بکھرتا ہوا عراق!

[تحریر: فریڈ ویسٹن، ترجمہ: فرہاد کیانی]
ISIL کی جانب سے اپنے زیر قبضہ علاقوں میں ’’خلافت‘‘ کے نفاذ اور کرد انتظامیہ کی طرف سے کردستان میں ریفرنڈم کے اعلان کے بعد عراق کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ممکنہ جغرافیائی تقسیم کا تناظر زیادہ واضح ہوگیا ہے۔ مسلح جنگجوؤں کی نسبتاًچھوٹی تعداد کے ہاتھوں عراق کے بڑے علاقوں پر تیزی سے قبضہ کرنے سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ شمال میں موصل جیسے شہروں پر قبضہ کرنے والے گروپوں پر عراقی مسلح افواج کوبہت زیادہ عددی برتری حاصل تھی لیکن عراقی فوج ہوامیں اڑ گئی۔ معلوم ہوتا ہے کہ گہرائی میں کچھ ہو رہا ہے۔
عراق کی موجودہ صورتحال کی جڑیں2003ء میں ہونے والی سامراجی مداخلت میں پائی جاتی ہیں جسے بش اور بلیئر ایک جائز جنگ بنا کر پیش کر رہے تھے اور اس کا مبینہ مقصد ’’قابلِ نفرت آمر صدام حسین‘‘ کو ہٹانا تھا۔ ہم نے اس وقت یہ وضاحت کی تھی کہ صدام حسین کا تختہ الٹنے کا فریضہ عراقی عوام کا ہے، کسی اور کا نہیں۔ ان کے بیان کیے گئے مقصد یعنی ایک مستحکم بورژوا جمہوری حکومت کے قیام کی بجائے آج عراق کی مذہبی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ اس سے پہلے عراق میں القاعدہ یا دوسرے کسی مسلح اسلامی بنیاد پرست گروپ کا وجود نہیں تھا۔ سامراج کے ہاتھوں بربادی کے بعد ہی اس ملک میں ایسے گروپوں نے جگہ بنائی۔ چنانچہ نام نہاد ’’مغربی اقدار‘‘ کے دفاع کی جنگ کی بجائے، یہ جارحیت القاعدہ جیسے گروپوں کی کاروائیوں میں اضافے کا باعث بنی۔

فرقہ واریت پر مبنی مالکی حکومت
سامراجی عراق میں ایک سولین انتظامیہ چھوڑ کر آئے جس کا سربراہ مالکی 2006ء میں امریکی منظوری سے وزیرِ اعظم بناتھا۔ مالکی کی سربراہی میں حکومت کے کارناموں میں یہ بھی شامل ہے کہ 2008ء میں عراق کو دنیا کا آٹھواں کرپٹ ترین ملک قرار دیا گیا، اس کے انسانی حقوق کے ریکارڈ کو ’’بدحال‘‘ قرار دیا گیا اور یہاں لوگوں کو جبراً گرفتاری اور تشدد کا نشانہ بنایا جانا معمول ہے۔ در حقیقت ہیومن رائٹس واچ نامی واشنگٹن نواز ویب سائٹ بھی عراق کے حالات کی بھیانک تصویر پیش کرتی ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ صدام حسین کا تختہ الٹنے کی جنگ کا مقصد جمہوریت کی سربلندی نہیں تھا۔ در حقیقت ’’مغربی جمہوریتوں‘‘ یعنی امریکہ اور یورپی سامراجوں کو سعودی عرب اور اس جیسی تمام مطلق العنان حکومتوں کے ساتھ کاروبار کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نام نہاد ’’مغربی طرز کی جمہوریتوں‘‘ کو پروان چڑھانا ان کے ایجنڈے میں سرِ فہرست نہیں۔ ان کا حقیقی مقصد ایسی حکومتیں قائم کرنا ہے جو ان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔
سماجی اور معاشی شعبے میں بھی حالات کچھ اچھے نہیں۔ سامراجیوں نے عراق پر بمباری اورقبضے کے لیے بہت بڑی رقم خرچ کی، لیکن وہ عراق کے محنت کش عوام کی بڑی تعداد کے سماجی حالات کے بارے میں زیادہ فکر مند نہیں ہیں۔ وسیع بے روزگاری اور بڑے پیمانے پر پھیلی غربت سے آبادی کا بڑا حصہ متاثر ہو رہا ہے۔ 2002ء میں بے روزگاری کی سرکاری شرح 16 فیصد تھی، لیکن حقیقی شرح اس سے کہیں زیادہ ہو گی۔ عراقی بزنس نیوز کے مطابق’’حکومت کی جانب سے شروع کئے گئے کئی پروگراموں کے باوجود عراق میں غربت اور بے روزگاری میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ اور دیگر بین الاقوامی تنظیموں نے شائع کیا ہے کہ عراقی آبادی کا 23 فیصد سے زیادہ خط غربت سے نیچے رہتا ہے۔ حقیقی شرح غربت 35 فیصد سے زیادہ ہے (یعنی ایک کروڑ بیس لاکھ افراد)۔ عراقی عوام نے اپاہج کر دینے والی معاشی پابندیوں کے علاوہ گزشتہ چار دہائیوں میں جنگ کے ہاتھوں بہت مشکلات اور تکالیف برداشت کی ہیں۔ (5 مارچ 2014ء)
ان حالات میں کوئی بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ ایک مستحکم بورژوا حکومت کا قیام ممکن نہیں کیونکہ اس ملک میں سرمایہ داری کوئی بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکتی۔ اس معاشی صورتحال میں ملک میں موجود نسلی اور مذہبی تقسیم سے عدم استحکام میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ تمام اطراف کے حکمران دھڑے تعصبات کو ہوا دینے اور ایک گروپ کو دوسرے کے خلاف ابھارنے کے لیے استعمال کرتے ہیں تا کہ عوام کی توجہ کو اصل قصور واروں، یعنی اوپر بیٹھے افراد، کی جانب سے ہٹا دیا جائے اور سارا الزام دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والوں یا دوسری زبان بولنے والوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔
ملک کی نسلی بناوٹ کچھ اس طرح سے ہے کہ : عرب 75 سے80 فیصد، کرد 15 سے 20 فیصد، ترکمان، آشوری اور دیگر5 فیصد۔ مذہبی بنیادوں پر تقسیم اس کے علاوہ ہے۔ اگرچہ آبادی کا 95 فیصد سے زیادہ مسلمان ہے لیکن وہ شیعہ (تقریباً 62 فیصد)، سنی (تقریباً 35 فیصد) پر مشتمل ہے۔ چھوٹی سی عیسائی اقلیت اس کے علاوہ ہے۔ سنی تقریباً برابر تعداد میں عرب سنیوں اور اور کرد سنیوں پر مشتمل ہیں۔

