[تحریر:کرس بروز،ترجمہ:ارشدنذیر]
چند سال پہلے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتاتھا کہ جب ماحولیاتی تبدیلیاں اخبارات کی شہہ سرخیاں نہ بنتی تھیں۔ امریکی سیاستدان ایلگور کی جانب سے بنائی جانے والی ماحولیات پر بننے والی دستاویزی فلمAn Inconvenient Truth’’ایک ناخوشگوار حقیقت‘‘کو لاکھوں لوگوں نے دنیا بھر میں سینماؤں پر دیکھا۔کنزرویٹوپارٹی نے خودکو ماحولیات کا چمپئین ثابت کرنے کیلئے نئے رنگ روپ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ ماحولیات بارے رنگ بازیاں کرتے ہوئے لوگوں کو اس بات کیلئے تیار کرنے کی کوشش کی گئی کہ سبز رنگ کی بقا اور بحالی کیلئے نیلے رنگ کو ووٹ دیاجائے۔یہاں تک کہ رجعتیت کے مہان رہنما جارج بش کو بھی اس بات پر مجبورہونا پڑگیا تھاکہ وہ ماحولیات کو ایک قابل ترجیح مسئلہ تسلیم کرے۔
آج وقت بدل گیاہے۔2008ء کے مالیاتی بحران کی آمد کے ساتھ ہی سارامنظر نامہ بدل کے رہ گیاہے۔مایوس کن معاشی پیشین گوئیاں،اقتدارکے ایوانوں کے سکینڈلزاور مشرق وسطیٰ کے انقلابات ہی اخبارات وجرائد اور ذرائع ابلاغ کا موضوع بنے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ شاذونادر ہی کوئی اور بات زیر بحث ہو۔یہاں تک کہ لبرل جرائد’’گارڈین‘‘ اور’’دی انڈیپنڈنٹ‘‘میں بھی ماحولیاتی تبدیلیوں جیسے مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔اب اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ ہمارے ماحولیاتی مسائل اب معجزاتی طور پر اچانک ختم ہو گئے ہیں تو ہمیں ایسے ہر فرد کو معاف کردینا چاہئے۔سال میں ایک یادوبار جب کبھی کہیں کوئی ماحولیات بارے کانفرنس ہو یا اگر کہیں کوئی ماحولیاتی مسئلہ سراٹھاتا ہے تو صرف اس وقت ہی یہ مسئلہ ذرائع ابلاغ میں آتاہے۔یہ سارا ذکر ماحولیات بارے شکوک وشبہات کے ابھارپر مبنی ہوتا ہے یاتو ماحولیاتی تبدیلی کی حقیقت سے ہی یکسر انکار کردیاجاتاہے کہ یہ ایک ناقص سائنس ہے یا پھر اسے ایک سازش قراردیاجاتاہے۔
اگرچہ ماحولیاتی مسئلے سے انکاری دھڑے کا تعلق دائیں بازو کی سیاست سے رہاہے۔لیکن کچھ بائیں بازو کے لوگ بھی ماحولیات کے مسئلے سے انکار کرنے کی جراتِ رندانہ کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔ان کا موقف یہ ہے کہ یہ محض حکومتوں کو ٹیکس میں اضافہ کرنے اور معیار زندگی میں کمی کرنے کا موقع اور بہانہ فراہم کرتاہے۔ایک حوالے سے یہ موقف ’’گرین‘‘والوں کے مقابلے میں ایک صحتمند رد عمل ہے جو کہ صنعتکاری سے قبل کے سنہری عہد کی جانب صوفیانہ انداز میں واپسی کی تلقین کرتے چلے آرہے ہیں۔تاہم اس سب کے باوجود ماحولیاتی انتباہ بارے سائنسی دلائل اپنی جگہ مکتفی ثبوت ہیں اور اس کے اثرات سارے کرہ ارض پر پہلے سے ہی محسوس کئے جانے شروع ہوچکے ہیں ماحولیاتی مسئلے سے فرار والے ماہرین وہ پروپیگنڈہ کرنے والے ہوتے ہیں جنہیں تیل کی بڑی کمپنیوں کی پشت پناہی میسر ہوتی ہے۔ اور یہ پشت پناہی بھی بغیر کسی سائنسی شہادت اور صداقت کے ہوتی ہے۔سائنس اپنی شہادت وصداقت خود ہی ہواکرتی ہے۔ یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ اکیسویں صدی کے پہلے چھ سال گرم ترین سال تھے۔ غالباًپچھلے ہزاریے سے زیادہ گرم تھے۔