تحریر: فاروق طارق
انقلابی سفرکا ایک اور ساتھی جاوید اقبال کینسر سے لڑتے لڑتے دم توڑ گیا۔ 57 سال کی نسبتاً کم عمر میں اس کا یوں بچھڑ جانا پاکستان اور عالمی سطح پر مارکسی تحریک لیے ایک شدید دھچکا ہے۔ یورپ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن کم ہی سوشلزم کاراستہ اپناتے ہیں۔ زیادہ تر شناخت کی تلاش میں مذہب کا سہارا لیتے ہیں یا پھراس سے اگلے قدم پر ’’پاکستانی محب وطن‘‘ بن جاتے ہیں۔ مگر ایک محنت کش کہلانا یا پھر اس سے بھی بڑھ کے محنت کش طبقے کے استحصال کے خلاف سوشلسٹ تحریک کا حصہ بننا کم ہی پاکستانیوں میں نظر آتا ہے۔ اِس پس منظر میں جاوید اقبال کا ہم سب سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو جانا ایک انتہائی صدمے، دکھ اورنقصان کی بات ہے۔
جاوید اقبال کم عمری میں ہی سوشلزم کی جانب راغب ہوگئے تھے۔ میری ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی کچھ اچھی طرح یا د نہیں لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ ان سے تعلق 1980ء سے ہے جب ہم نے ایمسٹرڈیم میں جدوجہد گروپ کی پہلی کانگریس کی تھی اور جاویداقبال، ممتاز خان اور ظفر تنویر تینوں برطانیہ سے ایمسٹرڈیم اس میں شرکت کے لیے آئے تھے۔ ہم سب کی عمریں 20 سے تیس سال کے درمیان تھیں۔ انقلابی جوش و جذبہ عروج پر تھا۔ ضیاآمریت کے خلاف جدوجہد جاری تھی اور ہم چند جلاوطن طالب علم ایک گروپ کی صورت میں پاکستان میں ایک نئی انقلابی مارکسی تحریک تعمیر کرنے کا عزم لیے ہوئے تھے۔
جاوید اقبال سے ملاقاتوں کا سلسلہ اس وقت اور زیادہ بڑھ گیا جب میں 1983ء میں بریڈ فورڈ میں کامریڈ پَیٹ وال کی انتخابی مہم میں شریک ہوا۔ میں کچھ عرصے کے لئے برطانیہ شفٹ ہو گیا تھا۔ وہ برمنگھم میں تھے اور میں بریڈفورڈ میں۔ ’Militant‘ گروپ کے ممبر اور لیبر پارٹی برطانیہ کے نامزد امیدوار پیٹ وال کی اس انتخابی مہم میں حصہ لینے جاوید اقبال اورممتاز خان دونوں برمنگھم اور لندن سے تشریف لائے تھے۔ دوسرے ساتھیوں میں انیل سنگھ پنکی، چتن پٹیل اور بریڈ فورڈ کے ساتھی غضنفر راجہ، خالد چوہدری (مرحوم)، طیب کمال پاشا، ظفرتنویر اور خالد سعید قریشی شامل تھے۔ پیٹ وال 1983ء میں یہ انتخاب ہار گئے تھے مگر 1987ء میں وہ منتخب ہوگئے تھے اوربرطانوی پارلیمنٹ ان کی اس پہلی تقریر کوہمیشہ یاد رکھے گی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’تم لوگ شکایت کرتے ہو کہ جنوب ایشیا کے محنت کشوں کے بوڑھے ماں باپ یہاں اوور سٹے (Over Stay) کیوں کرتے ہیں؟ میں تم سے پوچھتا ہوں کہ جب تمہارے سامراجی آباؤ اجداد نے برصغیر میں بغیر ویزے کے انٹری کی تھی تو اُس خطے میں پورے 200 سال کا اوور سٹے کس بنیاد پر کیا تھا؟‘‘
