’’انقلاب سے غداری‘‘ کا تعارف

| تحریر: ایلن ووڈز، ترجمہ: حسن جان |

سوویت یونین کی سٹالن اسٹ زوال پزیری کے موضوع پر لیون ٹراٹسکی کی یہ شہرہ آفاق کتاب ’عالمی مارکسی رجحان‘ (IMT) کے پبلشنگ ہائوس Wellred Books کی جانب سے شائع کی جارہی ہے۔ ایلن ووڈز نے اس کتاب کا تعارف خصوصی طور پر تحریر کیا ہے جس کا اردو ترجمہ ہم اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

’’انقلاب سے غداری‘‘ تاریخ کی اہم ترین مارکسسٹ تصانیف میں سے ایک ہے۔ لینن کی موت کے بعد روسی انقلاب پر یہ واحد سنجیدہ مارکسی تجزیہ ہے۔ اس کتاب کو مکمل پڑھے بغیر سوویت یونین کے انہدام کی وجوہات اور پچھلے دس سال میں روس اور دنیا میں ہونے والے واقعات کو سمجھنا ناممکن ہے۔
مارکسسٹوں کے لیے 1917ء کا اکتوبر انقلاب انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ تھا۔ اگر ہم پیرس کمیون کے مختصر لیکن شاندار واقعے کو ایک طرف رکھیں تو پہلی بار محنت کش طبقے نے اپنے استحصالیوں کو اکھاڑ پھینکا اور کم از کم سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے فریضہ کا آغاز کیا۔

trotsky's book revolution betrayed
جیسا کہ ٹراٹسکی نے’ انقلاب سے غداری‘ میں بتا یا ہے کہ پہلی بار سوشلزم کی زیست پذیری کو جدلیات کی زبان میں نہیں بلکہ فولاد، کوئلہ، بجلی اور سیمنٹ کی زبان میں ثابت کیا گیا۔ اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں قائم ہونے والی منصوبہ بند معیشت نے غیر معمولی کم وقت میں آج کے پاکستان سے زیادہ پسماندہ معیشت کو دنیا کی دوسری بڑی طاقت میں بدل دیا۔
اس لیے بالشویک انقلاب تاریخ کی کسوٹی پر مکمل طور پر پورا اترا۔ تاہم انقلاب، جیسا کہ مارکس کو توقع تھا، ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ملک میں نہیں بلکہ خوفنا ک پسماند گی کے حالات میں نیم جاگیردارانہ زار کے روس میں وقوع پذیر ہوا۔ بالشویکوں کو درپیش حالات کا اندازہ لگانے کے لیے صرف اس بات کا ذکر کرنا ہی کافی ہے کہ 1920ء کے صرف ایک
سال میں سوویت روس میں چھ ملین لوگ بھوک سے مر گئے۔

سوشلزم کے لیے درکار مادی حالات
مارکس اور اینگلز نے بہت پہلے اس بات کی وضاحت کی تھی کہ سوشلزم (ایک غیر طبقاتی سماج) کے وجود کے لیے مادی حالات در کار ہیں۔ سوشلزم کا نقطہ آغاز ہی ترقی یافتہ ترین سرمایہ دارانہ ممالک (جیسے امریکہ) سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر ذرائع پیداوار کی ترقی ہے۔ انتہائی ترقی یافتہ صنعت، زراعت، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بنیاد پر ہی انسانوں کی آزادانہ نشوونما کے لیے حالات پیدا کیے جاسکتے ہیں جس کا آغاز اوقات کار میں خاطر خواہ کمی سے ہوگاجو محنت کش طبقے کی سماج کی جمہوری کنٹرول اور انتظام کے لیے بنیادی شرط ہے۔