پچھلے عشرے کے دوران درجہ حرارت میں جو اوسطاًاضافہ ہواہے وہ 0.7سنٹی گریڈ ہے۔ اگرچہ امکان یہ بھی ہے کہ اس سے بھی زیادہ ہے۔بظاہر یہ بات بہت ہی غیر اہم محسوس ہوتی ہے لیکن درجہ حرارت میں یہ بڑھوتری بہت زیادہ پیچیدگیاں پیداکرسکتی ہے۔اس کی وجہ سے کچھ علاقے دوسرے علاقوں کی نسبت زیادہ گرم ہورہے ہیں۔ مثال کے طورپر آرکٹک(Arctic)میں گرمائی سمندری برف کی تہیں،1950ئکے بعد سے اب تک نصف تک پگھل چکی ہیں۔اور یہ اس صدی کے درمیان تک ختم ہوجائیں گی اور ایسا پچھلے دس لاکھ سالوں میں پہلی بارہوگا۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ باقی جو صدی بچی ہوئی ہے،اس میں گرمی ہی رہے گی اور درجہ حرارت 1.1اور6.4سنٹی گریڈ کے درمیان رہے گا۔یہ خاصی خطرناک صورتحال ہے۔
گلوبل وارمنگ کے اثرات غریب طبقے پر غیر متناسب انداز میں مرتب ہوتے ہیں۔یہ اثرات کئی طریقوں سے اپنا اظہار کرتے ہیں جیسا کہ خوراک کا مہنگا ہوجانا،پانی کی قلت، زمین کی زرخیزی میں کمی واقع ہونا حتیٰ کہ موسم کا شدیدترین ہوجانا۔عام طور پر ان سے جو متاثر ہوتے ہیں وہ عام محنت کش اور درمیانے طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ان میں کسان بھی شامل ہیں۔مختصر یہ کہ سوائے ان سب سے امیرترین لوگوں کے کہ جن کے پاس وہ وسائل ہوتے ہیں کہ جن کی بدولت وہ خوشگوار ماحول والے علاقوں میں منتقل ہوسکتے ہوتے ہیں،باقی سب لوگ اس سے شدید متاثر ہوتے ہیں۔اگرچہ اس وقت تک اس کے اثرات نام نہاد تیسری دنیا کے ملکوں کو ہی اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہیں لیکن اب یہ امیرترین ملکوں کو بھی اپنی گرفت میں لینا شروع ہو چکے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ گلوبل وارمنگ صرف ایک سائنسی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک طبقاتی مسئلہ بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے قحط اور خشک سالی جو کہ افریقہ اور ایشیا میں بربادیوں کا باعث بنتے رہے ہیں،ان کا سبب بھی یہی ماحولیاتی تبدیلی ہی تھی اور اندیشہ ہے کہ مستقبل میں یہ تباہکاریاں دوبارہ سراٹھائیں گی۔موسموں کی شدت میں بھی اضافہ ہوگا اور طوفانوں کے امکانات بھی ہیں۔
ہر دوسرے فطری مظہر کی طرح سے ماحولیاتی تبدیلی کا مظہر بھی کسی طور تن تنہا سامنے نہیںآتاہوتا۔یہ بھی دنیا کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہوتاہے۔ ماحولیاتی مسئلے کے منکرین کے بیان کردہ خودساختہ تاثرات کے برعکس گلوبل وارمنگ کسی طور بھی ایک سادہ عمل ہے نہ ہی یہ ایک سیدھی لکیر پر چلتا ہے بلکہ یہ مرحلہ وار وقوع پذیر ہوتی ہے۔صورتحال بنتی اور بدلتی رہتی ہے تاوقتیکہ ایک ایسا حتمی مرحلہ آجاتاہے کہ جب کرہ ارض کا موسم اور مزاج بدل جاتاہے۔دوسرے الفاظ میں مقدار معیار میں بدل جاتی ہے۔ماحولیاتی سائنسدان ان تبدیلیوں کو tipping points قرار دیتے ہیں۔ایک خاصے طویل وقت کے بعد آلودگی اور گرین ہاؤس گیسیں ماحول میں اس نکتے پر پہنچ جاتی ہیں جہاں سے ماحولیاتی تبدیلی بہت ہی تیز ہوجاتی ہے۔ایک مقام ایسا بھی آتا ہے کہ جب ٹمپریچر میں اضافہ قابو سے بھی باہر ہوجاتاہے۔ معیار کی مقدار میں تبدیلی کا عمل کا مظہر سائنس اور سماج میں ہر جگہ موجود اور کارفرما چلا آرہاہے۔اور اس کا عمومی اظہار’’ اونٹ کی کمر پر آخری تنکے‘‘ سے بھی کیا جاتاہے۔ایلن وڈز کی کتاب ’’مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس‘‘ میں مارکسی فلسفے کے جدید سائنس میں اظہار اور اطلاق کیلئے بہترین رہنمائی کرتی ہے۔