نو آبادیاتی ماضی کا ورثہ
ان تقسیموں کی بنیادیں نو آبادیاتی دور میں پیوست ہیں جب ٹوٹتی ہوئی سلطنتِ عثمانیہ کو برطانوی اور فرانسیسی سامراجیوں نے آپس میں بانٹا تھا۔ اگر ہم مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھیں تو سیدھی لکیر میں سرحدیں نظر آتی ہیں جو کئی سو میل تک چلتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سرحدوں کا تعین سامراجیوں نے کرسی میز پر بیٹھ کر قلم اور پیمانے کے ذریعے کیا تھا اور ان علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی تھی۔
در حقیقت پہلی عالمی جنگ میں دنیا کی از سرِ نو تقسیم کے بعد قائم ہونے والے نئے ’’ممالک‘‘ کوکچھ اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ ان میں مذہبی یا لسانی بنیادوں پر مستقل نسلی تفریق موجود رہے تا کہ ان اندرونی تنازعوں کی وجہ سے زمینی اور فوجی قبضہ ختم ہونے کے بعد بھی سامراج اپنا تسلط قائم رکھ سکے۔ یہ طریقہ پاکستان اور ہندوستان سے لے کر نائیجیریا، قبرص اور شمالی آئرلینڈ تک نظر آتا ہے۔
بصرہ میں برطانوی افواج کے ایک سابق کمانڈر جنرل جوناتھن شا نے ٹیلی گراف (12 جون 2014ء) میں لکھتے ہوئے یہ اعتراف کیا کہ’’عراق پہلی عالمی جنگ کے بعد فرانسیسیوں اور برطانویوں کی جانب سے نقشے پر مسلط کی گئی لکیروں سے قائم کیا گیا۔ اس وقت سے مذہب، قوم اور وفاداری کی بنیاد پر تقسیم لوگوں کے مفادات اور وفاداریوں کو آپس میں جوڑنے کا چیلنج درپیش ہے۔ اس کے بعد یہ لوگ قبائل میں مزید منقسم ہیں جن میں سے اکثر نقشے کی لکیروں کے پابند نہیں ہیں۔ ‘‘

غیر حل شدہ قومی سوال
حالیہ پیش رفتوں کو سمجھنے کے لیے عراق میں غیر حل شدہ قومی سوال بنیادی عنصر ہے۔ عوام کے مسائل حل نہ کر سکنے کی وجہ سے مالکی حکومت نے نسلی کارڈ استعمال کرنے کو ترجیح دی اور شیعہ اکثریت کی جانب جھکاؤ رکھتے ہوئے ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کا پرانا اور آزمودہ کھیل کھیلا۔ اس سے سنی عرب اقلیت مشتعل ہو گئی جس کا کچھ حصہ جو اب سنی علاقوں میں بغاوت کی حمایت کر رہا ہے۔ کرد پہلے ہی اپنا علاقہ عملی طور پر خود ہی چلا رہے ہیں، صرف ایک آزاد ریاست کا اعلان کرنا باقی ہے۔
خصوصاً سنی علاقوں اور بالعموم ملک کے دیگر حصوں میں حالیہ عرصے میں احتجاجی مظاہروں کی ایک بڑھتی ہوئی تحر یک موجود رہی ہے۔ دسمبر2012ء میں شروع ہونے والے مظاہرے مختلف مسائل پر تھے جن میں کرپشن سے لیکر بے روزگاری اور کم اجرتوں سے لے کر سہولیات کے فقدان جیسے مسائل شامل ہیں۔ ان میں کچھ مظاہرے قیدیوں کے ساتھ برے سلوک کے خلاف تھے جن میں بہت سوں کو عراقی سکیورٹی فورسز نے بغیر کسی وجہ کے گرفتار کیا تھا۔ فلوجہ سے لیکر موصل، کرکوک، بیجی، تکریت، الدور، الاسحاقی، سمارا، جلاولا، الضلوعیہ، بعقوبہ، رمادی، بغداد کے علاقوں، البو عجیل، ناصریہ اور دوسرے کئی شہروں اور دیہاتوں میں مظاہرے ہوئے۔
عمومی طور پر ان پر امن مظاہروں کے خلاف مالکی حکومت نے پر تشدد جبر کیا اور مظاہرین سے ایسا سلوک کیا گیا جیسے وہ دہشت گرد ہوں۔ مظاہرین کو قتل کیا گیا اور بہت سوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ فلوجہ میں تو حکومت نے مقامی آبادی پر بمباری تک کی۔ سنی علاقوں میں رہنے والے عراقی مسلح افواج اور پولیس کو ’’امن و امان‘‘ کے رکھوالوں یا پھر ’’انصاف‘‘ کے علمبرداروں کی بجائے قابض قوت کے طور ر دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کو امریکہ کی سربراہی میں ہونے والے قبضے کا تسلسل سمجھتے ہیں جس کے خلاف ان میں سے کئی لڑ تے رہے ہیں۔ جنرل جوناتھن شا کے الفاظ میں ’’ خوف اور فرقہ واریت مالکی کی حکومت کا خاصہ رہے ہیں جس سے سنی اور کرد، دونوں بیگانے ہو چکے ہیں۔‘‘

