ملتان، کوئٹہ اور لاہور میں بین العلاقائی مارکسی سکولوں کا انعقاد

رپورٹ: انقلابی طلبہ محاذ (RSF)

انقلابی طلبہ محاذ کے زیر اہتمام 2019ء کے ملک گیر بین العلاقائی مارکسی سکولوں کے دوسرے سلسلے میں ملتان، کوئٹہ اور لاہور میں تین مارکسی سکولوں کا انعقاد کیا گیا جن میں تلخ معاشی و سماجی حالات کو شکست دیتے ہوئے مجموعی طور پر 190 انقلابی نوجوانوں نے شرکت کی۔ ملک گیر مارکسی سکولوں کے پہلے سلسلے کی طرح دوسرے سلسلے میں بھی ’سوشلزم اور آرٹ‘ اور ’پاکستان میں طلبہ تحریک‘ پر پیشگی شائع شدہ دستاویزات زیر بحث آئیں۔ سکولوں کی مختصر رپورٹ اور تصاویر ہم اپنے قارئین کے لئے شائع کر رہے ہیں۔

ملتان
انقلابی طلبہ محاذ کی طرف سے ملک گیر بین العلاقائی مارکسی سکولوں کے سلسلے میں میر پور خاص اور اسلام آباد کے بعد ملتان میں 9 اور 10 فروری کو دو روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا جس میں جامپور، ڈیرہ غازی خان، لیہ، علی پور، رحیم یار خان، صادق آباد اور ملتان سے مجموعی طور پر 60 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ سکول کا باقاعدہ آغاز ملتان سے ندیم پاشا نے تمام شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے کیا اور موجودہ سیاسی و معاشی حالات میں سکول کی اہمیت و ضرورت کو واضح کیا۔ سکول مجموعی طور پر تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ پہلا سیشن عالمی اور ملکی تناظر پر تھا۔ جس پر بحث کا آغاز جامپور سے سقراط نے کیا جب کہ اس سیشن کو ملتان سے کامریڈ ساجد نے چیئر کیا۔ سقراط نے سرمایہ دارانہ نظام کی معاشی زوال پذیری سے لے کے بڑھتے ہوئے عالمی سیاسی و سفارتی خلفشار پر سیر حاصل بات کی۔ امریکہ، چین، روس، انڈیا اور دیگر ملکوں کی معاشی اور سیاسی صورت حال کو واضح کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح نظام کے بحران کی وجہ سے ٹرمپ جیسی شخصیات کا پوری دنیا میں ابھار ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں نئی ابھرنے والی تحریکوں‘ خاص کر ’ییلو ویسٹ‘ تحریک کے اثرات پر بات کی۔ وینزویلا میں ہونے والی سامراجی مداخلت کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مادورو کی حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا اور بولیوارین انقلاب کو مکمل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ پاکستان میں ریاست کے کھوکھلے پن، معاشی زوال پذیری اور سیاسی گراوٹ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان تمام مسائل کی وجہ سے معاشرہ تنزلی، ہیجان اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ مہنگائی میں ہونے والے اضافے اور بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی وجہ سے عوام بدحالی کا شکارہیں۔ نام نہاد تبدیلی کا فریب چند مہینوں میں ہی آشکار ہو گیا ہے۔ موجودہ سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کے پیش نظر محنت کش طبقے کی جڑت اور انقلابی پارٹی کی تعمیر تاریخی فریضہ بن چکی ہے۔ لیڈ آف کے بعد الطاف، سیفی، اشفاق، حیدر چغتائی، حیدرعباس گردیزی اور عمران کامیانہ نے بحث کو آگے بڑھایا۔ ذیشان شہزاد نے سوالوں کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کیا۔
دوپہر کے کھانے کے بعد دوسرے سیشن کا آغاز ہوا جس کا موضوع ’سوشلزم اور آرٹ‘ تھا۔ اس سیشن کو رحیم یار خان سے مسعود نے چیئر کیا جب کہ ملتان سے نادر گوپانگ نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے آرٹ، انقلابی و سوشلسٹ آرٹ، آرٹ کے ارتقا، سماجی کردار اور اہمیت اور اس بارے میں کمیونسٹ پالیسی پر مفصل بات رکھی۔ حیدر عباس گردیزی، رفیق اور عمران کامیانہ نے بحث کو آگے بڑھایا اور مختلف پہلوؤں سے اِس دقیق موضوع کا احاطہ کیا۔ جس کے بعد شہریار ذوق نے سوالات کی روشنی میں سیشن کا سم اپ کیا۔