اینگلز نے کہا تھا کہ جس سماج میں آرٹ، سائنس اور حکومت پر ایک اقلیت کی اجارہ داری ہو، وہ اقلیت اپنی اس حیثیت کو اپنے مفادات کے لیے غلط طریقے سے استعمال کرے گی۔ لینن نے عمومی پسماندگی کے حالات میں انقلاب کی افسرشاہانہ زوال پذیری کے خطرے کو فوراً بھانپ لیا تھا۔ ’ریاست اور انقلاب ‘ میں، جو 1917ء میں لکھی گئی تھی، اس نے انقلاب کے بعد کے پہلے عرصے، سرمایہ داری اور سوشلزم کے بیچ عبوری دور، کے لیے بنیادی خد و خال وضع کیے (سوشلزم یا کمیونزم کے لیے نہیں )۔ جو یہ تھے:
۱۔ آزاد اور جمہوری انتخابات اور تمام سرکاری اہلکاروں کو واپس بلانے کا حق۔
۲۔ کسی بھی سرکاری اہلکار کی تنخواہ ایک ہنر مند مزدور سے زیادہ نہیں ہوگی۔
۳۔ کوئی مستقل فوج نہیں ہوگی بلکہ لوگوں کو مسلح کیا جائے گا۔
۴۔ بتدریج ریاست کے اُمور کو باری باری مزدور انجا م دیں گے: جب ہر کوئی افسر ہوگا تو کوئی بھی افسر نہیں ہوگا۔
یہ مزدور جمہوریت کا ایک مکمل پروگرام ہے۔ اس کا مقصد افسر شاہی کے خطرے کو روکنا ہے۔ یہی 1919ء کے پارٹی پروگرام کی بنیاد بنا۔ دوسرے الفاظ میں، سوشلزم کے دشمنوں کے بہتانوں کے بر عکس، لینن اور ٹراٹسکی کے دور میں سوویت روس تاریخ کی سب سے زیادہ جمہوری حکومت تھی۔
لیکن اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں بننے والی مزدوروں کی سوویت جمہوریت خطر ناک ثقافتی پسماندگی اور مادی وسائل کی کمی کی وجہ سے قائم نہیں رہ سکی۔ لینن کی موت کے بعد زوال کا عمل شروع ہو گیا۔ وہ افسر جو مزدوروں کی تحریک کی وجہ سے مرعوب ہو گئے تھے دوبارہ سر اُٹھا نے لگے، سالوں کی تحریک اور جنگوں کے نتیجے میں تھکے ہوئے مزدوروں کو پچھاڑ کر وہ اپنے آپ کو سماج سے اوپر لے گئے اور ایک نئی مراعات یافتہ پرت میں تبدیل ہوگئے۔
1930ء کے عشرے کے آغا ز تک لینن کے متذکرہ بالا پروگرام کے تمام نکات کو ختم کر دیا گیا۔ سٹالن کی قیادت میں مزدور ریاست افسر شاہانہ زوال پذیری کے عمل کا شکار ہوئی جو لیننسٹ پارٹی کی تباہی اور ایک عفریت ناک آمرانہ حکومت کے قیام پر منتج ہوئی۔ جس انداز میں یہ سیاسی رد انقلاب بر پا ہوئی اسے ٹراٹسکی نے ’انقلاب سے غداری‘ میں بیان کیا ہے۔

ایک نیا مظہر
1936ء میں سٹالنزم کا مظہر مکمل طور پر نیا اور غیر متوقع تھا۔ مارکس اور اینگلز کی کلاسیکی تحریروں میں کہیں پر بھی اس کا ذکر یا پیش گوئی نہیں کی گئی ہے۔ اپنی آخری تحریروں میں لینن نے سوویت ریاست میں بیوروکریسی کے ابھار پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس نے خبر دار کیا تھا کہ یہ اکتوبر انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ریاست کی تباہی کا باعث بن سکتی ہے۔ لیکن لینن کا خیا ل تھا کہ روس کی مزدور ریاست کی لمبی تنہائی ناگزیر طور پر سرمایہ دارانہ بحالی کی طرف جائے گی۔ بالآخر ایسا ہی ہوا لیکن سات دہائیوں کے بعد، اس عرصے میں سوویت مزدوروں سے سیاسی طاقت چھین لی گئی اور 1917ء میں بالشویکوں کی بنائی ہوئی جمہوری ریاست ایک عفریت ناک افسر شاہانہ اور آمرانہ بھونڈی نقالی میں تبدیل ہوگئی۔ صرف انقلاب کے نتیجے میں بننے والے قومیائے ہوئے ملکیتی رشتے اور منصوبہ بند معیشت باقی رہ گئی۔