عراقی فوج کا انہدام
حالیہ پیش رفتوں کو اس پسِ منظر میں دیکھنا ضروری ہے۔ عراقی فوج اپنے سے کہیں کمزور قوتوں کے سامنے منہدم ہو گئی۔ اس کی وجہ یہ کہ فوج اور پولیس میں بہت سے شیعہ ہیں۔ در حقیقت، مالکی نے شعوری طور پر شیعہ افراد پر مشتمل مسلح افواج کو پروان چڑھایا اور انہیں مقامی آبادی کو دہشت زدہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ چنانچہ سنیوں کو آزاد کروانے کے دعویدار مسلح گروپوں کی پیش قدمی کے سامنے عراقی فوج اور پولیس یہ محسوس کر رہے تھے کہ مقامی آبادی کی بڑی تعداد حملہ آوروں کے ساتھ ہمدردی کرے گی اور وہ مالکی حکومت کے دوران ہونے والی سرکاری مسلح افواج کی نا انصافیوں کا انتقام لینا چاہیں گے۔
ابتدا میں میڈیا نے خبر دی کہ موصل میں باغیوں کے داخل ہونے پر’’500,000‘‘ افراد شہر چھوڑ چکے ہیں۔ بعد ازاں یہ خبر آئی کہ جانے والوں میں سے ایک قابلِ ذکر تعداد موصل واپس آنا شروع ہو گئی ہے۔ 15 جون کو اے پی کی ویب سائٹ پر اس عمل سے متعلق ایک دلچسپ رپورٹ آئی۔ اس میں ایک 80 سالہ کے شخص کا یہ بیان شائع کیا گیا کہ ’’میری خواہش ہے کہ خدا ان کی مدد کرے اور انہیں مالکی کے جبر کے خلاف فتح یاب کرے۔‘‘ اس مضمون میں مقامی لوگوں کے حوالے یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ موصل پر باغیوں کے قبضے کے بعد پانی اور بجلی کی ترسیل میں بہتری آئی اور قیمتوں کو نیچے لایا گیا ہے۔ اس مضمون کے مطابق ’’واپس لوٹنے والے شہریوں کے مطابق ان کے رشتہ داروں نے بتایا کہ باغیوں نے بنیادی ضروریات زندگی کی قیمتوں میں کمی کی۔ گاڑیوں کے لیے پیٹرول یا جنریٹرز کے لیے ڈیزل، جو بجلی کی بار بار بندش کی وجہ سے ایک بنیادی ضرورت بن چکا ہے، کے ایک لیٹر کی قیمت ٹیکسی ڈرائیور ابو محمد کے مطابق 42 سینٹ سے کم ہو کر30 سینٹ ہو گئی۔ پکانے کے تیل کا کنستر 6.85 ڈالر سے کم ہو کر3.40 ڈالر کا ہو گیا۔ جنگجوؤں نے تاجروں کو سبزی اورکھانے کی دوسری بنیادی اشیا آدھی قیمت پر فروخت کرنے پر مجبور کیا۔‘‘
واپس آتے ہوئے لوگوں نے بتایا کہ ان کے شہر چھوڑنے کی وجہ اسلامی جنگجوؤں کے خوف سے زیادہ اس بات کا ڈر تھا کہ مالکی حکومت شہر کا کیا حشر کرے گی۔ در حقیقت ماضی میں حکومت اپنے کنٹرول سے نکل جانے والے علاقوں پر بمباری کرچکی ہے، جس میں جنگجو اور مقامی شہری بلا تفریق مارے جاتے رہے ہیں۔

سنی آبادی میں پکتی ہوئی بغاوت
سنی آبادی میں مالکی کی جابر حکومت کے خلاف بغاوت پہلے ہی پک رہی تھی۔ ان علاقوں میں عام محنت کش عوام کی حالت انسانی برداشت کی حدوں کو پہنچ چکی تھی۔ طاقت کا خلا پیدا ہو رہا تھا اورریاست اتنی مضبوط نہیں تھی کہ صورتحال کو سنبھال سکے۔ لیکن عوام کے پاس کوئی پہلے سے تیار شدہ متبادل نہیں تھا۔ اس خلا میں کئی لڑاکا گروپ منظر عام پر آئے۔
اگر محنت کش عوام کو متحد اور متحرک کر کے ایک قوت بنانے والی محنت کش طبقے کی کوئی عوامی تنظیم موجود ہوتی تو یہ ایک انقلابی ابھار کی شروعات ہو سکتی تھی۔ طبقاتی سوالوں پر مبنی سنیوں میں شروع ہونے والی ایک تحریک محنت کش اور غریب شیعوں میں سرائیت کر سکتی تھی۔ اس کا مطلب مالکی حکومت کا خاتمہ تھا۔ لیکن سائنسی بنیادوں پر کام کرنے والی اس طرح کوئی تنظیم موجود نہیں تھی۔ سیاست میں زیادہ دیر تک خلا موجود نہیں رہتا اور کوئی اسے پُر کر دیتا ہے۔ یہاں ISIS اوردیگرمنظم لڑاکا گروپوں نے یہ کام انجام دیا اور یہ بغاوت با آسانی ایک مذہبی اور نسلی تنازعے میں تبدیل ہو گئی ہے جس کے نتائج ردِ انقلابی ہیں۔
در حقیقت موصل واپس آتی ہوئی مقامی آبادی کے متعلق اوپر بیان کی گئی اے پی کی رپورٹ کے مطابق ’’صرف سنی عرب واپس آتے دکھائی دے رہے ہیں جس سے شہر میں مختلف فرقوں اور نسلوں کی آبادی کے تناسب میں بنیادی تبدیلی آرہی ہے۔ ‘‘چناچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اگرچہ اسلامی بنیاد پرست لوگوں کی زندگی ’’سہل‘‘ بنا کر مقامی آبادی کے ’’دل و دماغ جیتنے‘‘ کی ٹھوس پالیسی پر عمل کر رہے ہیں لیکن اس پالیسی کا اطلاق صرف سنی عربوں پر ہوتا ہے۔
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ ISIS ہر جگہ پر فوراً اپنے شدید اسلامی بنیاد پرست قانون نافذ نہیں کر رہی کیونکہ ایسا کرنے کے لیے درکار قوتیں ہمیشہ ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔ جیسا کہ اے پی نے بیان کیا کہ ’’ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اسلامی ریاست نے ابھی تک شدید اسلامی قانون نافذ نہیں کیا کیونکہ انہیں دوسرے سنی اور قبائلی لڑاکا گروپوں اور صدام حسین کے وفادار سابقہ بعث پارٹی کے زیادہ سیکولر لوگوں کو خوش رکھنے کی ضرورت ہے جو سب واپس لوٹنے والے شہریوں کے مطابق شہر پر قبضے میں حصہ داری کا دعویٰ کر رہے ہیں۔‘‘

