غلامی کے طوق، آزادی کاسراب!

| تحریر: پارس جان |

نظام اور سماج کے ارتقا کے ساتھ ساتھ مروجہ سیاسی وسماجی تراکیب، الفاظ، محاورے اور اصطلاحات بھی بدلتے رہتے ہیں۔ یا پھر ان اصطلاحات کا استعمال، ان کے معنی ومفہوم اور متعلقہ سماجی پرتوں اور طبقات کے نقطہ نظر سے مخصوص تصورات اور احساسات کی ترویج کے لیے ان کی افادیت یکسر مختلف ہو جاتی ہے۔ جوں جوں معاشی نظام اور سماجی ڈھانچے زیادہ پیچیدہ اور گنجھلک ہوتے گئے، زبان اور اس کے ادبی، سیاسی اور روزمرہ کے استعمال کے نئے پیمانے اور طریقے تشکیل پاتے گئے۔ جہاں انسانوں کی وسیع تر اکثریت نے زبان کو آسان اور لطیف بنا کر زندگی کے معمول کو سہل اور مفید بنانے کی تگ ودو کو عمومی سماجی ارتقا کا لازمی جزو بنا دیا، وہیں اس کثیر انسانی آبادی پر مسلط اور براجمان اقلیتی ٹولے نے زبان، محاوروں اور اصطلاحات کو اپنے حاکمانہ عزائم کے تابع کرنے کے لیے ان کو حقیقی زندگی سے کاٹ کر ان میں مافوق الفطرت اور پر اسرار معنویت پید ا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں تاکہ ضروری کو فروعی، لازمی کو غیر فطری اور محرومی کو قدرتی قرار دے کر اپنی لایعنی حاکمیت کو ناگزیر ’سماجی ضرورت‘ کے طور پر تسلیم کروا لیا جائے۔ زبان کی ترقی معاشرتی ترقی کاذریعہ بھی ہے اور پیمانہ بھی مگرایک طبقاتی سماج میں یہ طبقاتی بندشوں کی پابند ہی رہتی ہے۔
pakistan independence day cartoon (1)جاگیردارانہ یورپ کی زوال پذیری اور بالخصوص اٹھارویں اور انیسویں صدیوں کے سرمایہ دارانہ انقلابات کے عہد میں عوامی خواہشات اور تحریک کو جس لفظ، نعرے اور سیاسی اصطلاح نے سب سے زیادہ راغب کیا اور فروغ دیا وہ ’آزادی‘ تھا۔ آزادی کی اصطلاح اور تصور مشین کی پیداواریت کے سیاسی مضمرات کا اعلیٰ ترین سماجی اظہار بن گیا تھا۔ یہ ایک حقیقی انقلاب تھا جس کا اس سے پہلے تصور بھی محال تھا۔ لفظ آزادی اور اس میں مزین تصور اگرچہ بہت پرانا تھا لیکن اتنے جاندار معنی اور بیباک مفہوم سے یہ اس کا پہلا تعارف تھا۔ سائنس، ادب، فلسفے اور مذہب سمیت ہر شعبہ ہائے زندگی پر اس کے اثرات نمایاں طور پر دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے تھے۔
لیکن اپنے تمام تر شباب اور جاذبیت کے باوجود آزادی کا یہ تصور بھی اپنی بنیاد میں طبقاتی تضاد سے عبارت تھا۔ جاگیردارانہ سماج کی یک رنگی سے بیزار اور موت کے خوف کے فاتح لاکھوں عوام کے لیے آزادی سے مراد بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کی غیر انسانی مشقت سے نجات تھی۔ وہ اس مقصد کے لیے پہلی دفعہ اتنی مقدار اور ایسے معیار کے ساتھ تاریخ کے میدان میں آئے تھے۔ در اصل انہیں پہلی دفعہ زندگی کا حقیقی مقصد مل گیا تھا۔ انسان ہونے کی عظمت کے احساس نے ان کے اندر وہ طاقت انڈیل دی تھی جس کے بلبوتے پر انہوں نے مذہب، تصوف اور توہمات کی سینکڑوں صدیوں سے چلی آ رہی سلطنت کو تاراج کر ڈالا تھا اور ایک نئی، پر مسرت اور تحسین آمیز دنیا کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہ بلاشبہ ایک نیا تاریخی مرحلہ تھا مگر اس مرحلے میں اس بنیاد پر ایک نئے معاشرے کی تعمیر کے لیے لازمی اوزار عوام کے پاس نہیں تھے۔ لیکن دوسری طرف نو آموز سرمایہ دار طبقہ تھا جو آزادی کا سب سے بڑا پرچارک بنا ہو ا تھا۔ اس کے نزدیک آزادی سے مراد بے پناہ مشینی پیداوار کی بلا روک ٹوک تجارت کے ذریعے اور پھراس تجارت کے مزید فروغ کے لیے سیاسی اقتدار پر قابض ہونے کے مواقع کا حصول تھا۔ عوام کے برعکس ان مواقع سے مستفید ہونے کے لیے سرمایہ داروں کے پاس نہ صرف مشین کی ملکیت تھی بلکہ اپنے اخبار، رسائل اور نامور دانشوروں اور پروفیسر صاحبان کی خدمات بھی موجود تھیں۔ انہوں نے بآسانی طبقاتی تضاد پر قومی یکجہتی کی مہر ثبت کر دی اور آزادی کے عوامی مفہوم کو توڑ مروڑ کر ووٹ، دستور، ٹریڈ یونینوں وغیرہ کی گھمن گھیریوں کو استعمال کیا اور قومی ریاست کی تشکیل کرتے ہوئے حکمران طبقے کی حیثیت سے اپنے آپ کو تسلیم کروا لیا۔ محنت کش عوام کی زیادہ لڑاکا اور منظم پرتوں کی طرف سے بہت سی قابلِ تحسین مزاحمتوں کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ ان تمام تر شکستوں کے باوجود بحیثیتِ مجموعی انسانیت کی یہ عظیم ترین فتح تھی۔ سو سالوں میں ہزاروں سال سے زیادہ ترقی ہوئی اور معیارِ زندگی کو بے پناہ جستیں لگیں۔ عملاً آبادی کی ایک چھوٹی سی تعداد ہی آزاد ہوئی تھی۔ اگر ایک اقلیتی طبقے کی آزادی سے کبھی نہ دیکھی یا سوچی گئی حاصلات ممکن ہو گئی تھیں تو تمام انسانوں یا اکثریت کی آزادی سے کیا کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس سوال کا جواب آج تک تاریخ کے ایجنڈے پر سرِ فہرست ہے۔
سرمایہ داری کے انتہائی مرحلے یعنی سامراجیت نے دنیا کو از سرِ نو اجارہ داریوں اور منڈیوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ سامراجی ممالک اور کمپنیاں معدنی وسائل اور منڈیوں کی تلاش میں برسرِ پیکار تھیں۔ پہلے پہل یورپ اور پھر امریکہ تمام تر سرمایہ دارانہ حاصلات کا محور اور مرکز بنتے چلے گئے۔ جہاں ایک طرف ان ممالک میں محنت کے استحصال کو کم کرنے کی بجائے مزید تیز کر دیا گیا وہیں باقی دنیا کے وسائل کی لوٹ مار نے بھی سرمائے اور طاقت کے بے پناہ ارتکاز کو یقینی بنایا۔ ان کے علاوہ چند ممالک بے پناہ وسائل کی بدولت لیکن یورپی استعمار کے زیرِ اثر تعطل پذیر ترقی کی راہ پر گامزن ہو گئے مگر دنیا کا ایک بہت بڑا حصہ محض سامراجی استحصال کے لیے خام مواد بن کر رہ گیا۔ اس مرحلے پر دنیا مکمل طور پر سامراجی اور نو آبادیاتی ممالک میں تقسیم ہو چکی تھی اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد اسی تقسیم کے لیے پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی اصطلاحات معرضِ وجود میں آئیں۔ تحریکوں، جنگوں اور انقلابات نے اس سارے عمل میں رخنہ اندازی تو کی لیکن تاریخ کا عمومی ارتقا اسی سمت میں گامزن رہا۔