انقلاب سے غداری میں ٹراٹسکی نے مارکسی نکتہ نظر سے سٹالنزم کا شاندار اور گہرا تجزیہ کیا ہے۔ اس تجزیے پر کبھی بھی مزید کام نہیں کیا گیا، اس سے بہتر تو بہت دور کی بات ہے۔ ساٹھ سال کے بعد تاریخ نے اسے صحیح ثابت کر دیا ہے۔ ٹراٹسکی نے خبر دار کیا تھا کہ بیوروکریسی قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت اور سوویت یونین کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس کے جواب میں ’سوویت یونین کے دوستوں ‘ کی طرف سے اس کے خلاف بے نظیر کردار کشی کی مہم چلائی گئی۔
آج اُن تمام نام نہاد کمیونسٹوں کو چلو بھر پانی میں ڈوب مرنا چاہیئے جو سٹالن کے گن گاتے تھے اور ٹراٹسکی کا مذاق اڑاتے تھے۔ ان میں سے بہت سے لوگوں نے سوشلزم اور کمیونزم کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ جوتھوڑے لوگ اب تک رسمی طور پر کمیونزم کے نظریات سے جڑے ہوئے ہیں ان کے پاس سوویت یونین میں ہونے والے واقعات کی وضاحت کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان میں سے کوئی سوویت یونین کے انہدام کی مارکسی وضاحت نہیں کر سکتے۔ یہی وہ چیز ہے جو نئی نسل (اور پرانی نسل کے بہترین عناصر)شدت سے مانگ رہے ہیں۔ ان کو اپنے رہنماؤں سے اپنے سوالات کے جوابات نہیں ملیں گے۔ لیکن ’انقلاب سے غداری ‘ کے صفحات میں وہ دیکھیں گے کہ ساٹھ سال پہلے ٹراٹسکی نے نہ صرف نتائج کی پیش گوئی کی تھی بلکہ مارکسی نکتہ نظر سے اس کا تجزیہ اور تشریح بھی کی تھی۔

سوویت معیشت کی دشمن بیوروکریسی
آج کل سوشلزم کے دشمن اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ سوویت یونین کا انہدام قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کی ناکامی ہے اور آخر الذکر افسر شاہانہ اور آمرانہ طرز حکومت سے ناقابل علیحدگی ہے۔ اس سوال کا جواب ٹراٹسکی نے پہلے ہی دے دیا تھا جب اس نے یہ وضاحت کی تھی کہ قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کے لیے جمہوریت اتنی ہی لازمی ہے جتنی انسانی جسم کے لیے آکسیجن۔
اعداد و شمار اور حقائق کے خزانے کے ذریعے ٹراٹسکی نے یہ دکھایا کہ کس طرح سوویت یونین نے قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کے ذریعے دیوہیکل پیداواری صلاحیت تخلیق کی لیکن اپنے اندرونی تضادات کی وجہ سے اسے استعمال کرنے سے قاصر تھی۔ قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کی ضروریات سٹالنزم کی افسر شاہانہ حکومت سے مکمل طور پر متصادم تھیں۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ پہلے پانچ سالہ منصوبوں کے دوران بیوروکریسی تب بھی، جب یہ ذرائع پیداوار کی ترقی میں ایک نسبتاً ترقی پسندانہ کردار ادا کر رہی تھی، بے تحاشا ضیاع کا باعث بن رہی تھی۔ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ انہوں نے پیداواری قوتوں کو سرمایہ داری کی نسبت تین گنا زیادہ قیمت پر ترقی دی۔ معیشت کی ترقی کے ساتھ یہ تضادات ختم نہیں ہوئے بلکہ اس کے بر عکس مزید ناقابل برداشت ہوگئے اور آخر میں نظام مکمل طور پر ڈھے گیا۔