10 فروری کو گیارہ بجے سکول کے مجموعی طور پر تیسرے سیشن کا آغاز کیا گیا۔ یہ سیشن پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ پر مبنی تھا۔ اس سیشن کو جامپور سے باسط نے چیئر کیا جبکہ رحیم یار خان سے رئیس طارق نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ پر سیر حاصل گفتگو کی اور آج کے عہد میں انقلابی طلبہ سیاست کے فرائض بیان کیے۔ انہوں نے طلبہ یونین پر پابندی کی وجہ سے طلبہ سیاست کی زوال پذیری اور منشیات و تشدد کے کلچر کے پنپنے پر بھی بات کی۔ اس کے بعد طارق چودھری، ندیم پاشا، نادر گوپانگ اور حید چغتائی نے نوجوانوں میں انقلابی کام کو مزید بہتر بنانے کے حوالے سے تجاویز پیش کیں۔ سکول کی فنانس رپورٹ امین بلوچ نے پیش کی اور مالی حوالے سے بھی سکول انتہائی کامیاب رہا۔ دو روزہ سکول کے دوران مختلف ساتھیوں‘ بالخصوص ڈیرہ غازی خان سے کامریڈ رفیق نے گاہے بگاہے انقلابی گیت اور شاعری سنا کر شرکا کو توانائی بخشی اور ماحول کو گرمائے رکھا۔ سکول کے اختتامی کلمات عمران کامیانہ نے ادا کیے۔ محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر سکول کا باقاعدہ اختتام کیا گیا جس کے بعد ہال انقلابی نعروں سے گونج اٹھا۔