سائننسی سوشلزم کے بانیوں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی جدلیاتی مادیت کا فلسفہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے اس جدلیاتی عمل کی واضح تصدیق اور وضاحت کرتاہے۔اینگلز اپنی نامکمل کتاب ’’فطرت کی جدلیات‘‘میں جدلیاتی مادیت کی وضاحت کچھ یوں کرتا ہے ’’مقدار اور معیار کی منتقلی دو متضاد قطبین کا باہم ایک دوسرے میں ضم ہونا ہے ایک دوسرے میں منتقلی انتہاؤں تک لے جاتی ہے۔جو نفی کی نفی کرکے مسلسل ترقی اور تسلسل کے عمل میں رہتی ہے ‘‘۔گلوبل وارمنگ بارے بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ tipping points جیسے مراحل کی دریافت کے بعد تو اس کی تصدیق ہوجاتی ہے۔سائنس اور فطرت کے دیگر شعبوں میں بھی عمل کارفرما ہوتا ہے۔مثال کے طور پر کمپیوٹر ماڈل یہ پیشین گوئی کرتے ہیں کہ دنیا کے درجہ حرارت میں مجموعی تبدیلی کے سبب برطانیہ میں ڈرامائی طورپر درجہ حرارت میں کمی واقع ہو گی۔جو کہ موجودہ ٹھنڈک سے کہیں زیادہ ٹھنڈک کا باعث بنے گی۔اس کی وجہ بہت ہی سادہ ہے۔آبنائے خلیج،کیریبین کے گرم پانیوں کی لہریں جو برطانوی جزائر کو گرم رکھتی ہیں کا رخ موڑ دے گا۔ایساآرکٹک پگھلنے سے آنے والے پانی کی وجہ سے ہوگا۔قطبین کے تضاد کے باہم ضم ہونے والی جدلیات کی اس سے زیادہ تصدیق اور کس طریقے سے ہو سکتی ہے ؟
یہ بیان بازیاں کہ گلوبل وارمنگ ختم ہو چکی ہے،مارکس وادیوں کیلئے کسی طور بھی حیران کن نہیں ہیں۔اس کی بھی ایک قابل فہم وجہ ہے۔گلوبل وارمنگ کا حل کرنا کسی طور بھی کوئی منافع بخش کام نہیں ہے۔ایک صدی پہلے کہ جب سرمایہ دارانہ نظام اپنے اندر کئی ترقی پسندانہ پہلو رکھتا ہوتاتھا،اس وقت اس نے مفید صنعتوں اور پیداوارمیں سرمایہ کاری کی تھی لیکن اب اس صدی میں جبکہ یہ نظام بوسیدہ اور بانجھ ہو چکا ہے،زیادہ تر سرمایہ کاری ایسے شعبوں میں کی جارہی ہے جو کہ طفیلی ہیں۔ماحولیاتی مسائل کے حل کیلئے کئی نئے شعبوں پر خرچ کرنا ہوگا۔نئی صنعتوں اور ٹیکنالوجی پر بھی سرمایہ لگاناہوگا۔سرمایہ دار طبقہ اس کی نہ نیت رکھتا ہے نہ ہی صلاحیت۔حتی ٰ کہ موجودہ معاشی بحران سے قبل کے معاشی عروج کے دنوں میں بھی نجی شعبے کی سولر پینل اور ونڈ ٹربائنوں جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری انتہائی کم تھی۔’’گرین‘‘ میں سرمایہ کاری بھی بہت کم ہوئی اور جو ہوئی وہ زیادہ تر ریاست کی سب سڈی پر ہی چلتی رہی۔مطلب یہ کہ عوام کی جیبوں سے پیسے نکال کر نجی منافعوں کو منتقل کیا جاتا رہااور یہ سلسلہ جاری رہا،معاشی بحران کے وقت سب کچھ ختم ہوکے رہ گیا۔