روس کی پیداواری قوتوں کو بیوروکریٹک نظام نے مصنوعی طور جکڑ رکھا تھا۔ قومیائی گئی منصوبہ بند معیشت کی وجہ سے اس نے بے پناہ ترقی کی لیکن افسر شاہانہ بد انتظامی، ضیاع، بد عنوانی اور نا اہلی کی وجہ سے اسے سبوتاژ کیا گیا۔ اس مسئلے کو دور کرنے کا واحد راستہ، جس طرح لینن نے کہا تھا، محنت کش طبقے کا جمہوری کنٹرول اور انتظام تھا۔ 1980ء کی دہائی کی ترقی یافتہ معیشت کی بنیاد پر یہ مقصد حاصل کیا جا سکتا تھا۔
لیکن بیوروکریسی اس راستے پر چلنے کے لیے ہرگز تیا ر نہیں تھی۔ اس کے بر عکس، محنت کش طبقے کو کنٹرول تفویض کر نے کی بجائے افسرشاہی نے سرمایہ داری کی طرف جانے کو ترجیح دی۔ سرمایہ داری کی طرف واپسی کی تحریک معاشی ضرورت کی وجہ سے نہیں ابھری بلکہ محنت کشوں کے خوف اور حکمران پرت کی طاقت اور مراعات کے تحفظ کے لیے تھی۔ ٹراٹسکی نے پہلے ہی خبر دار کر دیا تھا کہ بیوروکریسی اپنی بے تحاشا مراعات، لگژری گاڑیوں، محلات اور نوکروں سے مطمئن نہیں ہوگی۔ کیونکہ ان سب کی بنیاد ریاستی ملکیت تھی جس کو وہ اپنے بچوں کو وراثت میں منتقل نہیں کر سکتے تھے۔ اس لیے جلد یا بدیر وہ ریاستی ملکیت کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اور یہی ہوا!

’کمیونسٹ پارٹی‘ کا کردار
جو چیز ہمیں حیرت زدہ کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کس طرح شاندار طریقے سے ٹراٹسکی نے روس میں 1989ء میں ہونے والے واقعات کے اہم خدوخال کی پیش گوئی کی تھی۔ تاہم کچھ حوالوں سے واقعات اس کی توقعات سے مختلف انداز میں وقوع پذیر ہوئے۔ 1930ء کی دہائی میں ٹراٹسکی کو یقین تھا کہ صرف ایک خانہ جنگی کے ذریعے ہی سرمایہ دارانہ رد انقلاب آسکتا ہے۔ اس نے لکھا، ’ ’حکمران پرت نے اکتوبر انقلاب سے غداری کی ہے لیکن ابھی تک اسے اکھاڑ نہیں پھینکا ہے۔ اس انقلاب میں مزاحمت کرنے کی طاقت موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ استوار شدہ ملکیتی رشتے، پرولتاریہ کی زندہ قوتیں اور اس کے بہترین عناصر کا شعور، عالمی سرمایہ داری کا جمود اور عالمی انقلاب کی ناگزیریت بھی ہے۔ ‘‘ (لیون ٹراٹسکی، انقلاب سے غداری، صفحہ نمبر 252)
یہ وقوع پذیر نہیں ہوا۔ سرمایہ دارانہ رد انقلاب انتہائی کم مزاحمت کے بعد وقوع پذیر ہو گیا۔ تاہم یہ تاریخ میں پہلی بار نہیں ہوا ہے کہ ایک گہری سماجی تبدیلی خانہ جنگی کے بغیر وقوع پذیر ہوئی۔ بہت دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک نظام اس حد تک گل سڑ چکا ہے کہ بغیر کسی جنگ کے وہ گر گیا جیسے ایک سڑے ہوئے سیب کی مانند۔ جیسے 1919ء میں ہنگری میں ہوا جب کاؤنٹ کیرولائی کی بورژوا حکومت منہد م ہوئی اور طاقت کمیونسٹ پارٹی کو دی گئی۔
