لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق کتاب ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کی اردو میں اشاعت

انقلابِ روس کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر ولادیمیر لینن کے ہمراہ اِس عظیم انقلاب کے قائد لیون ٹراٹسکی کی شہرہ آفاق تصنیف ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کا اردو ترجمہ طبقاتی جدوجہد پبلی کیشنز کی جانب سے خصوصی طور پر شائع کیا گیا ہے۔ تین جلدوں پر مشتمل یہ کتاب پہلی بار 1930ء میں روسی زبان میں شائع ہوئی تھی جبکہ اِس کا انگریزی ترجمہ 1932ء میں شائع ہوا تھا۔ کتاب کا یہ اردو ترجمہ کسی بھی مشرقی زبان میں کتاب کا پہلا ترجمہ ہے جو اردو بولنے اور سمجھنے والے کروڑوں قارئین تک انقلابی مارکسزم کے نظریات اور انقلابِ روس کی میراث پہنچانے کا وسیلہ ثابت ہو گا۔ ہم اپنے قارئین کے لئے کامریڈ لال خان کا تحریر کردہ کتاب کا تعارف شائع کر رہے ہیں۔

کتاب کا سرِ ورق۔ بڑے سائز میں دیکھنے کے لئے تصویر پر کلک کریں۔

زیر نظر کتاب’انقلابِ روس کی تاریخ‘ کسی مورخ کی لکھی ہوئی تاریخی داستان نہیں ہے۔ یہ کسی تاریخی عہد، انقلاب یا جنگ کی عمومی کہانی نہیں ہے۔ یہ کتاب منفرد اور ممتاز اس لئے ہے کہ اس میں انقلابِ روس کے حالات و واقعات کا ایک سائنسی فلسفے کی بنیاد پر تجزیہ موجود ہے۔ یہ عظیم انقلاب، اس کے واقعات، اس کا اتار چڑھاؤ، اسکی کبھی تیزی تو کبھی سست روی، محنت کش طبقے کی فتح… یہ سب کچھ کیونکر ہوا اور اسکے برعکس کیوں نہ ہوا، اِسی سوال کی وضاحت ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں کی گئی ہے۔ مصنف نے مارکسی فلسفے اور جدلیاتی مادیت کا طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے سماجی ارتقا، معاشرتی عوامل کے آفاقی قوانین اور تاریخی بحرانات سے پھوٹنے والے انقلابات کے گہرے سائنسی جائزے اور پرکھ کو تحریر میں سمیٹا ہے۔ لیکن سب سے بڑھ کر اِس تحریر میں روس اور اس کے تاریخی طرز ارتقا سے مشابہت رکھنے والے معاشروں کی اقتصادی، ثقافتی، تجارتی و سماجی تشکیل اور ان کے تاریخی پس منظر اور مضمرات کی وضاحت انتہائی وسعت اور بلاغت سے کی گئی ہے۔ اس کتاب کے مصنف لیون ٹراٹسکی نہ تو کوئی پیشہ ور مورخ تھے اور نہ ہی ’اکیڈیمیا‘ سے ان کا کوئی تعلق تھا۔ اس کتاب کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ مصنف اسی انقلاب کے قائدین میں شامل تھا جس انقلاب کی تاریخ پر مبنی یہ کتاب ہے۔ ایسے میں ٹراٹسکی نے غیرجانبداری کا ڈھونگ کرنے کی بجائے اپنے آپ کو اس عظیم تاریخی ڈرامے کے ایک کردار اور اس کے مشاہد کے طور پر پیش کیا ہے۔ وہ اسی طور سے اس تاریخی طبقاتی معرکے کے حالات و واقعات کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ لیکن پیش کردہ شواہد اور حقائق کو تاریخ کی سائنس کے کسی بھی بنیادی معیار پر پرکھا جاسکتا ہے۔ ٹراٹسکی حقائق کو مسخ نہیں کرتا ہے۔ سرمایہ دارانہ دانشور، ادب کے ماہرین اور مورخین بھی اس حقیقت کو ماننے پر مجبور ہیں۔
ٹراٹسکی نے سب سے پہلے روس کے سماجی اور معاشی ارتقا کا تاریخی پس منظر بیان کیا ہے۔ پھر اِن مادی حقائق کو مارکسی نظریات کی بنیاد پر پرکھ کر اُس انقلابی لائحہ عمل سے منسلک کیا ہے جس نے بالشویکوں کی قیادت میں روس کے محنت کش عوام کو ایک سوشلسٹ فتح سے سرفراز کیا۔ اس عمل میں وہ سماجی تضادات ہمارے سامنے آتے ہیں جو اُس وقت ایک ایسی نہج پر پہنچ چکے تھے کہ صرف ایک سوشلسٹ تبدیلی سے ہی روس میں ترقی اور نجات کے سفر کا آغاز ہوسکتا تھا۔ ٹراٹسکی نے روس کے مادی حالات کو جدلیاتی لڑی میں پرویا ہے اس سے دو بنیادی اسباق اور حقائق اخذ کئے جا سکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ روس جیسی نیم نو آبادیاتی اور نیم سامراجی زار شاہی سلطنت کی سماجی اور اقتصادی بنیادوں کے گل سڑ جانے کے باوجود، وہاں سامراجی تسلط سے پیوند کردہ سرمایہ دار طبقہ یورپ کے قومی جمہوری انقلاب کی طرز پر بادشاہت اور جاگیرداری کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے جدید قومی ریاست کی بنیاد رکھنے سے قاصر تھا۔ ٹراٹسکی نے مقتدر شخصیات کے کردار سے لے کر حکمران طبقات کے رویوں تک، اُن کے تاریخی استرداد اور نااہلی کو خوب واضح کیا ہے۔ اُس نے ثابت کیا ہے کہ جب کوئی نظام تاریخی طور پر متروک ہوجاتا ہے تو اس کے بالادست طبقات کا کردار کتنا رجعتی اور غلیظ ہو جاتا ہے۔ اسی کیفیت سے ٹراٹسکی نے مشترک اور ناہموار طرزِ ارتقا کا جو نظریہ استوار کیا ہے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ روس میں ترقی کے لئے اس معاشرے کو نہ تو یورپ کی ترقی کے مراحل سے گزرنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی وہاں کی سرمایہ داری میں یورپ کی طرز کی سماجی اور اقتصادی اصلاحات برپا کرنے کی اہلیت موجود تھی۔ اس تاریخی و سماجی پس منظر سے ٹراٹسکی یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ زار شاہی روس جیسے تاخیر زدہ معاشروں کو آگے بڑھنے کے لئے یورپ یا دوسرے ترقی یافتہ ممالک کی پیروی کرنے کی بجائے کئی تاریخی مراحل کو پھلانگنا ہو گا۔ روس کے لئے 1917ء میں ایک سوشلسٹ انقلاب کی بجائے سرمایہ دارانہ بنیادوں پر یورپ کی پیروی کا مطلب بربادی، تاریک رجعت اور ممکنہ طور پر زار شاہی سے زیادہ جابر حاکمیت تھا۔ آخری تجزیئے میں یہی انقلابِ روس کی نظریاتی بنیاد بھی تھی۔ لینن نے ٹراٹسکی سے 14 سال تک چلنے والی نظریاتی بحث کے بعد اپنے شہرہ آفاق ’’اپریل تھیسس‘‘ میں اُس کے ’’انقلابِ مسلسل‘‘ کے اِسی نظرئیے کو تسلیم کیا اور انہی بنیادوں پر 1917ء میں بالشویک پارٹی کو نظریاتی طور پر ازسر نو مسلح کیا۔ سادہ لفظوں میں اس کے معنی یہ تھے کہ روس جیسے معاشروں کے سماجی ارتقا کو آگے بڑھانے اور جدید بنیادوں پر استوار کرنے کے لئے انقلاب کا کردار ’’قومی جمہوری‘‘ نہیں سوشلسٹ ہونا لازم تھا۔
اگر ہم رنگ، نسل، موسموں، علاقائی، جغرافیائی اور تاریخی عوامل سے قطع نظر جائزہ لیں تو آج کے پاکستانی معاشرے اور قبل از انقلاب کے روس میں گہری مشابہتیں موجود ہیں۔ صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بیشتر سابقہ نوآبادیاتی اور نام نہاد ترقی پذیر ممالک کی کم و بیش یہی کیفیت ہے۔ اگر ہم اُس وقت روس میں مذہبی تسلط کی صورتحال کا جائزہ لیں، وہاں کی ریاستی مشینری اور سرمایہ دار طبقات کے کردار کا جائزہ لیں، عمومی بدحالی، پسماندگی اور جاگیردارانہ جبر کو دیکھیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا پاکستان کی صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ ایک اور کلیدی مشابہت زارشاہی روس اور آج کے پاکستان میں موجود قومی مسئلے اور حاکم قوم کے شاونزم میں ملے گی۔ اگر روس کو قومیتوں کا جیل خانہ قرار دیا جاتا تھا تو یہی تاثر یہاں کی قومیتوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن مارکسسٹوں کا تاریخی فریضہ قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی نجات کی جنگ سے جوڑنا ہے۔ ٹراٹسکی نے اِس کتاب میں لینن کے اسی کارنامے کی وضاحت کرتے ہوئے اسے انسانیت کا خزانہ قرار دیا ہے۔
گو اِس کتاب کو تحریر کرتے وقت ٹراٹسکی نے پوری کوشش کی ہے کہ وہ انقلاب کی تاریخ تک ہی محدود رہے۔ لیکن کتاب کی تحریر کے وقت سٹالنسٹ ردِ انقلاب نہ صرف سوویت یونین بلکہ دنیا بھر میں کمیونسٹ تحریک کو اپنی لپیٹ میں لے رہا تھا۔ چنانچہ اِس موضوع پر روشنی ڈالنا لازم تھا تاکہ بالشویزم کے لازوال انقلابی نظریات اور اُن کی مسخ شدہ سٹالنسٹ شکل میں فرق واضح کیا جا سکے۔ اِس کتاب کی اشاعت کے تین سال بعد ٹراٹسکی نے انقلابِ روس کی زوال پذیری اور سٹالنزم کے تفصیلی تجزئیے پر مبنی کتاب ’’انقلاب سے غداری‘‘ شائع کی۔
’ انقلابِ روس کی تاریخ‘ میں ٹراٹسکی نے کافی گہرائی اور وسعت سے محنت کش عوام کی سوچ اور شعور میں آنے والی تیز تبدیلیوں کے عمل کی وضاحت کی ہے۔ جدلیاتی مادیت کے سائنسی فلسفے پر عبور کے بغیر ایسا ممکن نہیں تھا۔ ٹراٹسکی نے مختلف ادوار میں بالعموم عوام اور بالخصوص مزدور طبقے کے شعور میں آنے والی تبدیلیوں کو خصوصی طور پر پرکھا ہے۔ ’’معمول‘‘ کے ادوار میں لوگوں کی سوچ بالعموم بالادست طبقات کے ریت رواج، نظریات و افکار اور طرز زندگی کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے۔ لیکن سطح کے نیچے تبدیلیاں مسلسل جاری ہوتی ہیں۔ جب معمول ٹوٹتے ہیں اور عہد بدلتے ہیں، سماجی نفسیات میں برق رفتار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو شعور اور سوچ کے انداز یکسر بدل جاتے ہیں۔ ماضی کی توہمات، عقائد اور رسم و رواج یوں چھٹ جاتے ہی جیسے سماج کسی گہری نیند سے اچانک بیدار ہو گیا ہو۔ محنت کش طبقات ہر چیز کو ایک نئے پہلو سے دیکھنے لگتے ہیں۔ انفرادیت کی جگہ اجتماعیت عود کر آتی ہے۔ بے حسی کی جگہ احساس جاگ اٹھتا ہے۔ حکمرانوں کی پیروی، اُن کا رعب اور عزت واحترام راتوں رات اُن سے نفرت اور حقارت میں بدل جاتا ہے۔ محنت کشوں میں انتقام کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ طویل عرصے سے چھائی قدامت پرستی کی جگہ مستقبل کی امنگیں اور انقلابی نظریات لے لیتے ہیں۔ مایوسی اور بدگمانی کی جگہ رجائیت اور امید جنم لیتی ہے۔ یاس اور پژمرد گی کی جگہ نیا حوصلہ، نئی جرات پیدا ہونے لگتی ہے۔ یہی وہ انسان ہوتے ہیں جو کل تک اپنے مالکوں، بادشاہوں، سیاسی حکمرانوں، جرنیلوں، بڑے بڑے ججوں اور ریاستی آقاؤں کو دیوتا مان رہے ہوتے تھے۔ لیکن شعور کروٹ لیتا ہے تو عزت و مرتبے کے معیار ہی بدل جاتے ہیں۔ قومی، فرقہ وارانہ، مذہبی، نسلی اور برادریوں کی تقسیم اور پہچان کو اُن کا شعور جھٹک کر مسترد کردیتا ہے۔ وہ اپنے طبقاتی دشمنوں کو پہچاننے لگتے ہیں۔ اپنے طبقے سے ہمدردری اور یکجہتی کے جذبات اُمڈ آتے ہیں۔ حکمران طبقات اور اُن کے نظام سے نفرت بڑھتی چلی جاتی ہے۔ یہ کیفیت قبل از انقلاب کے حالات میں محنت کش عوام کی رگوں اور شریانوں میں پنپتی رہتی ہے۔ ایسے میں کوئی ایک معمولی یا غیر معمولی واقعہ بھی دھماکہ خیز انداز سے انقلابی تحریک کا نقطہ آغاز بن سکتا ہے۔
محنت کرنے والے، جو کل تک اپنی انفرادیت میں غرق ہو کر زندگی کی بنیادی ضروریات کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہوتے ہیں، ہلکان ہو رہے ہوتے تھے، جب ہر ذلت کو مسترد کر کے کسی بڑی جنگ کے لیے نکلتے ہیں اور میدان میں آتے ہیں تو خود کو تنہا نہیں پاتے۔ محنت کش طبقات کی تحریک جوں جوں زور پکڑتی ہے تو متزلزل درمیانے طبقات کے بڑے حصے بھی اس جمِ غفیر میں شامل ہونے لگتے ہیں۔ حکمران طبقات کی صفوں میں دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔ لیکن فیصلہ کن اثرات ریاست کے حتمی ادارے فوج پر مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن حیران کن عمل یہ ہوتا ہے کہ کل تک جو پولیس کے ایک معمولی سپاہی کی وردی سے خوفزدہ ہوتے تھے آج وہ ٹینکوں کے سامنے نہ صرف ڈٹ جاتے ہیں بلکہ ان کی جانب بڑھنے لگتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اِس محنت کرنے والے محکوم طبقے نے غلامی کی نفسیاتی زنجیریں ہی نہیں توڑیں بلکہ خوف کو بھی اپنی سوچ، جرات اور عزم سے فتح کر لیا ہے۔ ایسے میں فوج کے ڈھانچوں میں طبقاتی بنیادوں پر دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ باقی ادارے بھی کسی بوسیدہ عمارت کی طرح ٹوٹ پھوٹ کر گرنے لگتے ہیں۔ یہ انقلاب کے فیصلہ کن لمحات ہوتے ہیں۔
پاکستان میں 1968-69ء کے انقلاب کے دوران بہت سے لوگوں نے اِن واقعات کا مشاہدہ بھی کیا اور ان میں حصہ بھی لیا۔ جب پورے ملک کی فضا ایک انقلاب سے معطر تھی۔ جب انسانوں میں یکجہتی، محبت، ایثار اور باہمی لگاؤ کے ایسے جذبے ابھرے جنہیں کئی نسلوں نے کبھی محسوس نہیں کیا تھا۔ ایک ایسی اُمنگ جاگ اٹھی تھی جہاں غربت اور محرومی کی زندگی کے بدل جانے کی امید اور ہمت کی خوشی سے معاشرہ سرشار تھا۔
ٹراٹسکی نے اِس کتاب میں انتہائی باریک بینی سے وقت اور تاریخ کے اِن دھاروں کے مڑ جانے اور شعور کی بیداری کے جدلیاتی عمل کا جائزہ لیا ہے۔ اس کتاب کے مطالعے کے دوران انسان ایسے احساسات اور جذبات کو محسوس کرسکتا ہے جو عملی زندگی میں صرف انقلابی ادوار اور کیفیات میں ہی ملتے ہیں۔
ٹراٹسکی نے انقلابِ روس کے دوران معاشرے کی پچھڑی ہوئی پرتوں کی زندگیوں، عادات و اطوار اور سوچوں کی کیفیات میں برق رفتار تبدیلیوں کا تجزیہ پیش کیا ہے۔ روس میں بھی ’پردے‘ کے لئے سکارف اور چادروں کا استعمال درمیانے اور نچلے طبقات میں عام تھا۔ لیکن فروری کے انقلاب کا آغاز ہی خواتین کے عالمی دن سے ہوا تھا۔ ا س پہلے انقلابی ریلے کی سادہ سی مانگ تھی: روٹی اور امن۔ بالشویکوں نے اِنہی بنیادی مطالبات کو سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام سے جوڑ کر روس کے طول و ارض میں پھیلا دیا تھا۔
یہی خواتین جو قدامت پسند بھی تھیں، دوہرے استحصال تلے دبی ہوئی تھیں اور جن میں بیشتر سپاہیوں کی بیویاں تھیں، جب باہر نکلیں تو انہوں نے اپنے ’پردے‘ اور ہچکچاہٹ کو ہی نہیں جھٹکا بلکہ مروجہ حاکمیت کے خاتمے کا بیٹرا اٹھایا۔ اب محنت کش طبقے کی عورت انقلاب سے پہلے والی عورت نہیں تھی۔ یہی کیفیت نچلی ذاتوں، اقلیتوں اور معاشرے کی پسی ہوئی پرتوں کی تھی۔ یہ خواتین جب سفاک ترین فوجی دستوں اور گھڑسواروں کی جانب بڑھیں توسپاہیوں کی ہمت تک نہ ہوئی کہ ان پر وار کرسکیں۔ وہ اُن کی صفوں کو چیرتے ہوئے آگے بڑھ گئیں۔
لیکن ٹراٹسکی نے جہاں محنت کش طبقے کے شعور میں تبدیلی کے عمل کو واقعات کے تناظر میں بیان کیا ہے وہاں ایک ہی طبقے کی مختلف پرتوں میں سوچ کے معیار مختلف ہونے اور ہراول اور پسماندہ پرتوں کے انقلابی شعور کے یکجا ہونے کے عمل کی پیچیدگیوں اور مشکلات کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہاں انقلابی پارٹی کا کردار تفصیل میں بتایا گیا ہے۔ طبقے کے شعور اور تحریک کے اتار چڑھاؤ کے پارٹی کارکنان کی سوچوں، جذبوں اور حوصلوں پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ پھر پارٹی کے فیصلوں اور اقدامات کے انقلاب کی کامیابی اور ناکامی پر کتنے اور کس طرح کے اثرات پڑتے ہیں؟ پارٹی میں مفاد پرستی جہاں پسپائی سے دوچار کراتی ہے وہاں مہم جوئی کس طرح بربادی کا باعث بنتی ہے؟ پارٹی کا داخلی بحران کیونکر پیدا اور پھر حل ہوتا ہے؟ اس طرح کے درجنوں سوالات کے جوابات اس کتاب میں موجود ہیں۔
ٹراٹسکی نے محنت کش طبقے کی ہراول اور نسبتاً پچھڑی ہوئی پرتوں، علاقائی و قومی تقسیم اور دوسری تفاوتوں کے حوالے سے عوام کے انقلاب میں کردار کو بھی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ انقلابی پارٹی اور طبقے کے آپسی رشتے میں آنے والے عروج و زوال، قیادت اور پارٹی کے تعلق اور طبقے کو یکجا کرکے انقلاب کے لیے آگے بڑھانے کے لئے پارٹی کی کلیدی ضرورت کو بھی عملی واقعات کی روشنی میں بیان کیا ہے۔ خود پارٹی کے اندر نظریاتی ابہام، بحران، طریقہ کار اور لائحہ عمل پر اختلافات اور انقلاب و پارٹی کے تعلق پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اِسی طرح انقلابی عمل کے اپنے عروج و زوال، انقلاب کے دوران ردانقلابی قوتوں کے ابھار، انقلابی حالات میں انقلاب اور ردِ انقلاب کی لڑائی، فوج میں طبقاتی بنیادوں پر پڑنے والی پھوٹ اور سپاہیوں کے محنت کش طبقے سے مل جانے کے عمل کا بھرپور جائزہ لیا گیا ہے۔ اسی طرح اُن نازک مراحل اور لمحات کو بھی واضح کیا گیا ہے جب انقلابی سرکشی میں انقلابی طبقے کی جمہوری منشا کو مد نظر رکھنا لازم ہوتا ہے اور دوسری طرف عین اسی وقت سرکشی کی خفیہ تیاری بھی اتنی ہی ضروری ہوتی ہے۔ درحقیقت انقلابی سرکشی کے فن، اس کی تیاری، اس کے لئے پارٹی کو تیار کرنے کے عمل، سرکشی کے لئے درست وقت کے تعین جیسے موضاعات پر تین ابواب لکھے گئے ہیں۔ مصنف نے پہلی عالمی جنگ میں روس کی مداخلت اور شکست کے انقلاب پر متضاد اثرات، حب الوطنی کے ردِ انقلابی کردار اور استعمال اور انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے سامراجی ممالک کے گھناؤنے کردار کو بھی بے نقاب کیا ہے۔
بہت سے حوالوں سے یہ ایک لاثانی اور لازوال تصنیف ہے۔ جہاں تک ہمارا علم ہے اس کتاب کا آج تک کسی غیر یورپی، خصوصاً کسی مشرقی زبان میں ترجمہ نہیں ہوا ہے۔ اِس اردو ترجمے کا مقصد جہاں پاکستان، برصغیر اور دوسرے خطوں میں اردو بولنے یا سمجھنے والے نوجوانوں اور محنت کشوں کو اس عظیم انقلاب کی تاریخ سے روشناش کروانا ہے وہاں آنے والے طوفانی حالات و واقعات میں انقلابی کیڈروں اور پارٹی کی تعمیر کے لیے بھی یہ کتاب ایک کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا ترجمہ اور اسکی اشاعت سال 2017ء میں کرنا انقلابِ روس کے سو سالہ جشن کو ایک ادبی، تاریخی اور نظریاتی مواد فراہم کرنا ہے۔ یہ اشاعت جہاں انقلابِ روس اور اس کو برپا کرنے والے انقلابیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ہے وہاں آنے والی نسلوں اور آج کے مزدوروں، طلبہ، دہقانوں اور نوجوانوں کو اُس ادراک تک لے جانا مقصود ہے جہاں وہ اس معاشرے کو بدلنے کی سلگتی ہوئی ضرورت کو ایک نظریہ، ایک راستہ، ایک منزل اور لائحہ عمل دے سکیں۔ وقت کے بدلتے ہوئے مزاج کی پرکھ حاصل کر سکیں۔ اسی شعور اور تربیت سے وہ انقلابی پارٹی تیار ہوسکے گی جو تہذیب کی بربادی اور بربریت کی طرف بڑھتے معاشرے کو ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے یکسر بدل سکے۔ لیون ٹراٹسکی کی ’انقلابِ روس کی تاریخ‘ صرف ماضی کے انقلاب کی کہانی نہیں ہے بلکہ آنے والے انقلابات اور سوشلسٹ فتح کے ذریعے نسلِ انسان کی نجات کی نوید ہے۔

لال خان
لاہور
جولائی 2017ء