کشمیر: سامراجیوں کے شکنجے میں

[تحریر: یاسر ارشاد]
مسئلہ کشمیر برصغیر کی سیاست خاص کر پاک و ہند تعلقات کے حوالے سے ہمیشہ ہی سفارتکاری کا محور رہا ہے۔ لیکن درحقیقت ایک طبقاتی سماج کے تقریبا تمام مسا ئل کی طرح مسئلہ کشمیر پر بھی قدیم یونانی فلاسفر ارسطو کی یہ بات صادق آتی ہے۔ ارسطو نے لکھا تھا کہ ہر شہر کے اندردو شہر ہوتے ہیں ایک غریبوں کا دوسرا امیروں کا۔ اسی طرح مسئلہ کشمیر کے دو پہلو ہیں ایک بر صغیر پاک و ہند کے سرمایہ دارحکمرانوں کی لوٹ مار اور منافع خوری کے اس نظام میں سرمائے کی حاکمیت کے تقاضوں اور ضروریات کا پہلو ہے تو دوسرا بالخصوص کشمیری محنت کش عوام کی غلامی‘ پسماندگی‘ غربت اور بربادی کیساتھ ساتھ با لعموم پاک و ہند کے محنت کشوں کے استحصال کا پہلو ہے۔ پاک و ہندکے حکمران طبقات بر صغیر کے گلے سڑے سرمایہ دارنہ نظام کی داخلی اور خارجی ضروریات کے تابع مسئلہ کشمیر کو کبھی جنگ کے جواز اور کبھی امن مذاکرات کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔لیکن ان حکمرانوں کی جنگیں اور امن بنیادی طو ر پر اس خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کے استحصال اور اپنی حاکمیت کو برقرار رکھنے کا واحد مقصد لئے ہوئے ہیں اس لئے حکمرانوں کی جنگیں اور امن مذاکرات کبھی بھی مسئلہ کشمیر کے حقیقی انسانی المیے یعنی کشمیریو ں کی غلامی اور خطہ کشمیر کی تقسیم کے خاتمے کا باعث نہیں بن سکتی اور نہ ہی ان جنگوں اور امن مذاکرات کا ایسا کوئی مقصد ہوتا ہے۔ ایک طویل عرصہ تک مسئلہ کشمیر کو پاک و ہند کشیدگی کی بنیادی وجہ بنائے رکھنے کے بعد گزشتہ چند سالوں سے پاک و ہند مذاکرات میں مسلہ کشمیر کو حکمرانوں کے ان مذاکرات کے طے شدہ ایجنڈے میں بھی شاید شامل نہیں کیا جاتا اور اگر شامل کیا بھی جاتا ہے تو یہ ایسا موضوع ہوتا ہے جس پر گفتگو بالکل نہیں کی جاتی۔ اسی ماہ اسلام آباد میں پاک و ہند وزرائے خارجہ کے مابین ہونے والے مذاکرات دیکھے جائیں تو محض خریدی اور بیچی جانے والی اشیاء کی فہرست،سرمایہ کاری اور بڑے امیر تاجروں کو طویل مدت کے ویزے جاری کرنے کے علاوہ کسی بات پر اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔مسئلہ کشمیر کے حوالے سے در حقیقت پاک و ہند حکمران طبقات ایک غیر اعلانیہ فیصلے پر متفق ہو چکے ہیں اور وہ یہ ہے کہ کشمیر کی موجودہ تقسیم اور اس پر پاک و ہند کا سامراجی تسلط جوں کا توں برقرار رکھتے ہوئے کشمیر کا جو حصہ پاکستا ن کے قبضے میں ہے اس کو کلی نہ سہی مگر جزوی طور پر ایک سست رو عمل کے ذریعے پاکستانی ریاست کے حصے میں تبدیل کیا جائے تا کہ پاکستان کی یہ سفارتی سطح کی منافقانہ برتری ختم ہو سکے کہ پاکستان کشمیر کا کنٹرول عارضی طور پر اس وقت تک سنبھالے ہوئے ہے جب تک مسئلہ کشمیر کا کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ شاید اسی مقصد کے پیش نظر گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کی قانون ساز اسمبلی میں گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی قرارداد تقریباً اتفاق رائے سے منظور کرائی گئی۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے چند دن پہلے یہ خبر بھی گردش کررہی تھی کہ اس علاقے کو پچاس سال کے لئے چین کو لیز پر دیے جانے کی تجویز پر غور کیا جار ہا ہے۔ اس مسئلے میں چین ایک انتہائی اہم فریق کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے جس پر بعد میں تفصیل سے بحث کی جائے گی۔ کشمیر کی موجودہ کیفیت جو کم وبیش تقسیم ہند کے وقت سے آج تک ویسی ہی ہے‘ اس مجرمانہ تقسیم کو ایک منافقانہ خاموشی کے ذریعے تسلیم کرائے جانے کی پالیسی کے ذریعے حکمران طبقات مسئلہ کشمیر کا حل نکال رہے ہیں یا محض وقتی ضروریات کے پیش نظر اس مسئلے کی شدت کوکم تر سطح پر لے جا رہے ہیں؟یہ سمجھنا شاید زیادہ مشکل نہیں ہے۔حکمرانوں کی موجودہ حرکتوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاک و ہند کے حکمرانوں کو آج کل جو سامراجی آقا ہدایات جاری کرتے ہیں وہ ٹھیک ویسی ہی ہیں جو دسمبر 1996ء میں پاکستان کا دورہ کرنے والے چین کے اس وقت کے صدر جیانگ زیمن نے چینی بیور و کریسی کی خارجہ پالیسی کے بنیادی فلسفے کے حوالے سے بیان کی تھی۔جیانگ زیمن نے کہا تھا کہ چین ایک طویل مدتی تناظر کو نظر میں رکھتے ہوئے یہ کوشش کرتا ہے کہ جو مسائل فوری طور پر حل نہیں کیے جا سکتے ان کو ایک طرف اس حد تک دھکیل دیا جائے تاکہ وہ ریاستوں کے مابین معمول کے تعلقات کو بگاڑنے کا باعث نہ بن سکیں۔

گلگت بلتستا ن اور چین
چین کی گلگت بلتستان میں بڑھتی ہوئی سرمایہ کاری اس خطے میں چین کے سامراجی کردار کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔اس وقت پانچ ہزار سے سات ہزار چینی فوج کے انجینئرزاور سپاہی گلگت بلتستان میں شاہرائے قراقرم کی کشادگی اور اس کے ساتھ مختلف مقامات پر خصوصی صنعتی اور معاشی زون کی تعمیر، دریائے سندھ پر بنائے جانے والے دیامر،بنجی اور ہرموش ڈیمز کے علاوہ یورینیم،تانبے،سونے اور دیگر معدنیات کی کانوں میں کا م کر رہے ہیں۔

گلگت بلتستان کی دھاتو ں اور معدنیات کی ایسو سی ایشن کے مطابق اسلام آباد کے حاکموں نے غیر اعلانیہ پابندی عائد کر رکھی ہے کہ کوئی بھی مقامی کمپنی اس خطے میں معدنیات یا دھاتو ں کو نکالنے کا ٹھیکہ نہیں لے سکتی اور کسی بھی مقامی کمپنی کو کان کنی کا لائسنس جاری نہیں کیا جاتا۔ بیرونی کمپنیاں جن میں زیادہ تر چین کی ہیں گلگت بلتستان کے معدنیات سے مالا مال علاقے کے دو تہائی پر کنٹرول حاصل کر چکی ہیں جو مقامی حکومت کو ٹیکس یا رائلٹی ادا نہیں کرتیں۔ 2011ء میں مقامی آبادی کی مخالفت کے باوجود سکوار، میناوار، پاری بنگلہ اور بنجی کے علاقے سے یورینیم نکالنے کا ٹھیکہ چین کی ایک کمپنی کو دے دیا گیا۔اس کے علاوہ چین نے طویل مدت میں اس علاقے میں ڈیموں، معدنیات اور انفراسٹریکچر کے شعبوں میں 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔بڑھتی ہوئی تجارت کے پیش نظر چین سُست کے مقام پر خشک بندرگاہ جو اس وقت روزانہ 40کنٹینرز کی تجارت کی گنجائش رکھتی ہے کو 400کنٹینرز تک وسعت دینے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ چین مستقبل میں کاشگر سے گوادر تک ریلوے لائن بچھانے کا منصوبہ بھی رکھتا ہے۔ گلگت بلتستان کے علاقے میں مختلف شعبوں میں چین کی سرمایہ کاری وہ تمام خصوصیات رکھتی ہے جو اس عہد کی بیرونی سرمایہ کاری کا خاصہ ہیں۔ یعنی یہ بیرونی سرمایہ کاری محض وسائل کو لوٹنے کے پیش نظر کی جاتی ہے اور اس لوٹ کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی استعمال کی جاتی ہے تاکہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی محنت استعمال نہ کرنی پڑے لیکن اس کے ساتھ چینی سرمایہ کاری کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے جو براعظم افریقہ میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کے عمل میں کھل کر سامنے آئی وہ یہ کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود ان مشینوں کو چلانے کیلئے تھوڑے بہت جن مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی یہ سرمایہ کاری چین سے اپنے ساتھ لے آتی ہے۔ اگرچہ گلگت بلتستان میں ہونے والی چینی سرمایہ کاری کا جائزہ لیا جائے تو یہ انفراسٹریکچر اور کان کنی جیسے شعبوں میں ہے جس میں بڑے پیمانے پر انسانی محنت یعنی مزدوروں کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن چینی سرمایہ کاری کی یہ خصوصیت کہ وہ زیادہ تر مزدور اپنے ملک سے ساتھ لے آتی ہے مقامی آبادی کیلئے زیادہ قابل نفرت اس لئے بن جاتی ہے کہ اس سرمایہ کاری سے جو تھوڑے بہت روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں مقامی آبادی ان سے بھی محروم رہ جاتی ہے۔ اسی لئے گزشتہ عرصہ میں گلگت بلتستان میں نوجوانوں اور مقامی آبادی کی طرف سے اس تمام تر لوٹ مار کے خلاف کافی بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے۔ اس کے علاوہ چین کا افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو نہ کھولنے کا ارادہ چین کے مسائل اور منصوبوں کی عکاسی کرتا ہے۔
چین کی افغانستان میں معدنیات اورتیل و گیس کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے باوجود چین افغانستان کے ساتھ اپنی زمینی سرحد کو کھولنے سے ہچکچا رہا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ چین کی سرحد زن جیانگ صوبے کے ساتھ افغانستان سے ملتی ہے اور یہ چین کا وہی صوبہ ہے جس میں مسلمان بہت بڑی تعداد میں ہیں اور گزشتہ چند سالوں میں یہاں کئی مرتبہ فسادات بھی ہو چکے جن پر قابو پانے کیلئے چین کو بھاری ریاستی طاقت استعمال کرنی پڑی ہے۔ چین اپنے داخلی امن و استحکام کو ضمانت فراہم کرنے کیلئے افغانستان کے ساتھ پامیر کے پہاڑی علاقے کی سرحد کو کھولنے کا خطرہ نہیں مول لینا چاہتا کہ افغانستان سے جہادی اور دہشت گرد زن جیانگ صوبے میں پہلے سے موجود بے چینی کو پر تشدد اور علیحدگی پسند عدم استحکام میں تبدیل کر سکتے ہیں جو خاص کر اگلے عرصے میں چین کی معاشی ترقی کی گرتی ہوئی شرح کے باعث زیادہ دھماکہ خیز شکل اختیار کر سکتی ہے۔ چین کے داخلی استحکام کو خارجی خطرات سے محفوظ رکھنے کی قیمت بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو ادا کرنی پڑے گی۔ گلگت بلتستان کی سماجی صورتحال دیکھی جائے تو یہاں کے لوگوں کی اوسط آمدن آدھا ڈالر روزانہ ہے۔ 85 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور ایک سے پانچ سال تک کے بچوں کی 50 فیصد اموات کی وجہ پینے کے لئے غیر معیاری پانی کا استعمال ہے۔ آبادی کا 70 فیصد 25 سال سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے اوراتنی ہی شرح ان لوگوں کی ہے جو بیروزگار ہیں یا نیم روزگار سے وابستہ ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق 3 لاکھ گریجویٹ نوجوان بیروزگاری کی اذیت میں مبتلا ہیں۔ گزشتہ عرصے میں دو ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جو مسئلہ کشمیر کے حوالے سے چین کی بدلی ہوئی پوزیشن کو ظاہر کرتے ہیں۔