محض ایسا نہیں تھا کہ نام نہاد پہلی دنیا تیسری دنیا کا استحصال کرنے کے لیے مکمل طور پر آزاد تھی اور تیسری دنیا مکمل طور پر غلام، بلکہ پہلی دنیا کے محنت کش عوام بھی سرمائے کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اس غلامی کو خوبصورت ریشمی لباس پہنا دیا گیا تھا جس کا نام جمہوریت تھا۔ عالمی جنگوں میں سرمائے کی آمریت کی ہوسناکی کے خلاف پہلی دنیا کی عوام میں بھی شدید غم و غصہ پایا جاتا تھا جو انقلابات اور تحریکوں کا روپ تو دھارتا رہا مگر اپنی منشا کی تکمیل نہ کر سکا۔ دوسری طرف تیسری دنیا کا حکمران طبقہ سامراجی آقاؤں سے آزادی حاصل کرنے کی بجائے ان کی اطاعت کو ہی اپنا ایمان قرار دے چکا تھا جبکہ عوام کی اکثریت میں غلامی کا یہ طوق اتار پھینکنے کا ولولہ اور جنون دن بدن شدت اختیار کرتا گیا اور سوویت یونین کی تشکیل کے بعد آزادی کی تحریکوں نے جنگل کی آگ کی طرح تمام براعظموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیکن اب کی بار آزادی کی ان تحریکوں اور انقلابات کا طبقاتی توازن سرمایہ داری کے ابتدائی مرحلے میں برپا ہونے والی تحریکوں اور انقلابات سے یکسر مختلف تھا۔ عوام کے لیے تو آزادی کی اصطلاح اور اس کا مفہوم آج بھی وہی تھا، بنیادی ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے غیر انسانی مشقت سے نجات۔ لیکن سرمایہ دارطبقے کے لیے آزادی کا مقصد اور مدعا یکسر مختلف ہو چکا تھا۔ اٹھارویں صدی کے یورپی نو آموز سرمایہ دار طبقے کو جدید مشینی پیداوار کے لیے بڑے پیمانے پر افرادی قوت (پرولتاری) اور منڈی کے حصول کے لیے سیاسی اقتدار کی ضرورت تھی اور جاگیردارانہ سماج کی پسماندگی، پست ذہنیت، سست رفتار طرزِ زندگی اور بے ہنر افرادی قوت اس کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹیں تھیں۔ ان رکاوٹوں کو پامال کرنے کے لیے اس نے ترقی پسندانہ کردار ادا کرتے ہوئے آزادی کی تحریکوں کی قیادت کی تھی۔ اس کے برعکس سامراجیت کے عہد میں سامراجی قوتوں نے دنیا بھر کی منڈیوں پر پہلے ہی قبضہ کر لیا تھا۔ ان سامراجی کمپنیوں کی دیو ہیکل پیداواری قوت کے سامنے پوری دنیا کی منڈی بھی چھوٹی پڑ رہی تھی۔ اب تیسری دنیا خود ایک عالمی سرمایہ دارانہ منڈی کا حصہ تھی۔ سیاسی اقتدار جزوی یا کلی طور پر پہلے ہی سرمایہ داروں کے پاس تھا لیکن وہ سرمائے (قرضوں)، جدید مشینوں اور ٹیکنالوجی کے لیے مکمل طور پر سامراجی اجارہ داریوں کے مرہونِ منت تھے۔ اب ان کا تاریخی کردار بالکل بدل چکا تھا۔ اب انہیں منڈی نہیں بلکہ پہلے سے موجود منڈی میں سامراجیوں کی زیرِ سرپرستی اپنا حصہ یا کمیشن چاہیئے تھا۔ جاگیردارانہ پسماندگی اس مقصد کے لیے ان کے رستے کی رکاوٹ نہیں تھی بلکہ معاون تھی۔ یوں انہوں نے ماضی کی فرسودگی کے خلاف ترقی پسندانہ کردار ادا کرنے کی بجائے اسے گلے لگا لیا۔ اب ان میں آزادی کی تحریکوں کی قیادت کی نہ تو خواہش تھی اور نہ ہی اہلیت۔ بلکہ وہ خود آزادی کی تحریکوں کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے تھے۔ اس لیے یہ انقلابات سرمایہ دارانہ یا قومی جمہوری نہیں تھے بلکہ نو آبادیاتی تھے جنہیں محنت کشوں کو اپنے دم پر لڑنا اور جیتنا تھا۔
