ایلن ووڈز سے چند سوالات

اہتمام: جاوید ملک:-

مارکسسٹ ڈاٹ کام (www.marxist.com)کے ایڈیٹر ایلن ووڈزکئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی کتابیں مارکسی فلسفے ، معیشت اور تاریخ سے دلچسپی رکھنے والے قارئیں کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں۔ایلن ووڈز حالیہ دنوں میں پاکستان کے دورے پر تھے ۔ اس دوران مجھے ان سے ملاقات کانادر موقعہ ملا اور ایک صحافی ہونے کے ناتے میں نے حالیہ عالمی سیاسی و معاشی صورتحال پر ان سے کچھ سوالات کر ڈالے۔

پچھلے لمبے عرصے میں آپ نے جو تناظر پیش کئے ہیں وہ سچ ثابت ہوتے آئے ہیں، اس کے بر عکس سرمایہ دارانہ دانشوروں کی ہر ایک پیش گوئی اور تناظر غلط ثابت ہوا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب:20سال پہلے جب سوویت یونین ٹوٹ رہا تھا تو سرمایہ دارانہ دانشور خوشی سے پاگل ہو رہے تھے۔ انہوں نے سوشلزم کے خاتمے کی بات کی اور فوکویاما جیسے دانشوروں نے تو ’تاریخ کے خاتمے‘ کا ہی اعلان کر دیا۔انہوں نے دنیا کو یقین دلایا کہ آزاد منڈی کی معیشت خوشحالی اور امن قائم کرے گی۔ اب دو دہائیوں کے بعد ان تمام تر خوابوں اور وعدوں پر پانی پھر چکا ہے۔امن کی بجائے ہر طرف جنگ ہے اور کھربوں ڈالر ہر سال اسلحے کی تیاری پرصرف ہو رہے ہیں۔عراق اور افغانستان میں ہونے والی بربریت کو سب دیکھ رہے ہیں اور اب ایران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔کسی وبا کی طرح دہشت گردی پھیلتی ہی جا رہی ہے۔
جب ہم معیشت کو دیکھتے ہیں تو صاف پتا چلتا ہے کہ سرمایہ داری مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔2008ء کے معاشی بحران کے بعد دنیا بھر میں معاشی دیوالیہ پن اور بے روز گاری ہے۔آزاد منڈی کی معیشت اسی بات سے ثابت ہو جاتی ہے کہ امریکہ اور یورپ کے تمام بڑے بنک عوام سے لوٹے ہوئے پیسے پر چل رہے ہیں۔امریکی کار سازی کی صنعت کا بھی یہی حال ہے۔سرمایہ داری کے ٹھیکیدار دانشور تو 30سال سے آزاد منڈی کی معیشت کے گن گا رہے تھے اور ان کے تجزیوں کے مطابق تو یہ بحران کبھی بھی نہیں آنا چاہئے تھا۔اب بیشتر سرمایہ دارانہ دانشور یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ منڈی کی معیشت ناکام ہو چکی ہے۔دو سال پہلے اکانومسٹ کے مشہور تجزیہ نگار پال کرگمین نے لندن میں کہا ’’پچھلے تیس سال کے دوران سرمایہ دارانہ میکرو اکانومی کی تمام تر تھیوریاں نہ صرف بے کار بلکہ نقصان دہ ثابت ہوئی ہیں۔‘‘بورژوازی کے بہت سے معیشت دان اب خود تسلیم کر رہے ہیں کہ کارل مارکس ٹھیک تھا۔ جرمنی میں داس کیپیٹل سب سے زیادہ بکنے والی کتاب ہے کیونکہ مارکسزم ہی موجودہ عالمی صورتحال کو بیان کر سکتاہے۔