ترکمان
تاہم صرف عرب شیعہ ہی نہیں بلکہ چھوٹی اقلیتیں، جیسا کہ ترکمان، جو خود شیعہ اور سنی میں منقسم ہیں، بھی ISIS جیسے گروپوں سے خوفزدہ ہیں۔ اے پی کی رپورٹ میں ایک شیعہ ترکمان نذر علی کا بیان لکھا ہے کہ ’’یہ فرقہ واریت پر مبنی ہے۔ ہم ترکمان ہیں اور ہمیں ڈر ہے کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائیں گے۔‘‘ پہلے ہی ترکمان شیعہ سنی جنگجوؤں کے ساتھ جھڑپوں میں مارے جا چکے ہیں۔ کرکوک کے علاقے میں کچھ دیہاتوں پر سنی جنگجوؤں نے حملہ کر دیا اور مقامی عوام کو کرد مسلح تنظیم ’’پیشمرگہ‘‘ کے زیر کنٹرول علاقوں کی جانب بھاگنا پڑا۔
نتیجتاً کچھ ترکمان قوم پرست خود کو مسلح کر رہے ہیں اور اپنی ملیشیا بنا رہے ہیں۔ کرد مستقبل میں ایک ریفرنڈم کو استعمال کرتے ہوئے کرکوک کو کرد علاقے میں شامل کرنے کی امید میں ہیں۔ لیکن ترکمان ایک وفاقی انتظامیہ کا مطالبہ کر رہے ہیں جسے ترکمان، کرد اور عرب مل کر چلائیں۔ ان میں سے کچھ ایک آزاد ترکمان اتھارٹی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ال مانیٹر ویب سائٹ کے مطابق شیعہ اور سنی ترکمانوں میں تنازعات ہوئے ہیں جن میں شیعہ عراقی فوج کی جانب اور سنی فی الحال کردوں کی جانب جھکاؤ رکھ رہے ہیں۔ وہ یہ محسوس کر رہے ہیں کہ ترکی نے ان سے غداری کی ہے، جس کی جانب وہ اپنے دفاع کی خاطرفطرتاً دیکھتے رہے ہیں۔ ترکی اپنے مادی اور سٹریٹجک مفادات کی خاطرشمالی عراق میں کرد علاقائی حکومت کے قریب آ گیا ہے۔
ترکمانوں کی بدحالی آج کی دنیا میں قومی سوال کی پیچیدگی کو عیاں کرتی ہے۔ عراق اپنے علاقائی ٹکڑوں میں تقسیم ہو رہا ہے جن میں شیعہ علاقے، سنی عرب علاقے اور کرد علاقے شامل ہیں۔ لیکن ان علاقوں میں مزید تقسیمیں بھی موجود ہیں، جیسے ترکمان، جو اگرچہ اس وقت ISIS سے بچنے کے لیے پیشمرگہ کی جانب دیکھ رہے ہیں، لیکن ایک آزادعراقی کرد ریاست کے اندرایک اقلیت بننے کے مستقبل کے بارے میں زیادہ مطمئن نہیں ہیں۔
سرمایہ دارانہ بنیادوں پر اس مسئلے کا کوئی انت نہیں۔ صرف سوشلسٹ بنیادوں پر ہی اسے حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک وفاقی سوشلسٹ جمہوریہ کی صورت میں، جس میں عراق کے تمام لوگوں کو خود مختاری کا حق حاصل ہو اور جو مشرقِ وسطیٰ کی وسیع تر سوشلسٹ فیڈریشن کا حصہ ہو۔ یہی محنت کش طبقے فریضہ ہے۔

متحارب قوتیں
تمام ٹی وی رپورٹیں عراق کے بڑے حصوں پر قبضہ کر نے والے تمام گروپوں کے لیے ’’ISIS‘‘ کی اصطلاح استعمال کر رہی ہیں، لیکن کئی رپورٹس کے مطابق ISIS کے جنگجو بہت سے گروپوں میں سے ایک ہیں۔ تاہم یہ موصل پر قبضہ کرنے والوں میں سب سے بڑا گروپ ہے۔ یہاں تک کہ بی بی سی بھی تسلیم کرتا ہے کہ ’’حالیہ بغاوت میں زیادہ تر توجہ ISIS یعنی ’’عراق اور لیوانت کی اسلامی ریاست‘‘ کی جانب مبذول ہے لیکن یہ لڑنے والے ملیشیا گروپوں میں سے صرف ایک ہے۔‘‘ ( 14 جون 2014ء)۔ اسی رپورٹ میں ISIS کے ساتھ موصل میں داخل ہونے والی ’’جنرل ملٹری کونسل آف عراقی ریولوشنریز‘‘ کے ترجمان جنرل مظہر القیسی کا بیان درج کیا گیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ’’موصل اتنا بڑا شہر ہے کہ اس پر ISIS تنہا قبضہ نہیں کر سکتی‘‘ اور اس نے ISIS کو ’’وحشی‘‘ قرار دیا۔
مختلف ذرائع کے مطابق انتہا پسند جہادی گروپ ISIS کے پاس 10 سے 12 ہزار سے زیادہ افراد نہیں ہیں۔ اتنی سی قوت اتنے بڑے علاقوں پر اکیلے قبضہ نہیں کر سکتی۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ سنی عرب آبادی میں کچھ عرصے سے ایک بغاوت پک رہی تھی۔ اس میں کئی منظم اور مسلح گروپ بھی شامل تھے۔
یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ صدام حسین کے دور میں سنی عرب، کم از کم ان کی اشرافیہ، کو غلبہ حاصل تھا اور شیعہ اکثریت، کرد اور دیگر اقلیتیں جبر کا شکار تھیں۔ صدام حسین کے جانے کے بعد سنی دیوار کے ساتھ لگا دئیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ سنی قبائلی سردار، جنہیں کسی طور بھی ’’ترقی پسند‘‘ نہیں کہا جا سکتا، ان مفتوح علاقوں میں اپنی وجوہات کی بنا پر مالکی کے خلاف منظم ہو رہے تھے۔ شیخ حارث الضاری جیسے قبائلی سردار، جو علماء کا چےئر مین بھی ہے، مالکی کی شیعہ حکومت کے شدید مخالف ہیں۔
با خبر مبصرین اس طرح سے بنتی ہوئی صورتحال کو پہلے ہی دیکھ سکتے تھے۔ مارچ میں واشنگٹن پوسٹ نے مضمون شائع کیا تھا جس کا عنوان ’’عراق کے سنی قبائلی سرداروں کے مطابق فلوجہ کی جنگ انقلاب کا حصہ ہے‘‘ تھا۔ اس میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ عراقی قبائلی اور مذہبی قائدین کیا تیاری کر رہے ہیں۔ اس مضمون کے مطابق وہ ایک ’’انقلاب‘‘ کی تیاری کر رہے تھے، یعنی پر تشدد طریقے سے مالکی حکومت کا تختہ الٹنے کی۔
اس مضمو ن میں وضاحت کی گئی ہے کہ ’’حالیہ مہینوں میں با اثر ایسو سی ایشن آف مسلم سکالرز آف عراق، جس کی سربراہی سنی مذہبی علما کا ایک گروپ کرتا ہے، نے دسمبر میں مغربی شہر فلوجہ میں اسلامی جنگجوؤں کے قبضے کے بعد اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے جنوری میں عراقی فوج کی مداخلت کے بعد ابھرنے والی ایک فوجی کمانڈ کے ساتھ قریبی مراسم استوار کئے ہیں۔ ‘‘
اسی مضمون میں اس نئی کمانڈ کی وضاحت بھی کی گئی ہے جو جنرل ملٹری کونسل فار عراقی ریوولوشنریز ہے اور علاقائی فوجی کونسلوں کی ایک متحد قیادت کے طور پرقائم گئی ہے۔ ’’ ان کونسلوں میں قبائلی سردار اور سابقہ باغی شامل ہیں لیکن ان کی قیادت سابقہ سینئر فوجی افسران کر رہے ہیں جو ان ہزاروں سنی جرنیلوں میں سے ہیں جنہیں 2003ء میں صدام حسین کا تختہ الٹنے کے وقت امریکہ کی جانب سے عراقی فوج کو منتشر کرتے ہوئے منظر سے ہٹا دیا گیا تھا۔ مسلم سکالر ا یسوسی ایشن نے کہا ہے کہ وہ ملٹری کونسل کاحصہ نہیں ہے۔ لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ کونسل کے ساتھ قربت سے مل کر کام کرتے ہیں اور اس کے کچھ عہدیدار یہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ القاعدہ کے ساتھ عارضی اتحاد میں ہیں جس نے فروری میں ISIS سے اعلانِ لا تعلقی کر دیا تھا۔‘‘
اسی مضمون میں لکھا ہے کہ ’’2003ء میں امریکہ کی قیادت میں عراق پر قبضے کے بعد انبار میں کئی قبائل نے القاعدہ کے ساتھ اتحاد قائم کئے۔ اس گروپ کی درندگی نے کئی عراقیوں کو اس سے لا تعلق کر دیا اور القاعدہ کے لیے عوامی حمایت بہت ہی کم ہے، لیکن بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، منصفانہ مقدمے کے بغیر سزائے موت، روزگار اور حکومتی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شیعہ حکومت کے خلاف سنیوں کی ناراضگی انبار میں موجودہ لڑائی کو ہوا دے رہی ہے۔ ‘‘
جہادی گروپ ISIS کی مضبوطی شام میں جاری لڑائی اور عراق میں سنی قوم پرست تحریک کی عسکریت کا نتیجہ ہے۔ ابتدا میں امریکہ نے شام میں بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے اسلامی گروپوں کی حمایت کی۔ ان گروپوں کو خلیج کی رجعتی ریاستوں کی جانب سے بھی اسلحہ اور پیسہ ملتا رہا ہے۔ اس سے ISIS کو یہ موقع ملا کہ وہ عراق سے شام میں جائے اور پھر واپس عراق میں آ سکے۔ اس گروپ میں انتہائی غیر لچک دار جنونی عناصر ہیں جن کے پاس لڑنے کا جذبہ اور عزم ہے۔ لیکن اس کے علاوہ اور بھی قوتیں موجود ہیں جن میں اعتدال پسند سنی گروپ، سلفی اور ان کے ساتھ صدام کی پرانی فوج کے بچے کھچے افسران شامل ہیں جنہیں سامراجی قبضے کے دوران ہٹا دیا گیا تھا۔

