گیس کا اذیت ناک بحران

[تحریر: قمرالزماں خاں]
مسلم لیگ کی موجودہ حکومت نے گیس کی قیمتوں میں 10 سے 67 فی صد اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ سیاسی یا سماجی رد عمل کی غیر موجودگی میں نئی قیمتوں کا اطلاق جلد ہونے کا امکان ہے۔ کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا ناٹک رچا کے عوام کی خلاف معاشی دہشت گردی کی واردات جاری ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا جارہا ہے جب ٹرانسپورٹ کے لئے سی این جی بند کی جاچکی ہے، سلنڈر میں ملنے والی ایل پی جی گیس 130 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 280 روپے ہوگئی ہے اور گھریلو صارفین کو زبردست لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ لاہور، ملتان، فیصل آباد میں گیس کی مسلسل بندش کے خلاف مظاہرے ہورہے ہیں اور دیگر شہروں میں لوگ تنگ آکر کسی بھی وقت گھروں سے نکل کر احتجاج میں شامل ہوسکتے ہیں۔ گیس کا بحران بجلی، تیل، پینے کے پانی، صحت، تعلیم، امن وامان اور معیشت کے بحرانات میں شامل ہوکر بحران زدہ حکومت کے سامنے ایک چیلنج کی شکل میں کھڑا ہے۔
مسلم لیگ کی حکومت اپنی پیش رو حکومت کی ناکامی کے بعد بلند وبانگ دعووں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو الیکشن 2013ء میں عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑاتھا۔ لوگ اس حکومت کے عوام دشمن رویے سے بہت تنگ تھے۔ بد اعمالیوں، بدانتظامی اور بدترین کرپشن کے ساتھ ساتھ تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور بہت سے اداروں اور شعبہ ہائے زندگی میں عوامی خواہشات کے برعکس تکلیف دہ حالات کی وجہ سے عوام نے ’’عوامی حکومت‘‘ کو مسترد کیا۔ مدمقابل پاکستان مسلم لیگ نے اپنی انتخابی مہم میں پیپلزپارٹی کی حکومت پر زبردست تنقید کرتے ہوئے لوگوں کوتمام مسائل حل کرنے کے وعدے کے ساتھ ووٹ دینے کی اپیل کی۔ دائیں بازو کی رجعتی نواز حکومت نے اپنے دعوں کے برعکس اقتدار سنبھالنے کے بعد جو کچھ بھی کیا اس سے عام آدمی کی حالت تو کیا بدلنا تھی الٹا پہلے سے موجود معاشی مسائل کی شدت بڑھ کر ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ بجلی کی ’’لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ‘‘ کرنے کے دعوے داروں نے سردیوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ گرمیوں جتنا کردیا ہے۔ موجودہ حکومت کے بجلی پیدا کرنے والے تمام حل اور منصوبہ جات پچھلی حکومت سے بھی زیادہ مہنگے اور مشکوک ہیں جو صرف سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔ پہلے سے موجود بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کو پوری صلاحیت پر چلانے کی بجائے نئے منصوبے ان کی بدنیتی اور عوام دشمنی کا کھلا ثبوت ہیں۔ بجلی کا بحران تو اپنی جگہ موجود ہے مگر اس سال سردیوں میں گیس کا بحران چھوٹے شہروں سے نکل کر بڑے شہروں کے گھریلو صارفین تک پہنچ چکا ہے۔ پچھلے سالوں میں گھریلو صارفین کو گیس کے پریشر کا مسئلہ درپیش تھا مگر اب پورا ہفتہ ہی گیس نہیں آتی۔ آ جائے تو پریشر اتنا کم کہ چولہا بھی نہ جل پائے۔
ایک طرف ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ آٹھ سے دس گھنٹے (دیہی علاقوں میں اس سے کہیں زیادہ) جاری ہے تو دوسری طرف توانائی کے دوسرے بڑے ذریعے کا بحران پورے ملک کو مفلوج کرنے کا باعث بنا ہوا ہے۔ پچھلے ہفتے 1900 ملین کیوبک فٹ کی کمی کا سامنا تھا۔ اسی دوران بلوچستان میں ایک بڑی پائپ لائن کو اڑا دیاگیا۔ بلوچستان میں اس قسم کی مشکوک کاروائیاں عرصہ دراز سے جاری ہیں۔ کبھی کبھار تو بلوچ چھاپہ مار ایسے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں لیکن بہت سے دوسرے واقعات پراسرار انداز میں رونما ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس قسم کے دھماکوں کا جاری رہنا سکیورٹی اداروں اورانکے ارب پتی افسران کی ضرورت بھی بن چکا ہے۔
