میرپور خاص اور اسلام آباد میں بین العلاقائی مارکسی سکولوں کا انعقاد

رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ (RSF)

انقلابی طلبہ محاذ کے زیر اہتمام 2019ء کے ملک گیر بین العلاقائی مارکسی سکولوں کے پہلے سلسلے میں میرپور خاص اور اسلام آباد میں دو مارکسی سکولوں کا انعقاد کیا گیا جن میں مسلسل بڑھتی ہوئی مہنگائی، بیروزگاری، تعلیمی اخراجات اور سماجی دباؤ کے باوجود مجموعی طور پر 180 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ اِن سکولوں کی نظریاتی اور سیاسی تیاری کے حوالے سے دو دستاویزات ’سوشلزم اور آرٹ‘ اور ’پاکستان میں طلبہ تحریک‘ پیشگی شائع کی گئی تھیں جن پر مختلف سیشنز میں سیر حاصل بحث کی گئی۔ سکولوں کی مختصر رپورٹ اور تصاویر ہم اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

اسلام آباد سکول
انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے زیر اہتمام 19 اور 20 جنوری کو دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد اسلام آباد میں کیا گیا۔ کٹھن معاشی حالات اور سماجی مشکلات کو شکست دیتے ہوئے کشمیر، خیبر پختونخواہ اور شمالی پنجاب کے مختلف علاقوں سے دس خواتین سمیت 82 انقلابی نوجوانوں نے سکول میں شر کت کی۔ سکول کے آغازپرکامریڈ ظفراللہ نے تما م شرکا کو خوش آمدید کہا اور موجودہ عہد میں سرمایہ دارانہ نظا م کی تاریخی متروکیت کے تناظر میں طبقاتی جدوجہد اور انقلابی پارٹی کی تعمیر کی اہمیت پر بات رکھی۔ سکول مجموعی طور پر تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلے سیشن میں عالمی اور ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر بحث کی گئی۔ کشمیر سے مروت راٹھور نے بحث کا آغاز کیا۔ اس سیشن کو شمالی پنجاب سے حسیب احسن نے چیئر کیا۔ مروت راٹھور نے واضح کیا کہ کس طرح مروجہ نظام کے معاشی و اقتصادی بحران کی وجہ سے پوری دنیا میں اضطراب بڑھ رہا ہے۔ معاشی بحران سیاسی اور سماجی بحرانات میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ امریکہ میں ٹرمپ، فرانس میں میکرون، برازیل میں بولسنارو، انڈیامیں مودی اور پاکستان میں عمران خان اس نظام کی گلی سڑی لاش سے پیدا ہونے والے تعفن کی عکاسی کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ فرانس میں ییلو وسٹس تحریک اور دنیا کے دیگر ملکوں میں ابھرنے والی تحریکیں سرمایہ داری کی حدود کو واضح کر رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں نظام کا انتشار اور عدم استحکام مزید بڑھے گا اور اس کے خلاف مزاحمت اور بغاوت میں بھی اضافہ ہو گا۔ پاکستان پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان کا معاشی زوال شدید تر ہو چکا ہے اور جیسا کہ ہم نے پیشگی واضح کیا تھا کہ موجودہ حکومت کسی بھی قسم کی بہتری لانے میں ناکام ہو چکی ہے۔ مہنگائی اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہے۔ تجارتی خسارہ 37 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔ حکومت کو قرضے نہیں مل پا رہے اور بحران کا تمام بوجھ پھر غریب عوام پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ ریاستی جبر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ ریاست کے مختلف دھڑوں میں لڑائی شدت اختیار کر رہی ہے۔ ایسے حالات میں محنت کش طبقے کو منظم کر کے اس نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کرنا آج کے عہد کا سب سے اہم فریضہ ہے۔ لیڈ آف کے بعد اویس قرنی، التمش تصدق، عمار یاسر، حارث قدیر، آصف رشید اور عمران کامیانہ نے بحث کو آگے بڑھایا اور عالمی و ملکی صورتحال کے مختلف نکات پر روشنی ڈالی۔ آخر میں کشمیر سے سعد ناصر نے سوالات کی روشنی میں سیشن کو سم اپ کیا۔

دوپہر کے کھانے کے بعد ’سوشلزم اور آرٹ‘ پر سیشن کا آغاز ہوا۔ اس سیشن کو چیئر پختونخواہ سے سنگین باچانے کیا جبکہ شمالی پنجاب سے ریحانہ اختر نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آرٹ کے کردار، تاریخ، ضرورت اور اہمیت پر سیر حاصل بات رکھی۔ سکول کے شرکا نے موضوع میں اپنی خصوصی دلچسپی کا اظہا ر درجنوں سوالات کی شکل میں کیا۔ بحث میں صابعہ اختر، اویس قرنی، حسیب احسن، التمش تصدق، بشریٰ، راشد باغی اور وقاص بشیر نے حصہ لیا۔ جبکہ سیشن کا سم اپ عمران کامیانہ نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔
سکول کے تیسرے اور مجموعی طور پر آخری سیشن کا آغاز 20 تاریخ کو صبح 10 بجے ہوا۔ نوجوانوں نے انقلابی ترانوں اور شاعری سے ماحول کو خوب گرمایا۔ اس سیشن میں پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ، آج کے عہد میں ایک انقلابی طلبہ تنظیم کی ضرورت، اہمیت اور اس کی تعمیر کے طریقہ ہائے کار پر مجتبیٰ بانڈھے نے تفصیلی بحث کا آغاز کیا۔ سیشن کو چیئر کشمیر سے صابعہ اختر نے کیا۔ ریجنل رپورٹوں اور اہداف کے بعد ابرار لطیف، سیف مندھار، کامران خالد، ظفراللہ اور عمران کامیانہ نے نوجوانوں میں انقلابی کام کے حوالے سے بحث میں حصہ لیا۔ اختتامی کلمات اویس قرنی نے ادا کیے جس کے بعد محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا۔

