لڑکھڑاتی ریاستوں کی بوکھلائی جارحیت

اداریہ جدوجہد:-

yemen war cartoonاسلام آباد میں منعقد ہونے والے’’کالعدم‘‘ اور غیر کالعدم بنیاد پرست جماعتوں کے اجلاس میں یمن پر پارلیمنٹ کی قراردار کی مذمت کرتے ہوئے ’’اہل سنت والجماعت‘‘ (سپاہِ صحابہ) کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی نے کہا ہے کہ پاکستان کی فوج اگر سعودی عرب کی طرف سے یمن لڑنے نہیں جاتی تو ’’حرمین شریفین کی عصمت اور تقدس کے دفاع‘‘ کے لئے وہ خود ’’جہاد‘‘ کرنے جائے گا۔ دوسرے تمام ملاؤں نے بھی اسی عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ بہرحال واضح نہیں کیا گیا کہ یہ حضرات جہاد کرنے کب جارہے ہیں۔ ملاؤں کا یہ جنونی بیان انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایجنسیوں کی بیساکھیوں پر کھڑے یہ جہادی اب اپنے خلیجی آقاؤں کا نمک حلال کررہے ہیں۔ ان کے جنم کا مقصد ہی یہ ہے کہ مذہبی جنون، بنیاد پرستی، رجعت اور فرقہ وارانہ قتل و غارت گری سے معاشرے کو اتنا پرانتشار بنا یا جائے کہ سعودی حکمرانوں اور دوسرے عرب شیخوں کی حاکمیت قائم رہے، یہ سماج ان کے لئے بیگار کیمپ بن جائے جہاں سے اپنی پراکسی جنگوں اور سامراجی عزائم کے لئے انہیں سستے جنگجو اور فوجی میسر آتے رہیں۔ السعود خاندان کے پیٹرو ڈالرز اور ریالوں سے یہ ملاں دہائیوں سے اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔
یمن کے تنازعے پر پاکستان کے محنت کش عوام اور خصوصاً خلیجی ممالک میں کام کرنے والے مزدوروں کی طرف سے جو غم و غصہ سعودی شہنشاہوں کے خلاف نظر آیا ہے اس سے ریاستی آقا چونک گئے ہیں۔ ریال خور ملاں بھی سعودی رقوم کی بندش کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں کیونکہ سماج پر السعود خاندان کا جو تقدس اور دبدبہ ان ملاؤں نے زبردستی ٹھونس رکھا تھا وہ جھاگ کی طرح غائب ہورہا ہے۔ سعودی عرب سے آنے والی ’’امداد‘‘ جاری رکھنے کے لئے اس قسم کے بیانات دئیے جارہے ہیں جن سے ان کی ہوس اور ذہنی بیماری اور بھی بے نقاب ہورہی ہے۔ سعودی حکمران یمن پر وحشیانہ جارحیت کر رہے ہیں اور ان جنونی تنظیموں کے سرغنہ اپنے آقاؤں کی حمایت میں ’’جان کی بازی‘‘ لگانے کی باتیں۔ لیکن حالات بتا رہے ہیں کہ ان کی وحشت اور دہشت اب زیادہ دیر چلنے والی نہیں!