ایک 2011ء میں گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کا بیجنگ میں سرخ قالین پر استقبال کر کے اور دوسرا بھارتی مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو ہندوستانی پاسپورٹ کی بجائے محض کشمیری ہونے کا ثبوت فراہم کرنے والی دستاویزات پر چین میں داخلے کی اجازت دینے کے اعلان کے ذریعے چین یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اب کشمیر میں چین کے اتنے مفادات ہیں کہ چین مسئلہ کشمیر میں ایک فریق بن چکا ہے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے چین مسئلہ کشمیر پر اپنا آزادانہ موقف رکھتا ہے۔ اس صورتحال میں چین کی سامراجی سرمایہ کاری جہاں ایک جانب گلگت بلتستان کے ان تمام وسائل کی لوٹ کا موجب بنے گی جو اس خطے کے عوام کی اجتماعی ملکیت ہیں وہاں یہ سرمایہ کاری محض وہ انفراسٹریکچر تعمیر کرے گی جو صرف ان وسائل کی لوٹ میں مدد فراہم کرے گا جبکہ دیگر تمام علاقے اور شعبے اسی طرح پسماندگی اور پہلے سے زیادہ محرومی کی ذلت کا شکار ہونگے تو دوسری جانب یہ سرمایہ کاری بھارت اور امریکہ سمیت خطے کی دیگر ریاستوں کے ساتھ نئے سامراجی تضادات، انتشار، دہشت گردی، فرقہ وارانہ قتل و غارت اور ریاستی جبر کو بڑھاوا دے گی۔ لوٹ مار کے کے اس تمام تر عمل میں پاکستان کے حکمران اپنا حصہ وصول کرینگے اور گلگت کے حکمرانوں کو تھوڑا بہت کمیشن دیا جائے گا اور سرمایہ داری کی لوٹ کھسوٹ کا یہ سارا کھیل اس خطے کے عوام اور نوجوانوں کے خون اور آنسوؤں پر کھیلا جائے گا۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل اور محرومیوں کا کوئی بھی حل ممکن نہیں۔ گلگت بلتستان کے عوام کو سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے جیسے جمہوری حقوق کے نام پر فریب دیا گیا اسی طرح اگر اس خطے کو ایک سرمایہ دارانہ پاکستان کا صوبہ بنا بھی دیا جائے تو ان کی محرومیوں اور مسائل کو حل نہیں کیا جا سکتا چونکہ اگر ایک سرمایہ دارانہ پاکستان بلوچستان، سندھ، پشتونخواہ اور پنجاب کے عوام اور نوجوانوں کے مسائل پینسٹھ برسوں میں حل نہیں کر سکا تو گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کیسے حل ہو سکتے ہیں؟ گلگت بلتستان کے مستقبل کا فیصلہ اس خطے کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کا بنیادی اور اجتماعی جمہوری حق ہے لیکن پاکستان کے کاسہ لیس گلگت کے حکمرانوں کی جانب سے سامراجی مفادات کے تحفظ اور اس خطے کے قدرتی وسائل کی لوٹ کے لئے اس خطے کو پاکستان کا صوبہ بنائے جانے یا چین کو لیز پر دینے جیسا ہر فیصلہ چونکہ اس خطے کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کی بربادی کا باعث بنے گا اس لئے ہم ایسے ہر فیصلے کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔گلگت بلتستان کے محنت کش عوام اور نوجوانوں کو بھی طبقاتی بنیادوں پر متحد ہوتے ہوئے تمام کمیشن ایجنٹ حکمرانوں، ان کے سامراجی آقاؤں اور اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد کو آگے بڑھانا ہو گا۔

منافقانہ سفارتکاری اور مسئلہ کشمیر
