برما میں عام انتخابات، تبدیلی یا ڈھونگ؟

| تحریر: عمر شاہد |

برما میں حالیہ ہونے والے انتخابات میں نوبل انعام یافتہ آنگ سانگ سوچی کی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی فتح کو تاریخی اور جمہوریت کی فتح قرار دیا جا رہا ہے۔ اس فتح کا جشن برما کی عوام سے زیادہ یورپی یونین اور امریکی سامراج کے ایوانوں میں منایا جا رہا ہے جہاں پر جمہوریت کی فتح کے پردے میں لالچی، خودغرض اور خونخوار استحصالی ملٹی نیشنل کمپنیا ں برما کے قدرتی ذخائر، آبی گزر گاہوں سمیت دیگر وسائل پر قبضہ کرنے کے مقاصد کو ترویج دینے کے منصوبے بنا رہی ہیں۔

sochi rohingya muslims nobel prizeنومبر 2012ء میں اپنی نظر بندی کے خاتمہ کے بعد سے سوچی نے یورپ اور امریکہ کے طویل دورے کیے جہاں اس نے عالمی سامراجی مالیاتی اداروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی فرمانبردار کنیز کے طور پرفرائض سرانجام دینے کے حلف اٹھائے۔ انتخابی نتائج کے مطابق سوچی کی NLD نے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کل 664 سیٹوں میں سے 348 سیٹیں جیتیں۔ اس کامیابی کے بعد آنگ سونگ سوچی نے امریکی سامراج کی ’مفاہمت ‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے فوجی حکومت کے سربراہ تھین سین کے ساتھ مل کر حکومت چلانے کا اعلان کیا۔ NLD قیادت کی طرف سے انتخابات کی فتح کے جشن کی عوامی ریلیوں میں فوج کے خلاف تنقید کرنے پر منع کرتے ہوئے کوئی بڑا جشن نہ کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ انتخابی عمل کے دوران عوام کی جانب سے فوجی آمریت کے خلاف سخت غم و غصہ کا اظہار کیا گیا عوامی سلگتے مسائل مثلاً بیروزگاری، غربت اہم نعرے تھے NLD پارٹی کی کمپیئن کے دوران ان مسائل کو واضح کرنے کی بجائے جمہوریت، استحکام اور مفاہمت پر کمپیئن چلائی گئی۔ بظاہر فوجی آمر یت کی حمایت یافتہ پارٹی یونین سولیڈیریٹی اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی USDP کو عبر ت ناک شکست ہوئی جو کہ دونوں ایوانوں میں محض 12 سیٹیں ہی لے سکی۔ آبادی کے وسیع حصہ جن میں مسلم روگھینا بھی شامل ہیں ان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت نہیں دی گئی بلکہ 7 اہم شورش علاقوں میں ووٹنگ ہوئی ہی نہیں۔ فوج کی طرف سے ان انتخابات میں براہ را ست اثر روسوخ استعمال کیا گیا۔ صدارتی ترجمان زا ھٹے نے انتخابی نتائج پر موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ، ’ہمارے تمام تجزیات غلط ثابت ہوئے، یہ ایک سونامی تھا۔ ۔ ۔ ہم سچے دل کے ساتھ نتائج قبول کرتے ہوئے اقتدار میں حصہ دیں گے۔ ‘ لیکن ان انتخابات کے بعد نئی بننے والی حکومت میں اصل طاقت فوج ہی ہو گی کیونکہ برما کے آئین کے مطابق دونوں ایوانوں میں 25 فیصد سیٹیں فوج کے لئیمختص ہیں جن پر بغیر انتخابات فوجی جرنیل براجمان ہیں۔ یہ انتخابات فوجی آمریت کی کمزوری اور خصلت کو ظاہر کرتے ہیں، یہاں کی فوجی آمریت دنیا کی طاقتور ترین آمریتوں میں ایک تھی جہاں بیرونی دنیا میں خبریں تک ان کی اجازت سے ہی جاتی تھیں۔ فوجی آمریت نے برما کے معاشرے کو تاراج کیا یہاں پر مذہبی بنیادوں پر تقسیم کے ساتھ سخت ترین جبرکے ذریعے ہر مخالفت کو آہنی ہاتھوں سے نبٹا مگر آج وہی فوج اقتدار میں حصہ دینے پر نہ صرف تیار ہے بلکہ سوچی کے گن گا ررہی ہے۔ لیکن اگر انتخابات کے بعد ’آئینی ‘ اور قانونی پیچیدگیوں کے مد نظر نئی بننے والی حکومت کے اختیارات پر نظردوڑائی جائے تو یہ حکومت انتہائی لاغر اور کمزور بیساکھیوں پر کھڑی نظر آتی ہے۔ کسی بھی ملٹری قانون کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ فوج کے پاس ویٹو کرنے کا حق بددستور رہے گا۔
برما کی موجودہ صورتحال کی ذمہ داری سٹالنزم کی مجرمانہ پالیسیوں پر عائد ہوتی ہے۔ 1946ء کی برصغیر پاک و ہند میں اٹھنے والی نیوی کیسپاہیوں کی بغاوت کے نتیجے میں اٹھنے والی تحریک کے گہرے اثرات برما پر بھی پڑے۔ 1948ء میں طبقاتی بنیادو ں پر تحریک کو قومی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے نتیجے میں برما کی مصنوعی ریاست معر ض وجود میں آئی۔ 1948ء سے 1962ء تک بورژوازی ایک قومی ریاست کی تشکیل دینے میں ناکام رہی اوریکے دیگرے حکومتیں بدلتی گئیں لیکن حالات بد سے بدترین ہوتے گئے۔ ان حالات پر ٹیڈ گرانٹ نے ’نوآبادیاتی انقلاب اور چین سویت تنازعہ‘ میں لکھا کہ، ’ سرحدوں پر ایک طاقتور چینی انقلاب کے ساتھ، برما میں ہونے والی پیش رفتوں نے ایک عجیب شکل اختیار کر لی ہے۔ جنگ کے اختتام کے بعد برما کا سماج انتشار کا شکار ہے۔ قومی اقلیتوں نے اپنی ریاستوں کے لئے خودارادیت اور قومی خودمختاری کی انتھک جدوجہد کی ہیتو دوسری طرف سٹالنسٹ پارٹیوں کے مختلف دھڑوں کی جانب سے خوفناک گوریلا جنگ کی گئی۔ ایک حکومت کے بعد دوسری حکومت آئی لیکن کوئی معاشرے پر اپنی مہرنہ لگا سکا۔ اپنے سے پہلے چینی بورژوازی کی طرح یہ بھی معاشرے کو یکجا، سماجی ہم آ ہنگ اورکسانوں کی بھوک کا خاتمہ یا سامراج کی اقتصادی طاقت کو توڑنے میں ناکام رہے ہیں۔ برما میں تمام دھڑوں کا سوشلسٹ ہونے کا دعویٰ پسماندہ ممالک میں نئی پیش رفت ہے، لیکن تما ممعاشی طاقتوں مثلاً صنعت، ساگون باغات، تیل اور نقل و حمل پر سامراج کا غلبہ قائم ہے‘۔ اس صورتحال کے باعث 1962ء میں Ne Win کی قیادت میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں اقتدار پر قبضہ کر لیا گیا۔ بغاوت کے نتیجے میں برما میں چین کی طرز پر سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے پرولتاری بونا پارٹسٹ ریاست قائم ہوئی۔ سرمایہ داری کو ختم کیا گیا لیکن یہاں خوفناک حد تک سوشلزم کی مسخ شدہ حالت کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ جہاں پر صرف معیشت کے اہم ذرائع پر قبضہ کی بجائے چھوٹے سے چھوٹے کاروبار کو بھی قومیا یا گیا۔ محنت کشوں کے ہاتھ طاقت دینے کی بجائے طاقت فوجی اشرافیہ کے ہاتھ میں تھی۔ افسر شاہی کے بدترین کنٹرول میں پیداواری قوتیں مزید تنزلی کی طرف گئیں، کچھ نام نہاد اقدامات کے باجود حالات بد سے بدتر ہوتے گئے مثلاً برما چاول برآمدکرنے والا اہم ملک تھا لیکن 70ء کی دہائی میں اپنی آبادی کے لئے بھی اسکو چاول درآمد کرنا پڑے۔ فی کس آمدنی تیزی سے گرتی گئی اور برما سٹالنزم کی وحشت کی بد ترین مثال بن گیا۔ افراط زر تیزی سے بڑھا اور برما مالیاتی بنیادو ں پر کمزور ہوتا گیا۔ 1987ء میں حکومت کی طرف سے بڑے بنک نوٹ کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا اورعوام نے اپنی بچتوں کی تباہی کے پیش نظر اس کے خلاف تحریک کا آغاز کیا۔ اس تحریک نے برسوں سے مجتمع شدہ غم و غصہ کو باہر لانے کا کام کیا، عوام نے سخت جدوجہد کی۔ تحریک کو زائل کرنے کے لئے Ne Win کو ریٹائر کر کے ریاست کے ’لبرل‘ دھڑے نے اقتدار پر قبضہ کیا۔ انہوں نے برما کا نام’ سوشلسٹ یونین آف برما ‘ سے تبدیل کر کے میانمار کیا اور چین کے راستے پر عمل کرتے ہوئی معیشت کو’ آزاد‘ کرنے کے اقدامات شروع کر دیے۔ ان اقدامات میں نجکاری کا عمل شروع ہوا ساتھ ہی بیرونی سرمایہ کاری کے لئے کوششیں تیز کیں۔ اس عمل کے لئے 1990ء میں پہلے عام انتخابات کا اعلان کیا گیا۔ ان انتخابات میں سانگ سوچی کی NLD نے 60 فیصد ووٹ حاصل کرکے شاندار فتح حاصل کی۔ فوجی جنتا نے ان نتائج کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے NLD کو اقتدار دینے کی بجائے اسکی رہنما سانگ سوچی کو نظر بند کر دیا۔ 2007ء میں’ سیفرون انقلاب ‘کی تحریک آغازہوا جس کی وجہ بدھ مت کے لباس کا مظاہروں میں ہراول ہونا تھا۔ لیکن اس تحریک کی اہم وجہ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافہ بھی شامل تھا۔ اسی طر ح 2010ء میں بھی عوامی تحریک کی اٹھان دیکھی گئی لیکن اس بار اہم محنت کش طبقے کی آمد تھی جس میں دارلحکومت میں محنت کشوں کی بڑی ہڑتالیں تھیں۔ اسی تناظر میں 2011ء میں سانگ سوچی اور فوجی جنتا کے درمیان مفاہمت ہوئی۔ عالمی سامراج کی کوششوں سے اس کامیاب مفاہمت کے بعد سانگ سوچی کی نظر بندی ختم ہوئی۔ اس کیپس پردہ امریکی سامراج اور چینی سامراج کے مفادات کا ر فرما ہیں۔ امریکی جمہوریت کا عملی نمونہ افغانستان اور عراق ہیں جہاں ان کی جمہوریت قتل عام کر ہی ہے۔ لینن کے مطابق انقلاب کی اہم نشانیوں میں ایک حکمرانوں کی پرانے حربوں کی حکمرانی کی ناکامی ہے۔ یہی سب برما میں ہوا جہاں پر پے در پے تحریکوں پر جبر کے باعث فوجی آمریت کمزور ہو چکی ہے۔ حکمران کے ایوانوں میں تضادات مزید بھڑکتے جا رہے ہیں، فوجی جنتا کے دھڑوں کی اندرونی چپقلشوں اور ظاہری کمزوری نے اپنی چالیں بدلنے پر مجبور کیا۔ یہی وجہ سے کہ 2008ء میں احتیاط سے نیا آئین تیار کیا گیا جس میں فوج نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے کئی ایک مراعات دینے کا عندیہ دیا۔ اسی صورتحال میں عالمی طور پر چین کے بدلتے ہوئے کردار اور امریکی گرتی معیشت سے علاقائی طور پر طاقت کے توازن کو بچانے کی خاطر سامراج کی طرف سے سوچی اور فوجی جنتا کی مفاہمت کروائی گئی۔ اس سے ایک طرف تو ظاہری طور پر جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر فوجی جنتا مزید وحشت پھیلاسکے گی تو دوسری طرف ملٹی نیشنل کمپنیوں کی دلالی سے یہ اپنی جیبیں زیادہ بھر سکیں گے۔ لیکن ناگزیر طور پر آنگ سوچی کو معاشی حوالوں سے بھی مراعات دینے کی کوششیں کرنا پڑے گی۔ اس کیفیت میں ایک لمبے جبر کے بعد کی جانے والی مراعات تحریک کو مزید بھڑکانے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس کی مثال اسی سال یکم ستمبر کو 3,600 کیات (US $2.80) کم از کم اجرت کا نفاذ ہے جس کے بعد کئی گارمنٹس فیکٹریوں نے اپنے مزدوروں کو نکالنا شروع کر دیا جس کے جواب میں مزدوروں نے ہڑتال کر کے اپنی ملازمتوں پر بحال ہوئے۔ ایک فیکٹری ورکر نے ان حالات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، ’کم ازکم اجرت کے قانون کے نفاذ سے ہماری زندگیاں زیادہ تلخ ہو گئی ہیں، مینگالاڈن صعنتی مرکز میں کچھ فیکٹریی مالکان نے مزدوروں کے لئے نے کھانا دینا بند کر دیا ہے تو کئی ایک نے مفت فیری سروس بند کر دی ہے۔ کچھ نے کام بڑھا دیا ہے تو زیادہ تر نے فیکٹریاں بند کرنا شروع کر دی ہیں۔ ۔ ۔ لیکن ہم بھی خاموش نہیں رہیں گے‘‘۔ اس تناظر میں کہا جا سکتا ہے کہسوچی کی اتھارٹی کو استعمال کر تے ہوئے اسے شراکت اقتدار بنا کر تحریکوں کو کچلنے کے لئے لایا گیا ہے۔ لیکن آنے والے عہد میں ہونے والے واقعات اس سے الٹ صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ معاشی اعتبار سے دیکھا جائے تو برما غریب ترین ممالک میں شامل ہے۔ برما کے بارے میں معاشی اعدادو شمارملنے بہت مشکل ہیں کیونکہ فوجی جنتا کی طرف سے 1997ء کے بعد بجٹ نہیں پیش کیا گیا۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ایشیا کے بدترین ممالک میں برما کا شمار کیا جاتاہے، رپورٹ کے مطابق فوجی جنتا اپنا آدھا بجٹ دفاع پر خرچ کرتی ہے جبکہ صحت اور تعلیم پر 2فیصد سے بھی کم خرچ کیا جاتا ہے۔ آبادی کا وسیع تر حصہ بنیادی ضروریات سے محروم ہے، کچھ سال پہلے کی غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق 10 فیصد غریب ترین آبادی صرف 2.8فیصد قومی دولت استعمال کرتی ہے جبکہ 10 فیصد امیر ترین کل ملکی دولت کے 40 فیصد پر قابض ہیں۔ معیشت پر امریکی گروپ Global Financial Integrity کی رپورٹ کے مطابق ملک کی 55فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہے جس کی وجہ سے1960ء سے 2013ء تک 18.7 ارب ڈالر برما سے سالانہ باہر منتقل ہوئے جو کہ کل پیداوار کا 6.5 فیصد بنتا ہے۔ افغانستان کے بعد دنیا میں ہیروئن کی پیداوار اور ترسیل میں برما کا اہم مقام ہے۔ جبکہ اہم ایکسپورٹ میں انسانی اسمگلنگ شامل ہے، زیادہ تر برمی جو اس ملک کو چھوڑنے میں کامیاب ہوتے ہیں وہ انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جو ساری عمر جبری مشقت کرتے رہتے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کیا گیا ہے کہ ہر سال 172 فیصد صحت کے بجٹ اور 73 فیصد تعلیم کے بجٹ کے برابر رقم ملک سے باہر منتقل ہو رہی ہے۔ ٹیکس نیٹ ورک انتہائی کم ہے ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو محض 7 فیصد ہے۔ قدرتی وسائل سے مالامال ملک سرمایہ داری کی وحشت سے بدترین ملک بن چکا ہے۔ بیروزگاری ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے، بیماری لاچاری جیسے مسائل سلگ رہے ہیں۔ سابق افسر شاہی اب سرمایہ دار بن رہی ہے، جو تیزی سے نئے قوانین کے باعث سستے داموں عوامی اثاثے خرید رہی ہے۔ چینی سامراج کی اہم مداخلت یہاں پر موجود ہے، یہ کہنا غلط بھی نہ ہو گا کہ موجودہ فوجی آمریت مکمل طور پر چین کی دلال ہے۔ چین کے سامراجی مفادات کے لئے برما اہم ہے۔ برما کے ہمسایہ چینی صوبہ یوننان کی ترقی زیادہ یہاں سے ہو رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں پر چین نے تیل اور گیس کے منصوبوں میں اہم سرمایہ کاری کی ہے۔ چین کی طرف سے حا ل ہی میں Kyaukphyu کایئک پھیو پائپ لائن کی تعمیر کی گئی ہے جس کے ذریعے اپنے صوبیتک کم خرچ سے تیل حاصل کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بندرگاہو ں کی تعمیر کے ساتھ برما کے دیگر معاشی شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری سے زیادہ منافع حاصل کر رہا ہے۔ برما میں چین کے علاوہ دیگر عالمی کمپنیوں کی لوٹ مار بھی جاری ہے اس میں اہم یونی کول اور ٹوٹل شامل ہیں جو سخت استحصال کر رہی ہیں۔ برما کی لیبر چین سے بھی سستی ہے جس کی وجہ سے سامراج یہاں منافعوں کی ہوس کے لئے گدھوں کی طرح منڈلا رہے ہیں۔ عالمی ادارہ محنت کی رپورٹ کے مطابق برما، بنگلہ دیش، کمبوڈیا میں مزدور کی ماہانہ اوسط تنخواہ 100 ڈالر ہے جبکہ چین میں یہ 450 ڈالر ہے۔ برما میں عام مزدوراوسطاً روزانہ 1.70 ڈالر تا 2.04 ڈالر کماتا ہے۔
جہاں ایک طرف بدترین فوجی جبر ہے تو وہی پر سخت معاشی محرومی بھی پائی جا رہی ہے ایسی کیفیت میں سوچی حکومت کی جمہوریت اس استحصال میں اضافہ کرے گی۔ 2010ء کی تحریک کے بعد ریاست کی طرف سے قومی و مذہبی انتشار کو بڑھا یا گیا جس میں خاص کر مسلمانوں کا قتل عام شامل ہے۔ ان نفرتوں کو بڑھکا کر وقتی طور پر تحریکوں کو دبایا گیا تو وہی پر کئی علاقو ں میں بڑھتی ہوئی خانہ جنگیاں بھی انتشار پذیر معاشرے کی غمازی کررہی ہیں۔ برما ہر حوالے سے ناکام ریاست، بکھرتا معاشرہ بن چکا ہے جہاں پر سماجی غلاظتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ میڈیا میں آنگ سانگ سوچی کو آزادی کے ہیرو کی بیٹی اور انقلابی لیڈر کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو کہ عوام کی امیدوں کا مرکز ہے۔ لیکن تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ یکسر غلط ہے، آنگ سانگ سوچی کا والد آنگ سین کمیونسٹ پارٹی برما کا بانی ممبر اور برطانوی برما کا آخری وزیر اعظم تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں برطانوی سامراج کے خلاف جاپانی سامراج کی حمایت سے جدوجہد کی لیکن جاپان کی ہار کو دیکھتے ہوئے اس نے برطانوی سامراج کا ساتھ دینا شروع کر دیا جس کے صلہ میں اسکو وزیر اعظم بنایا دیا گیا۔ اب والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اسکی بیٹی بھی سامراجی پالیسیوں کے اہم اوزار کے طور پر اقتدار میں آ رہی ہے۔ حکومت پاکستان نے 2012ء میں اسکو ’بے نظیربھٹو ایوارڈ‘ سے نوازا، سوچی کی سوچ، فکر، کرداراور عمل بے نظیر سے زیادہ مختلف نہیں۔
برما عوام کی جدوجہد کی شاندار روایات موجود ہیں، وقتی طور پر تمام غلاظتیں ان کے شعور پر چھائیں ہیں۔ لیکن ماضی کے نقوش پوری طرح سے مٹائے نہیں جا سکے، وقتی طور پرحالات زندگی بدلنے کے لئے عوام نے سوچی کو بڑی اکثریت سے کامیاب کروایا۔ اس کی اہم وجہ فوجی آمریت کے خلاف کسی اہم طاقت کا نہ ہونا ہے۔ اس خلا کو وقتی طور پرNLD نے پر کیا لیکن جلد ہی ا ن کی حقیقت عوام کے سامنے ظاہر ہو گی۔ بورژو ا سنجیدہ جریدہ اکنامسٹ نے سوچی کی کامیابی کا ان الفاظ میں تجزیہ کیا، ’’عوام کو نہیں پتا کہ مس سوچی ملکی مسائل پر کیا سوچ رکھتی ہیں، لیکن انہیں پتا ہے کہ وہ اچھی حکومت، نوکریاں اور ایسی ترقی چاہتے ہیں جس میں جرنیلوں اور ان کے ساتھیوں کی جیبوں میں پیسہ نہ جائے۔ فوج ابھی بھی سیاست میں ہے لیکن ایک ہفتہ ہو چکا ہے جب عوام نے فیصلہ کر دیا مس سوچی کے اپنے الفاظ میں خوف سے آزادی۔‘‘ سوچی نے اپنی کمپئن میں دبے الفاظ میں ہی خوشحالی کا نعرہ دیا، فوجی آمریت کے خلاف کوئی ایک بھی نعرہ نہیں لگایا۔ اسی طرح عوامی مسائل کا کوئی پروگرام نہیں دیا، لیکن عوام نے ان کو ایک موقع دیا۔ یہ تو طے ہے کہ نئی حکومت کو ہنی مون کا وقت بھی نہیں ملے گا، عوامی منظر عامہ اور علاقائی طور پر چلنے والی تحریکیں صورتحال کو یکسر تبدیل کر رہی ہیں۔ برمی معاشرے کو چین سمیت دیگر سامراج تاراج کر رہے ہیں۔ عوام کے کسی ایک بھی مسئلہ کا حل سرمایہ دارانہ بنیادوں پر موجود نہیں ہے۔ سوچی مختلف متضادمفادات کے حامل آقاؤں میں توازن نہیں کر پائے گی بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ اس کا برما میں آخری قیام ہو۔ عوام ایک وقت تک ہی تاریخ کے میدان میں تماشائی کا کردار سرانجام دیں گے جب لمبی آمریت کے بعد ’جمہوریت‘ کے ’سنہرے دنوں ‘ کا سحر ٹوٹے گا تو پھر بلند پیمانے پر تاریخ دہرائی جائے گی۔ برمی محنت کشوں کی تقدیر کا فیصلہ پھر چین، ہندوستان اور دیگر ہمسایہ ممالک کے محنت کشو ں سے جڑا ہوا ہے۔ آنے والے واقعات جہاں شعور پر تیز ترین ضرب کاری کریں گے وہی پر انقلابی پارٹی کی ضرورت زیادہ شدت سے محسوس کی جائے گی۔ برما کے محنت کشوں کی حقیقی بقا صرف جنوبی ایشیاء کی سوشلسٹ فیڈریشن میں ہی ہے جو کہ عالمی سوشلسٹ فیڈریشن کا نقطہ آغاز بنے گی۔