کشمیر: عوام کے مسائل اور الیکشن 2016ء

| تحریر: التمش تصدق |

انسانی تاریخ میں ہمیں مختلف سماجوں کا عروج و زوال نظر آتا ہے۔ کسی بھی سماج کے عروج کے عہد میں انسانوں کی زندگی میں خوشحالی اور معیار زندگی بلند ہوتا ہے وہیں زوال کے عہد میں وحشت، بربادی، معاشی تباہی اور قتل و غارت کا عمل ایک معمول بن جاتا ہے۔ آج ہم بھی ایک ایسے ہی عہد میں زندہ رہ رہے ہیں جب عالمی سرمایہ دارانہ نظام مکمل طورپر زوال پذیر ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کو غربت، محروم، بے روزگاری اور دہشت گردی جیسے اذیت ناک مصائب کا سامنا کرناپڑ رہا ہے۔ جدید صنعتی ممالک جہاں سرمایہ داری کے عروج کے عہد میں عام انسانوں کا معیار زندگی خاصا بلند تھا۔ تقریباً سو فیصد تک روزگار موجود تھا لیکن زوال کے عہد میں آج سب کچھ اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکا ہے۔ معیار زندگی مسلسل گر رہا ہے، بے روزگاری اک وبا کی طرح پھیل رہی ہے، جو حاصلات محنت کش طبقے نے لڑ کر حاصل کی تھیں، حکمران طبقہ انہیں چھیننے کی کوشش کر رہا ہے جس کے دفاع کے لئے محنت کش اور نوجوان دنیا کے مختلف خطوں میں لڑائی لڑ رہے ہیں۔ اسی طرح دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ سمیت دنیا کا کوئی خطہ اس سے محفوظ نہیں ہے۔
یہ سب بربادیاں سرمایہ داری کی انتہائی زوال پذیری کی نشانیاں ہیں جو سلطنت روم کے زوال سے مماثلت رکھتی ہیں، جب غلام دارانہ نظام کا زوال تھا اس وقت کے حکمران غلاموں کو شیروں کے آگے پھینک کر تماشا دیکھتے تھے۔ موجودہ حکمران طبقے کا کردار بھی ان سے زیادہ مختلف نہیں ہے، منافعوں کی ہوس کی خاطر انسانی سماج کو آگ میں دھکیل دیا گیا ہے۔ حکمران کروڑوں محنت کشوں اور نوجوانوں کی بربادی کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام کا زوال، خاص طور پر 2008ء کا بحران کشمیر جیسے پسماندہ خطے کے اندر بہت بھیانک اثرات مرتب کر رہا ہے۔ یہاں خوشحالی اور آسودگی کبھی بھی نہیں تھی لیکن سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے نوجوانوں اور محنت کشوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ زندگی کی بقا کی جدوجہد بہت تیز ہو چکی ہے۔ کوئی بھی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اس میں کامیاب ہو گا، بے یقینی کی کیفیت ہے، ہر شخص کو مستقبل کے بارے میں خوف لاحق ہے، روزگار کے لئے نوجوان پاکستان کے مختلف شہروں سے لے کر دنیا کے مختلف ممالک میں بھٹک رہے ہیں۔ کشمیر کا نا اہل اور خصی حکمران طبقہ یہاں کے نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کر نے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے جو سیاحت سمیت بہت سے شعبوں میں کیا جا سکتا تھا۔ نیا روزگار پیدا کرنا تو دور کی بات ہے، پہلے سے جو تھوڑا بہت روزگار تھا، تعلیمی اداروں کی نجکاری کے ذریعے ختم کیا جا رہا ہے۔ کشمیر کی معیشت کا سارا انحصار بیرون ملک سے محنت کش طبقے کے بھیجے ہوئے زر مبادلہ پر ہے او ر جن ممالک میں محنت کشوں کی اکثریت قوت محنت بیچ رہی ہے وہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ہیں۔ تیل کے بحران کی وجہ سے یہ ریاستیں شدید بحران کا شکار ہیں، جو تعمیراتی منصوبے شروع کئے گئے تھے، بند کئے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر محنت کشوں کو ملازمتوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے اور کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں دی جارہی۔ ایسے میں کشمیر کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے پاس زندہ رہنے کا جو واحد ذریعہ تھا وہ بھی چھن جانے کا خطرہ ہے۔
ایسے وقت میں جب ہر طرف مایوسی اور نا امیدی ہے، نام نہاد آزاد کشمیر میں الیکشن ہونے جا رہے ہیں۔ بڑی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹوں کی خرید و فرخت عروج پر ہے، تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے ٹکٹ دیتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ امیدوار کے بینک اکاؤنٹ میں کتنے پیسے ہیں؟ یوں امیدوار بننے کے لئے واحد جو اہلیت درکار ہے وہ پیسہ ہے۔ جو شخص سب سے بڑی بولی لگاتا ہے وہ اہل قرار پاتا ہے۔ گزشتہ پانچ سال اقتدار پر براجمان رہنے والی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی عوام کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں کر سکی، یہی نہیں کہ عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا نہیں کیا گیا بلکہ سوشلسٹ منشور پر بننے والی جماعت نے کشمیر میں محنت کشوں کی یونینز او ر ایسوسی ایشنز پر پابندی کے لئے اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے خلاف محنت کشوں کا شدید رد عمل موجود ہے۔ بڑھتے ہوئے مسائل اور مشکلات سے تنگ محنت کش طبقہ اور نوجوان الیکشن کے اس تماشے کو حقارت کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ عوام کی اکثریت الیکشن سے عدم دلچسپی کا اظہار کر رہی ہے۔ ماضی میں عوام کی بڑی تعداد اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے حل کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں کا رخ کرتی تھی لیکن اب کی بار یہ رجحان بھی بہت کم ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ کسی کو بھی کٹھ پتلی حکمرانوں سے کسی قسم کی بہتری کی امید نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام کے سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں۔ الیکشن میں چند مہینے رہ گئے ہیں۔ ابھی تک کسی بھی جماعت نے اپنا منشور پیش نہیں کیا، کیونکہ ان کے پاس عوام کے کسی ایک بھی بنیادی مسئلے کا حل موجود نہیں ہے۔ نام نہاد انتخابات اور اس کے ذریعے آزاد کشمیر میں بننے والی حکومت کی حقیقت بھی سب کے سامنے عیاں ہے، کشمیر میں بننے والی حکومت کشمیر کے عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی منشا سے بنتی ہے۔ وفاق میں جس کی حکومت ہوگی، آزاد کشمیر میں بھی اسی کی حکومت ہوگی۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وفاق میں حکمران جماعت کشمیر میں بھی بہت مقبول ہوتی ہے بلکہ کشمیر کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل اس طرح کی گئی ہے کہ پاکستانی ریاست کی مرضی کے بغیر کوئی حکومت نہیں بن سکتی۔
ایکٹ 74ء کے تحت قائم ہونے والی پارلیمنٹ میں کل نشستوں کی تعداد 49 ہے جن میں سے 41 پر براہ راست ووٹنگ ہوتی ہے، جن میں سے 12حلقے پاکستان میں مقیم مہاجرین کے لئے مختص ہیں۔ ان حلقوں میں ہمیشہ وہی امیدوار کامیاب قرار پاتے ہیں جنہیں پاکستان کی وفاقی حکومت کی حمایت حاصل ہو۔ جب بھی پاکستان میں مسلم لیگ کی حکومت یا فوجی آمریت قائم ہوتی رہی ہے تو ان 12 نشستوں پر مسلم کانفرنس کے امیدوار کامیاب قرار پائے ہیں۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کی حکومت ہوتی ہے تو پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوتے ہیں اور آج کل وفاقی حکومت مسلم لیگ ن کی ہے اور ان نشستوں میں نتیجہ پھر وہی ہوگا۔ آزاد کشمیر میں من پسند حکومت قائم کرنے کا یہی مستقل طریقہ کار ہے۔ آزاد کشمیر میں اقتدار کی چابی پاکستانی ریاست کے پاس ہے، پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں یوں تو وزیر اعظم، صدر، قانون ساز اسمبلی، سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور دیگر ادارے موجود ہیں لیکن عملاً اختیارات کا منبع وزارت امور کشمیر ہے جس کا جوائنٹ سیکرٹری آزاد کشمیر حکومت کو ہدایات جاری کرتا ہے۔ اسی طرح آزاد کشمیر میں بیوروکریسی کے اعلیٰ عہدیداران سیکرٹری مالیات، چیف سیکرٹری، آئی جی اور اکاؤنٹینٹ جنرل حکومت پاکستان تعینات کرتی ہے، ان عہدوں پر کشمیر کے مقامی افراد کی بھرتی پر پابندی ہے۔
کشمیر میں ہونے والے انتخابات اور بننے والی حکومتیں ایک ڈھونگ ہیں۔ ابراہم لنکن نے کہا تھا آپ سب لوگوں کو کچھ وقت کے لئے دھوکہ دے سکتے ہیں، شاید کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لئے بھی، لیکن سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دھوکے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ سرمایہ دارانہ نظام میں پارلیمانی جمہوریت حسین دھوکہ ہے جس کے ذریعے عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے۔ یہاں ایک فیصد پیسے والے لوگوں کے پاس ووٹ لینے کا حق ہوتا ہے، باقی 99 فیصد لوگوں کے پاس صرف ووٹ دینے کا۔ عوام کے بڑھتے ہوئے شعور کی وجہ سے اب انہیں مزید دھوکے میں رکھنا ممکن نہیں رہا، عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کسی بھی وقت اپنا اظہار ایک تحریک کی صورت میں کرے گی۔ ایسی ہی کیفیت کے لئے شاید لینن نے کہا تھا کہ ایک وقت تک لوگ ہاتھوں سے ووٹ ڈالتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب عوام لاتوں سے ووٹ دیتے ہیں۔
ان نام نہاد انتخابات کے بے نقاب ہو جانے سے لگتا ہے کہ وہ وقت کافی قریب آچکا ہے جب عوام اپنے غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے سیاست کے میدان میں براہ راست شمولیت کے لئے اتریں گے۔ ایک انقلابی قیادت اگر موجود ہو تو اس تحریک کو ایک سوشلسٹ انقلاب میں ڈھالتے ہوئے سماج کو مکمل طور پر بدل کر ترقی اور آزادی کی نئی منازل کی طرف بڑھا جا سکتا ہے۔