کوئٹہ
ہفتہ 16 فروری کو ایوب اسٹیڈیم کوئٹہ کے یوتھ ہاسٹل میں ایک روزہ مارکسی سکول کا انعقاد کیا گیا۔ اس اسکول میں کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دور دراز علاقوں مستونگ، قلات، مچھ، قلعہ سیف اللہ، ژوب اور کوہلو سے 80 سے زائد انقلابی نوجوانوں نے شرکت کی۔ اسکول مجموعی طور پر تین سیشنز پر مشتمل تھا۔ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین کے مرکزی چیئرمین نذرمینگل نے باقاعدہ طور پر اسکول کا آغاز کیا اور تمام شرکا کو خوش آمدید کہا۔
سکول کا پہلا سیشن ’عالمی اور پاکستان تناظر‘ کے موضوع پر تھا جس کو چیئر آفتاب بلوچ نے کیا اور اس پر لیڈ آف شکیلہ بلوچ نے دی۔ شکیلہ نے عالمی سرمایہ داری کے موجودہ بحران کے مضمرات اور اس کی وجوہات پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سرمایہ داری کے بحرانوں کی وجہ سے امریکہ سامراج داخلی اور خارجی سطح پر زوال پذیری اور گراوٹ کا شکار ہے۔ امریکی معیشت بحرانوں اور قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اسی طرح دنیا کی تمام تر ترقی یافتہ اور بڑی معیشتیں قرضوں میں غرق ہیں۔ اس وقت مجموعی طور پر کل عالمی قرضہ 186 ہزار اَرب ڈالر ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔ تمام تر کٹوتیوں اور بیل آؤٹ پیکجز کے باوجود معیشتوں میں درکار بحالی نہیں ہو رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر سرمایہ داری میں شرح منافع میں مسلسل گراوٹ آ رہی ہے کیونکہ نت نئی مشینوں اور روبوٹوں کے ذریعے انسانی محنت کے کردار کو کم کرنے کی کوشش ہو رہی ہے جس سے منافع کے لیے درکار قدر زائد پیدا نہیں ہو رہی۔ جس کو مارکس نے شرح منافع میں گراوٹ کے رجحان کا قانون کہا تھا اور یہی آج کی سرمایہ داری کے بحرانوں کی بنیادی وجہ ہے۔ انہوں نے عالمی صورتحال کے سیاسی، سفارتی اور سماجی پہلوؤں پر بھی بات رکھی۔ لیڈ آف کے بعد کامریڈ عمران کامیانہ نے بحث کو مزید آگے بڑھایا اور تاریخی حوالے سے سرمایہ داری کے بحران اور آج کے عہد میں اس کے مختلف خطوں پر اثرات کا جائزہ لیا۔ آخر میں سوالات کی روشنی میں حسن جان نے اس سیشن کو سم اپ کیا۔
اسکول کا دوسرا سیشن ’آرٹ اور سوشلزم‘ کے موضوع پر تھا جس پر بحث کا آغاز ضامن سنگتراش نے کیا اور سیشن کو چیئر نادر خان نے کیا۔ ضامن سنگتراش نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ انسانی تاریخ کے قدیم ترین ادوار‘ حتیٰ کہ قبل از تہذیب میں بھی آرٹ کے آثار نظر آتے ہیں اور یہ اہمیت کا حامل رہا ہے۔ فرانس اور سپین کے پہاڑوں کی غاروں میں انسانوں کی بنائی گئی جانوروں کی ہزاروں سال پرانی تصاویر بے مقصد نہیں تھیں۔ وہ محض سجاوٹ اور شوق کے لیے نہیں تھیں بلکہ وہ ان اہم جانوروں کی تصاویر کو بنا کر انہیں جادو ٹونے کے مقصد کے لیے استعمال کرتے تھے تاکہ ان جانوروں کا آسانی سے شکار کیا جاسکے۔ لیکن طبقاتی سماج کے ظہور میں آنے کے بعد آرٹ کا کردار بھی تبدیل ہوگیا۔ غلام داری میں آرٹ حکمران طبقے اور بادشاہوں کی خدمت میں چلا گیا۔ دیوہیکل مجسمے بنا کر حکمران طبقے کی ہیبت اور طاقت کو عام لوگوں کے ذہنوں پر طاری کیا جاتا تھا۔ لیکن آج کے عہد میں سرمایہ داری نے دیگر تمام شعبوں کی طرح آرٹ اور آرٹ کے نمونوں کو بھی ایک جنس میں تبدیل کر دیا ہے اور اسے بھی منافع کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ چونکہ صنعت کی طرح آرٹ کی وسیع پیداوار (Mass Production) نہیں کی جاسکتی اس لیے سرمایہ داری میں آرٹ بالعموم ایک غیر متعلقہ اور نظرانداز شعبہ ہے۔ سوشلزم میں آرٹ کا مقصد حکمرانوں کی طاقت کی دھاک بٹھانا اور بڑے دیوہیکل اور بیہودہ مجسمے بنانا نہیں ہوگا بلکہ تمام تر مالیاتی اور طبقاتی جبر سے آرٹ کو آزاد کرکے اس کی معراج تک پہنچایا جائے گا۔ لیڈ آف کے بعد سوالات کا سلسلہ شروع ہوا۔ اظہار اور عمران کامیانہ نے بحث کو مزید آگے بڑھایا۔ جس کے بعد سوالات کی روشنی میں ضامن سنگتراش نے سیشن کو سم اپ کیا اور آنے والے دنوں میں اِس موضوع پر مزید بحث کی ضرورت پر زور دیا۔