1989ء میں مشرقی یورپ میں بھی یہی کچھ ہوا۔ سٹالنسٹ حکومتیں اس حد تک پست ہمت ہوچکی تھیں کہ بغیر کسی جنگ کے ہتھیار ڈال دیئے۔ پولینڈ میں جیروزلسکی نے طاقت اپو زیشن کے ہاتھو ں میں دے دی۔ یہ سب کچھ محنت کش طبقے کی مداخلت کے بغیر نہیں ہوا جو اتفاق سے سرمایہ داری کی بحالی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن موضوعی عنصر کی غیر موجودگی میں سرمایہ داری نواز عناصر کو خلا کو پر کرنے کا موقع مل گیا اور تحریک کو سرمایہ دارانہ خطوط پر استوار کر دیا۔ یہ کام ’کمیونسٹ ‘ رہنماؤں کی مدد سے کیا گیا جنہوں نے اپنے آپ کو سرما یہ داروں اور ذرائع پیداوار کے مالکان میں تبدیل کر دیا تھا۔
اس دیوہیکل تبدیلی کو کس طرح واضح کیا جائے؟ دراصل سٹالنسٹ CPSU قطعاً کمیونسٹ پارٹی نہیں تھی بلکہ بیوروکریٹک کلب تھا جس کی ممبر شپ لاکھوں میں تھی۔ یہ ریاست کا ہی ایک تسلسل تھا جس میں زیادہ تر مفاد پرست اور گماشتے موجود تھے جن کا مقصد محنت کشوں کو کنٹرول کرنا اور اسے حکمران ٹولے کے ماتحت رکھنا تھا۔ کسی کے پاس پارٹی کارڈ ہونے کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ، جیسا لینن کے دور میں ہوتا تھا، جدوجہد اور قربانیوں سے بھر پور زندگی کے لیے آمادہ ہے بلکہ وہ کیرئیر بنانے کی کنجی تھی۔ پارٹی میں شمولیت کرنے والے ایک ایمان دار ورکر کے مقابلے میں سینکڑوں مفاد پرست، دم چھلے، جاسوس اور ہڑتال شکن لوگ موجود ہو تے تھے۔ ایک پارٹی ممبر کا کام محنت کش طبقے کے مفادات کا دفاع نہیں تھا بلکہ محنت کشوں کے خلاف بیوروکریسی کے مفادات کا تحفظ تھا۔
اس بات کو واضح کرنا لازمی ہے کہ روس میں جو کچھ ناکام ہوا وہ سوشلزم نہیں تھا۔ لینن کی موت کے بعد سٹالنسٹ سیاسی رد انقلاب کے نتیجے میں بننے والی حکومت سوشلزم نہیں تھی اور حتیٰ کہ مارکس اور لینن کے تصور کے مطابق کوئی مزدور ریاست بھی نہیں تھی۔ وہ ایک ’مسخ شدہ مزدور ریاست‘ تھی۔ ٹراٹسکی کی سائنسی اصطلاح میں ’پرولتاری بوناپارٹزم‘ کی حکومت۔ نسلوں کی آمرانہ حکومت کے بعد، مراعات یافتہ ٹولہ مکمل طور پر بدعنوان ہو گیا تھا۔
انقلاب فرانس کے تھر میڈورئین رجعتیوں کی طرح، پرانے سٹالنسٹ لیڈران جاہل، دوغلے اور بیہودہ نو دولتیے تھے۔ لیکن کم از کم ان کا محنت کش طبقے اور سوشلزم کے ساتھ ایک رابطہ ضرور تھا۔ لیکن دہائیوں اقتدار میں رہنے کے بعد حکمران ٹولہ مکمل طور پر زوال پذیر ہوچکا تھا۔ آخر میں یہ ٹولہ مراعات یافتہ افسروں کے بچوں اور نواسوں پر مشتمل تھا جن کااکتوبر انقلاب کے حقیقی نظریات اور روایات سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ وقت آنے پر یہ لوگ اتنی ہی آسانی سے سرمایہ داری کی طرف چلے گئے جس طرح کوئی شخص ٹرین میں فرسٹ کلاس سے سیکنڈ کلاس کمپارٹمنٹ میں چلا جا تا ہے۔