گزشتہ دہائی میں عراق اور افغانستان میں براہ راست سامراجی جارحیت اور دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ نے اس خطے میں سامراجی مفادات کے حصول کے طریقہ کار میں تبدیلی کے ساتھ عالمی سفارتکاری کے ناٹک میں پاکستان کی پوزیشن کو کسی حد تک کمزور کر دیا ہے۔ پاکستان کو امریکی سامراج کے پالتو دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ قرار دیے جانے کے بعد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہر قسم کی مصلح کارروائی اور ہندوستان میں ہونیوالی دہشت گردی کے واقعات کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے پاکستان کو شدید سفارتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس خطے میں ابھرتی ہوئی چینی سامراج کی طاقت کے مد مقابل ہندوستان کو کھڑا کرنے کی امریکی پالیسی بھی کسی حد تک پاکستان کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث بنی ہے۔ اسی بنیاد پر اب پاک و ہند مذاکرات میں مسئلہ کشمیر کو محض اس لئے شامل کیا جاتا ہے تاکہ مذاکرات کے حوالے سے جو خبریں شائع کی جائیں ان میں یہ کہا جا سکاکہ کشمیر پر سنجیدہ مذاکرات کرنے کیلئے ماحول سازگار بنانے کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے موجود ہے لیکن ذرائع ابلاغ کی حقائق کو مسخ کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اب یہ بات واضح ہوتی جا رہی ہے اور حکمران ذرائع ابلاغ کو مجبوراً یہ لکھنا اور کہنا پڑ رہا ہے کہ کشمیر جیسے بنیادی مسئلے پر نہ تو ابھی تک کوئی پیش رفت ہوئی ہے اور نہ ہی مستقبل قریب میں ایسے کوئی امکانات موجود ہیں۔ حکمران طبقات کے اس مذاکراتی عمل سے کشمیر کے محنت کش عوام کو کسی پیش رفت کی کوئی امید تھی یا نہیں اس کا جواب آنا ابھی باقی ہے لیکن کشمیر کی آزادی پسند جماعتوں کے وہ تمام اعتدال پسند دھڑے جو امریکی سامراج کے سائے میں آتے ہی اعتدال پسند ہو گئے تھے اور مذاکرات کو مسئلہ کشمیر کے حل کا واحد ذریعہ قرار دے رہے تھے اب وہ کسی حد تک پر شکوہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کا پہلا شکوہ یہ ہے کہ مذاکرات کے اس عمل میں کشمیر کے حوالے سے پیش رفت کا عمل ابھی شروع ہی نہیں کیا جا سکا جو اس حوالے سے پریشان کن ہے کہ کہیں کشمیر کے وہ نوجوان جن کو ان اعتدال پسند قیادتوں نے مذاکرات کے ذریعے آزادی کے حصول کا خواب دکھا یا تھا وہ مایوس ہو کردوبارہ بندوق کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی کوشش نہ شروع کر دیں لیکن شائد یہ دلیل اس لئے دی جا رہی ہے کہ پاک و ہند مذاکرات کے عمل میں ان قیادتوں کو یہ خوش فہمی تھی کہ کشمیر ی عوام کی امنگوں کی ترجمانی کا موقع انہیں حاصل ہو گا۔ اب جبکہ پاک و ہند مذاکرات میں نہ تو کشمیر پر کوئی بات چیت ابھی تک شروع ہوئی ہے اور نہ ہی ان قیادتوں کو پاک و ہند مذاکراتی مقامات پر سرکاری پروٹوکول میں یاتراؤں کی دعوت مل رہی ہے اس لئے وہ ان حکمرانوں کو مسلح تحریک کے دوبارہ پھوٹ پڑنے کے امکانات سے خوفزدہ کرنے اور اپنی سنجیدگی کو ظاہر کرتے ہوئے قبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو پاک و ہند مذاکرات یا جنگ یا امریکی و یورپی سامراجی ثالثی کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل کی سوچ ہی بنیادی طور پر انتہائی غلامانہ ہے جس میں ایک نہیں تو دوسری ریاست،چھوٹی نہیں تو بڑی سامراجی طاقت کی دلالی کے ذریعے آزادی حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی دلالی کے ذریعے چند افراد کو تھوڑی بہت مالی مراعات یا سامراجی آقا کی قدم بوسی کی قربتیں تو حاصل ہو سکتی ہیں کسی خطے یا ملک کے عوام کو آزادی یا نجات کبھی نہیں حاصل ہوتی۔ ہر ملک اور خطے کے عوام اور محنت کشوں کو آزادی اور نجات مقامی و غیر ملکی حکمرانوں سے جدوجہد کے ذریعے ایک طبقاتی جنگ لڑ کر فتح مند ہوتے ہوئے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔ اس لئے کشمیر کی آزادی کی وہ تمام طریقے جو حکمران ذرائع ابلاغ، ان سامراجی ریاستوں کے نمائندوں کے مابین مذاکرات یا ان کی کاسہ لیس سیاسی قیادتوں کی جانب سے بیان کئے جاتے ہیں وہ ایک پر فریب جعلسازی پر مبنی بکواس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

مسئلہ کشمیر کا حل؟ امکان و تناظر
سب سے پہلے اعتدال پسند جماعتوں کے اس غلیظ پروپیگنڈے کی وضاحت ضروری ہے جس میں وہ دوبارہ کسی مسلح تحریک کے پھوٹنے کا واویلا کر رہے ہیں۔ درحقیقت کشمیر کی مسلح تحریک کشمیری عوام اور نوجوانوں کیلئے ایک بہت تلخ تجربہ تھا جس کے اسباق کشمیر کی موجودہ نسل کے ذہنوں میں ابھی بہت تازہ اور گہرے ہیں۔ جون 2010ء میں کشمیری نوجوانوں کی ایک زبردست تحریک ابھری جسے سنگ بازوں کی تحریک کا نام دیا گیا تھا اور جس نے نہ صرف اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں موجود ہر پارٹی اور قیادت کو مسترد کیا تھا بلکہ اس تحریک نے مستقبل میں کشمیر کی جدوجہد کے نئے خطوط کو بھی استوار کیا تھا۔ جون 2010ء کی تحریک نے نام نہاد افسانوی آزادی کے تمام نعروں کو مسترد کرتے ہوئے زندگی کے حقیقی مسائل یعنی روزگار کے حصول اور فوجی چیک پوسٹوں کے خاتمے جیسے نعروں کے گرد ایک تحریک کا آغاز کیا تھا جس نے پرانے نعروں کے ساتھ مسلح جدوجہد اور مذاکرات کے ذریعے مسائل کے حل کے طریقوں کو مسترد کرتے ہوئے پہلی بار طبقاتی مسائل کے گرد ایک سیاسی اور طبقاتی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ اگرچہ یہ تحریک محنت کش طبقے کی سرگرم حمایت حاصل کرنے میں فوری طور پر کامیاب نہیں ہو سکی مگر گزشتہ پینسٹھ برسوں میں یہ پہلی تحریک تھی جس نے نہ صرف کشمیر کے محنت کش طبقے کی بلکہ پورے برصغیر خاص کر ہندوستان کے محنت کش طبقے کی پرجو ش ہمدردیاں حاصل کی تھیں۔ اور گزشتہ پینسٹھ برسوں میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ابھرنے والی یہ پہلی تحریک تھی جس کے ساتھ پاکستان کے حکمران طبقات بھی منافقانہ ہمدردی نہیں ظاہر کر سکے بلکہ پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اس تحریک کی ایک خبر بھی شائع نہیں کی۔ شاید اس لئے کہ اس تحریک نے جن مسائل کے حل کی آواز بلند کی تھی وہ اس خطے کے کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کے مشترکہ مسائل تھے اور اسی لئے اس تحریک کے واضح طبقاتی رنگ نے دہلی اور اسلام آباد کے حکمرانوں کو ایک ہی شدت سے خوفزدہ کر دیا تھا۔ اس بنیاد پر یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ آنے والے عرصے میں کشمیر میں ابھرنے والی کسی بھی بڑی عوامی تحریک کا حاوی کردار اور رنگ تنگ نظر قومی تعصب کی بجائے واضح طور پر طبقاتی ہوگا اور اس کی جدوجہد کا طریقہ کار مسلح جدوجہد کی بجائے سیاسی انقلابی طریقہ کار ہو گا۔ اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ تحریک کے طویل ہو جانے کے سبب نوجوانوں کے کچھ حصے دوبارہ ہتھیار اٹھانے کی طرف جائیں لیکن نوجوانوں کی اکثریت کا جھکاؤ محنت کش طبقے کے انقلابی سیاسی طریقہ کار کی جانب ہوگا۔ اس کیفیت میں یہ ممکن ہے کہ حکمران طبقات ایسی تحریک کی طاقت کو توڑنے اور اس کی عوامی حمایت کو کمزور کرنے کیلئے اپنے پالتو سیاسی کارندوں کے ذریعے تشدد کے عنصر کو تحریک پر حاوی کرنے کی کوشش کریں لیکن آنیو الے عرصے میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایسی کسی تحریک کا ابھارہوتا ہے تو اس کو ایک پرجوش حمایت پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے محنت کشوں اور انقلابی مارکسی رجحان کی طرف سے ملے گی۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے معاشی و سماجی حالات تیزی سے بدسے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، مہنگائی، بیروزگاری اور سرمایہ دارانہ لوٹ مار اس خطے کے محنت کشوں کی اذیتوں بھری زندگی کو مزید ذلت ناک بناتے جا رہے ہیں۔ اس بنیاد پر یہ ممکن ہے کہ کنٹرول لائن کے آر پار طبقاتی تحریک کی باہمی جڑت زیادہ تیزی سے وجود میں آسکتی ہے اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر میں معروضی حالات کے پہلو بہ پہلو ایک حقیقی انقلابی متبادل بھی نشوونما کے عمل میں ہے جو اس تحریک کو نہ صرف ایک درست رہنمائی، مارکسی نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل فراہم کر سکے گا بلکہ یہ انقلابی قیادت کشمیر کے محنت کش عوام کے حقیقی اتحادی یعنی برصغیر پاک و ہند کے محنت کش طبقات کی عملی و سرگرم حمایت حاصل کرنے میں بھی فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔ یہی وہ واحد طریقہ ہے جس کے ذریعے کشمیر کے محنت کش ایک طبقاتی تحریک، مارکسی نظریات اور محنت کش طبقے کی عالمی یکجہتی کی بنیاد پر منظم ہوتے ہوئے کشمیر کی صدیوں کی غلامی اور تقسیم کا خاتمہ کرسکتے ہیں اورکشمیریوں کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی مکمل آزادی اور سرمایہ دارانہ و سامراجی استحصال سے نجات مل سکتی ہے۔ ایسی انقلابی تحریک ہی گلگت بلتستان کے محنت کش طبقات کو بھی اپنے ساتھ جوڑ سکتی ہے اور اگر کشمیر سے محنت کش طبقے کی انقلابی تحریک کے ذریعے سرمایہ داری کا خاتمہ ہوتا ہے اور برطانوی سامراج کی کھینچی گئی مصنوعی لکیروں کو مٹایا جاتا ہے تو صرف دو راستے رہ جائیں گے۔ یا تو کشمیر کے انقلاب کو پھیل کر پورے برصغیر کا انقلاب بننا پڑے گا یا پاک و ہند کی سامراجی ریاستیں اس نومولود انقلاب کا خاتمہ کر دیں گی۔ لیکن سرمایہ داری کے عالمی زوال اور تاریخی متروکیت کی موجودہ کیفیت میں جہاں دنیا بھر میں اس نظام کے خلاف انقلابی تحریکوں کا ایک نیا طوفان امڈ رہا ہے اس بات کے امکانات کئی گنا زیادہ ہیں کہ نہ صرف کشمیر بلکہ برصغیر کے کسی بھی کونے سے اگر ایک واضح طبقاتی پروگرام کی بنیاد پر سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ داری کا مکمل خاتمہ کیا جاتا ہے تو ایسا انقلاب ایک جنگل کی آگ کی طرح پورے برصغیر میں پھیل جائے گا جہاں سے انسانی تاریخ میں پہلی بار عالمی سطح پر طبقاتی حکمرانی کے نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام قوموں کی برابری اور مکمل آزادی پر مبنی حقیقی انسانی سوشلسٹ سماج کے قیام کا آغاز ہوگا۔

متعلقہ:

کیا پاکستان ٹوٹ سکتا ہے؟

بھارت کی تاریکی

۔23مارچ؛ دو قومی نظریے کا دیوالیہ پن

انقلاب پاکستان یوتھ کانفرنس

مقبول بٹ شہید کی28ویں برسی کے موقع پر جموں کشمیر نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کے زیر اہتمام سیمینار و احتجاجی ریلیاں