الیکشن 2013ء: کیا تبدیل ہوا ہے؟

[تحریر: قمرالزماں خاں]
گیارہ فروری کو الیکڑونک میڈیا سارا دن انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتا رہا۔ یہ کھلی چھوٹ میڈیا کو اس لئے بھی حاصل تھی کہ الیکشن کمیشن نے میڈیا کو اپنا حصہ قرار دیا ہوا تھا۔ گو سیاسی پارٹیوں کو 72 گھنٹے پہلے ’’انتخابی مہم‘‘ ختم کرنے کا کہا گیا تھا مگر الیکٹرونک میڈیا کے ’’بگ باس‘‘ اس قانون سے ماوراء رائے عامہ کو ’’راہ راست‘‘ پر لانے اور ’’صراط مستقیم‘‘ پر گامزن کرنے میں مصروف رہے۔ ایک درجن چینلوں پر سو سے زائد ’’اینکر پرسن اور ماہرین‘‘ جب طے ہی کردیں کہ انتخابی نتائج ممکنہ طور پر کیا ہوسکتے ہیں تو پھر عام آدمی (جو بھاری بھرکم اینکرز سے ویسے ہی مرعوب ہوتا ہے) کا فیصلہ بھی وہی ہوگا جس کی طرف ذہین و فطین ’’تجزیہ نگار‘‘ راغب کرنے کی کوشش میں مصروف ہوتے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر صاحب نے تو پولنگ کے سٹارٹ میں ہی شرح ووٹنگ 60 فی صد قرار دی تھی جس کا علم ان کو کسی’’ غیبی قوت‘‘ نے دیا تھا یا یہ ان کی ضعیف مگر ’تجربہ کار‘ حسوں کا کمال تھا، معلوم نہیں۔ ٹرن آؤٹ کو ساٹھ فی صد کرنے کا ’’ٹاسک‘‘ پورا کرنے کے لئے پورے ملک میں ایسے ایسے ’’کمالات‘‘ دکھائے گئے کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ ایسے اعداد و شمار کثرت سے آچکے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ رجسٹرڈ ووٹوں سے کئی گنا ووٹ ڈالے یا ڈلوائے گے۔ اس وقت پورے ملک میں عام انتخابات کے ’’فری اینڈفیئر‘‘ نہ ہونے پر مظاہرے ہورہے ہیں۔ جس معاشی نظام کے زیر اثر یہ الیکشن ہوئے اگر وہ سارے کا سار ا لوٹ کھسوٹ، بدیانتی اور جعل سازی کے ذریعے چل رہا ہے تو اس نظام کے انتخابات کیسے دیانت دارانہ اور منصفانہ ہوسکتے ہیں؟ کراچی اور حیدر آباد میں تو کھلے عام ’’ٹھپے‘‘ لگائے گئے مگر اندرون سندھ، جنوبی پنجاب اور تخت لاہور سمیت اپر پنجاب میں ہر قسم کے ’’فن ‘‘ کا مظاہر ہ کرکے جیت کو یقینی بنایا گیا۔ میڈیا ہیوی ویٹس نے پولنگ کے ٹائم میں ایک گھنٹہ توسیع کراکے اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا اور پھر اسکے بعد بقول عمران خان، نواز شریف کی تقریر کے بعد نتائج میں تبدیلی کا وسیع پیمانے پر بندوبست کیا گیا۔ بلوچستان میں انتخابات کو ’’قومی مفاد یا مصلحت‘‘ کے تحت جمہوری عمل قراردیا جائے تو اور بات ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پورے بلوچستان میں خوف کا عالم تھا، پشتون بیلٹ میں طالبان اور انکے قریبی حامیوں کا دباؤ تھا اور بلوچ بیلٹ میں چھاپہ ماروں نے ووٹروں اور امیدواروں کو اپنی دہشت سے یرغمال بنائے رکھا۔
پاکستان کے 2013ء کے انتخابات میں ’’تبدیلی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے نعروں کو بہت استعمال کیا گیا مگر عملی طور پر کسی قسم کی غیر متوقع تبدیلی نظر نہیں آئی۔ دعووں کے برعکس ’’سونامی‘‘ نہ آسکی، پیپلز پارٹی اور اسکے اتحادیوں کی شکست وریخت اور مایوس کن کیفیت پی ٹی آئی کے ووٹ بڑھانے اور کچھ سیٹیں حاصل کرنے کا باعث بنی۔ ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کا ہارنا نوشتہ دیوار تھا۔ پانچ سال تک عوام کا گوشت نوچا گیا، مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ بدعنوانی کے ریکارڈ بنائے گئے، لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے بے نظیر انکم پروگرام کی بھیک کا راستہ اختیار کیا گیا۔ ملازمتیں بیچ کر جیبیں بھری گئیں۔ پارٹی ڈھانچے مضبوط بنانے کی بجائے بالائی سطح پر مسلط چند افراد کی خوشامد کرنے والے مافیا کو ترجیح دی گئی اور نت نئے فیوڈل لارڈز اور ’’خاندان‘‘ ڈھونڈ کر پارٹی کے سر پر مسلط کئے گئے۔ لہذا شکست فاش ان کا مقدر تھی۔ اس میں نہ تو کوئی حیرانی والی بات ہے اور نہ ہی اس شکست کو کسی ’’انقلاب‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک تبدیلی کی بات ہے تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ مسلم لیگ( نواز) میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ ان کی سیاست کا سٹائل، افسر شاہی پر انحصار، ملک کے تمام شعبوں میں عمومی ترقی اور بہتری کی بجائے ’’شوبازی‘‘ اوردکھاوے کی سکیموں پر انحصار جیسی پالیسیاں جاری و ساری رہیں گی۔ پارٹیوں کی تخصیص سے ہٹ کرجوجیت کر آئے ان میں 80 فی صد سے زیادہ پرانے چہرے ہی ہیں۔ یہ وہی جاگیردار، سرمایہ دار، انگریز راج کے تلوے چاٹ کر اقتدار میں آنے والے حکمران طبقے کے جانے پہچانے ’’گھرانے‘‘ ہیں جو پچھلی چھ دہائیوں سے سیاست کے میدان میں حاوی چلے آرہے ہیں، ہر اسمبلی کی زینت ہوتے ہیں اور تقریباََ تمام جماعتوں کی رکنیت کا کبھی نہ کبھی مزا چکھ چکے ہیں۔
انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد، توقع کے مطابق منقسم مینڈیٹ سامنے آیا ہے۔ تمام صوبوں میں مختلف سیاسی پارٹیوں کی حکومتیں بننے کے امکانات ہیں، اس صورتحال میں ’’آزاد‘‘ اراکین کو ساتھ ملانے کے لئے ان کو ’’خوش‘‘ کیا جائے گا اور دوسری پارٹیوں کو ساتھ ملاکر ’’مفاہمت‘‘ کی رسوائے زمانہ پالیسی کو پھرسے آزمایا جائے گا۔ عمران خان اور نواز شریف کے درمیان ’صلح‘ کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور اس سلسلے میں نواز شریف صاحب کو تین سال بعد ایک حدیث بھی یاد آگئی ہے جس کی رو سے دو ’’مسلمان بھائی‘‘ تین دن سے زیادہ ناراض نہیں رہ سکتے، گویاالیکشن کیمپین اور اس سے پہلے ایک دوسرے کے خلاف استعمال کی جانے والی گھٹیا اور بازاری زبان، تنقید اور سیاسی حملے محض ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھے۔ تھوک کر چاٹنے کا فن پاکستان کے حکمران طبقات اور سیاستدانوں سے بہتر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ نواز شریف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ’’عمران خان سے صلح ہو گئی ہے اور اب فرینڈلی میچ کھیلا جائے گا‘‘، یعنی ہمیشہ کی طرح بند دروازوں کے پیچھے ’’میچ فکسنگ‘‘ کر کے حکومت اپوزیشن کا کھیل کھیلا جائے گا اور میڈیا ہر ’باؤنڈری‘ یا ’وکٹ‘ پر تالیاں بجائے گا۔ عوام کے حقیقی مسائل کو منظر عام سے ہٹانے کا اس سے بہتر طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟
الیکٹرونک میڈیا قبل از وقت ہی وزارتیں باٹنے میں مصروف ہے، یقینی طور پرانکی طاقت ور رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا۔ ’’ اینکرز پرسنزاور ذہین تجزیہ نگاروں‘‘کے تجویز کردہ وزارتوں کے قلم دان انہی کو ملنے کا امکان ہے جن کی نشاندہی کردی گئی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ معترضین کے مطابق دھاندلی زدہ اور فیض یافتگان کے مطابق تاریخی ’’شفاف اور غیر جانبدار‘‘ الیکشن کی تکمیل کے بعد کیا عوام کی قسمت بھی بدلے گی یا ملک اور قوم کے عظیم تر مفاد میں ان پر ٹیکسوں اور قیمتوں کے اضافوں کا بہت بڑا حملے کیا جائے گا۔ فارمولہ بہت سادہ ہے! اگر لوگ وہی ہیں، سوچ وہی ہے، نظریات اور فلسفہ بھی وہی ہے، طریقہ کار اور انتظام اور نظام بھی وہی ہے تو نتائج بھی وہی نکلیں گے جن کو پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام بھگتتے بھگتتے اب ہانپنا شروع ہوگئے ہیں۔ اگر منڈی کی معیشت کے موجودہ نظام کے اندر رہ کر نئی حکومت کام کرے گی تو ان کو ’’آزاد معیشت‘‘ کے قوانین کی اسی طرح غلامی کرنا ہوگی جس طرح ماضی کی (نواز شریف کی دونوں حکومتوں سمیت) تمام حکومتیں کرتی آئی ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی بھیانک اورانکی پالیسیوں کاانجام تباہی تھا تو پھر موجودہ حکومت کے بارے میں خواہ مخواہ کی خوش گمانیوں کی لہر بھی زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکے گی۔

متعلقہ:
جمہوریت کے سوداگر

عوامی مفادات سے عاری انتخابات