میکسیکو کے انتخابات میں انقلابی ابھار

تحریر: راشد خالد:-

میکسیکو میں اس مرتبہ ہونے والے صدارتی انتخابات ایک مرتبہ پھر ایک عوامی ابھار کا باعث بن چکے ہیں۔ عوام انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف اس دفعہ بھی سڑکوں پر امڈ آئے۔ سرکاری طور پر انتخابات کے نتائج کے مطابقPRI کے صدارتی امیدوار پینا نائیٹو نے38.20 فیصد، بائیں بازو کی PRD کے امیدوار لوپیز اوبراڈور نے31.59 فیصد،رجعتی PAN پارٹی کے جوزفینا موٹا نے25.41 فیصد اور New Alliance پارٹی نے2.29 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔
لیکن کوئی بھی ان نتائج کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہے۔کیونکہ PRI نے انتخابی کیمپیئن کے دوران بڑے پیمانے پر ووٹرز کو پیسوں، گھریلو سامان، تحائف اور اسی طرح کی دیگر چیزوں سے نوازا۔ اور ووٹ خریدنے کی بھرپور کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا نے لوپیز اوبراڈور کے خلاف اور پینا نائیٹو کے حق میں ایک شدید پروپیگنڈا جاری کر رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ انتخابات کے نتائج آنے سے قبل ہی ایک اخبار ’’الیونیورسل‘‘ نے PRI کے امیدوار پینا نائیٹو کو ’’فاتح‘‘ قرار دے دیا۔اور نہ صرف پیسوں کے ذریعے ووٹ خریدنے کی کوشش کی گئی بلکہ انتخابی عمل کے دوران بہت سی جگہوں پر PRI کیغنڈوں نے اوبراڈور کے نمائندوں پر تشدد بھی کیا اور کئی جگہ پر یہ نوبت قتل تک پہنچ گئی۔ یہ بالکل PRI کے اقتدار میں ہونے والے عہد کے جیسی کیفیت تھی۔ اپنے اقتدار کے عہد میں PRI نے میکسیکو میں کرپشن، جبر، انتخابی دھاندلیوں اور استحصال کا بازار گرم کئے رکھا رہا۔
میکسیکو میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ ا تواریکم جولائی کو شروع ہوئی۔ چھ سال قبل ہونے والے صدارتی انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی انتخابات انقلابی عمل کو ابھارنے کا باعث بنے ہیں۔اور ایک دفعہ پھر عوام کے دلعزیز راہنما لوپیز آبراڈور کو انتخابی فراڈ کے ذریعے ہروانے کی منصوبی بندی کی گئی۔پی آر آئی 71سال تک میکسیکو پر حکمرانی کرتی رہی جب 2000ء میں ا نتخابات میں شکست کے بعد اسے اقتدار سے علیحدہ ہونا پڑا اور اقتدار پی اے این پارٹی کے پاس آیا۔ دائیں بازو کی پی اے این پارٹی کی ناکامی کے بعداب دوبارہ سامراجی طاقتوں کے ایما اور میکسیکو کے بد نام زمانہ منشیات کے تاجروں کی حمایت پر اسے اقتدار میں واپس لایا جا رہا ہے۔
پی آر ڈی کے امیدوار آندریز مینوئل لوپیز آبراڈور(آملو) نے نائٹو کے اس اعلان کے بعد بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہم حتمی نتائج کے آنے تک انتظار کریں گے‘‘۔2006ء میں بھی آملو کو بہت بڑے انتخابی فراڈ کے ذریعے صرف0.56 فیصد ووٹوں سے ہرایا گیا تھا۔اس فراڈ کے نتیجے میں لاکھوں لوگ میکسیکوسٹی کے میں چوراہے پر ایک ماہ تک اکھٹے رہے اور اس فراڈ کے خلاف احتجاج کرتے رہے۔ اس دوران آملو نے عوامی اجتماع میں صدارتی حلف بھی اٹھایا تھا اور اپنی کابینہ کا بھی اعلان کیا تھا۔لیکن ایک انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی کے باعث اتنی شاندار عوامی تحریک منزل مقصود تک نہ پہنچ سکی۔