گیس کے موجودہ بحران میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بڑی وجہ منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ ماضی میں پبلک ٹرانسپورٹ اور نجی گاڑیوں کو پیڑول او رڈیزل سے سی این جی میں تبدیل کرنے کی مہم نے سارے توازن کو خراب کردیا۔ سی این جی کے کاروبار میں بے پناہ منافع کی وجہ سے چند سالوں میں ہزاروں نئے سی این جی پمپ لگ گئے۔ دوسری طرف ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ کی وجہ سے نہ صرف ذاتی کاریں سی این جی پر منتقل ہوگئیں بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ کا ایک قابل ذکر حصہ بھی سی این جی پر چلایا جانیلگا۔ پیٹرول کے ساتھ ڈیزل گاڑیاں بھی مقامی تکنیکی تبدیلی کے بعد سی این جی ڈیزل میں تبدیل ہوگئیں۔ بڑی بسوں میں 800 کلومیٹر کی ضرورت کے حساب سے سلنڈر نصب ہوگئے۔ عالمی تنظیم IAINGV کے مطابق دسمبر 2008ء تک پاکستان دنیا میں گیس سے چلنے والی ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا ملک بن چکا ہے۔ اس تبدیلی کا ایک مثبت پہلو بھی تھا کہ سستی گیس کی وجہ سے درآمدی تیل کی ضرورت کم ہوئی، جس سے برآمدی ادائیگیوں میں بچت ہوئی۔ مگردوسری طرف جانچ پڑتال کا موثر نظام کے نہ ہونے کی وجہ سے فرسودہ سلنڈروں کی تنصیب کی وجہ سے المناک حادثات کی وجہ سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی ناقص ریاستی منصوبہ بندی کی وجہ سے گیس کی رسد، طلب کے تناسب سے نہیں بڑھ پائی اور آج گھریلو اور صنعتی گیس صارفین کو لوڈ شیڈنگ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
صنعتی بحران کی وجہ سے پاکستان کا مانچسٹر کہلا نے والے فیصل آباد میں ہزاروں چھوٹے بڑے ٹیکسٹائل سے وابستہ کارخانے بند اور لاکھوں مزدوربے روزگار ہوچکے ہیں۔ پچھلی حکومت کے خلاف شہبازشریف کی قیادت میں مظاہرے، دھرنے اور احتجاج کرنے والی مسلم لیگ (ن )نے اپنی حکومت کے بننے بعد پہلے موسم سرما میں توانائی بحران پر مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف بدترین ریاستی طاقت کا استعمال کیا۔ اسی طرح پاورلومز کے بے روزگار مظاہرین کو ’’آزاد عدلیہ‘‘ کے ذریعے 250 سال فی قیدی سزاسنا دی گئی۔ اس سزا پر اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ’’عالمی ضمیر‘‘ کے دوسرے ٹھیکیدار چپ سادھے ہوئے ہیں۔ صنعتوں کی بندش کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں گارمنٹس اور ٹیکسٹائل مصنوعات کے آرڈر پورے نہیں ہو پائے اور گارمنٹس کا شعبہ بحران کی زد میں آئے گا، یورپین یونین کی پابندیاں ہٹ جانے کے باوجودپوری صنعت کو شدید دھچکا لگے گا۔
پاکستان میں گیس اور تیل کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر ان کو نکالنے کی راہ میں ایسی ہی رکاوٹیں ہیں جیسی سستی پن بجلی بنانے کے راستے میں، یعنی منافع کی ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام۔ روہڑی سے بہاولپور تک اور سارے چولستان میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں مگر قادر پور اور ماڑی پورگیس فیلڈز کے علاوہ نئے منصوبوں کا آغاز تک نہیں کیا گیا ہے۔ صادق آباد کے قریب ٹلو بنگلہ کے قریب ایک آئل فیلڈ کی کھدائی کے کام کا آغاز پچیس سال کی تاخیر سے اب شروع ہوا ہے۔ کوہلو بلوچستان میں 2500 کلومیٹر کے وسیع رقبے میں گیس کے ذخائر ہیں۔ اسی طرح حیدر آباد کے قریب، اسلام آباد، گوادر، پسنی اور پختونخواہ اور پنجاب کے کئی علاقوں میں 22 ٹریلین کیوبک فٹ گیس ذخائرکے فائنل سروے ہوچکے ہیں۔ اگر ان ذخائر سے گیس نکالنے کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے تو گیس کی موجودہ پیداوار کو دوگنا کیا جاسکتا ہے، جو کل ملکی ضروریات سے زائد ہے۔