جہادیوں کی ناگزیر مخالفت
در حقیقت ISISکی طاقت اور اثر و رسوخ کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا مالکی حکومت کے مفاد میں ہے۔ وہ یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ سنی عربوں پر جبر کر کے وہ موجودہ صورتحال کا ذمہ دار بنا ہے۔ وہ اسے اسلامی بنیاد پرستوں کی جانب سے تیار کردہ ایک سازش بنا کر پیش کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ وہ ISIS کی انتہا پسندی کو استعمال کرتے ہوئے اسے شیعوں کے خلاف ایک خطرہ بنا کر پیش کررہا ہے تا کہ رضاکاروں کی ایک فوج تیار کی جا سکے جو ’’ISIS کے خلاف لڑنے‘‘ کے لیے صف آرا ہو رہے ہیں۔ اس طرح وہ ایک خون ریز خانہ جنگی کی راہ ہموار کر رہا ہے جس سے عراق کے ٹوٹ جانے کا خطرہ ہے۔
تاہم سنی عربوں کی جانب سےISIS کو ملنے والی حمایت صرف مالکی کے خلاف لڑنے تک محدود ہے کیونکہ اسے مشترکہ دشمن سمجھا جاتا ہے۔ ISIS نے شمالی شام کے شہر الرقہ جیسی جگہوں پر سخت گیر قوانین نافذ کئے جس پر بالآخر مقامی آبادی کا رد عمل سامنے آیا۔ کسی مرحلے پر عراق میں بھی یہ ہونا ناگزیر ہے جہاں یہ انتہا پسند شریعت کے سخت گیر اصول نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔
اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ گروپ سنی عرب علاقوں پر اپناتسلط جماتے ہیں تو ناگزیر طور پر زیادہ انتہا پسند اور دوسرے عناصر کے درمیان لڑائی ہو گی۔ پہلے ہی ان میں تنازعات کی خبریں مل رہی ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ’’ایسا دکھائی دیتا ہے کچھ سنی قبائلی سرداروں نے القاعدہ کے ساتھ اپنے مفادات کی خاطر تعلقات استوار کر رکھے ہیں کیونکہ فی الحال وہ اسے عراقی حکومت کے مقابلے میں نسبتاً کم تر شیطان سمجھتے ہیں۔ ‘‘
ایسوسی ایشن کے سرکردہ مسلمان عالم شیخ محمد بشر فیدھی کے حوالے سے لکھا گیا ہے کہ ’’بعض اوقات (القاعدہ) لڑائی میں شریک ہو جاتی ہے اور بعض اوقات وہ نہیں لڑتی اور صرف بیٹھ کر تماشا دیکھتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایک دن آئے گا جب ہمیں اس گروپ سے لڑنا پڑے گا۔‘‘
سچ تو یہ ہے کہ عام عراقی جہاد کی جانب جھکاؤ نہیں رکھتے۔ تمام محنت کش عام لوگوں کی طرح وہ اپنی زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک مناسب زندگی اور امن میں رہنا چاہتے ہیں۔ لیکن 2003ء میں عراق پر قبضے اور بعد ازاں مالکی حکومت نے ایسے زمینی حالات پیدا کئے کہ لوگ ایسے گروپوں کی حمایت کرنے پر مجبور ہو گئے۔

کردوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا
شمالی عراق میں کرد علاقہ عملی طور پر ایک آزاد ریاست ہے۔ اگرچہ رسمی طور پر یہ عراق کا حصہ ہے لیکن اس کی اپنی مسلح افواج (پیشمرگہ) ہیں اور یہ اپنے معاملات خود چلاتے ہیں۔ موجودہ بحران نے انہیں متنازع علاقوں پر قبضہ کرنے کا موقع فراہم کیا ہے جن میں تیل سے مالامال شہر کرکوک بھی شامل ہے، جو ان کے دعوے کے مطابق ان کا دارالحکومت ہے، اگرچہ وہ اس علاقے میں واقع ہے جہاں کرد اور عرب دونوں آبادہیں اور ایک قابلِ ذکر ترکمان اقلیت بھی ہے۔ اس علاقے میں عراقی فوج کے انہدام کے بعد پیشمرگہ ہی وہ واحد قوت ہے جو صورتحال کو سنبھال سکتی ہے اور کرد علاقائی حکومت کا پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

کرکوک: پیشمرگہ کا ایک مسلح اہلکار

کرکوک بہت اہم ہے کیونکہ عراق میں تیل کے سب سے بڑے چند کنوئیں اس صوبے میں واقع ہیں۔ تیل کے ان اہم کنوؤں پر کنٹرول ایک قابلِ عمل کرد ریاست کے قیام کا ایک طریقہ سمجھا جا رہا ہے۔ تیل کی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنز، جن میں ایکسان، موبل اور ٹوٹل بھی شامل ہیں، مستقبل میں تیل کی تلاش کے لیے پہلے ہی عراقی کردستان کی حکومت سے معاہدے کر چکی ہیں۔
کرد سیاسی رہنما پہلے ہی ہمسایہ صوبے نینوی، جس کا دارالحکومت موصل ہے، میں سنی کمانڈروں سے مذاکرات کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد عملی طور پر عراق کی تقسیم ہے، جس کو وہ ملک ’’وفاقیت‘‘ کا نام دے رہے ہیں۔

ایران کا کردار
تہران حکومت نے بھی عراق میں اپنی موجودگی بڑھانے کے لیے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ بی بی سی کے مطابق ’’پاسدارانِ انقلاب کی ایک ممتاز یونٹ کے کمانڈر قاسم سلیمان کے بارے میں بتایا جارہا ہے کہ وہ بغداد میں ہے اور فوجی قائدین اور شیعہ ملیشیا کو باغیوں کے خلاف مل کر کاروائیاں کرنے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔‘‘ ایران نے مالکی کی مدد کے لیے مشیر اور ہتھیار بھی بھیجے ہیں۔ شیعوں پر مبنی مالکی حکومت کی وجہ سے تہران کا پہلے ہی عراقی معاملات میں گہرا ثر و رسوخ تھا۔ اب وہ اس حکومت کی ’’مدد‘‘ کرنے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ در حقیقت ان کا مقصد عراق پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرناہے۔
حقیقت میں ایران اس ساری صورتحال سے مضبوط ہو رہا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بش اور بلیئر کی شدید خواہش پر ہونے والی اس جنگ سے خطے میں امریکی سامراج کی پوزیشن مضبوط ہونے کی بجائے ایران کو فائدہ پہنچا ہے جس کی حال ہی میں پھٹنے والے تنازعات کے نتیجے میں بغداد پر گرفت مزید مضبوط ہو گی۔ لیکن اب امریکیوں کو عراق میں عدم استحکام کے خاتمے کے لئے ایران کی ضرورت ہے جیسا کہ پہلے افغانستان میں تھی۔
اس کے نتائج بین الاقوامی تعلقات پر مرتب ہوں گے کیونکہ ماضی کا ’’دشمن‘‘ اب اوباما حکومت کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے کہ عراق سے ابھرنے والے عدم استحکام پر قابو پانے میں دونو ں ملک کس طرح تعاون کر سکتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں امریکہ اور ایران کے تعلقات میں کچھ برف پگھلی ہے کیونکہ اوباما کو یہ احساس ہوا ہے کہ ایرانی تعاون کے بغیر عراق پر قابو نہیں رکھا جا سکتا۔ دوسری طرف ایرانی حکومت معاشی پابندیوں کا خاتمہ اور انفرا سٹرکچر کی تعمیر نو اور زوال پذیر معیشت کی بحالی کے لیے درکار فوری سرمایہ کاری حاصل کرنا چاہتی ہے۔
2011ء میں سفارتی تعلقات کے خاتمے کے محض تین برس بعد ہی برطانوی حکومت کی جانب سے تہران میں سفارت خانہ کھولنے کا فوری اعلان بھی بہت مضحکہ خیز ہے۔ اب ان کا ISIS کے خلاف لڑنے اور مالکی حکومت کو مضبوط کرنے میں’’مشترکہ مفاد‘‘ ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ اس حکومت کی حمایت کرنے میں تعاون کریں گے جو موجودہ بربادی کی ذمہ دار ہے۔ عراق کے سنی عرب، ایران کی ’’نیک خواہشات‘‘ پر قائل نہیں ہوں گے بلکہ اس سے امریکی اور یورپی سامراج اورایران کی حکومت کے درمیان حقیقی تعلق عیاں ہوگا۔ جب حکمران طبقے کے اپنے طبقاتی مفادات کا سوال ہو، جب علاقے کے استحکام کو خطرہ ہو، تو دونوں طرف سے بورژوا چور ایک ہو جاتے ہیں۔ ایران اب ایک وحشت خیز حکومت نہیں بلکہ ’’ذمہ دار‘‘ قوت ہے۔ تاہم ایران کی مداخلت ملک میں جاری نسلی تناؤ میں صرف اضافہ ہی کرے گی۔