اس مرتبہ پھر انتخابات سے قبل آملو کی انتخابی مہم میں لاکھوں لوگوں نے شرکت کی۔ انتخابی کمپئین کے آخری روز میکسیکو سٹی میں ہونے والی ریلی میں 14لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔لاکھوں لوگوں کی اس ریلی میں بچے، بوڑھے، جوان ، خواتین سب شریک تھے۔ ہر شخص کے دل میں بہتر مستقبل کی جستجو تھی۔ اس ریلی کا مرکز زکالو اسکوائر تھا جو دنیا کے چند بڑے اسکوائرز میں شمار ہوتا ہے لیکن لاکھوں لوگوں کے ہجوم میں یہ چھوٹا لگ رہا تھا جبکہ تمام قریبی سڑکیں بھی ہجوم سے اٹی پڑی تھیں۔آملو میٹرو میں بیٹھ کر جلوس میں آیا۔ جلوس کا آغاز صبح سویرے ہی ہو گیا تھالیکن آملو کو شام پانچ بجے تقریر کا موقع ملا۔اس نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’عوام ہی حقیقی تبدیلی کا انجن ہیں‘‘۔ دراصل اس دفعہ اس کی انتخابی کمپئین کا نعرہ بھی یہی ہے’’حقیقی تبدیلی‘‘۔پھر اس نے اپنی تقریر میں 19ویں صدی کے صدر بینیٹویواریز کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ’’عوام کے بغیر کچھ نہیں،عوام کے ساتھ سب کچھ ہے‘‘۔
اس کے بعد اس نے نوجوانو ں کی تحریک ’’ ہم 132ہیں‘‘ (#Yo Soy 132)کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے تا کہ سرمایہ داروں کے امیدواروں کو شکست دی جا سکے۔اس کے علاوہ اس نے نوجوانوں کی ایک دوسری تنظیم مارینا کا بھی شکریہ ادا کیا۔ یہ تنظیم درحقیقت ایک عوامی تحریک ہے جس کے تقریباًتیس لاکھ ممبر ہیں اور ان کی اکثریتنوجوانوں پر مشتمل ہے۔ان انتخابات میں 18سے 29سال کی عمر کے 2کروڑ40لاکھ ووٹرز نے حصہ لیا جبکہ کل ووٹروں کی تعداد 8کروڑ کے قریب ہے۔ نوجوان ووٹرز نے اس دفعہ انتخابی سرگرمی میں بھرپور حصہلیا ہی۔ انتخابات سے قبل ایک سروے کے مطابق چالیس فیصد ووٹر انتخابات میں حصہ نہیں لیں گے۔ جس کے باعث نوجوان ووٹروں کی شرکت فیصلہ کن ہو سکتی ہے۔
اس ریلی کے بعد ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں آنے والے تمام سروے کی قلعی کھلی گئی جس میں وہ صدارتی انتخابات کی دوڑ میں پینا نائٹو کو آملو سے دس پوائنٹ آگے قرار دے رہے تھے۔اس ریلی کے بعد سے سرمایہ دار اور سامراجی آملو کی متوقع جیت سے مزیدخوفزدہ ہو گئے اور انہوں نے ایک دفعہ پھر انتخابات میں دھاندلی کی منصوبہ بندی تیار کر لی۔ دوسری طرف آملو نے بھی انقلابی لفاظی کو کم کیا تا کہ حکمران طبقے کو یقین دلایا جا سکے کہ وہ ایک ’’ذمہ دار‘‘ سیاست دان ہے۔
درحقیقت آملو نے میکسیکوکے عوام کی حالت زار بدلنے کے لیے ضروری پروگرام کا دسواں حصہ بھی سامنے نہیں رکھا۔اس ریلی میں اس نے ایک دفعہ پھر اعلان کیا کہ وہ ’’امیروں اور غریبوں ، دونوں کا صدر ہو گا‘‘۔اس کے علاوہ اس نے یہ حیران کن اعلان بھی کیا کہ وہ ٹیلی ویزا کو نیشنلائز نہیں کرے گا۔ ٹیلی ویزا اور آزٹیکا ایسے نشریاتی ادارے ہیں جن کی میکسیکو میں اجارہ داری ہے۔90فیصدذرائع ابلاغ پر قابض یہ ادارے سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے ترجمان ہیں اور عوامی تحریکوں کو دبانے اور ان کو غلط انداز میں پیش کرنے جیسے جرائم مرتکب کرتے رہتے ہیں۔ آملو نے کہا کہ میں عوام کو ’’انفارمیشن کے حصول‘‘ کا حق دلاؤں گا۔ یہ حق کیسے مل سکتا ہے جب ذرائع ابلاغ پر سرمایہ دار قابض ہوں۔