سعودی عرب اور امریکہ کی دھونس کی وجہ سے ایران سے سستی گیس کی درآمد کے امکانات مخدوش ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب کی قطر کے ساتھ شدید چپقلش کی وجہ سے قطر سے مائع گیس کی پاکستان درآمد کے معاہدے بھی فی الوقت ناقابل عمل ہیں۔ خطے کی موجودہ صورتحال میں تاجکستان سے افغانستان اور پھر ایران، پاکستان، بھارت گیس لائن کے منصوبے پر عمل ہونے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تھر کے کوئلے سے گیس بنائی جاسکتی ہے مگر اس منصوبے پر بھی کوئی ایسی حکومت ہی کام کرسکتی ہے جو ’’کمیشن مافیا‘‘ پر مبنی نہ ہو۔ یہ ریاست بدعنوانی اور گراوٹ کی جس نہج پر پہنچ چکی ہے وہاں ایسی کسی ’’ایماندار‘‘ اور خودمختیار حکومت کا قیام ویسے ہی دیوانے کا خواب ہے۔ چین کے ساتھ انرجی کے معاہدہ جات کے تحت کوئلے سے چلنے والے ماحولیات دشمن کھٹارہ قسم کے پاور پلانٹس کے لئے بھی کوئلہ پاکستان کی بجائے چین سے مہنگے داموں درآمد کرنے کی پالیسی ظاہر کرتی ہے مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کتنی ’’محب وطن‘‘ اور عوام دوست ہے۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (IMF) کی ہدایات پر گیس کے نرخ بڑھانے کا فیصلہ صارفین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کل گیس کا چالیس فی صد گھریلو صارفین استعمال کررہے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ اور کم پریشر کی وجہ سے گھروں کے معمولات زندگی معطل ہو کے رہ گئے ہیں۔ کھانا پکانا عذاب بن چکا ہے، لکڑیاں واپس آگئی ہیں اور لوگ ہوٹلوں سے کھانا کھانے پر مجبور ہیں۔ اب تو ہوٹلوں نے بھی کھانے کے نرخ بڑھا دئیے ہیں۔ عام طور پر کم پریشر کی وجہ سے گھریلو صارفین کمپریسر وغیرہ لگا کر کچھ گیس کھینچ پاتے ہیں جس سے گیس کا بل چند سو روپے سے بڑھ کر سات آٹھ ہزار تک پہنچ جاتا ہے، مجبوری کے تحت اپنایا جانے والا یہ طریقہ کار غیر قانونی ہونے کے ساتھ ساتھ غیر محفوظ بھی ہے۔
گیس کے ساٹھ فی صد نرخ بڑھنے سے بل آسمان سے باتیں کرنے لگیں گے اور بجلی کی طرح گیس بھی عوام کی قوت خرید سے دور ہوتی چلی جائے گی۔ لوڈ شیڈنگ یا کم پریشر کا مسئلہ حل نہیں ہوگا کیونکہ نرخ بڑھنے سے حاصل ہونے والی زائد حکومتی آمدن گیس کے انفراسٹرکچر کی بہتری یا نئے ذخائر پر نہیں بلکہ سامراجی مالیاتی اداروں کے سود کی نذر ہو جائے گی۔ پاکستان میں توانائی کا بحران واضح طور پر ثابت کرتا ہے کہ تیسری دنیا کی سرمایہ داری، جدید قومی ریاست اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں سراسر ناکام رہی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے زوال کے اس عہد میں بچا کھچا انفراسٹرکچر بھی ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ اس نظام کو انسانی ضروریات پر مبنی منصوبہ بند معیشت سے تبدیل کر کے ہی روز روز کی اذیت سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ممکن ہے۔

متعلقہ:

روشنی؟

بلیک ہول

بجٹ 2014-15ء: بھیک مانگتے رہو، بھکاری بناتے رہو!