جاوید اقبال برطانیہ میں پیٹ وال، ٹیری فیلڈ اور ڈیونیلسٹ جیسے انقلابی ممبران پارلیمنٹ کے گروپ کی حمایتی بلیک اینڈ ایشین کمیونٹی میں انقلابی کام کرتا تھا۔ بعد میں اس کی مقامی مارکسی تحریک میں شمولیت اسے پاکستان میں آمریت کے خلاف جدوجہد کرنے والے ’’جدوجہد گروپ‘‘ کے ساتھ لے آئی۔
جاوید اقبال کے قریبی ساتھیوں میں جان ہنٹ، فل فریمٹن، کرس مے اور ان کی پارٹنر شامل تھیں۔ یہ انقلابی گروپ مڈلینڈ اور مانچسٹر میں ایشیائی اور بلیک کمیونٹی میں مارکسی نظریات کے فروغ کے لیے کام کرتا تھا۔ اب ان کے ساتھ ہم جدوجہد گروپ والے اور ہمارا ’’جدوجہد‘‘ رسالہ بھی شامل ہوگیا تھا۔ انگریزی میں رسالہ ’’Militant‘‘ اور اردو میں ’’جدوجہد‘‘ دونوں کے لیے جاوید اقبال باقاعدگی سے مضامین لکھتا تھا اورسرگرمیوں کی رپورٹیں بھجوایا کرتا تھا۔
وہ یونیورسٹی گریجویٹ تھامگر انقلابی لگن میں مگن اس کے دِن رات ایک مارکسی تحریک اور تنظیم کی تعمیر میں صرف ہوتے تھے۔ اس کی رہائش گاہ ہم سب کے لیے کھلی ہوتی تھی۔ وہ ہمارا برمنگھم میں ڈیراتھا۔ 1984ء میں ہم نے جب بریڈ فورڈ میں ایشین یوتھ کانفرنس کونسل ہال میں منعقد کرائی تو جاوید اقبال نے برمنگھم سے بریڈ فورڈ آکر اسکی موبلائزیشن، تنظیم سازی اور منصوبہ بندی میں پورا حصہ لیا۔
1985ء میں ہم نے گروپ کے طور پر فیصلہ کیا کہ جاوید کو پاکستان بھیجا جائے اور وہ پاکستان میں ’جدوجہد گروپ‘ کی بنیادیں رکھنے میں اپنا انقلابی کردار ادا کرے۔ وہ برطانوی شہری تھا مگر پاکستان کے انقلاب کے لیے اپنی جان بھی دینے پر تلا ہوا تھا۔ ضیاآمریت کا عروج تھا۔ پاکستان جانا خطرے سے خالی نہ تھا۔ بہرحال جاوید اس انقلابی آگ میں خوشی سے کود پڑا۔ وہ پاکستان آیا۔ اِکا دُکا ساتھیوں سے بحث کا آغاز کیا۔ پاکستان میں اس وقت سوویت نواز اور ماؤ نواز گروپوں کا بائیں بازو کی سیاست پر تسلط تھا۔ ٹراٹسکی کو انقلاب دشمنی سے تعبیر کیاجاتا تھا۔ اس کے نظریاتی ساتھیوں پر سی آئی اے کی تہمت لگائی جاتی تھی۔ اس پس منظر میں جب ’لیفٹ اور رائٹ‘دونوں ایک نئی انقلابی تحریک کی تعمیر کو اپنا مخالف اور دشمن تک سمجھتے تھے، جاوید اقبال کے پاکستان آنے اور یہاں کام بنانے کو ایک انقلابی معجزہ ہی کہا جا سکتا ہے۔