بورژواسیاستدان اس کا جو حل تجویز کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ماحول کی تقدیر کو آزاد منڈی کے رحم وکرم پر چھوڑ دیاجائے۔ایسا کرنے کا ایک طریقہ’’ کاربن تجارتی سکیم ‘‘کا متعارف کرایا جاناتھا۔اس سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسی مصنوعی منڈی پیدا کی جائے جس میں ممالک اورکاروباری ادارے کورضاکارانہ طور پر فضائی آلودگی کا کوٹہ دے دیاجائے اور پھر وہ ایک دوسرے کے ’’کاربن کریڈٹس‘‘کو بیچ سکیں۔آزاد منڈی کے معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس طرح سے کاروباروں کو اپنی اپنی آلودگی کم کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔اس طرح وہ اپنا کوٹہ دوسرے کاروباروں کو فروخت کر سکیں گی۔دراصل سادہ انداز میں اس کے معنی یہ ہوئے کہ کمپنیز کو اس بات کی اجازت دی جائے کہ وہ گرین ہاؤسز گیسوں کو برباد کر دیں۔جبکہ ماحول کو آلودہ کرنے کے باعث اس خریدو فروخت میں منافع بھی حاصل کرتے رہیں۔ایک اور مشہور حل بھی پیش کیا جاتا رہاہے، وہ حل یہ ہے کہ ’’فوسل فیولز‘‘(کوئیلہ،تیل اور گیس)کو حیاتیاتی فیولز جو کہ نباتات سے حاصل ہوتے ہیں،میں بدل دیاجائے۔ اس سے فضلوں کی رسد میں کمی کے سائیڈ افیکٹ ہوں گے۔ خوراک کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور ہمیشہ کی طرح اس کا بوجھ دنیا بھر کے غریبوں کی طرف منتقل کردیا جائے گا۔
کئی دوسرے لوگ یہ دلائل بھی دیتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال ماحولیاتی گرمی اور ماحولیاتی مسئلے کا مداوا کر سکتا ہے۔ بالخصوص نیوکلیئر اور جینیاتی طور پرتبدیل شدہ تکنیک (Genetically Modified)جیسی متنازعہ ٹیکنالوجی کے استعمال سے اس مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ایسی فصلوں کو حل کے طور پر سامنے لایا جاتا ہے۔نیوکلیئر فیوژن اور دوسری کسی ٹیکنالوجی پر کوئی خط یا لکیر کھینچنا مارکسی رحجان کا شیوہ نہیں ہے۔مستقبل کی ایک سوشلسٹ سماج کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس قسم کے سائنسی حل پر اپنی متفقہ رائے قائم کرے کہ ایسی ٹیکنالوجی انسانوں کی زندگیوں میں کیا کردار ادا کرے گی۔ تاہم یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس امر کی نشاندہی کریں کہ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے ٹیکنالوجی کا استعمال صرف منافعوں کی لالچ پر ہی مبنی ہوتاہے۔جس سے بہت ہی سنجیدہ پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔اول تو لاگت میں کمی کے بے پناہ رحجان سے بنیادی حفاظتی انتظاماتی طریقوں کو ہی نظر انداز کر دیاجاتا ہے۔ جزیرہ میکسیکو میں2010ء میںBP کمپنی کے تیل کے کنوؤں سے جو تباہی مچی،وہ اسی کمزوری ہی کا شاخسانہ تھی۔ انجینئرز اور مزدوروں کی تمام تر تنبیہ کے باوجود کمپنی کی انتظامیہ نے صحت ا ور حفاظت کے سبھی اصولوں ا ور طریقوں کونظر انداز کیا۔ جس کا نتیجہ ماحول کی تباہی کی صورت میں سامنے آگیا۔ اگر یہ صنعت مزدوروں کے جمہوری انتظام وانصرام میں ہوتی،صحت اور حفاظت کی تدابیر ملازمین اور ماہرین کے ہاتھ ہوتیں،اور اس کی نگرانی ٹریڈ یونین کے پاس ہوتی تو ایسی صورتحال پیش ہی نہ آتی۔
