فیفا سکینڈل: کھیل اور محنت کشوں کا تماشا!

| تحریر: عمر شاہد |

سوئٹزلینڈ کے شہر زیورچ سے فیفا کے 14 اعلیٰ افسران کی گرفتاری نے عالمی میڈیا کی سرخیوں میں فیفا اور فٹ بال کے کھیلوں کے پیچھے چھپی منافقت اور کرپشن کے سکینڈلز کو عیاں کر دیا ہے۔ ان گرفتاریوں کو اس وقت عمل میں لایا گیا جب مقامی ہوٹل میں فیفا آفیشلز کی سالانہ میٹنگ ہو رہی تھی۔ FBI اور سوئس حکام کی طرف سے کیے گئے مشترکہ آپریشن کے بعد حکام نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دو عشروں پر محیط کھیل کے مقابلو ں کے دوران ان فیفا آفیشلز نے بددیانتی اور کرپشن کے ذریعے 150 ملین ڈالر ز سے زائد رقم کمائی۔ یہ کرپشن کی کمائی صرف من پسند ملک یا کمپنیوں کو ٹھیکے دینے کے دوران لی گئی حالانکہ یہ رقم اس بڑی بھیانک گیم میں محض اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ لیکن اس اہم کاروائی کے بعد فیفا کے بارے میں چند سکینڈلز منظر عام پر آئے لیکن ابھی بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ اس وقت تمام کھیلوں کا تقریباً یہی حال ہے، کرکٹ کی عالمی تنظیم ICC کی طرف سے آئے روز سٹہ بازی کے خلاف سخت اقدامات، اتھلیٹکس میں غیر قانونی طور پر ادویات کااستعمال اور اس طر ح کی لاتعداد رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ موجودہ کھیل، کھیل نہیں بلکہ منافع خوری کا ذریعہ ہیں۔
FIFA-Corruptionکھیل اور فنون لطیفہ انسانی بنیادی ضروریات میں شامل ہیں ان سرگرمیوں کے ذریعے انسان اپنا اظہار کر تا ہے لیکن سرمایہ دارانہ نظام نے ان سرگرمیوں کوایک اقلیت کی لونڈی بنا دینے کے بعد اب منڈی کی جنس بنا دیا ہے۔ سرمایہ داری میں کھیلوں کے مقابلے بنیادی طور پر انسانی جمالیات کی تسکین کی بجائے بڑے کاروبارو ں میں بدل چکے ہیں۔ A.T. Kearney کے مطابق عالمی طور پر سپورٹس کی مارکیٹ 480 ارب ڈالرز سے 620 ارب ڈالرز کی ہے اس میں سپورٹس گڈز کی خریداری سے لے کر مہنگے سپورٹس انفراسٹرکچر تک سب شامل ہے۔ صرف امریکہ اور کینیڈا میں 1996ء تک 88 ارب ڈالر کی مارکیٹ تھی جو کہ اب 160 ارب ڈالر سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اسی طرح US نیشنل فٹ بال لیگ کے صرف نشریاتی حقوق سے 1990-94ء کے دوران 43.6 ارب ڈالر کمائے اس طرح عالمی طورپر سب سے مشہور کھیل فٹ بال کے کھیلوں سے سالانہ عالمی طور پر 28 ارب ڈالرز کی آمدن ہوتی ہے جس میں 22 ارب ڈالر کا کاروبار صرف یورپ میں ہو تاہے۔ Nike اور Adidas سپورٹس کے کاروبار میں کمپنیاں اس وقت اربوں ڈالر سالانہ منافع کما رہی ہیں ان کے منافعے کئی ممالک کے سالانہ GDP سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔ ان چند اعدادو شمار سے ہی اس کھیل کے پیچھے چھپے منافعوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کارل مارکس نے بہت پہلے واضح کیا تھا کہ جب سماج میں قوت محنت بیچی یا خریدی جائے تو اس سماج میں تیزی سے ’آزاد وقت‘ اور ’کام کے وقت‘ کی واضح اور مخالفانہ تقسیم سامنے آتی ہے۔ جس میں محنت کش کی نظر میں زیادہ اہمیت اسکے آزاد وقت کی ہوتی ہے جبکہ فیکٹری، کارخانے میں کام کے دوران گزارہ گیا وقت غیراہم اور ضائع تصور ہو تا ہے۔ اسی وجہ سے محنت کشوں کو کام سے چھٹی کا دن زیادہ خوش رکھتا ہے۔ اسی طرح قوت محنت کی خریدو فروخت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی پیداوار پر محنت کش کا حق نہ ہونے کی وجہ سے سماج میں بیگانگی پھیلتی ہے جس کی وجہ سے تفریح کے مواقع اور کام سے فراغت کے مواقع زیادہ اہمیت کے حامل ہو جاتے ہیں۔ تفریح اور آزادی کے یہ مواقع بھی عمومی رائے عامہ کے برعکس حقیقی طور پرآزاد نہیں ہوتے۔ اشیا کے تبادلے پر مبنی سرمایہ دارانہ پیداواری عمل انسان کے انفرادی کردار کو کم سے کم کر دیتا ہے اور تفریح کے مواقع سرمایہ داری میں کام کا اضافہ ہوتے ہیں جو عام محنت کش کو وقتی کام سے آزادی دے کر زیادہ کام کے لئے تیار کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کروڑوں لوگ جو سپورٹس کے مقابلے شوق سے دیکھتے ہیں ان کا مقصد وقتی طور پر کام کی پریشانیوں سے سکون لینا ہو تا ہے۔ لیکن اس سرمایہ داری نے کمرشل کھیل کو فروغ دیتے ہوئے کھیل تک رسائی بھی محنت کش سے چھین لی ہے۔ مہنگے کلبوں، جم خانوں اور اکیڈمیوں تک رسائی کے لئے محنت کشوں کے پاس نہ تو سرمایہ ہو تا ہے نہ وقت۔ لہٰذا چند مراعات یافتہ اشرافیہ تک ہی کھیل محدود ہو کر رہ چکا ہے کھلاڑیوں کو نہ صرف بیچا جاتا ہے بلکہ میڈیا کے ذریعے ان کی ایسی ساکھ بنائی جاتی ہے جیسے وہ کسی اور سیارہ کی مخلوق ہوں۔ اسی طرح شعور کو پست کر نے کے لئے محنت کشوں کو صرف شائقین کی حد تک ہی محدود کر دیا گیا ہے ان میں اکثریت تو ان عالیشان کمرشل سپورٹس اسٹیڈیمز کے سامنے سے بھی گزر نہیں سکتی تو نشریاتی ادارے یہ کھیل ان تک لے کر جانے کی آڑ میں منافع کماتے ہیں۔ اگر آج سپورٹس کے مقابلے کو دیکھا جائے تو شاید ہی کوئی کھیل مقابلہ ایسا نہ ہو جہاں جوا اور سٹے بازی نہ ہوتی ہو جس میں گھوڑوں گدھو ں کی طرح کھلاڑیوں کی بولیاں لگائی جاتی ہیں۔
اب سرمایہ داری کے بحران میں کھیل ایسے مقام پر آچکا ہے جہاں حقیقی مقابلے بھی ختم ہو تے جارہے ہیں اور نورا کشتیاں ہی نظر آتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی نظر آتا ہے کہ جسمانی راحت اور سپورٹس میں حصہ لینا بھی محنت کشوں کے لئے وقت کا ضیاع بن چکا ہے۔ کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں سماجی رشتوں اور قوت محنت کی تقسیم کار نے یہ ایک واضح فرق بنا دیا ہے۔ کمرشل کھیل اور صرف کھیل برائے پیشہ بھی سرمایہ دارانہ نظام میں ہی اتنی اعلیٰ بنیادوں پر نظر آتا ہے۔ قدیم معاشروں میں جہاں پیداواری قوتوں کی ترقی محدود ہونے کی وجہ سے ہر کوئی اپنی بقا کے لئے گروہو ں اور اجتماعی صورت میں رہتا تھا جہاں مقابلہ بازی یا ذاتی ملکیت کا تصو ر بھی موجود نہیں تھا، اس دوران جسمانی محنت روزمرہ کی زندگی کا معمول تھا اور کام کے عمل سے جدا نہ تھا۔ اس دوران انسان کی فطر ت کے خلاف بقا کی جدوجہد کے لئے یہ سب لازم تھا۔ مقابلہ بازی اور جیت ہار کے لئے سپورٹس بھی پیداواری قوتوں کی ترقی کے ساتھ وجود میں آیا جس میں طبقاتی معاشرے کے قیام کی وجہ سے قدر زائد پر قابض اقلیت کو وقت میسرآیا کہ وہ مقابلوں اور راحت و سکون کے لئے سپورٹس کا استعمال کر سکے۔ مثال کے طو ر پر اولمپکس کے مقابلوں کا آغاز پہلی دفعہ 776 قبل مسیح میں یونانیوں نے کیا۔ اولمپکس مقابلوں کا آغاز زیوس دیوتا کے لئے مذہبی تہوار کے طور پر کیا گیا ان مقابلوں میں صرف مراعات یافتہ اقلیت ہی حصہ لے سکتی تھی جس میں غلاموں اور عورتوں کو شمولیت کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح ان کھیلوں کا کردار آج کے کھیلوں سے کافی مختلف تھا ان کا مقصد چست، مضبوط اور نڈر جنگجو پیدا کرنا تھا اکثر مقابلے زندگی اور موت کا سوال بن جاتے تھے۔ سرمایہ داری میں تمام تفریح کے مواقع جو محنت کشوں کے اپنے بنائے ہوئے تھے ان سے چھین کر کاروبار کے مقاصد کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں مثلاًفٹ بال کھیل محنت کشوں اور عام عوام کا کھیل تھا جو کہ گاؤں اور صنعتی علاقوں میں کھیلا جاتا تھا جہاں محنت کش سکون اور تفریح کی خاطر مختلف گروہوں کی شکل میں کھیلا کرتے تھے۔ لیکن سرمایہ داروں نے یہ کھیل محنت کشوں سے چھین کر امراء تک محدود کر دیا۔ موجودہ کمرشل کھیل کی شکل رومن عہد میں کھیلوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ جب رومن سلطنت میں قحط یا بحران آتا تو افریقہ سے گندم منگوانے کی بجائے یہ شیر منگواتے تھے جن کے سامنے زندہ انسانوں کو پھینک کر تماشا دیکھاکرتے تھے۔ اسی طرح روم میں گلیڈیٹرز کے مقابلوں کا مقصد عوام کا دل بہلانا اور اصل مسائل سے پردہ پوشی تھا۔ یہی صورتحال ہمیں آج کے سپورٹس مقابلوں میں نظر آتی ہے جہاں سرمایہ دارانہ غلاظتوں میں ایسے مقابلے بڑھا چڑھا کر پیش کئے جاتے ہیں۔ حکمران میڈیا اور دوسرے ہتھیاروں کے ذریعے عمومی شعور کو پست کرنے کے لئے قوم پرستی اور دیگر تعصبات کو ابھارتے ہیں۔ ان کا حتمی مقصد عوامی شعور کو گھائل کر کے اصل مسائل کی طرف سے پردہ پوشی ہوتا ہے۔
سرمایہ داری کے بحرانات میں خاص طور پر ایسے مقابلوں کو زیادہ ابھار ا جاتا ہے اور کمرشلائزیشن کے ذریعے شرح منافع میں بھی تیز تر اضافہ کیا جاتا ہے۔ ان مقابلوں میں شائقین کے جذبات اور انکی امنگوں کو بھی بازار میں نیلام کیا جاتا ہے، دوسری طرف کھلاڑی بجائے کسی قومی جذبہ یا قومی وقار کے لئے کھیلنے کے، میچوں کے کمیشنز اور مارکیٹنگ کمپنیوں کی جنس کے طور پر کھیلتے ہیں اس میں اصل سپورٹس مین سپرٹ صرف قصہ کہانیوں تک ہی محدود ہے۔ لینن کی شہرۂ آفاق کتاب ’سامراج سرمایہ داری کی آخری منزل‘ کے مطابق اب سرمایہ داری سامراجیت کا روپ اختیار کر چکی ہے جس میں پوری دنیا کو محکوم اور ان کے وسائل کی لوٹ مار کی جا رہی ہے۔ سامراج نے بھی کھیل کو اپنے بھیانک مقاصد کے لئے استعمال کیا جس کا مقصد محکوم نو آبادیات کو ہر لحاظ سے غلام بنانا تھا۔ مارکسسٹ واضح کرتے ہیں کہ حکمران صرف بزور طاقت حکومت نہیں کرتے بلکہ اس کے لئے وہ ذہنوں کو غلام بناتے ہیں۔ اسی طرح سامراج نے جہاں ملکوں کو تاراج کیا وہیں ان کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رکھنے کے لئے اپنی ثقافت، علوم، ادب، زبان کے ساتھ ساتھ کھیل کو بھی استعمال کیا۔ اس کے علاوہ قومی شاونزم کو بھی اپنے کھیلوں کے ذریعے ہوا دی۔ برصغیر پاک وہند میں برطانوی سامراج نے کرکٹ کو افضل کھیل کے طور پر متعارف کروایا جس کو کھیلنے والا امراء میں شمار ہوتا اسی طرح سنٹرل امریکہ میں امریکی سامراج نے بیس بال کو ان ممالک کا قومی کھیل بنانے کے لئے سرگرم کوششیں کیں۔ آمریتو ں میں خاص طور پر کھیلوں کے مقابلوں کو استعمال کر کے قومی شاونزم کی آڑ میں اپنے مقاصد پورے کئے جاتے رہے ہیں۔ 1936ء برلن اولمپکس اس کی اہم مثال ہے جس کو پہلی دفعہ براہ راست نشر کیا گیا جس میں سیاسی طور پر جرمن ریاست کوعظیم دکھانے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اسی طرح پاکستان میں ضیاالباطل کے عہد میں سیاسی کارکنوں پر مظالم ڈھائے جا رہے تھے پاکستانی معاشرے کا بلادکار کیا جا رہا تھا وہیں پر ہی کرکٹ کی افیون کو پروموٹ کیا گیا۔ موجودہ ’انقلابی کپتان‘ بھی اسی عہد کی پیدوار ہے۔ جس نے ضیاالباطل کے تلوے چاٹ کر اپنا مقام حاصل کیا۔ اسی ضمن میں انقلابیوں نے بھی ان مقابلوں کو اپنے پراپیگنڈہ کے لئے استعمال کیا لیکن اس سے ان کا کردار تبدیل نہیں ہو تا۔
یہ عالمی سپورٹس کی تنظیمیں مثلاً FIFA ،ICC ،WHF، وغیرہ تمام سرمایہ دارانہ ادارے ہیں جن کا مقصد کھیلوں کے لئے نظم و ضبط کی پالیسیاں بنانا اور آزاد کھیل کو فروغ دینا نہیں بلکہ پیسہ کمانا ہے۔ گزشتہ FIFA ورلڈ کپ برازیل میں ہونے والے مقابلے تاریخ کے پر انتشار مقابلے تھے۔ جس کو ایک شاندار عوامی تحریک کا سامنا کرنا پڑا جس میں برازیلین حکومت نے عوام کی سبسڈیاں ختم کرتے ہوئے ان عالیشان کھیلوں پر اربوں روپے جھونک دیے۔ اس صورتحال میں عوامی شعور کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن عوام کی بڑی تعداد نے ان مقابلوں کے خلاف احتجاج کیا جن میں اہم نعرہ’ہمیں ورلڈ کپ نہیں، بلکہ روٹی چاہیے‘ تھا لیکن اس کیفیت میں بھی مقابلوں کا انعقاد کروایا گیا۔ جس سے FIFA نے 5 ارب ڈالرز کی آمدن حاصل کی۔ روس میں ہونے والے 2014ء موسم سرما اولمپکس کے بارے میں 65 فیصدعوام نے کہا کہ یہ پیسے کا ضیاع تھا جس میں روسی حکومت نے 50 ارب روپے جھونکے۔ حالیہ قذافی اسٹیڈیم میں جاری پاک زمبابوے کرکٹ ٹورنامنٹ بھی اس چیز کی غمازی کرتا ہے کس طرح یہاں کا حکمران طبقہ ایک سیریز کروانے کوا پنی تاریخی کامیابی ظاہر کر رہاہے۔ میڈیا پر ایک شوروغل کا سماں ہے لیکن اسی دوران عوام کو علاج اور تعلیم فراہم کرنے میں ناکامی کا کوئی ذکر نہیں۔ بھارت میں ہونے والے IPL میچز میں بھی تاریخی جوا اور منافعوں کے انبار لگائے گئے۔ جب IPL چل رہے تھے تو اسی دوران بھارت میں ایک اور IPL چل رہی تھی جو کہ ’Indian Poor League‘ تھی جس میں بے موسمی بارش کی وجہ سے لاکھوں کسان خود کشیوں پر مجبور ہوئے۔ اب اسی طرح کا کھیل تماشا قطر میں بھی فیفاورلڈ کپ کی شکل میں لگنا ہے جہاں مشرق وسطیٰ میں عرب انقلاب کے بعد تحریک وقتی طور پرتھمی لیکن حکمرانوں میں اس کا خوف شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں عدم استحکام کے دور میں قطری حکمران بڑے بے چین ہیں کہ ورلڈ کپ کے مقابلے کا انعقاد ہو سکے۔ اس سلسلے میں کئی آفیشلز کو رشوت دینے کے ساتھ ان مقابلوں کے انعقاد پر تاریخی طور پر ایک کثیر رقم خرچ کرنے جا رہے ہیں۔ Deloitte قطر کی طرف سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق بیس لاکھ کی آبادی کا ملک ورلڈ کپ کی تیاریوں کے لئے 200 ارب کی خطیر رقم خرچ کرنے کی طرف جارہا ہے جو کہ اب تک کی کسی بھی ملک کی طرف سے فٹ بال ورلڈ کپ پر خرچ کی جانے والی سب سے بڑی رقم ہے۔ اس میں سخت گرمی سے بچنے کے لئے اسٹیڈیمز بھی ایئر کنڈیشن تعمیر کیے جارہے ہیں۔ فیفاکی انتہائی احتیاط سے تیار کی جانے والی رپورٹ میں بھی 2022ء ورلڈ کپ قطر میں کروانے کے لئے قطری حکمرانوں کے رشوت دے کر ووٹ لینے کا انکشاف ہوا ہے۔ قطر میں انتہائی سخت حالات میں قلیل اجرتوں پر محنت کشوں سے تعمیراتی کام لیا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بی بی سی ورلڈ نیوز کے نمائندگان کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اپنے طور پر تعمیراتی ورکرز کے حالات پر رپورٹ تیار کر رہے تھے جس کے مطابق اب تک سینکڑوں محنت کش کام کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔ فیفاکے بڑے سپانسرز کوکا کولا، ایڈیڈاس اور ویزا انسانی ہمدردی کو تشویش کرنے تک ہی محدود رکھا ہے۔
سابق سوویت یونین کا جائزہ لیں تو وہاں پر اپنی مسخ صورت میں بھی منصو بہ بند معیشت کی وجہ کمرشل یا پروفیشنل کھلاڑیوں کا وجود نہیں تھا جبکہ سپورٹس زندگی کا لازمی حصہ تھا۔ جہاں پر محنت کش ریاستی سرپرستی میں ان مقابلوں میں حصہ لے سکتا تھا۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پہلے اولمپکس 1952ء میں سوویت یونین کی ٹیم کی شمولیت سے 1988ء تک عالمی سپورٹس مقابلوں میں سوویت یونین ایک اہم طاقت تھا جس کے 8 میں سے 6 اولمپکس مقابلوں میں کل میڈلز پوری دنیا سے زیادہ تھے۔ جس کی وجہ ریاست کی طرف سے تمام عوام کے یکسا ں سپورٹس پروگرام تھے۔ سوویت سپورٹس پروگرام کا مقصد زیادہ پیداواریت اور مضبوط افراد پر مبنی معاشرے کا قیام تھا تاکہ سوویت معاشرہ ایک مضبوط معاشرہ بن سکے۔ سوویت یونین کی عالمی مقابلوں میں کامیابی کی اہم وجہ اتھلیٹکس گیمز کی پروموشن تھاجس میں سکول کی سطح سے ہی تمام افراد کو شامل کیا جاتا تھا جس کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ ان گیمز میں حصہ لیتے اور عالمی مقابلوں میں نام کماتے۔ فیکٹریوں کے محنت کشوں پر بھی لازم تھا دوران کام وہ بھی جسمانی پروگرامز میں شمولیت اختیار کریں۔
اس تمام صورتحال سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کتنے خوفناک طریقے سے نسل انسانی کو محدود کرنے پر آچکا ہے۔ کسی ترقی کی بجائے یہ اب انسان کو بربریت کے عہد میں روزانہ دھکیل رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے کھیل کو آزاد کرنے کا سوچنا بھی حماقت سے کم نہیں۔ اگر انسانی سماج کو اس کی معراج پر لے جانا ہے تو سوشلزم صرف نعرہ نہیں بلکہ عہد کی ضرورت ہے۔ سوشلزم میں انسان مزید ضروریات کا غلام نہیں ہو گا بلکہ اپنی قسمت خود لکھے گا سپورٹس کے مقابلے کسی قوم کی برتری ثابت کرنے یا بے ہنگم مقابلہ بازی کی بجائے انسان کی اصل اساس کے لئے ہونگے۔ جہاں کسی سرمائے کے جبر کے بغیر 7 ارب انسانوں کو اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا اور جہاں پر سپورٹس، آرٹ صرف ایک اقلیت کی لونڈی کی بجائے انسانی تفریح کا باعث بنے گی۔

متعلقہ:

فیفا ورلڈ کپ: کھیل سے کھلواڑ!

کرکٹ کی افیون