افغانستان، عراق اور اب ایران ! کیا یہ تمام واقعات تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو سچ ثابت نہیں کرتے؟
جواب:سرمایہ داری میں جنگیں مذہب یا تہذیب کے لئے نہیں بلکہ مالی و مادی مفادات کے لئے لڑی جاتی ہیں۔ان کا اصل مقصد منافع، منڈی کا کنٹرول، خام مال کا حصول یا سیاسی و عسکری اثرو رسوخ بڑھانا ہوتا ہے ۔اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جنگوں کا طبل بجانے والے سیاستدان مسلمان، عیسائی ، یہودی یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتے ہیں۔ہر چیز کا حتمی فیصلہ بڑے بنکوں ، ملٹی نیشنل کمپنیوں اوراجارہ داریوں کے بورڈ آف ڈائریکٹر کرتے ہیں۔کیا عراق پر حملے کی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک اسلامی ملک تھا؟مجھے تو ذاتی طور پر اس بات پر بھی یقین نہیں کہ صدام حسین مسلمان بھی تھا۔ہر صورت میں تہذیبوں کے تصادم کی تھیوری کو ماننا ایک بیوقوفی ہے۔اگر عراق میں صرف اونٹ اور ریت ہوتی تو کیا جارج بش حملہ کرتا؟سامراج نے عراقی تیل کے حصول کے لئے حملہ کیا نہ کہ وہاں بائیبل اور عیسائیت کی تبلیغ کے لئے۔

کیا چین ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھر رہاہے؟
جواب:اس میں کوئی شک نہیں کی کہ چین معاشی طور ہر ایک دیو کے طور پر ابھر رہا ہے۔تاہم میں سب سے پہلے اس بات کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواؤں گا کہ 1949ء سے پہلے چین ایک انتہائی غیر ترقی یافتہ اور نیم جاگیر دارانہ ملک تھا جس پرمختلف سامراجی طاقتوں کا کنٹرول تھا۔1949ء کے انقلاب کے بعد چین نے سامراج سے آزادی حاصل کی اور منصوبہ بند معیشت کے تحت تیز ترین صنعت کاری کے ذریعے ترقی کی۔یہ بھی سچ ہے کہ پچھلے 30سال میں بیجنگ کی افسر شاہی تیزی سے سرمایہ داری کی طرف گامزن ہے۔پہلے مرحلے میں اس سے ترقی بھی ہوئی ۔تاہم اس ترقی کی اصل وجہ عالمی سرمایہ داری کا عروج تھا۔اب ہم اس کا الٹ عمل دیکھ رہے ہیں اور دیکھیں گے۔چین کی تمام تر ترقی یورپ اور امریکہ میں ہونے والی برآمدات پر منحصر ہے۔لیکن اب ان ممالک کے اندر طلب میں شدید کمی واقع ہو رہی ہے جس کی وجہ سے ہم چین کی شرح نمو میں کمی دیکھ رہے ہیں۔کچھ معیشت دان مستقبل قریب میں چین کے اندر بھی ایک گہرے معاشی بحران کا تناظر دے رہے ہیں۔اب تک چین اس بحران سے صرف اس لئے بچا ہوا ہے کہ ابھی تک معیشت کا ایک بہت بڑا حصہ ریاست کی ملکیت میں ہے۔لیکن لمبے عرصے تک چین اس بحران سے نہیں بچ سکتا۔سوال یہ ہے کہ کیا چین امریکہ سے آگے نکل سکتا ہے؟بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔1980ء میں جاپان کے بارے میں بھی ایسی ہی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں۔لیکن جاپانی معیشت ایک بحران کا شکار ہو کر ساکت ہوئی اور ابھی تک اس سے باہر نہیں نکل پائی۔چین میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو چینی معاشرے میں تضادات بڑھیں گے۔اگرچہ چینی سرمایہ دار بہت امیر ہو چکے ہیں تاہم چینی مزدوروں کی حالت کارل مارکس کے عہد کے انگریز مزدوروں جیسی ہے۔ہڑتالوں، خودکشیوں اور مظاہروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔یہ ایک تنبیہ ہے کہ آنے والے عرصے میں چین میں کیا کچھ ہو سکتا ہے۔