کھانے کے وقفے کے بعد اسکول کا تیسرا اور آخری سیشن طلبہ سیاست کے موضوع پر تھا۔ جس پر عروج سحر نے بات رکھی اور سیشن کو چیئر عبداللہ نے کیا۔ عروج نے پاکستان میں طلبہ تحریک کی تاریخ اور بائیں بازو کی طلبہ تنظیموں کے کردار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ اور نوجوانوں نے ہمیشہ تحریکوں میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ طلبہ تحریکیں ہی تھیں جو 1968-69ء کے انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہوئیں۔ طلبہ تحریک کی اسی طاقت سے خوفزدہ ہو کر ضیاالحق نے طلبہ یونین پر 1984ء میں پابندی لگا دی تھی۔ آج بھی تعلیمی اداروں میں کسی جیل سے بھی زیادہ جبر اور سرکاری نگرانی کا ماحول ہے۔ کسی بھی تعلیمی ادارے میں داخل ہونے کے لیے سکیورٹی فورسز اور پولیس کی ان گنت چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن یہ جبر طاقت سے زیادہ حکمرانوں کے خوف کی غمازی کرتا ہے۔ اس کے باوجود طلبہ تحریک ابھرے گی اور ایک نئے انقلاب کا پیش خیمہ بنے گی جس کے آثار ہمیں آج نظر بھی آ رہے ہیں۔ اِس کے بعد مختلف تعلیمی اداروں سے نوجوانوں نے موضوع پر اظہار خیال کیا۔ عمران کامیانہ نے سیشن اور مجموعی طور پر اسکول کی بحث کو سمیٹا۔ آخر میں تمام شرکا نے کھڑے ہوکر مزدوروں کا عالمی ترانہ گایا اور یوں یہ شاندار مارکسی اسکول اپنے اختتام کو پہنچا۔

لاہور
23 فروری کو لاہور میں انقلابی طلبہ محاذ کے زیر انتظام ایک روزہ مارکسی سکول کا اہتمام کیا گیا جس میں لاہور، سیالکوٹ اور فیصل آباد کے مختلف علاقوں سے 50 سے زائد انقلابی نوجوانوں نے شرکت کی۔ مجموعی طور پر سکول 2 سیشنز پر مشتمل تھا۔ سکول کا باقاعدہ آغاز الیاس خان نے شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے کیا اور موجودہ حالات میں ایسی نظریاتی نشستوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ پہلے سیشن ’عالمی و ملکی تناظر‘ کو اویس قرنی نے چیئر کیا جبکہ سیف اللہ نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے امریکی سامراج کی وینزیلا کی بائیں بازو کی حکومت کے خلاف دراندازی کا جائزہ لیا۔ انہوں نے وینزویلا کے اقتصادی وسماجی بحران کی ایک بڑی وجہ عالمی سامراجیوں کی طرف سے لاگو معاشی پابندیوں کو قرار دیاا ور ادھورے انقلاب کو مکمل کرنے کی ناگزیریت پر بات رکھی۔ یورپی یونین کے معاشی بحران اور انقلابی تحریکوں کا ذکر کرتے ہوئے فرانس کی پیلی جیکٹوں کی ملک گیر تحریک اور اس کے دیگر ممالک میں اثرات پر گفتگو کی۔ امریکہ میں برنی سینڈرز اور برطانوی لیبر پارٹی کے رہنما جیرمی کاربن کے ابھار اور آنے والے دنوں میں ان رجحانات کے تناظر پر روشنی ڈالی۔ بھارت میں بنیاد پرست بی جے پی حاکمیت کی کم ہوتی ہوئی مقبولیت اور ریاستی انتخابات میں شکست کے تناظر میں حالیہ پاک بھارت تناؤ کی وجوہات اور بھارت میں آئندہ عام انتخابات کے ممکنات پیش کیے۔ انہوں نے پاکستان میں نودولتیوں کی کٹھ پتلی سرکار میں بڑھتے ہوئے معاشی اور ریاستی جبر پر روشنی ڈالتے ہوئے یہاں انقلابی تحریکوں کا تناظر پیش کیا۔ لیڈ آف کے بعد شرکا کی جانب سے سوالات کیے گئے جبکہ عمران کامیانہ، فاروق طارق، حیدر بٹ اور الیاس خان نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے تناظر کے مختلف پہلوؤں اور آئندہ کے لائحہ عمل پر بات کی۔ عمر رشید نے سوالات کی روشنی عالمی و ملکی تناظر کی تمام تر بحث کو سمیٹا۔
دوپہر کے کھانے کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن ’سوشلزم اور آرٹ‘ کا آغاز کیا گیا۔ عمار یاسر نے سیشن کو چیئر کیا جبکہ عمران کامیانہ نے لیون ٹراٹسکی کی تحریروں کی روشنی میں موضوع پر سیر حاصل بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے آرٹ کے سماجی کردار، انقلابی و سوشلسٹ آرٹ کے فرق، پرولتاری ثقافت کے مغالطے، انقلاب کے بعد کے عبوری مرحلے کے تعمیری و تہذیبی فرائض اور سوشلزم کے تحت فرد اور سماج کی تعمیر نو جیسے دلچسپ موضوعات کا احاطہ کیا۔ لیڈ آف کے بعد رانا مہران اور اویس قرنی نے بحث کو آگے بڑھایا جبکہ بابر پطرس نے سوالات کی روشنی میں سیشن کاسم اپ کیا۔