پارلیمنٹ کی بات کی جائے تو کیسی پارلیمنٹ اور کونسی ’’غیر جانبداری‘‘ کی قراردار؟ اس میں سب کچھ ہے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ اس ’’جمہوریت‘‘ کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جاتی ہیں، سب جانتے ہیں۔ ریاست کے اصل آقا جب مشکل فیصلے نہ کر پائیں تو جمہوریت کو آگے کر دیتے ہیں۔ لیکن یہ معاملہ اتنی آسانی سے ٹلنے والا نہیں۔ ملاں ہوں یا جرنیل، یا پھر زرداری جیسے ’’سیکولر‘‘ اور نواز شریف جیسے ’’نیم مذہبی نیم لبرل‘‘ سیاسی کھلاڑی، سب کے سب خلیجی حکمرانوں کی مدد سے اقتدار کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ ان کی جائیدادیں دبئی اور سرمایہ کاری سعودی عرب میں ہے۔
یمن پر جارحیت درحقیقت سعودی عرب کی وحشیانہ بادشاہت کے خوف اور داخلی تضادات کی عکاسی کرتی ہے جس کا غلبہ پاکستان کی طرح پورے مشرقِ وسطیٰ پر سے ٹوٹ رہا ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب کا ریلہ جاتے جاتے بھی وہاں کے عوام کے ذہنوں پر سے غلامی کی نفسیات کا جال کاٹ گیا ہے۔ اب معیاری تبدیلی کی علامات واضح ہو کر سامنے آرہی ہیں۔ حالیہ سعودی جارحیت تبدیلی کا یہ عمل تیز تر کر سکتی ہے۔
نواز شریف اور اس کی یہ ’’جمہوری حکومت‘‘ بھلا کہاں فوج بھیجنے یا نہ بھیجنے کے احکامات جاری کر سکتے ہیں؟فیصلے خود فوج کرتی ہے۔ یہ ’’سویلین‘‘ حکمران جرنیلوں کے لکھے فیصلے پڑھ کر عوام کو سنانے کے لئے ہوتے ہیں۔ لیکن ریاست کا سب سے مضبوط ادارہ بھی آج اندر سے کھوکھلا ہوتا جارہا ہے۔ پوری ریاست تضاد در تضاد کا شکار ہے۔ فوج ’’ضربِ عضب‘‘ کر رہی ہے اور اسی ریاست کی عدلیہ لکھوی جیسے بدنام زمانہ جنونی ملاؤں کو بار بار رہا کر رہی ہے۔ اوپر سے ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ ہورہی ہے اور اندر ’’دہشت گردی کی جنگ‘‘ جاری ہے۔ ایک گروہ پر وار کیا جارہا ہے تو دوسرے کو بچایا جارہا ہے۔ تحفظ بھی وہی ادارے دے رہے ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف بظاہر دن رات ایک کئے ہوئے ہیں اور سارے فنکار، صحافی اور دانشور ان کے قصیدے پڑھ رہے ہیں۔ ریاست اور سیاست کی اتنی گراوٹ پہلے کبھی نہ تھی۔ لیکن جب معیشت کھوکھلی ہو جائے تو سماج کے بالائی ڈھانچے ایسے ہی لڑکھڑانے لگتے ہیں۔ ویسے فوجی جرنیلوں کے اپنے بھی بڑے مسئلے ہیں۔ وہ صرف ’’ضربِ عضب‘‘ تو نہیں کر رہے۔ اس سے بھی زیادہ ضروری کئی کام ہیں۔ انہوں نے سڑکوں اور موٹرویز کے ٹھیکے لینے ہیں، فوجی دلیہ بنانا ہے، عسکری بینک چلانا ہے، ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی پراپرٹی ڈیلنگ کرنی ہے اور اپنی جائیدادیں جوڑنی ہیں۔ اور پھر پراکسی جنگیں؟ وہ کون لڑے گا؟ بلوچستان کو ایک سامراجی قوت کے لئے محفوظ اور دوسری کے لئے غیر محفوظ کون بنائے گا؟ یہ منافع بخش ذمہ داری بھی آخر جرنیلوں کو ہی نبھانی ہے۔ جب داخلی طور پر موٹا مال سمیٹنے کے اتنے وسیع مواقع ہوں تو بیرون ملک جا کر ٹانگ اڑانے کی بھلاکیا ضرورت ہے؟
محنت کش طبقے کی اس ساری واردات اور کھلواڑ سے لا تعلقی اور بے نیازی، صورتحال کا سب سے مثبت پہلو ہے۔ یہ ان کے بیدار ہوتے ہوئے شعور کی گواہی ہے۔ یہ پہلے والا سعودی عرب نہیں ہے۔ سعودی ریاست مزید جبر کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتی جاری ہے۔ زمین ان کے پیروں کے نیچے سے سرک رہی ہے۔ جمہوریت اور آمریت سمیت پاکستانی ریاست کے تمام ہتھکنڈے بھی فلاپ ہو گئے ہیں۔ رجعت اور مذہبی تعصبات کے جس جال میں سماج کو مقید رکھنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اسے معاشی بحران کی شدت اور محنت کش عوام کی پنپتی بغاوت چاک کررہی ہے۔ راستے کی دھند چھٹ رہی ہے اور انقلابی سوشلزم کی منزل بھی جلد سماجی شعور پر آشکار ہوگی۔ مسئلہ اس بغاوت اور نفرت کو جرأت، عزم اور سیاسی لائحہ عمل میں بدلنے کا ہے۔ وقت اور حالات پلٹا کھائیں گے جس میں انقلابی مارکسزم کی ٹھوس قوت کو موضوعی کردار ادا کرنا ہوگا۔