راتوں رات ظاہر ی طور پر طاقتور اور یکجا ’کمیونسٹ ‘ پارٹی آف سوویت یونین ریت کے گھروندوں کی مانند ڈھے گئی۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ سوویت یونین کے دن گنے جا چکے ہیں، تو ڈوبتی ناؤ سے چھلانگ لگانے اور سرمایہ داری کو گلے لگانے والوں میں ’کمیونسٹ پارٹی ‘ کے لیڈران ہی پیش پیش تھے جن کی قیادت بورس یلسن کر رہا تھا۔ وہ پرجوش انداز میں جلد ی جلدی طاقت کے ثمرات کو اپنے خاندانوں، دوستوں اورگماشتوں میں تقسیم کر رہے تھے اور ریاست کو لوٹ کر اپنے آپ کو ارب پتیوں میں تبدیل کر دیا۔ 1914ء میں سوشل ڈیموکریسی کے رہنماؤں کی غداری ان کے سامنے بچوں کا کھیل نظر آتا تھا۔

’’حقیقی سوشلزم‘‘؟
اس دیو ہیکل غداری کو اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک آپ سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں موجود نظام کو، جیسا کہ دہائیوں تک کمیونسٹ پارٹی کے رہنما اصرار کرتے رہے، ’حقیقی سوشلزم‘ کہیں گے۔ سوویت یونین کا انہدام در حقیقت دہائیوں کی بیوروکریٹک زوال پذیری کا نتیجہ تھا۔ جس وقت ماسکو کی افسر شاہی ’سوشلزم کی تعمیر ‘ کی مبالغہ آرائی کر رہی تھی اس وقت درحقیقت سوویت یونین سوشلزم سے دور ہوتی جا رہی تھی۔ اور جیسا کہ ٹراٹسکی نے 1936ء میں پیش گوئی کی تھی کہ افسر شاہی پر مشتمل حکمران ٹولہ اپنی مراعات اور زیادہ تنخواہوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور اپنی اور اپنے بچوں کی پوزیشن کو مستحکم کرنے کے لیے ریاستی ملکیت کو نجی ملکیت میں تبدیل کرنا چاہے گا۔ جب تک محنت کش طبقہ بیوروکریسی کو اکھاڑ کر مزدور جمہوریت اور بین الاقوامیت کی لیننسٹ پالیسی کی طرف نہیں لوٹتے، یہ عمل ناگزیر تھا۔ وقت آنے پر ایسا ہی ہوا۔
بیس ملین کی ممبرشپ میں سے صرف پانچ لاکھ بچ گئی جنہوں نے CPRF تشکیل دی۔ لیکن اس پارٹی کی بھی کمیونزم سے نام کے علاوہ کوئی بھی قدر مشترک نہیں تھی۔ ریاست سے الگ ہونے کے بعد CPRF کے لیڈر وں نے یلسن اور بورژوا دھڑے کے خلاف نیم مخالفت کا مظاہرہ کیا لیکن عملی طور پر انہوں نے سرمایہ داری اور منڈی کو قبول کر لیا تھا اور ان کی مخالفت خالصتاً رسمی اور کاغذی تھی۔ یہی بات سرکاری ٹریڈ یونین FNPR کے رہنماؤں کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ عوام کے وسیع غصے، تڑپ اور تلخی کو کوئی منظم اظہار نہیں ملا۔ اپنے آپ کو اظہار کرنے کے لئے درکار آلے کی غیر موجودگی میں عوام کی بے چینی تحلیل ہوگئی جس طرح پسٹن کے بغیر بھاپ ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے۔