میرپور خاص سکول
انقلابی طلبہ محاذ (RSF) کے زیر اہتمام مورخہ 12 اور 13 جنوری کو میرپورخاص میں دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دادو کے مختلف علاقوں سے 100 سے زائد انقلابی نوجوانوں نے شرکت کی۔ سکول کا باقاعدہ آغاز 12 جنوری کی صبح 10 بجے کامریڈ نتھو نے شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے انقلابی ترانے کیساتھ کیا۔ پہلے دن کا پہلا سیشن ’عالمی اور ملکی تناظر‘ پر مبنی تھا۔ سیشن کو چیئر کامریڈ لاجونتی نے کیا۔ اس موضوع پر لیڈ آف کامریڈ حاتم خان کی تھی جس میں انہوں نے آج کی سرمایہ دارانہ دنیا کے سیاسی، معاشی اور سماجی تضادات اور انقلابی تحریکوں پر روشنی ڈالی۔ تقریباً ایک گھنٹے پر مبنی تفصیلی لیڈ آف کے بعد راہول، اکرم، سیفی، عمار یاسر، صدام، انور پنہور اور اویس قرنی نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری، ملکی و عالمی سطح پر حالیہ عرصے میں رونما ہونے والے واقعات اور ان کے مضمرات اور مستقبل کے ممکنات پر بات رکھی۔ آخر میں کامریڈ ماجد بگھیو نے سوالات کا جواب دیتے ہوئے سیشن کو سم اپ کیا۔

دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد پہلے دن کے دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کو چیئر کامریڈ سجاد نے کیا۔ اس سیشن کا موضوع ’سوشلزم اور آرٹ‘ تھا جس پر بحث کا آغاز دادو سے کامریڈ رمیز مصرانی نے کیا۔ انہوں نے آرٹ کی تاریخ، مادی بنیادوں، سماجی ارتقا کے ساتھ اس کے تعلق اور انقلابی آرٹ جیسے نکات پر بات رکھی۔ اس کے بعد عمران قمبر، حاجی شاہ، بابر پنہور، سعید خاصخیلی اور عمران کامیانہ نے بحث کو آگے بڑھایا اور بالخصوص لیون ٹراٹسکی کی تحریروں کی روشنی میں آرٹ پر مارکسی پوزیشن کو واضح کیا۔ آخر میں کامریڈ کپل نے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے سیشن کا اختتام کیا۔
دوسرے روز کے سکول کے واحد سیشن کا موضوع ’طلبہ سیاست کی تاریخ اور آج کے عہد میں انقلابی طلبہ محاذ کے فرائض‘ تھا جس کو چیئر کامریڈ سیفی نے کیا جب کہ لیڈ آف میں کامریڈ منیش نے برصغیر میں انقلابی طلبہ سیاست اور طلبہ تحریکوں کی تاریخ کا جائزہ لیا اور موجودہ وقت میں انقلابی طلبہ محاذ کی تعمیر کی ضرورت اور مقاصد بیان کیے۔ اس سیشن میں آزاد جامن، راہول، اویس قرنی اور جنت حسین نے اپنے خیالات اور آرا کا اظہار کیا۔ ریجنل رپورٹوں اور اہداف کے تعین کے بعد کامریڈ نثار چانڈیو نے سکول کی فنانس رپورٹ پیش کی۔ سکول کے اختتامی کلمات عمران کامیانہ نے ادا کیے جبکہ سکول کا باقاعدہ اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔

آج کے گھٹن زدہ نیم رجعتی حالات میں نہ صرف نظریاتی اور سیاسی بلکہ ثقافتی اور سماجی حوالے سے بھی یہ سکول انتہائی اہمیت کے حامل تھے جن میں درجنوں نوجوانوں نے مختلف علاقائی زبانوں میں انقلابی شاعری، گیت اور ترانے سنائے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود پاکستان جیسے سماج میں ایسی نشستوں میں خواتین کی شرکت بھی خاصی حوصلہ افزا تھی جسے مزید بڑھانے کی ضرورت بہرحال ہے۔ سکولوں کے باقاعدہ اوقات سے ہٹ کے بھی تاریخ، لٹریچر اور فلسفے وغیرہ جیسے موضوعات پر بحثوں اور تبادلہ خیال کا سلسلہ مسلسل جاری رہا۔ آنے والے دنوں میں جنوبی پنجاب، بلوچستان اور مرکزی پنجاب میں بھی ایسے تربیتی سکولوں کا انعقاد کیا جائے گا جن میں سینکڑوں مزید نوجوانوں کی شرکت متوقع ہے۔