انہی بیانات میں ہمیں آملو کے پروگرام کے تضادات دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے پروگرام میں جہاں بہت سے ترقی پسند وعدے نظر آتے ہیں لیکن اس میں حکمران طبقے کی معاشی طاقت کو کم کرنے کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی۔اسی جلسے میں آملو کے مجوزہ وزیر محنت آرٹیز پنچنٹی نے بھی تقریر کی۔اس نے آملو کی طرح نئی نوکریاں پیدا کرنے کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ مزدوروں اور انتظامیہ میں ایک غیر جانبدارفیصلہ کروانے والے کا کردار ادا کرے گا۔اس تمام کے باوجود حکمران طبقہ اور سامراجی آملو کو صدارتی انتخابات میں ہر ممکن طریقے سے شکست دینے کی کوشش کر رہے تھے۔کیونکہ وہ اس بات سے بھی خوفزدہ تھے کہ انتخابی فراڈ کے نتیجے میں اگر عوامی رد عمل بھڑک اٹھا تو وہ 2006ء کی نسبت زیادہ خوفناک اور دیر پا ہو گا۔
سرمایہ داروں اورسامراجیوں کو جس تحریک کے ابھرنے کا خوف تھا اس نے انتخابات کے فوری بعد ہی میکسیکو کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ غصے سے بھرے ہوئے تقریباََ 5 لاکھ عوام نے 7 جولائی کو میکسیکو سٹی میں ایک مارچ کیا۔ یہ احتجاج مزدوروں، ٹریڈ یونینز کے نمائندوں، بائیں بازو کے نوجوانوں اور طلبہ پر مشتمل تھا۔ جو یہ نعرے لگا رہے تھے کہ ’’پینا ! صدر بننے کے کیا بھاؤ ہیں؟؟‘‘ اور ’’میکسیکو ! تم نے اپنا مستقبل500پیسو میں گروی رکھ دیا !‘‘اس کے بعد آملو نے 143,000 انتخابی مراکز میں سے 113,855 میں ہونے والی دھاندلی کی مذمت کی ہے اور دوبارہ انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا ہے جو اس وقت ایک درست مطالبہ ہے۔ کیونکہ اس وقت میکسیکو کی32 میں سے 16 ریاستوں میں اس تحریک کا آغاز ہو چکا ہے۔ جالسکو(Jalisco) میں 20 سال بعد اتنے بڑے مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ امریکی سرحد سے ساتھ مانٹیرے (Monterrey) میں بھی ایک بہت بڑا احتجاجی مظاہرہ ہوا ہے۔ اس بات کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس تحریک میں کتنے لوگ شریک ہیں لیکن یہ تحریک 2006ء کی تحریک سے کئی گنا بڑی ہے۔
ان انتخابات کے نتائج نے میکسیکو میں طبقاتی کشمکش کو ایک بار پھر تیز کر دیا ہے۔ اور لوگ جو سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج کر رہے ہیں وہ اپنے حقوق کے لئے لڑائی لڑنے آئے ہیں۔ اور ان کا عملی پیغام یہ ہے کہ کوئی بھی صدر امیروں اور غریبوں دونوں کا صدر نہیں ہو سکتا، اسے یہ واضح کرنا ہو گا کہ وہ غریبوں کا نمائندہ ہے یا امیروں کا اور آملو شائد اپنی انتخابی کیمپیئن میں اتنی جارحانہ پوزیشن نہیں لے سکا جو اس تحریک کے ابھرنے کے بعد اس نے لی ہے۔ اس لڑائی کے اثرات ہمسایہ ملک امریکہ پر بھی مرتب ہوں گے خاص طور پر ایسے وقت میں جب ستمبر میں وہاں پر بھی صدارتی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔میکسیکو اور امریکہ سمیت پورے برا عظم امریکہ کے تمام محنت کشوں کے مسائل کا حل صرف سوشلسٹ انقلاب میں ہے۔