فروری 1986ء میں ہم نے بھی آٹھ سالہ جلاوطنی کو خیرآباد کہا اورپاکستان واپسی کی۔ پھرجاوید اقبال اور میں خفیہ طورپر نئے گروپ کی تشکیل کیلئے ملتے تھے۔ کونسے نئے رابطہ ملے ہیں، کس نے جوائن کیاہے وغیرہ پر ہی زیادہ زور ہوتا تھا۔ رسالہ انڈرگراؤنڈ پاکستان سے شائع کرنے کا منصوبہ بھی عمل میں لا رہے تھے۔ مارکسی کتابچوں کی پاکستان سے اشاعت بھی جاری تھی۔ وہ لاہور میں کرائے کے ایک کمرے میں رہتاتھا یا ہمارے دوستوں کے ساتھ رات بسر کرتا تھا۔ میں ٹوبہ ٹیک سنگھ اورفیصل آباد میں رہتا تھا۔ خصوصی طورپر ملاقات کا اہتمام کرتے تھے۔
بے نظیر بھٹو کی 10 اپریل 1986ء کو آمد پر ہم نے اس تحریک کومزید پرزور اور جارحانہ بنانے کے لیے مختلف پروگرام بنائے تھے۔ ہم اس عرصہ میں پیپلز پارٹی میں انٹرزم کی پالیسی پر کام کرتے تھے۔ جاویداقبال اور ہم نے مل کر ایک پمفلٹ لکھا جس کاعنوان تھا ’’ضیا آمریت کے خلاف ملک گیر عام ہڑتال کااعلان کیاجائے!‘‘ یہ پمفلٹ ہم نے 50 ہزار کی تعداد میں شائع کیا اور بے نظیر بھٹو کی آمد سے قبل ہم دونوں نے اسے ائیر پورٹ پر تقسیم کرنے کا پلان کیا۔ یہ ایک انقلابی وقت تھا۔ انقلابی جذبات عروج پر تھے۔ لاکھوں افراد ایئرپورٹ کی طرف روانہ تھے۔ آمریت مخالف جذبات عروج پرتھے۔ جیسے ہی ہم لاہور کے پرانے ایئرپورٹ سے پہلے گرجا چوک پر پہنچے تو لوگوں نے ہم سے چھین چھین کر یہ پمفلٹ حاصل کیا اور پڑھنے لگے۔ نعرے لگنے لگے۔ ہمارے اردگرد ہزاروں کا مجمع تھا۔ بے نظیر بھٹو نے ابھی اگلے روز آنا تھا۔ پیپلزپارٹی کے رائٹ ونگ کو یہ منظور نہ تھا۔ اچانک ہم پرحملہ ہوا پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں نے ہم سے بنڈل چھین لیے اور ہمارے خلاف گالیاں بکنے لگے۔ ’’تم کون ہو یہ نعرہ دینے والے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ہم نے بمشکل اپنی جان چھڑا ئی اور ہجوم میں ہی غائب ہوگئے۔
تاریخی بات یہ ہے کہ جس کار میں ہم سے چھینے گئے پمفلٹس کا بنڈل رکھا گیا تھا وہ فیصل صالح حیات کی تھی۔ جو گلبرگ مین بلیووارڈ پر رہتا تھا اوربے نظیر بھٹو نے انہی کے گھر ٹھہرنا تھا۔ دس اپریل کولا کھوں لوگوں کے اجتماع سے خطاب کے بعد بے نظیر بھٹو جب فیصل صالح حیات کے گھر ٹھہریں تو اگلے روز ہم بھی کسی طریقے سے وہاں پہنچ گئے۔ دیکھا کہ ہمارا پمفلٹ ان کے گھر کے اندر لوگ پڑھ رہے ہیں۔ بے نظیر بھٹو خود بھی پڑھ رہی تھیں۔ ہوا یہ کہ کسی ڈرائیور نے جب اس پمفلٹ کواپنی پجارو میں دیکھا تو اسے یہ بہت اچھا لگا۔ اس نے اپنے مالکوں کی ہدایات کے برعکس اسے گھر لاکر وہاں موجود سینکڑوں کارکنوں اوررہنماؤں میں تقسیم کردیا۔ انقلابی راستے بعض اوقات از خود کھل جاتے ہیں۔ جو کچھ رجعتی عناصر چاہتے ہیں اس کے برعکس ہو جاتا ہے۔ یہ کامریڈ جاوید اقبال اور ہماری عوامی سطح کی پہلی انقلابی کاوش تھی جو بڑی حد تک کامیاب رہی۔