سیمینار
سکول سے اگلے روز 24 فروری کو انقلابی طلبہ محاذ کی جانب سے ’’طلبہ سیاست کی تاریخ اور آج کے فرائض‘‘ کے عنوان سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ سیف اللہ نے سٹیج سیکرٹری کے فرائض سر انجام دیے جبکہ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کی انقلابی کونسل کے سابقہ رہنما عمر رشید نے بحث کا آغاز کرتے ہوئے طلبہ سیاست و تحریک کے عروج و زوال پر بات رکھی اور آنے والے دنوں میں انقلابی طوفانوں کا پیش خیمہ نوجوانوں‘ بالخصوص طلبہ کو قرار دیا۔ عمران کامیانہ، جی سی فیصل آباد سے ادیبہ، لمز یونیورسٹی سے شہر بانو، پروگریسو اسٹوڈنٹس کلیکٹو سے حیدر بٹ، جموں کشمیر سٹوڈنٹس فیڈریشن کے شہر یار خان، آل پاکستان سٹوڈنٹس الائنس کے حسنین، پی ایس ایف کے رہنما سبط حسن، حقوق خلق موومنٹ کے زاہد علی اور عوامی ورکرز پارٹی سے فاروق طارق نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انقلابی طلبہ محاذ کی اس کاوش کو سراہا۔ مقررین نے آنے والے دنوں میں مشترکہ لائحہ عمل مرتب کرنے پر زور دیا۔ آخر میں اویس قرنی نے پاکستان میں طلبہ سیاست کی تاریخ پر تفصیلاً بات رکھی اور آج کے عہد میں طلبہ کے کردار اور ان میں انقلابی کام کی ضرورت اور طریقہ کار پر وشنی ڈالی۔ سیمینار اور سکول کا باقاعدہ اختتام محنت کشوں کے عالمی ترانے سے کیا گیا۔

مذکورہ بالا سکولوں کے بعد 2019ء کے ملک گیر مارکسی سکولوں کا سلسلہ اپنے اختتام کو پہنچا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ پورے ملک میں اتنے منظم انداز میں اور بڑے پیمانے پر نوجوانوں کی انقلابی تربیت کے لئے اِیسی نظریاتی اور سیاسی نشستوں کا انعقاد کیا گیا جن میں مجموعی طور پر 370 سے زائد نوجوانوں نے شرکت کی۔ آنے والے سالوں میں نہ صرف یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا بلکہ اسے مزید منظم، مربوط اور وسیع کیا جائے گا۔ انقلابی طلبہ محاذ کی یہ کاوش اِس ملک اور خطے میں انقلابی پارٹی کی تعمیر میں یقیناًایک کلیدی کردار ادا کرے گی۔