جنگِ 1965ء: کون جیتا‘ ہارا کون؟

اداریہ جدوجہد:-

50 سال قبل ایک جنگ ہوئی تھی۔ آج ریڈکلف لائن کے آر پار اس جنگ کے وحشیانہ جشن منائے جارہے ہیں۔ دونوں فریق فتح کے شادیانے بجا رہے ہیں۔ جنگ کرنے اور کروانے والے تو دونوں طرف جیتے۔ ہارے تو اس سیما کے آر پار کے محنت کش اور مظلوم ہی تھے۔
برطانوی سامراج نے جیسے مشرقِ وسطیٰ میں ایک مصنوعی صیہونی ریاست بنا کر اس خطے کو ابھی تک مذہبی فرقہ وارایت ‘ دہشت گردی‘ جنگ اور بربادی کا جہنم صرف اس لیے بنا کر رکھا ہوا ہے کہ اس عدم استحکام سے سامراجی غلبہ اور اجارہ داری قائم رہے۔ تقسیم اور حکمرانی کی یہ پالیسی بہت پرانی ہے۔ برطانوی اور بعد میں امریکی سامراج نے یہ زہریلا سبق قدیم روم کے شہنشاہوں سے سیکھا تھا۔ برصغیر میں بٹوارے کے ہولناک جرم کے بعد بھی یہ سامراجی، کشمیر کو ایک ایسا مسئلہ اور تنازعہ بنا کر چھو ڑ گئے کہ اس خطے میں کوئی امن اور آتشی نہ آسکے۔ انسانوں کے درمیان مذہبی اور قومی منافرتوں کا ایسا زہرپھیلا دیا جائے جس سے وہ تڑپتے رہیں، لڑتے رہیں اور سامراج لوٹتا رہے۔ لیکن ان تنازعات، خونریزیوں اور منافرتوں کے دوام کے لیے وہ اپنے کاسہ لیس بھی چھوڑ گئے جو ان پالیسیوں کو جاری رکھ سکیں جن سے سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار جاری رہے۔
پہلے1948ء میں ہندوستان اور پاکستان کی جنگ ہوئی، پھر 1965ء میں جنگی تصادم ہوا۔ 1971ء میں ہونے والی جنگ میں پاکستان ٹوٹ گیااور پھر 1999ء میں کارگل کی ادھوری جنگ حکمرانوں کا آخری عسکری تصادم ہوا۔ اب نہ تو یہ جنگ لڑسکتے ہیں نہ امن کو پیہم کرسکتے ہیں۔ مذاکرات کے لئے مذاکرات شروع ہونے سے پہلے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ سرحدوں پرگولہ باری جاری ہوتی ہے تو اس سے غریب ہی مرتے ہیں جس کا دونوں اطراف کے حکمران اور ان کے کارپوریٹ ذرائع ابلا غ اتنا بھیانک پرچار کرتے ہیں کہ مڈل کلاس اور سماج کی پسماندہ پرتوں کی رجعت ازسر نو جاگ جاتی ہے۔ جمود میں جکڑے معاشرے میں ساری محرومیوں کے غصے اور جبر واستحصال کی اذیتوں کو قومی اور مذہبی جنون کی بھینٹ چڑھا کر انہی غریب محنت کشوں پر ظلم اور جبر کے مزید پہاڑ ڈھائے جاتے ہیں۔
اگر حکمران جنگ نہ کرسکیں تو پھر حالت جنگ پیدا کرکے عوام کو اس دہشت کا شکار بناتے ہیں۔ انکی نفسیات میں نفرت اور حقارت بھر کر ان کو مزید مجروع اور لاغر بناتے ہیں۔ اس سال جنگ نہیں ہورہی لیکن حالت جنگ کی ریہرسل کرائی جارہی ہے… ترانے وہی ہیں،قومی شاونزم ویسا ہی پیداکیا جارہا ہے۔ ٹیلی ویژن کی سکرینوں سے وہی صوتی اور فلمی اثرات مرتب کئے جارہے ہیں۔ جنگی نغمے پرانے سہی لیکن گانے والے نئے ہیں اور جنگ کے بغیر وہی جنگی جنون پیدا کرنے کی پوری کوشش ہے جو حقیقی جنگ سے جنم لیتا ہے۔
یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ جو تاریخ کی غلطیوں سے نہیں سیکھتے وہ انہیں دہرانے کا جرم کرتے ہیں۔ تاریخ صرف جنگوں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ وقت گواہ ہے کہ اس برصغیر کی تاریخ میں جہاں جنگیں لکھی ہیں وہاں انقلابات بھی درج ہیں۔ ان کی کامیابی نہ سہی لیکن یہ ادھورے انقلابات وقت کے اوراق پر اپنی مہر ضرور ثبت کرگئے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد پاکستان میں 1968-69ء کا سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے یہاں کی خلق آمڈ آئی تھی۔ 1971ء کی جنگ کے بعد 1974ء میں ہندوستان کے نوجوان اور مزدور ایک انقلابی تحریک میں ابھرے تھے جس نے اس جنگ میں ’فتح‘کی دعویدار اندرا گاندھی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ ہندوستان میں 2 ستمبر 2015ء کی ہڑتال جنگ کا جشن مناتے حکمرانوں کو محنت کشوں کی ایک تازہ چتاؤنی ہے۔ پاکستان میں بھی اس جنگ کے جعلی جشن کے بعد لوگ زندہ تورہیں گے، طبقاتی جدوجہد مٹ تو نہیں جائے گی،یہ دشمنی اور نفرت کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے مسلط تو نہیں رکھا جاسکتا۔
اگر حکمران ایسے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے ہیں تومحنت کشوں کے صبرکا پیمانہ بھی لبریز ہورہا ہے۔ ان قومی جنگوں کے جشن تو ختم ہو جائیں گے‘ لیکن اس مرتبہ جب برصغیر کے محنت کش بغاوت پر اترے تو اس حکمران طبقے کا خاتمہ اور اس نظام کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اکھاڑ ے بغیر دم نہیں لیں گے۔ تیاری اس طبقاتی جنگ کی ضروری ہے، حکمرانوں کے یہ جنگی جشن اب ویسے بھی تماشے بن گئے ہیں!