1987ء کے آغاز میں ڈاکٹر لال خان بھی پاکستان آگئے۔ ہمارے سٹڈی سرکل شروع ہوگئے تھے۔ جاوید ہم سب کی طرح پاکستان میں ہمارا ’فل ٹائمر‘ تھا۔ وہ دن رات انقلابی کاوشوں کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے میں کوشاں تھا۔ ٹریڈ یونینوں اورنوجوانوں میں کام کا وہ ماہر تھا۔ اس کی شخصیت میں ایک عجیب قسم کی کشش تھی۔ اردو ڈھنگ سے بول نہیں سکتا تھا۔ کشمیری لاہور میں چلتی نہ تھی۔ ایسے میں عجیب قسم کے فقر ے بولتا تھا جو ہرایک کو بھا جاتے تھے۔ اردو انگریزی کا مکس اس کی دلچسپ شناخت تھی۔
وہ 1991ء تک لاہور میں ہمارے ساتھ سرگرم رہا۔ چھ سال کے دوران ہم نے پاکستان میں اس قدرانقلابی بنیادیں تعمیر کر لی تھیں کہ اب جاوید اقبال کاپاکستان میں رہنا اتنا ضروری نہ تھا۔ جاوید، ہمارا فل ٹائمر، جو پاکستانی مزدور کی اوسط تنخواہ پرکام کرتا تھا، بخوشی کرتا تھا اور خوب سرگرمی سے کرتا تھا، ہم سب نے اسے واپس جانے کا مشورہ دیا تاکہ اسے کچھ آرام مل سکے۔
لیکن پاکستان کے محنت کشوں سے اس کی انقلابی محبت اور جدوجہد برطانیہ جانے کے بعد بھی کم نہ ہوئی تھی۔ اس نے باقاعدگی سے پاکستان آنا جاری رکھا۔ وہ اب برطانیہ میں ٹریڈ یونین میں متحرک تھا۔ برمنگھم کونسل میں اس نے جاب شروع کردی تھی۔ وہ اب اپنے دوستوں کوبھی پاکستان لاتا تھا۔ فل فریمٹن، جان ہنٹ، کرس مے اوران کی اہلیہ ہمارے پاس آتے تھے۔ ڈاکٹر لال خان اور ہمارے راستے انقلابی حکمت عملی پر اختلافات کی بنا پر جدا ہوگئے تھے۔ لیکن جاوید اقبال ایسا دور اندیش کامریڈ تھا کہ اس نے ہم دونوں سے دوری اختیار نہ کی۔
یہ بھی ایک انقلابی متناقضہ (Paradox) ہے کہ ہم دونوں کو دوبارہ قریب لانے میں بھی جاوید اقبال کا ایک اہم اور اس کی زندگی کے آخری تین سالوں میں فیصلہ کن کردار تھا۔ وہ انٹرزم کی پالیسی پر معترض تھا مگر الگ پارٹی بنانے پر بھی اس کے کچھ تحفظات تھے۔ لیکن تین سال قبل جاوید اقبال کی محفل میں اگر لال خان اور ہماری بحثیں نہ ہوتیں تو شاید آج آگے کے انقلابی کام کے نئے راستے نہ کھل پاتے۔ اس نے ایک پُل کا کردار ادا کیا، ایک نظریاتی پُل، جس کی بنیادیں انتہائی ٹھوس سیمنٹ سے تعمیر تھیں۔ ہم تینوں کی چند ملاقاتوں نے ان تمام خدشات کودورکردیا جوشاید ذہن کے کچھ خلیات میں موجود تھے۔ وہ بے باک تھا۔ لیکن انقلابی دانش میں اتحاد، یکجہتی اور تنظیم کا علمبردار تھا۔
جاوید اقبال نے ہم دونوں کو تو قریب کردیا مگر خود دور چلا گیا۔ لیکن جاتے جاتے بھی وہ کام کر گیا جس کے لیے اس نے زندگی بھر تگ و دو کی تھی۔