کیابھارت ایک ابھرتی ہوئی معیشت ہے اور آنے والے دنوں میں عالمی سرمایہ داری کو بحران سے نکالنے میں مدد دے گی؟
جواب:چین کی طرح بھارت نے بھی عالمی سرمایہ داری کے عروج سے خاصا فائدہ اٹھایا۔ تاہم اسے ’ابھرتی ہوئی معیشت‘ یا ’ایشین ٹائیگر‘ کہنا سراسر مبالغہ آرائی ہو گی۔اگرچہ شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے جس سے کچھ لوگ امیر بھی ہوئے ہیں لیکن بھارتی عوام کی اکثریت اب بھی غربت میں زندگی گزار رہی ہے اور عالمی سرمایہ داری کے عروج کے دنوں میں بھی ان کی حالت کچھ مختلف نہیں تھی۔اور اب تو بھارتی معیشت کی ترقی بھی رک گئی ہے اور شرح نمو اب تیزی سے گر رہی ہے۔ افراطِ زر بڑھ رہا ہے اور بھارتی روپے کی قدر گر رہی ہے جس کی وجہ سے عام لوگوں کی زندگی بد سے بد تر ہوتی جارہی ہے۔اس کا اظہار 28فروری کو ہونے والی عام ہڑتال سے ہوا ہے جسے عالمی اور بھارتی میڈیا نے انتہائی ڈھٹائی سے چھپایا ہے۔

حال ہی میں ہونے والے پاک بھارت تجارتی معاہدوں اور باہمی تعلقات کی بہتری کے بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟
جواب:ماضی میں ہونے والی پاک بھارت جنگوں سے دونوں ملکوں کے مزدوروں، کسانوں اور عام لوگوں کا کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ جنگیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ دونوں ملکوں کے حکمران یہاں کے عوام کا کوئی ایک مسئلہ بھی حل نہیں کر پائے۔اس خطے میں ترقی صرف ایک ہی جنگ کے ذریعے سے ہو سکتی ہے اور وہ طبقاتی جنگ ہے۔ یعنی دونوں ملکوں کے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف مزدورں اور کسانو ں کی جنگ۔جب تک سرمایہ دار اور جاگیر دار حکمرانی کریں گے دونوں ملکوں کے درمیان نئی جنگوں کو خطرہ رہے گا۔مصنوعی اور عارضی تجارتی معاہدے تو ہو سکتے ہیں لیکن یہ معاہدے پائیدار نہیں کیونکہ دونوں ممالک میں سماجی و معاشی بحران بہت گہرا ہے جو نئے تنازعات کو جنم دے گا ۔

پاک امریکہ تعلقات نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔ان حالات میں پاک بھارت تعلقات میں امریکی سامراج کا کیا کردار بن سکتا ہے؟
جواب:امریکی سامراج دنیا کی سب سے بڑی رجعتی طاقت ہے۔بڑی اجارہ داریوں اور بنکوں کے مفادات کے لئے اس سامراج نے بہت سی جنگیں برپا کی ہیں اور معصوم انسانوں کا بیش بہا خون بہایاہے۔عراق، افغانستان اس کی حالیہ مثالیں ہیں۔ان جنگوں کے تباہ کن اثرات نہ صرف ان ممالک کے لوگوں پر بلکہ پاکستان پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔پاکستان کو ایک آزاد ملک کہا جاتا ہے، لیکن اس کی آزادی و خود مختاری کہاں ہے؟اس کی معیشت IMFکے اشاروں پر چلتی ہے، قانون کو سامراج ہر روز تاراج کرتا ہے اور فوج کو افغانستان میں امریکہ استعمال کرتا آیا ہے اور کر رہا ہے۔پاکستان اور بھارت کے بارے میں ،میں یہی کہوں گا کہ امریکہ ہمیشہ بھارت کو ترجیح دے گا کیونکہ بھارت ایک بڑی منڈی ہے اور زیادہ منافع بخش ہے۔لیکن دوسری طرف واشنگٹن اپنا جھکاؤ اسلام آباد کی طرف رکھنے پر بھی مجبور ہے کیونکہ اسے افغانستان میں معاونت چاہیے۔پاکستان کے حکمران طبقے کے ایک دھڑے کا خیال ہے کہ امریکی ان کے دوست ہیں۔لیکن کسی نے ایک بار کیا خوب کہا تھا ’’ملکوں اور قوموں کے دوست نہیں بلکہ مفادات ہوا کرتے ہیں‘‘۔ امریکی سامراج ایک بار پھر پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعما ل کر کے پھینک دے گااور پاکستان کے لوگوں کی حالت زار بد سے بد تر ہو گی۔

