گردوں کے ساتھ ملنے کو تیار نہ ہو گا؟ انہوں نے ریاست کی دیو ہیکل طاقت کو نہ صرف چیلنج کیا بلکہ اس کو تہس نہس بھی کر دیا ہے۔ آنے والے دنوں میں صورتحال مزید خوفناک ہوگی۔
ایسے میں کون ہے جو ملکی سالمیت اور بقا کی بات کر رہا ہے؟ صرف اس ریاست کے تنخواہ دار دانشور۔ ریاست کی خودمختاری اور سالمیت پر لیکچر جھاڑنے والے وہ لوگ جو میڈیا پر بیٹھے نئے نئے ناٹک کرتے ہیں۔ ان کو اس ملک کی سالمیت اور بقا سے کوئی غرض نہیں ہے کیونکہ ان کو تو چھینک بھی آ جائے تو بیرون ملک معالجے کے لئے چلے جاتے ہیں، وہ تو اپنی کمائی تک اس ملک کے بینکوں میں نہیں رکھتے مبادہ کسی دن یہ دیوالیہ نہ ہو جائے۔ حکمرانوں کے چونچلے عوام کی نظروں سے اوجھل نہیں ہیں۔ عوام اور بالخصوص محنت کش طبقہ ہر روز ایک نیا سبق حاصل کر رہے ہیں۔ تجربات ان کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات ان کے نتائج کو مزید پختہ کر رہے ہیں۔ سطح کے نیچے لاوا پک رہا ہے۔ یہ لاوا زیادہ وقت تک زیرِ زمین نہیں رہے گا اور جب یہ سطح پر آئے گا تو یہ اپنے لئے نئے راستے اور نئی منزلیں خود تراشے گا۔ ماضی کی ہر فرسودہ زنجیر کو توڑنے کے لئے، ہر تقسیم کو فنا کردے گا۔ اس کا راستہ طبقاتی جدوجہد اور اس کی منزل سوشلسٹ انقلاب ہو گا۔

متعلقہ:
یومِ پاکستان: یہ ’شاخ نور‘ جسے ظلمتوں نے سینچا ہے
بھگت سنگھ کی انقلابی میراث
اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟
جنگ آزادی 1857ء: ڈیڑھ سوسال بعد بھی اس جنگ کو جیتنا باقی ہے۔ ۔
نوجوان سیاسی کارکنوں کو بھگت سنگھ کا پیغام