محنت کش عوام بہت دلیری کے ساتھ اس تاریخی معرکے میں کود پڑے اور جرأت و جانفشانی کی نئی داستانیں رقم کیں لیکن وہ فیصلہ کن فتح حاصل نہ کر سکے۔ ان تحریکوں کی موضوعی کمزوری یعنی قومی اور جمہوری تصورات کے وسوسوں نے تحریکوں کو ابہام کا شکار کر دیا تھا۔ آزادی کے ٹھوس، واضح اور نئے تصور کی ضرورت تھی جو محنت کشوں کے طبقاتی تشخص کو پروان چڑھاتے ہوئے ان کے سیاسی اقتدار کی راہ ہموار کر سکتا۔ اس کے لیے ایک سائنسی نظریے اور لائحہ عمل کی ضرورت تھی۔ مارکسزم کے طبقاتی متبادل کو سٹالنزم نے قومی اور جمہوری تہمتوں سے داغدار کر دیا تھا۔ ان مخصوص تاریخی حالات میں آزادی کی تحریکیں گمراہی کی دلدل میں غرق ہونا شروع ہو گئیں۔ سامراجیوں نے عالمی تعلقات میں توازن کو اپنے حق میں کرنے کے لیے تیسری دنیا کے سرمایہ دار طبقے کی گماشتگی کے ذریعے نام نہاد قومی آزادی کی تحریکوں کو سفارتکارانہ جعلسازیوں کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ سرمایہ داری کے ابتدائی مرحلے میں آزادی کا جو نعرہ اور اصطلاح عوامی بغاوت اور یکجہتی کا نقطہ عروج بن گیاتھا اب سامراجی قوتوں کے لیے ایک سفارتی ہتھیار میں تبدیل ہو کر بہت بڑے انسانی المیے کی شکل اختیار کر گیا۔ برِ صغیر کی قومی آزادی کی تحریک کی اندوہناک داستان اور خونی بٹوارہ اس کی بہترین تاریخی تجربہ گاہ ثابت ہوا۔
گزشتہ صدی نے دو عالمی جنگوں سمیت بے شمار انسانی المیوں کو جنم دیا۔ برِ صغیر کی تقسیم، 27 لاکھ انسانوں کا قتلِ عام اور تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت بھی انہی المیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے حکمران طبقات اور نام نہاد قومی آزادی کے قائدین انگریز سامراج سے اپنی وفاداری کے عوض زندہ ثقافت کو چیر کر حکمرانی کرنے کے لیے زمینی قطعات لینے میں کامیاب ہو گئے۔ اگرچہ مسلمان سرمایہ داروں کو پاکستان کی شکل میں ایک آزاد منڈی تو ہاتھ لگی مگر وہ اپنی تاریخی نا اہلی کی وجہ سے جدید قومی ریاست اور صنعتی انفراسٹرکچر کی تشکیل نہ کر سکے۔ دوسری طرف عوام کی اکثریت اس کربناک المیے سے گزرنے کے بعد ایک طویل عرصے تک سیاسی سکتے اور یاسیت کا شکار ہو گئی۔ اس صورتحال میں پیدا ہونے والے شدید سیاسی خلا کو ایک طرف تو ملاؤں کی جنونیت نے اور دوسری طرف ریاستی اداروں کے مبالغہ آرائی تک بڑھے ہوئے کردار نے کافی حد تک پر کر دیا۔ کمزور اور نا اہل سرمایہ دار طبقے کو اپنے طبقاتی تشخص کو تقویت دینے کے لیے معیشت اور سیاست میں ریاستی مداخلت کی ضرورت تھی۔ اسی لیے جنرل ایوب کی آمریت کے دور میں پاکستان انڈسٹریل ڈیویلپمنٹ کارپوریشن (PIDC) کے تحت ملکی تاریخ کی واحد بڑی صنعتکاری کی گئی اورایک صنعتی انفراسٹرکچر کی بنیادیں رکھ کر اسے سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا گیا۔ لیکن سرمایہ داروں کی نامیاتی کمزوری نے انہیں ٹیکس چوری اور بدعنوانی کی دلدل میں غرق کر دیا اور فوجی اشرافیہ کو اپنی معاشی مداخلت کو مستقل کرنے کا موقع مل گیا۔ عوام نے ایک بھر پور انقلابی تحریک کے ذریعے اس عمل کو روکنے کی کوشش کی مگر اس انقلاب کی ناکامی نے اس عمل کو اور بھی مہمیز دے دی۔ یوں فوجی اشرافیہ اور ملاؤں کا یہ گٹھ جوڑپاکستان میں طاقت کا حقیقی منبع بنتا چلا گیا اور جاگیردار، جج، سول بیوروکریٹ اور نو دولتیے سرمایہ دار اس میں شامل ہوتے چلے گئے۔ یوں آج 68 سال گزر جانے کے بعد اگر اس ملک میں کسی کو واقعتا آزادی حاصل ہے تو وہ یہی مکروہ اور غلیظ گروہ ہے اور وہ ہر سال سامراجی اطاعت میں لتھڑی ہوئی اس ’غلام آزادی‘ کا جشن بہت دھوم دھام سے مناتے ہیں۔
دوسری طرف آبادی کی اکثریت کے لیے پاکستان ایک وسیع الجثہ قید خانے کا نام ہے جس کی باگ ڈوراس شیطانی حکمران ٹولے کے ہاتھوں میں ہے۔ لیکن اس قید خانے میں مذہبی، قومی، نسلی، لسانی، فرقہ وارانہ اور ہر طرح کی زنجیروں میں جکڑے عوامی شعور اور احساس کی رگ و پے میں حقیقی آزادی کی جستجو ابھی تک مری نہیں ہے۔ بٹوارے کے زخم ابھی تک رس رہے ہیں۔ تقسیم کے المیے کی چھاپ اس خطے کے ادب، فلم، تھیٹر، ڈرامے اور شاعری پر آج بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ عوام اس سانحے کو تاریخی اوراق سے کھرچ کر ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ جب اس مقصد کے لیے سیاسی راستے بند ہو جاتے ہیں تو اس کا اظہار ثقافتی میدانوں میں نظر آتا ہے۔ عوام کی سلگتی ہوئی خواہشیں ترقی پسند ادب کی شکل میں وقفے وقفے سے اپنا اظہار کرتی رہی ہیں۔ لیکن سوویت یونین کے انہدام اور دیوارِ برلن کے گر نے کے بعد امید کا ٹمٹماتا آخری دیا بھی بجھ گیا اور گہری تاریکی اور خاموشی نے پورے سیارے کو وقتی طور پر اپنی آغوش میں لے لیا۔ اس خطے میں بھی مزدور تحریک کی پسپائی ثقافتی زوال پذیری، موسیقی اور شعر وادب، فلم اور ڈرامے کی گراوٹ کی شکل میں اپنا اظہار کرتی رہی۔ لیکن اب ظلمت کے بادل پھر چھٹنا شروع ہو گئے ہیں۔ یہ پسپائی اور گراوٹ کا عہد اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے۔ اسے اب اپنی نفی میں بدلنا ہے۔ یہی تاریخی عمل کا سبق اور قانون ہے۔
آج ہم سرمایہ داری کے انتہائی مرحلے یعنی سامراجیت کی بھی انتہاؤں میں رہ رہے ہیں۔ 2008ء کے عالمی معاشی بحران کے بعد سرمایہ داری حالتِ نزع میں ہے۔ پہلی، دوسری اور تیسری دنیا کی نام نہاد تقسیم ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ میں ایک نئی طرز کی نو آبادیات کو متعارف کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یونان میں محنت کشوں کو تیسری دنیا کے معیارِ زندگی کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ یونان کی حکومت کے ساتھ ٹرائیکا کے حالیہ معاہدے کے ذریعے عملاً یونان کو ٹرائیکا کی کالونی کی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس معاہدے نے صرف یونان میں ہی نہیں بلکہ پوری نام نہاد پہلی دنیا کے محنت کشوں میں جمہوریت کے لبادے میں ملبوس سرمائے کی آمریت اور محنت کشوں کی غلامی کے تصور کو تقویت دی ہے۔ ترقی یافتہ شعور کے حامل محنت کش اس غلامی کے طوق کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ صرف یونان ہی نہیں پورے یورپ میں مزاحمت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ امریکہ میں سوشلزم کانام ایک دفعہ پھر سنا جانے لگا ہے۔ برطانیہ میں لیبر پارٹی کی ٹوٹ پھوٹ، مشرقِ وسطیٰ میں نئے سامراجی اتحاد، یہ تمام عوامل مل کر ایک بالکل نئے عہد کی تشکیل کر رہے ہیں۔ اس عہد میں مارکسی قوتوں کی تعمیر کے حالات پک کر تیار ہو رہے ہیں۔
ان حالات میں رواں ماہ پاکستان میں 68 واں جشنِ آزادی منانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ایسے میں جب یہ حقیقت آشکار ہو گئی ہے کہ ترقی یافتہ دنیا میں بھی آبادی کی اکثریت ابھی تک غلام ہے۔ تو پاکستان جیسے پسماندہ اور غریب معاشرے میں کیسی آزادی اور کاہے کا جشن۔ جہاں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ، ٹارگٹ کلنگ، خود کش اور ڈرون حملوں، قدرتی آفات اور موسمی تغیرو تبدل، بھوک اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کی قلت کے ہاتھوں آئے روز انسانی جانوں کا ضیاع معمول کی بات بن چکی ہو وہاں آزادی کی بات کرنا ایک بیہودہ مذاق سے کم نہیں۔ ابھی گزشتہ ماہ ہی ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہزاروں افرادکی گرمی کے ہاتھوں اموات نے ترقی اور خوشحالی کے تمام تر دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ اس کے علاوہ اغوا برائے تاوان، کم عمر بچوں کے ذریعے ڈرگ ٹریفکنگ، کرائے پر قتل، اسمگلنگ، منشیات اور دیگرجرائم پر مبنی 80 فیصد سے زائد کالی معیشت آزادی کا جشن منانے والے حکمران طبقات کے منہ پر طمانچہ ہے۔ اکنامک کوریڈور، میٹرو بسوں، موٹر ویز، رہائشی کالونیوں اور بندرگاہوں کی تعمیرات کے منصوبوں کی بھرمار ہے جبکہ سکول، کالج، ہسپتال اور سڑکوں، ٹرانسپورٹ، پل اور دریاؤں کے بند نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ سب سے زیادہ تعمیر ہونے والی عمارات میں مسجد اور بینک شامل ہیں جو اس ناہموار ترقی کی یلغار کی عکاسی ہے جس نے عوامی بیگانگی، معاشرتی بے حسی اورنفسیاتی ضعف کو سماجی زندگی کا بنیادی خاصہ بنا چھوڑا ہے۔ اور اس المیے سے بھی بڑا مضحکہ یہ ہے کہ حکمران، جرنیل اور سیاستدان بارشوں اور سیلاب سے برباد، اپنے پیاروں کی اچانک موت کے صدمے سے نڈھال لاکھوں بے گھروں کو آزادی کی مبارکبادیں دیتے ہوئے بالکل نہیں شرمائیں گے جیسے رمضان میں سانحہ کراچی میں ہزاروں اموات کے بعد بھی اہلیانِ وطن کو عید کی خوشیاں منانے کی ترغیب اور مبارکباد دیتے ہوئے ان کے چہروں کی زہر آلود مسکراہٹوں کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔
pakistan independence day cartoon (2)مملکتِ خداداد پاکستان ویسے بھی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے انتشار کا شکار ہیں۔ ملکی سالمیت خالصتاً خود فریبی ہے۔ قومی محرومی کا احساس کشمیر سے بلوچستان تک بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں عملاً کوئی بھی پاکستانی نہیں ہے۔ بلوچ، سندھی، پٹھان، کشمیری، مہاجر کے علاوہ ذیلی ذات برادریوں میں منقسم معاشرے میں قومی وحدت کا مفروضہ قابلِ ستائش نہیں بلکہ لائقِ تضحیک ہے۔ پاکستانی ہونے پر فخر کرنے والی مڈل کلاس دن بدن سکڑتی چلی جا رہی ہے۔ مڈل کلاس کی نچلی پرت کو غربت کی لکیر کی طلسمی طاقت اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور اوپری پرت بھی شدید ہیجان میں مبتلا ہے۔ عمران خان اور طاہرا لقادری سے مایوس ہو کر وہ اب راحیل شریف میں اپنا مسیحا تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ معاشی بحران کی چکی کے پاٹوں میں پسنے والی مڈل کلاس کی بے چینی اور عدم تحفظ کے احساس کو ریاستی پالیسی سازفوجی آپریشنوں، سرحدی تنازعات، کرپشن کے خلاف مہموں اور نظام کی شفافیت کی کیمپئینوں کے ذریعے ورغلا کر دوبارہ حب الوطنی کے غبارے میں ہوا بھرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور وہ فی الوقت اس کوشش میں اس لیے کامیاب بھی نظر آ رہے ہیں کیونکہ ابھی تک کوئی عوامی یا مزدور تحریک سیاسی منظر نامے پر دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ اور نہ صرف حکمران طبقات بلکہ مڈل کلاس کے دانشوروں اور سیاستدانوں نے بھی اس عارضی سماجی کیفیت کو مستقل اور ابدی سمجھ لیا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ آبادی کی اکثریت نے آج تک اس خونی بٹوارے اور مصنوعی سرحدوں کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ نفرتوں اور سفارتی چپقلشوں کی سطح کے نیچے اس تاریخی جرم کی تلافی اور انسانی بنیادوں پر وسیع تر میل جول کی شدید خواہش ایک چنگاری کی طرح سلگ رہی ہے۔ قومی ترانوں اور ملی نغموں کی بھرمار، حب الوطنی کے متعفن اور متعصب جنون، پرچم کشائیوں اور پریڈوں کی تقریبات ان سلگتے ہوئے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی بجائے اور بھی مشتعل کرتے چلے جا رہے ہیں۔ حکمران طبقات، فوجی اشرافیہ، خفیہ ایجنسیوں، سامراجی دلالوں کے حقیقی چہرے خود انکی اپنی باہمی رنجشوں اور لوٹ مار کے تنازعات کی شکل میں بے نقاب ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک ملک گیر مزدور تحریک اسی سیاسی جمود کی کوکھ میں پل رہی ہے۔ قوم پرستوں کی کٹھ پتلی قیادتوں کو مزید بے نقاب کرتے ہوئے قومی جدوجہدوں کے ان دریاؤں کے رخ کو طبقاتی جنگ کے سمندر کی طرف موڑنے کی ضرورت ہے۔ آزادی کے تصور اور اصطلاح کو آج پھر ایک نئے معنی اور مفہوم کی تلاش ہے جس کی بنیاد محنت کشوں کی بین الاقوامیت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہو سکتی۔ حکمرانوں اور ان کی بہکائی ہوئی مڈل کلاس کو ان متعفن جمہوریتوں اور آزادیوں کے جشن منانے دواور حقیقی آزادی کی جدوجہد کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑو۔

متعلقہ:

رینگنے کی آزادی!

اداریہ جدوجہد:آزادی کا اندھیر۔۔۔۔؟

فروری1946ء: جب آزادی کا خون ہوا!

وہ منزل ابھی نہیں آئی۔ ۔ ۔

۔14اگست: آزادی کا ماتم