ترکی
ترکی کے ہمیشہ سے عراق، خصوصاً تیل سے مالامال شمالی علاقے میں سامراجی عزائم رہے ہیں۔ بغداد کی مرکزی حکومت کی کمزوری کے بعد وہ عراقی کردوں سے قریبی تعلقات بنا رہا ہے۔ اس نے عراقی کرد علاقائی حکومت کو ترک بندر گاہوں کے ذریعے تیل برآمد کرنے کی اجازت دے کر ان کے ساتھ عملی اتحاد بنایا ہے۔
عراقی کردوں کے ساتھ پوزیشن میں ’’نرمی‘‘ کی روشنی میں ترک حکومت ترکی میں موجود کردوں کو کبھی رعائتیں دے کر پی کے کے (کردستان ورکرز پارٹی) سے مذاکرات کرتی ہے، اور پھر حسبِ ضرورت ان پر جبر بھی کرتی ہے۔
تاہم ترکی کی جانب سے کردوں کی ’’مدد‘‘ نیک نیتی پر مبنی نہیں ہے۔ اس کا مقصد کردوں کے مفادات کا تحفظ نہیں ہے۔ ترک ریاست کی تاریخ اپنے ملک میں کردوں پر بدترین جبر سے بھری پڑی ہے۔ ترک حکمران طبقہ کبھی بھی ایک آزاد کردستان کی جانب پیش رفت نہیں چاہتا کیونکہ اس کا مطلب خود ترکی کو غیر مستحکم کرنا ہے۔
ترکی کے مفادات شمالی عراق کے تیل کے ذخائر سے فائدہ اٹھانے میں ہیں، نہ کہ کرد قوم پرستی کو ابھارنے میں۔ لیکن تمام بے شرم سامراجیوں کی طرح وہ اس وقت تک شمال کے کرد حکام سے سودے بازی کریں گے جب تک ایسا ان کے مادی مفادات کے حق میں ہو۔ موجودہ وقت پرعراق کے شمال میں کرد خودمختار علاقے کی مضبوطی ایران کے وزن کو توڑنے کا کام کر ے گی جو علاقے میں ترکی کا بڑا مد مقابل ہے۔ کچھ عرصے سے عراقی کرد علاقے میں 1500 ترک فوجی تعینات ہیں اور آنے والے عرصے میں ا س تعداد میں اضافہ متوقع ہے کیونکہ ’’ISIS کا حملہ‘‘ اس کے لیے جواز فراہم کرے گا۔ ترکی کو سرحدیں بدلنے اور اس وجہ سے کردوں کے دعوے کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوئی خواہش نہیں، اور نہ ہی ترک حکومت امریکہ کی مخالفت کرتی ہے جس کااس وقت بنیادی مقصد عراق کو مستحکم کرنا اور ISIS اور دیگر گروپوں کی پیش رفت کو روکنا ہے۔
خلیجی ریاستیں بھی اس خطے میں اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہیں اورشام کے بعد اب عراق میں لڑتے ہوئے اسلامی بنیاد پرست گروپوں کو مالی معاونت فراہم کر رہی ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اسد کی حکومت ایران کی اتحادی ہے جس کے خلاف سعودی اس خطے میں پراکسی جنگیں لڑ رہے ہیں اور جو صرف شام تک محدود نہیں بلکہ بلوچستان (پاکستان) اور اب عراق میں بھی جاری ہے۔