کیا پاکستان اور امریکہ کے تعلقات مستقبل میں مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں؟
جواب:مستقبل سے آپکی کیا مراد ہے؟پاک امریکہ تعلقات اس وقت بھی شدید کشیدگی کا شکار ہیں۔پاکستان کے حکمران مکمل طور پر امریکیوں کے ماتحت رہے ہیں، بالکل نوکروں کی طرح۔امریکی ڈرون ہر روز بے گناہ پاکستانیوں کا خون بہا کر پاکستانی قانون اور خود مختاری کا مذاق اڑا رہے ہیں۔لوگوں میں امریکہ کے خلاف شدید غم و غصہ ہے جس کی وجہ سے حکومت پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے۔اور جب اس دباؤ کے تحت دبے الفاظ میں امریکہ سے احتجاج کرتی ہے تو یہ معمولی اور برائے نام احتجاج بھی واشنگٹن میں بیٹھے سیاستدانوں کے لئے نا قابلِ برداشت ہوتاہے۔اسی وجہ سے پاکستان پر جابرانہ حملے مزید تیز کر دئے جاتے ہیں۔جب امریکہ جیسے دوست ہوں بھلا پاکستان کو دشمنوں کی کیا ضرورت ہے؟

کیا امریکہ کشمیر اور بلوچستان کے مسائل کو حل کر سکتا ہے ؟
جواب:کیا؟ امریکہ کشمیر اور بلوچستان کے مسئلے حل کے گا؟ اگر ان دونوں جگہوں پر حالات نازک نہ ہوتے تو میں خوب ہنستا۔امریکی سامراج نے آج تک بھلا کہاں مظلوم لوگوں کی مدد کی ہے؟آج تک اس نے کون کا مسئلہ حل کروایا؟کیا اس نے آج تک فلسطینیوں کی کوئی مدد کی ؟کیا بحرین کے مظلوم عوام کے لئے اس نے کچھ کیا ؟ہر جگہ امریکی سامراج نے یا تو ظالم حکمرانوں کا ساتھ دیا یا بذاتِ خود ظالم کا کردار ادا کیا ۔کوئی بیوقوف شخص ہی اس بات پر یقین کر سکتا ہے کہ امریکہ آزادی اور جمہوریت کا ساتھ دیتا ہے۔
جہاں تک کشمیر کی بات ہے ، یہ ممکن ہے کہ امریکہ پاکستان حکمرانوں سے کچھ وعدے کرے کہ وہ تیسرے فریق کا کردار دیانتداری سے ادا کرے گا۔جیسا کہ انگریزی کی ایک مثال ہے کہ بڑی مچھلی کو پکڑنے کے لئے چھوٹی مچھلی کا دانہ پھینکا جاتاہے۔تاہم پاکستان میں اگر کوئی بھی امریکی وعدوں پر یقین کرتا ہے تو اسے فوراً دماغی ہسپتال لے جایا جانا چاہئے۔امریکیوں کے بھارت کے ساتھ دو ر رس مفادات وابستہ ہیں اور کسی بھی صورت میں وہ بھارتی حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کو پاکستان یا کشمیری لوگوں کی بہتری پر قربان نہیں کریں گے۔لیکن اگر ہم امریکی وعدوں پر نادان بچوں کی طرح یقین کر بھی لیں تو میں نہیں سمجھتا کہ واشنگٹن کے پاس اتنی طاقت اور دم خم اب باقی بچا ہے کہ وہ بھارت پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکے۔بھارتی حکمرانوں کا نعرہ بہت واضح ہے کہ ’’جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ ہمارا ہے‘‘۔کشمیر کا مسئلہ نہ تو جنگ سے اور نہ ہی مذاکرات سے حل ہو سکتا ہے۔ٖصرف اور صرف انقلاب ہی اس مسئلے کو حل کر سکتا ہے۔
بلوچستان کی صورتحال تو اور بھی واضح ہے۔یہاں امریکہ براہِ راست خانہ جنگی میں ملوث ہے۔در حقیقت بلوچستان میں امریکہ اور چین کی بالواسطہ جنگ (پراکسی وار) جاری ہے جس کا مقصد یہاں کے وسیع تر معدنی وسائل کا حصول ہے۔اور اس مقصد کے لئے دونوں سامراج بلوچستان میں مختلف گروپوں کو مدد دے رہے ہیں۔ گو کہ بلوچستان میں ریاستی جبر کے خلاف نفرت اور قومی آزادی کے جذبات وسیع پیمانے پر پائے جاتے ہیں لیکنبلوچستان کے مسئلے پر امریکہ سے مدد مانگنا ایسے ہی ہے جیسے ابلیس سے برائی کے خلاف مدد مانگنا۔بلوچستان کے محنت کش اور نوجوان ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی سرمایہ داری اور ریاستی جبر سے حقیقی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔

کیا امریکی امداد کے بغیر پاکستان کی معیشت چل سکتی ہے؟
جواب:64سال سے پاکستان کا حکمران طبقہ اس خطے میں موجود وسیع تر مواقعوں کو ترقی کے لئے استعمال نہیں کر سکا۔18کروڑ کی آبادی،زرخیز ترین زمین،ضروری صنعتی بنیادیں اور معدنیات کے وسیع تر غیر استعمال شدہ زخائر کے ساتھ میرے خیال میں کوئی وجہ نہیں بنتی کہ پاکستان ایک ترقی یافتہ ملک نہ بن سکے۔مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی دولت کو اندر اور باہر دونوں طرف سے لوٹا گیا ہے۔اگر میں غلط نہیں ہوں تو پاکستان کی 60فیصد دولت تو غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو جاتی ہے۔باقی 30فیصد دفاع پر خرچ ہو تاہے۔پیچھے صرف 10فیصد بچتا ہے جس کا معمولی حصہ تعلیم اور علاج پر خرچ ہوتا ہے۔آپ کے خیال میں کیا یہ صورتحال قابلِ قبول ہے؟میں تو یہ کہوں گا کہ امریکہ پاکستان کی نہیں بلکہ پاکستان امریکہ کی امداد کرتا ہے۔غیر ملکی قرضے در حقیقت کئی بار ادا ہو چکے ہیں لیکن یہ ادائیگی ابھی بھی جاری ہے۔IMFنے جو شرائط پاکستان پر لاگو کر رکھی ہیں ان کے بعد پاکستان ایک خود مختار ریاست نہیں رہا۔اگر یہاں کے حکمرانوں میں ذرا سی غیرت بھی باقی ہوتی تو وہ تمام تر قرضوں کی ادائیگی فوراً بند کرتے اور ایک روپیہ بھی کسی عالمی سود خور کو ادا نہ کیا جاتا۔
ایک مارکسسٹ ہونے کے ناطے میں یہی کہوں گا کہ پاکستان اور پاکستانی عوا م کے تمام مسئلوں کا حل صرف اور صرف تمام زمینوں، بنکوں ، سرمائے اور صنعتوں کو قومی تحویل میں لے کر ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت کا قیام ہے ۔یہ وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر تمام معاشی و سماجی مسائل کیے جا سکتے ہیں اور سرمایہ دار اور جاگیر دار طفیلیوں کی بجائے عام لوگوں کو خوشحال کیا جا سکتاہے۔