صوبائی چیئرمین پیرامیڈیکل ایسوسی ایشن خیبر پختونخواہ سراج الدین کا انٹرویو

سراج الدین پچھلی تین دہائیوں سے مزدور تحریک میں سرگرم ہیں اور پیرامیڈیکل کے محنت کشوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔گزشتہ دنوں پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپین کے ایک وفد نے ان سے ملاقات کی اور مختصر انٹرویو کیا جو کہ طبقاتی جدوجہد کے قارئین کے لئے پیش خدمت ہے۔

آپ کب سے محنت کشوں کے حقوق کے لئے سیاست کر رہے ہیں؟
جواب: دسمبر1982ء میں خیبر میڈیکل ہسپتال میں صدر منتخب ہوا۔ بعد ازاں پشتونخواہ میں صدر بنا اور 2000ء میں بطور چیئرمین منتخب ہوا۔ اس کے علاوہ پاکستان ورکرز فیڈریشن خیبر پختونخواہ کا نائب صدر ہوں۔

آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
جواب: میں نے بی ایس سی آنرز اور بعد ازاں ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔

اس جدوجہد کے نتیجے میں کبھی ریاستی تشدد کا شکار بھی ہوئے؟
جواب: جی ہاں 1986ء میں محنت کشوں کے حقوق کی جدوجہد کی پاداش میں پابند سلاسل ہوا۔ اور دو سے تین مرتبہ نوکری سے نکال دیا گیا ۔

موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں ایک بات بڑی واضح ہو چکی ہے کہ حکمران طبقات چاہے وہ حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں سب اکٹھے ہیں۔ مصنوعی تضادات بنائے جاتے ہیں جن کا لوگوں کے بنیادی مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بلکہ تمام حکمران طبقات غریبوں کا خون چوس رہے ہیں۔

پیپلزپارٹی کی موجودہ حکومت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
جواب: پیپلزپارٹی محنت کشوں کی روایت ہے لیکن آج پیپلزپارٹی نے لوگوں کو سوائے مایوسی، بدگمانی، غربت، بھوک، بیماری ، لاعلاجی اور دہشت گردی کے کچھ نہیں دیا۔ غریبوں نے تو ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ساتھ وفا کی ہے۔

کیا آج کوئی ادارہ اپنی لڑائی اکیلا لڑ سکتا ہے؟
جواب: یقیناًنہیں، اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے خیبر پختونخواہ کی ایمپلائز فیڈریشن کونسل بنائی گئی ہے جس میں کم و بیش تیس کے لگ بھگ ٹریڈ یونینز اور ایسوسی ایشنز شامل ہیں۔ اور اس کونسل کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ کسی ادارے کے اندر چلنے والی تحریک کو تمام کونسل کے ممبران اپنی تحریک سمجھیں گے۔

یہ کونسل کس حد تک فعال ہے؟
جواب: کوشش تو کیجاتی ہے کہ اس کو فعال رکھا جائے لیکن اتنی فعال نہیں جتنی ہونی چاہیے۔

آپ نے پیرامیڈیکل سٹاف کو کیا کیا مراعات دلائیں؟
جواب: کافی ساری مراعات دلائی ہیں لیکن وہ ناکافی ہیں انہی مشکلات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے دائرہ کار کو سیع کرتے ہوئے ہیلتھ ایمپلائز کونسل بنائی ہے جس میں ٹیچنگ سٹاف ایسوسی ایشن، وائی ڈی اے ، پیرامیڈیکس، نرسنگ ایسوسی ایشن، درجہ چہارم کی ایسوسی ایشن، آئی ٹی ایسوسی ایشن شامل ہیں۔

2013ء کے الیکشن سے کیا توقعات ہیں؟
جواب: محنت کشوں کا ایک نمائندہ ہونے کے ناطے سمجھتا ہوں کہ اگر موجودہ حکومت غریبوں کا خون چوس رہی ہے تو آنیوالی حکومت ہڈیوں کا گودا تک نچوڑلے گی۔ ہاں اس سیاسی عمل میں کچھ ایسے لوگ منتخب ہو کر آجاتے ہیں جو محنت کش طبقے کے حقیقی نمائندے ہیں تو وہ حقیقی معنوں میں غریب عوام اور محنت کش طبقے کی آواز بن سکتے ہیں۔

 اداروں کی تباہی کی کیا وجہ ہے؟
جواب: اس کی سب سے بڑی وجہ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگا ور وہ تمام مزدور دشمن سامراجی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ کی جاتی ہے۔ پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی، بینکنگ سیکٹر کی نجکاری ہمارے سامنے جہاں بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا ۔

کیاٹریڈ یونین قیادت کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟
جواب: قطعانہیں۔ آج کی موجودہ کیفیت میں ٹریڈ یونین کا جو کردار ہونا چاہیے وہ نہیں ہے بلکہ بڑی بڑی فیڈریشنز مزدور ورکشاپوں کے نام پر محنت کشوں کو میٹھی گولیاں دی جاتی ہیں ہونا تو یہ چاہیے کہ محنت کشوں کے حقیقی مسائل اور طبقاتی تفریق کا فرق واضح کرنا چاہیے، لوگوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ پوری دنیا کے اندر نظام چلانے والے محنت کش طبقات ہیں لیکن پوری دنیا میں بالعموم اور پاکستان میں بالخصوص محنت کش طبقہ ہی استحصال کا شکار ہے۔

آپ کے مطالبات کیا ہیں؟
جواب:
۱۔ تمام سرکاری ہسپتالوں میں غریب مریضوں کو مفت علاج اور مفت ادویات و دیگر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
۲۔ ہیلتھ پالیسی اور ہسپتالوں کی اٹانومی کیلئے ہونے والی قانون سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔
۳۔ میرٹ کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور بنا میرٹ بھرتیوں کے آرڈر کو منسوخ کیا جائے۔
۴۔ پی جی پی آئی پوسٹ گریجویٹ پیرامیڈیکل انسٹیٹیوٹ کی تعمیر شدہ بلڈنگ میں فور طور پر پیرامیڈیکس کی ڈگری کلاسز کے اجراء کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
۵۔ ینگ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس درجہ چہارم کے تجویز کردہ سروس سٹریکچر کی منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
۶۔ ڈاکٹرز کی طرح محکمہ صحت کے باقی تمام کیڈرز کے ملازمین کو بھی ہیلتھ پروفیشنل الاؤنس دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
س: آپ کے نزدیک تمام مسائل کا حل کیا ہے؟
ج:ایک بات جسکو تمام محنت کش طبقے کو سمجھنے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ تمام پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کش متحد ہو کر میدان عمل میں آئیں اور اپنی طاقت سے اس مردہ سماجی نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک نئی صبح کا آغاز کریں جس میں تمام بنیادی مسائل کو حل کرکے انسان کو آزاد کیا جائے۔