ٹراٹسکی نے اس بات کی طرف اشارہ کیا تھا کہ جس طرح انقلاب تاریخ کا انجن ہوتا ہے، اسی طرح رجعتی حکومتیں، بالخصوص آمرانہ حکومتیں جیسا کہ سٹالنزم، انسانی شعور کے آگے ایک بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ سٹالن نے ہمارے اندازوں سے بھی زیادہ اکتوبر انقلاب کی پرانی روایات کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا۔ پرانے لینن اسٹوں اور لیفٹ اپوزیشن کے خاتمے نے پرولتاریہ کو بے راہنما کردیا۔ دہائیوں کی جعلسازی اور سوویت یونین میں ٹراٹسکی کی تحریروں پر پابندی نے بالشویزم کی جمہوری اور بین الاقوامیت کی روایات کے آخری آثار کو بھی ختم کر دیا۔ ایک ایک کرکے وہ تمام کارکن جو سٹالنزم کی وحشت سے بچ گئے تھے، مر گئے جس سے ایک ایسا خلا پید ا ہوا جسے بھرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ وقت آنے پر سرمایہ دارانہ یلغار کا سامنا کرنے کے لیے پرولتاریہ کے پاس کوئی قیادت ہی نہیں تھی۔
سوویت یونین اور نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کے انہدام نے، دہائیوں کی سٹالنسٹ حاکمیت کے بعد، وسیع کنفیوژن اور بے راہ روی کو جنم دیا۔ دہائیوں کے جھوٹ اور جعل سازی کی تعلیم، ایسا جھوٹ جو دیوہیکل پروپیگنڈا مشین سے آتا تھا جس کے ذریعے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ سوشلزم اور کمیونزم ایک آمرانہ حکومت میں اپنے معراج کو پہنچ گئی ہے جس پر ایک بد عنوان اور زوال پذیر افسر شاہی کے ٹولے کا غلبہ ہے، نے عوام کے شعور کو بہت پیچھے پھینک دیا۔ جب نظام منہدم ہوا، جیسا کہ ٹراٹسکی نے شاندار انداز میں’’ انقلاب سے غدار ی‘‘ کے صفحات میں پیش گوئی کی تھی، تو عوام دم بخود رہ گئے اور وہ کوئی رد عمل بھی نہیں دکھا سکے۔ بہت سے لوگوں کو حتیٰ کہ سرمایہ داری پر غلط فہمیاں تھیں کہ شاید چیزیں کچھ بہتر ہو جائیں۔ تاہم یہ غلط فہمیاں تجربے کی کسوٹی پر بکھر گئیں۔

زوال کی حکومت
ٹراٹسکی نے انقلاب سے غداری میں لکھا، ’’موجودہ افسر شاہی آمریت کے انہدام، اگر اسے ایک نئی سوشلسٹ طاقت کے ذریعے تبدیل نہیں کیا گیا، کا مطلب سرمایہ دارانہ تعلقات کی بحالی ہے جس سے صنعت اور ثقافت میں ایک تباہ کن زوال آئے گا۔‘‘ (لیون ٹراٹسکی، انقلاب سے غداری، صفحہ نمبر 250-51)
ان پیامبرانہ الفاظ نے سوویت یونین کے انہدام کے بعد روس میں ہونے والے واقعات کی ٹھیک ٹھیک پیش گوئی کی۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ کوئی سماجی معاشی نظام اس وقت قائم رہ سکتا ہے جب وہ ذرائع پیداوار کو ترقی دے۔ مارکسی نظریہ تاریخ کی رو سے، ایک نیا حکمران طبقہ، کسی بھی سماجی معاشی نظام میں، اس شرط پر ابھر تا اور قائم رہ سکتا ہے جب وہ ذرائع پیداوار کو ترقی دے۔ سٹالنزم کے انہدام کی وجہ یہ تھی کہ وہ اب مزید ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتوں سے زیادہ شرح نمو حاصل نہیں کر سکتی تھی۔ بریژنیف کے تحت نام نہاد جمود کے دور میں، افسرشاہی نے ذرائع پیداوار کو قطعاً ترقی نہیں دی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے دن قریب ہیں۔