دوسری بات یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ کاری ایسی نئی صنعتوں کی ترقی وترویج پر کی ہی نہیں جائے گی۔اگر ان سے مطلوبہ منافع حاصل نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ نیوکلیر فیوژن میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری انتہائی کم ہے۔اگر نیو کلیرفیوژن کو ٹھیک طور پر ترقی دی جائے تو اس سے لامحدودبجلی بھی پیدا کی جا سکتی ہے اور اس کے ماحولیاتی اثرات بھی مرتب نہیں ہوں گے۔لیکن اس قسم کی بجلی کی پیداوار بجلی کی قیمتوں میں کمی کا باعث بنے گی،اس کے نتیجے میں بجلی کی کمپنیوں کا منافع گرتا چلا جائے گا۔اس لئے آزاد منڈی اس مسئلے کا حل کر ہی نہیں سکتی۔
tipping pointsکی دریافت سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کے عمل کے سفر میں وقت کی پابندی لگارہی ہے۔کیونکہ گلوبل وارمنگ کے انتہائی تیز رفتار عمل کے شروع ہونے سے قبل ہی ہمیں اس سوشلسٹ تبدیلی کو ممکن بنانا ہوگا۔ماضی میں مارکس وادی اکثر یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ سماج اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے ایک راستہ بربریت کی جانب جارہاہے اور دوسرا سوشلزم کی طرف۔ہمیں ان میں سے ایک راستے کا انتخاب کرناہے۔ کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی بحران جیسے حقیقی خطروں سے خبردار نہ کرنے کے خوف میں مبتلا ہوئے بغیر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے لئے راستے کا انتخاب انتہائی ناگزیراور واضح ہے۔یا ہم سوشلزم کی طرف سفر کریں یا پھر صفحہ ہستی سے ہی مٹنے کیلئے تیار ہوجائیں۔
یہ بات طے شدہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اور اس کے مفادات ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف سنجیدہ اقدام کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں۔ماحولیاتی مسائل کو حل کرنے کیلئے لازمی ہے کہ سماج کی ترقی کو منصوبہ بندکیا جائے۔جس پر ہمارا کنٹرول اور اختیار نہ ہو،اس پر منصوبہ بندی کی ہی نہیں جاسکتی۔ اور جس پر کنٹرول نہیں ہوتا اس پر کوئی بھی اپنی ذمہ داری نہیں مانتا ہوتا۔مثال کے طور پر ہم توانائی کی پائیدار پیداوارکس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟اگر توانائی کی صنعت،کان کنی اور پانی کی کمپنیاں خالصتاً نجی ملکیت میں ہوں اور ان کا واحد مقصد بھی منافع کمانا ہو،ایسے میں اگر ان کاروباروں کو پبلک سیکٹر کی ملکیت میں لے لیا جائے اور اگر اس پر جمہوری طریقے سے کنٹرول قائم کیا اور رکھا جائے تو ہم یہ ہدف حاصل کرسکتے ہیں اور اس سے استفادہ کر سکتے ہیں۔اس موجودہ نظام کے ہوتے ہوئے عام انسانوں کی روزمرہ استعمال کی اشیاء کی پیداوار کرنے والی کمپنیاں کبھی ان مسائل کو حل نہیں کر سکتیں اور نہ یہ کریں گی۔ بہرحال عالمی جنگ کے بعد کے ادوار میں بھی تویوٹیلٹی کی یہ صنعتیں قومیائی گئی تھیں۔بینکوں،انشورنش کمپنیوں اور مالیاتی سیکٹر میں نجی ملکیت کو ختم کیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کی درست سمت متعین کی جاسکے،جس سے نئی ٹیکنالوجی اور زراعت جیسے شعبوں میں حقیقی سطح کی سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی اور اسی سے ہی طویل المدتی منصوبہ بندی ممکن ہو سکے گی۔اسی صورت ہی سماج کے وسائل کی باشعور طریقے سے منصوبہ بندی ہو سکے گی۔ ایک ایسی منصوبہ بندی جو ہر ایک انسان کیلئے فائدہ مند اور اطمینان بخش ہوگی۔
متعلقہ: