یونان: لمحوں کی خطا!

| تحریر: لال خان |

جمعرات 20 اگست کو یونان کے وزیر اعظم الیکسز سپراس کے ’’اچانک‘‘ استعفے نے عالمی منظر نامے میں تہلکا مچا دیا ہے۔ یورپی یونین کا بحران ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گیا۔ 25 جنوری 2015ء کو یونان میں برسر اقتدار آنے والی ’سائریزا‘ پارٹی کی حکومت نے ملک کے قرض دہندگان (آئی ایم ایف، یورپی مرکزی بینک، یورپی کمیشن) کی دھونس اور آسٹیریٹی (عوامی سہولیات، اجرتوں اور پنشن وغیرہ میں کٹوتیاں) کے خلاف بغاوت کا پروگرام دے کر الیکشن جیتا تھا۔ سائریزا دراصل بائیں بازو کے چھوٹے بڑے سیاسی گروہوں کے الحاق کے نتیجے میں کچھ عرصہ پہلے ہی قائم ہوئی تھی۔ یونانی سرمایہ داروں اور سامراجی قوتوں کے تمام تر پرپیگنڈے کے باوجود آسٹیریٹی مخالف پروگرام دینے پر یونان کے عوام نے اس نئی سیاسی قوت کومنتخب کیا۔
alexis tsipras syriza splits cartoon 2008ء میں عالمی مالیاتی کریش کے بعد دنیا بھر کی طرح یونان کے بے قابو ریاستی قرضوں کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈال دیا گیا۔ چند سالوں میں ملک کا جی ڈی پی 25 فیصد سکڑ گیا، اجرتوں میں گراوٹ اس سے کہیں زیادہ تھی، نوجوانوں میں بیروزگاری کی شرح 50 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ان معاشی حملوں کے خلاف یونان کے محنت کش طبقے نے 30 سے زائد عام ہڑتالیں اور سینکڑوں بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ اس تحریک کا سیاست اور انتخابات میں اظہار ناگزیر تھا جس کے نتیجے میں سائریزا کا ابھار ہوا۔ اس سے پیشتر کے پانچ سالوں میں یہ حقیقت بالکل واضح ہو چکی تھی کہ تمام تر آسٹیریٹی کے باوجود بھی یونان کا ریاستی قرضہ کم نہیں ہو سکتا۔2009ء سے 2014ء تک مجموعی ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 125 فیصد سے بڑھ کر 180 فیصد سے بھی تجاوز کر گیا۔ یہ بھی کھلا راز تھا کہ قرض دہندگان کی طرف سے دئیے جانے والے بیل آؤٹ پیکجوں کا 90 فیصد جرمنی اور فرانس وغیرہ کے بینکوں اور صرف 10 فیصد یونانی ریاست کو نصیب ہو رہا تھا۔ بالکل واضح تھا کہ یونان اپنا قرضہ کبھی ادا نہیں کر پائے گا اور سرمایہ دارانہ بنیادوں پر مسئلے کا کوئی حل نہیں ہے۔
اس کیفیت میں جب آسٹیریٹی مخالف نعرے لگا کر سائریزا برسر اقتدار آئی تو سب سے بڑا المیہ تھا کہ سائریزا کوئی بالشویک پارٹی نہیں تھی اور وزیر اعظم سپراس کوئی مارکسسٹ نہیں تھا۔ سائریزا کی قیادت بائیں بازو کے اصلاح پسندوں پر مشتمل تھی۔ اصلاح پسندوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ گلے سڑے نظام کو اصلاحات کے ذریعے ’ٹھیک‘ کرنے کی یوٹوپیائی سوچ رکھتے ہیں۔ اس پس منظر میں قرض دہندگان کے ساتھ مہینوں مذاکرات چلتے رہے۔ ایک طرف یورپی یونین کے انداتا جرمن حکمران سائریزا حکومت کو مزید آسٹیریٹی کا حکم دے رہے تھے تو دوسری طرف نیچے سے عوام کا دباؤ تھا۔ لیکن سپراس ’’درمیانی راستہ‘‘ تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا جس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔تناؤ بڑھتا چلا گیا اور یونان اعلانیہ دیوالیے کے دہانے پر پہنچ گیا۔ ملک میں کرنسی کی شدید قلت ہو گئی اور بینک بند کر کے اے ٹی ایم مشینوں پر 60 یورو روزانہ کی لِیمٹ لگانی پڑی۔
اس نازک صورتحال میں سپراس نے اچانک 5جولائی کو ریفرنڈم کروانے کا اعلان کیا جس میں عوام کو قرض دہندگان کے احکامات ماننے یا نہ ماننے (’’ہاں‘‘ یا ’’ناں‘‘) پر ووٹ ڈالنا تھا۔ قرض دہندگان، مقامی سرمایہ داروں اور یورپی و عالمی سامراجیوں نے کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے زہریلے پروپیگنڈے اور دھمکیوں کی بوچھاڑکر دی اور عوام کو ’’ناں‘‘ (یونانی زبان میں OXI) کا ووٹ دینے کی صورت میں بربادی کی نوید سنائی گئی۔ اس دھونس کو کمال جرات سے مسترد کرتے ہوئے 63 فیصد عوام نے OXI پر مہر لگاکر تاریخ رقم کر دی۔
یہ ایسا نادر موقع تھا کہ عوام کی بھرپور حمایت کو استعمال کرتے ہوئے سپراس صرف انقلابی اقدامات کا اشارہ بھی کرتا تو پورے یونان میں سے سرمایہ داری کا خاتمہ ہو سکتا تھا۔ بینکوں، سامراجی اثاثوں اور معیشت کے دوسرے کلیدی شعبوں کی نیشنلائزیشن کرکے یورپی آقاؤں کی غلامی اور ناقابل واپسی قرض سے نجات حاصل کی جاتی تھی اور سالہا سال کی بیروزگاری، غربت اور ذلت سے نکلنے کی راہ ہموار ہو سکتی تھی۔ محنت کشوں اور نوجوانوں سے صرف ایک اپیل کرنے کی ضرورت تھی، مالیاتی اور صنعتی اداروں پر اشتراکی قبضے انہوں نے خود کر لینے تھے۔ لیکن غداری بائیں بازو کے اصلاح پسندوں کے خمیر میں رچی بسی ہوئی ہے۔
وقت قیام آنے پر سائریزا کی قیادت قرض دہندگان کے سامنے سربسجود ہو گئی۔ سپراس نے عذر پیش کیا کہ ریفرنڈم کا مقصد محض مذاکرات میں پوزیشن مستحکم کرنا تھا۔ان مذاکرات کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرض دہندگان نے ریفرنڈم سے پہلے کی نسبت کہیں زیادہ تلخ شرائط مسلط کر دیں۔ طے پانے والے ’’سمجھوتے‘‘ میں تنخواہوں، پنشن، علاج اور تعلیم وغیرہ کے بجٹ میں خوفناک کٹوتیاں، وسیع پیمانے کی نجکاری، بالواسطہ ٹیکسوں میں مزید اضافہ اور عوام کو حاصل بچی کھچی سہولیات کا تقریباً خاتمہ شامل تھا۔ سائریزا کے بائیں بازو (لیفٹ پلیٹ فارم) نے اس ذلت آمیز سمجھوتے کے خلاف بغاوت کر دی اور سپراس نے دائیں بازو کی کھلی عوام دشمن پارٹیوں کی حمایت سے پارلیمنٹ سے منظوری حاصل کی۔ان شرائط پر ملنے والے بیل آؤٹ پیکج کے بعد یونان کا ریاستی قرضہ جی ڈی پی کے 200 فیصد کی طرف بڑھ رہا ہے۔ تمام بڑے سرکاری ایئرپورٹ جرمن کمپنیوں نے پہلے ہی ہتھیا لئے ہیں اور نجکاری کا عمل آگے بڑھتا ہے تو یونان جرمنی کی کالونی میں تبدیل ہو جائے گا۔ خشونت سنگھ کا یہ شعر اس کیفیت کی خوب عکاسی کرتا ہے:

وہ وقت بھی دیکھے ہیں تاریخ کی گھڑیوں نے
لمحوں نے خطا کی تھی، صدیوں نے سزا پائی

Greek former Energy Minister Panagiotis Lafazanis will lead the new 'Popular Unity' party.
پاپولر یونیٹی کے سربراہ لافازانس۔ لافازانس سائریزا حکومت میں توانائی کے وزیر اور پارٹی کے بائیں بازو ’’لیفٹ پلیٹ فارم‘‘ کے رہنما تھے

لیکن انقلابی عمل میں آگے بڑھتے ہوئے یونان کے محنت کش اور نوجوان یقیناً صدیوں انتظار نہیں کریں گے، ان کے لئے تو ہر روز کٹھن ہوتا جا رہا ہے۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ سائریزا دو لخت ہو چکی ہے اور لیفٹ پلیٹ فارم کے لیڈر’ لافازانس‘ نے نئی پارٹی ’پاپولر یونیٹی‘ کا اعلان کر دیا ہے جس میں 25ممبران پارلیمنٹ بھی شامل ہو چکے ہیں۔ یہی وہ بغاوت تھی جس کی وجہ سے سپراس کو مستعفی ہونا پڑاہے۔ اس نے نئے انتخابات عجلت میں کروانے کے لئے 20 ستمبر کی تاریخ رکھی ہے تاکہ پاپولر یونیٹی بڑی الیکشن کمپئین کر کے اپنے پیروں پر کھڑی نہ ہو سکے۔پاپولر یونیٹی کے منشور میں یونان کی یورو سے علیحدگی سر فہرست ہے۔
سپراس چند ماہ پیشتر تک یورپ کا مقبول ترین لیڈر تھا اور آج عوام کی اس سے نفرت عبرتناک شکل اختیار کر چکی ہے۔ تقسیم کے بعد باقی بچ جانے والی سائریزا سامراجیوں کی گماشتہ پارٹی بن چکی ہے جو مندرجہ بالا زہریلے سمجھوتے کو لاگو کرنے کا پرچار کر رہی ہے۔اگر یہ سمجھوتہ لاگو ہوتا ہے تو یونان کے عوام دوسری عالمی جنگ جیسی معاشی اور سماجی بربادی کا شکار ہو جائیں گے۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ یونان میں کوئی استحکام اس نظام کے تحت نہیں آسکتا۔ خلفشار کی شدت وقتی اتار چڑھاؤ کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی۔ اگر حالات بے قابو ہوتے ہیں تو سامراجی قوتیں عوامی بغاوت کو کچلنے کے لئے فوجی آمریت بھی مسلط کر سکتی ہیں یہ بڑی قلیل مدتی اورکھوکھلی آمریت ہو گی۔ ایسا کوئی قدم انقلاب کی چنگاریوں کو شعلے میں بھی تبدیل کر سکتا ہے۔ اس سے قبل یونان کے عوام نے 1974ء میں بھی فوجی آمریت کو مسمار کیا تھا۔
آنے والے دنوں میں پرانی کمیونسٹ پارٹی (KKE) کی حمایت میں بھی اضافہ ہو گا اور پاپولر یونیٹی کی مقبولیت بھی بڑھے گی۔ سیاسی افق کے دوسری طرف انتہائی دائیں بازو کی نیم فاشسٹ ’’گولڈن ڈان‘‘ پارٹی بھی سماج کی پسماندہ پرتوں میں کچھ بنیادیں حاصل کرے گی۔سپراس کی سائریزا اور درمیانے راستے والی دوسری سرمایہ دارانہ پارٹیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوں گی۔
’’سائریزا کے کمیونسٹ رجحان‘‘ کے تناظر کو حالات اور واقعات نے بالکل درست ثابت کیا ہے۔ گو اس مارکسسٹ تنظیم کی حمایت ابھی محدود ہے لیکن اس کے پاس انقلابی سوشلزم کا ٹھوس اور جامع پروگرام ہے۔ سائریزا کی تقسیم کے بعد اس رجحان نے نئی پاپولر یونیٹی پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا ہے۔ یونان میں انقلابی تحریکوں کے وسیع امکانات مستقبل میں موجود ہیں۔ صورتحال مارکسسٹ قوتوں کی بڑھوتری کے لئے انتہائی سازگار ہے۔
economic crsisi of european union یونان کا بحران درحقیقت یورپی یونین کے مجموعی بحران کی صرف ایک جھلک ہے۔ سپین، اٹلی اور پرتگال سمیت کئی یورپی ممالک کی معاشی صورتحال کم و بیش یونان جیسی ہی ہے، ریاستی قرضے ناقابل واپسی حد تک پہنچے ہوئے ہیں اور معمولی سا اقتصادی جھٹکا یونان سے بد تر صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ سپین میں چند سال قبل قائم ہونے والی آسٹیریٹی مخالف پارٹی ’’پوڈیموس‘‘ سب سے مقبول سیاسی قوت بن چکی ہے۔ برطانیہ میں جرمی کوربائن آسٹیریٹی مخالف اور نیشنلائزیشن کا منشور دے کر لیبر پارٹی کا داخلی الیکشن جیتنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔یونان میں سائریزا کو رسوا کروا کے سامراجیوں نے درحقیقت پورے یورپ میں ایسے رجحانات کو تنبیہہ کی ہے۔لیکن سرمایہ داری یورپ کے عوام کا معیار زندگی گرائے بغیر اب قائم نہیں رہ سکتی۔ اس کے معنی ہیں کہ یورپ میں طبقاتی جنگ کا بگل بج چکا ہے۔کئی دہائیوں بعد یورپ کے محنت کش اور نوجوان انقلاب کے راستے پر چلیں گے تو مارکسزم کے نظریات کی گونج پوری دنیا میں سنائی دے گی!