سامراجی مداخلت نا منظور
بڑے پیمانے کی بیرونی مداخلت کے بغیر مالکی سنی علاقوں پر پھر سے قبضہ نہیں کر پائے گا۔ اس نے اب امریکہ سے فوجی مدد کی اپیل کی ہے کیونکہ سنی باغیوں کو پیچھے دھکیلنے کے لیے عراقی فوج پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اوباما کی عراق میں زمینی فوجیوں کے ساتھ واپس جانے اور ایک ایسی جنگ پھر سے شروع کرنے کی کوئی خواہش نہیں جو وہ ماضی میں ہار چکے ہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ واشنگٹن صرف فضائی مدد فراہم کر سکتا ہے اور وہ بھی ڈرون حملوں کی صورت میں۔
ڈرون حملے افغانستان اور پاکستان میں لوگوں کے ’’دل اور دماغ جیتنے ‘‘ کے لیے زیادہ مشہور نہیں ہیں جہاں ان میں بہت سے عام شہری مارے جا چکے ہیں۔ سنی علاقوں میں اس طرح کے حملے بغداد حکومت کی پوزیشن مضبوط کرنے کی بجائے سنی آبادی کو مزید پر عزم کریں گے۔
یہی وجہ ہے کہ اوباما نے کہا ہے کہ مالکی کو جانا ہو گا اور وہ شیعہ، سنی عربوں اور کردوں کی ایک ’’قومی وحدت‘‘ کی حکومت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ امریکی سامراجی یہ سمجھ رہے ہیں کہ موجودہ کیفیت میں مالکی کی شیعہ حکومت کے ہوتے ہوئے عراق کو متحد نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ مالکی کو وزیر اعظم منتخب کروانے میں امریکیوں نے بنیادی کردار ادا کیا تھا اور انہو ں نے ہی اسے سنی اقلیت پر شیعہ شاونسٹ جبر جاری رکھنے کی اجازت دی۔
مسئلہ یہ ہے کہ مالکی کو ایران کی حمایت حاصل ہے جو کہ خطے میں امریکی سامراج کے مقابلے میں کہیں زیادہ طاقتور کھلاڑی ہے۔ اس مضبوط ایرانی مداخلت کی وجہ سے ہی سعودیوں کی قیادت میں عرب سنی حکومتیں باغیوں کی مدد کر رہی ہیں جیسا کہ انہو ں نے شام میں شدید اسلامی بنیاد پرست گروپوں کی حمایت کی ہے۔
عملی طور پر عراق ٹوٹ رہا ہے۔ ISIS اوردیگر سنی گروپ جنوب میں داخل نہیں ہو سکیں گے جہاں بڑی شیعہ آ بادی ہے۔ اہم شیعہ درگاہوں والا شہر سامرا محاذ بنے کا۔ بغداد اور جنوب میں ہم شیعہ رضا کار فورس کی تعمیر دیکھ سکتے ہیں۔ اگر مالکی چلا بھی گیا تو اس کا فرقہ وارانہ سیاسی نظام موجود رہے گا۔
شیعہ علاقوں میں فرقہ وارانہ تحریک جاری ہے جس کا نا گزیر نتیجہ کھلی خانہ جنگی، خوفناک قتلِ عام اور نسل کشی کی شکل میں برآمد ہو گا۔ اس کے اثرات بغداد میں بھی مرتب ہوں گے جہاں 2006-07ء کی خانہ جنگی کے بعد سے سنی اور شیعہ الگ الگ علاقوں میں رہ رہے ہیں۔
یہ 2003ء میں عراق پر سامراجی قبضے کا حتمی نتیجہ ہے۔ صورتحال کو مستحکم کرنے کے بر عکس انہوں نے خطے میں موجود تضادات کو بہت بڑھا دیا ہے۔ کئی دہائیوں سے ایک ساتھ رہنے والے لوگ اب خانہ جنگی کی حالت میں ہیں۔ سامراج نے اپنے معاشی مفادات کے چکر میں ایک کے بعد ایک فاش غلطی کی ہے۔ ماضی میں انہوں نے صدام حکومت کی حمایت کی اور اسے ایران کے خلاف استعمال کیا۔ پھر پاگل جارج ڈبلیو بش کی حکومت میں انہوں نے یہ پالیسی اپنانے کا فیصلہ کیا کہ دنیا کی اقوام کو یہ دکھا دیا جائے امریکہ ہی واحد باس ہے جو باقی سب طاقتوں کو اپنی مرضی سے چلا سکتا ہے۔ عراق اور افغانستان پر حملے سے وہ ان کی مرضی کے برخلاف چلنے والی تمام حکومتوں کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ انہیں امریکی سامراج کی طاقتور جنگی قوت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آج امریکی سامراج دنیا کے سامنے ننگا اور خصی ہو چکا ہے۔ انہوں نے شام پر بمباری کی دھمکی دی اور پھر پیچھے ہٹ گئے۔ یوکرائن میں انہوں نے بہت شور مچایا لیکن انہیں پیوٹن کی جانب سے کریمیا کے الحاق کو تسلیم کرنا پڑا۔
ایک طاقتور امریکی سامراج کی بجائے یہ اب ایک ایسا دیو ہے جس کے پاؤں مٹی کے ہیں۔ اس صورتحال میں ایران کی قوت میں اضافہ ہوا ہے اور امریکی سامراجی جو بھی کریں گے غلط کریں گے۔ اگر وہ عراق کے سنی علاقوں پر بمباری کریں گے تو اس سے ملک میں موجود تقسیم مزید گہری ہو گی۔ اگر وہ کچھ نہیں کرتے تو ایران کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گی۔
اس ساری کیفیت میں عراق کے عام محنت کش عوام کو بھاری قیمت چکانی ہو گی، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، یا پھر کرد۔ حالات تیزی سے خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہے ہیں جس میں ہر جانب سے نسل کشی ہو گی اور لوگ ان علاقوں کی جانب ہجرت کریں گے جو ان کے خیال میں محفوظ ہیں۔ ہماری نظروں کے سامنے عراق ٹوٹ رہا ہے اور اس کے اثرات سارے خطے پرپڑیں گے۔ شام، لبنان، ترکی اور یہاں تک کہ اردن بھی متاثر ہوگا۔
لیکن اس بربادی کا حل کیا ہے؟ سمجھنے کی پہلی بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر کوئی حل ممکن نہیں۔ سامراج خطے میں مختلف بوسیدہ حکومتوں کی حمایت کرتا ہے کیونکہ یہ ان کے مادی اور سٹریٹجک مفاد میں ہوتا ہے۔ موجودہ بحران کا واحد حل ایسی معیشت ہے جو تمام انسانوں کے فائدے کے لئے کام کرے۔ اس کا مطلب اس خطے میں کمائے جانے والے بے پناہ منافعوں کو ملٹی نیشنل کارپوریشنز اور مقامی کرپٹ اشرافیہ کے ہاتھو ں سے چھین کر جدید انفرا سٹرکچر کی تعمیر، صحت، علاج، رہائش اور تعلیم کی ضروریات پر خرچ کرنا ہے۔
قومی سوال بنیادی طور پر ایک مادی سوال، روٹی کا سوال ہے۔ کر د محنت کشوں کوترکمانوں پر جبر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، شیعہ محنت کشوں کا سنیوں پر جبر کرنے میں کوئی مفاد نہیں، ایران کے محنت کشوں کاتہران کے حکمرانوں کے لالچی عزائم کی پشت پناہی کرنے میں کوئی فائدہ نہیں۔ سارے خطے کے محنت کشوں کا مفاد ان تمام گلی سڑی حکومتوں کو اکھاڑ پھینکنے میں ہے۔ 2011ء کا عرب موسم بہار اور اس سے قبل 2009ء میں ایران کی انقلابی تحریک آگے بڑھنے کی راہ دکھاتے ہیں جو کہ سارے مشرقِ وسطیٰ کا انقلاب ہے۔ یہ فریضہ ان ممالک کے محنت کشوں کو ہی انجام دینا ہوگا۔
آج عراق میں یہ بہت دور کا تناظر دکھائی دیتا ہوگا لیکن اس ملک میں جدید محنت کش طبقہ موجود ہے جوبڑے شہری علاقوں میں مجتمع ہے۔ یہ محنت کش طبقہ وہ قوت ہے جو حل فراہم کر سکتی ہے۔ ملک کے تمام دیانت دار سوشلسٹوں کو متحد ہو کر مارکسزم کا پرچم تھامنا چاہئے اورہر طرف کے محنت کشوں کو یہ وضاحت کرنی چاہئے کہ صرف سوشلسٹ انقلاب ہی ان کے مسائل کا واحد حل ہے۔ انہیں عراق میں محنت کشوں کی تاریخی یادداشت بننا ہو گا۔ انہیں شیعوں کو یہ یاد دلانا ہو گا کہ سامراج ان کا دوست نہیں ہے۔ 1991ء میں جب بصرہ میں شیعوں نے صدام حسین کے خلاف بغاوت کی تو امریکی تماشا دیکھتے رہے اور صدام حسین کے ریپبلیکن گارڈز نے ان کی انقلابی بغاوت کو کچل ڈالا۔ سامراجیوں نے انقلاب پر صدام کو ترجیح دی۔
عراق میں متحارب کسی بھی طاقت کا مقصد عام محنت کش لوگوں کے مفادات کا تحفظ نہیں ہے۔ عوام کی ایک بغاوت درکار ہے۔ نہ صرف حقیقی جمہوریت کے قیام اور مختلف لسانی گروہوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے، بلکہ ایک سوشلسٹ انقلاب کی خاطر جس کے ذریعے محنت کش تمام وسائل کو اپنے تصرف میں لاکرایک نئے سماج کی تعمیر شروع کر سکیں اور سرمایہ داری کی ناگزیر پیداوار، قومی تنازعات کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کر دیں۔

متعلقہ:
عراق: کالی آندھی کا اندھیر!
ایران: روحانی حکومت کی پہیلی کھل گئی
سامراجی جارحیت کی غارت گری
مجبوری کے معاہدے
لبرل ازم اور قدامت پرستی
مشرقِ وسطیٰ: سامراجی کٹھ پتلیوں کا میدان جنگ