لیکن کیا سرمایہ دارانہ رد انقلاب نے کسی طرح کی بہتری لائی ہے؟ اس کے بر عکس، سرمایہ داری کی بحالی نے اکثریت کے لیے معاشی بحران، بے روزگاری اور گرتا ہوا معیار زندگی لایا ہے اور مٹھی بھر اشرافیہ، ان کے خاندانوں اور گماشتوں کے لیے بے انتہا دولت۔ اس نے روسی عوام کے لیے ’آزاد منڈی ‘ کی تمام رحمتیں لائی ہے: جسم فروشی، جرائم، آرتھوڈوکس چرچ، سام دشمنی، تما م اقسام کی نسل پرستی، بلیک ہنڈریڈ کی غیر گریزی، منشیات، مافیا اور بد عنوانی کی ایسی انتہا کہ پرانے سوویت دور کے بیوروکریٹ فرشتے لگتے ہیں۔
تباہ کن انسانی بربادی سے قطع نظر، روسی بورژوازی نے معیشت کو ترقی نہیں دی ہے۔ اس نے روس کی تیل اور گیس کے وسیع ذخائر سے فائدہ اٹھا یا ہے لیکن اس نے منظم انداز میں معیشت کو لوٹا ہے اور ریاست کی لوٹ مار سے خوب دولت بنائی ہے۔ پیوٹن اس افسر شاہانہ اشرافیہ حکومت کا قائد ہے جو سوویت یونین کی نسبت زیادہ بڑی اور زیادہ طفیلی ہے۔ یہ غنڈوں کی حکومت ہے جس کی قیادت غنڈہ ذہنیت کا غنڈہ کر رہاہے۔ یہ ترقی نہیں بلکہ دیو ہیکل تنزلی ہے۔
روسی تاریخ کا دھماکہ خیز دور شروع ہونے والا ہے۔ فی الحال پیوٹن کی حکومت مضبوط نظر آتی ہے۔ لیکن در حقیقت یہ روسی لوک داستانوں میں ’مرغی کی ٹانگوں پر کھڑی جھونپڑی‘ کی طرح ہے۔ تاریخ نے ابھی تک روس کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔ فیصلہ کن سوال معیشت کا ہے جو بے تحاشا مشکلات کا شکار ہے۔ زیادہ سے زیادہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ’’ تما م تر چیزوں کے باوجود سوویت یونین میں حالات اس سے بہتر تھے۔ ‘‘ قوم پرستی کا بخار بالآخر اتر جائے گا اور حکومت بحران میں داخل ہوگی۔
پہلے سے ہی مڈل کلاس میں ایک بے چینی موجود ہے۔ لیکن ہمیشہ کی طرح سب سے اہم سوال محنت کش طبقہ ہے۔ ایک دفعہ جب پرولتاریہ حرکت میں آجائے تو یہ سب کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ روسی پرولتاریہ کی ایک لمبی اور شاندار انقلابی روایت رہی ہے۔ جدوجہد کے دوران وہ اسے دوبارہ کھوج نکالیں گے۔ یقیناًایک حقیقی وسیع لینن اسٹ رجحان کی موجودگی میں یہ عمل زیادہ تیز اور موثر ہوگا۔ لیکن کسی نہ کسی طرح وہ سیکھ جائیں گے۔
آج کا روس 1920ء کی دہائی کی طرح پسماندہ اور نیم کسان روس نہیں ہے۔ اس کے پاس ایک طاقتور صنعتی بنیاد اور ایک تعلیم یافتہ و مہذب محنت کش طبقہ ہے، جو سماج کی وسیع اکثریت ہے۔ سوشلزم کی جانب تیز سفر کے لیے مادی بنیادیں موجود ہیں۔ صرف حقیقی مزدور جمہوریت پر مبنی حکومت، 1917ء کی خطوط پر، ہی روس کو موجودہ جمود سے باہر نکال سکتی ہے۔ ایک نیا اکتوبر انقلاب عالمی حالات کو 1917ء میں دنیا کو جھنجھوڑ دینے والے دس دنوں کی نسبت زیادہ تیزی سے تبدیل کرے گا۔ نہ صرف روس بلکہ پوری دنیا میں سوشلزم کی فتح کے لیے راہ ہموار ہوگی۔