اداریہ جدوجہد:-
کل چیئرمین بھٹو کا 36واں یوم شہادت ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ویسے تو ایک فرد کا نام تھا لیکن تاریخ کے پیرائے میں اس ملک میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کی سوشلسٹ نظریاتی بنیادوں اور سماج کو یکسر تبدیل کر ڈالنے کی محنت کش طبقے کی امنگوں، جدوجہد اور قربانی کی شناخت بن گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو نے سرمایہ دارانہ ریاست کی حدود میں اقتدار قبول کر کے انقلاب کو ادھورا چھوڑ دینے کی کوتاہی کی۔ لیکن اپنی آخری تصنیف ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ میں نہ صرف اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا بلکہ ان کا ازالہ کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے طبقاتی کشمکش کو ناقابل مصالحت اور سوشلسٹ انقلاب کو نجات کا واحد راستہ قرار دیا۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی زندگی، عوام میں اس کی حمایت اور اس کی قیادت کو ملنے والے اقتدار انقلابی سوشلزم کی انہی روایات کے مرہون منت تھے۔ لیکن آج ان روایات کا چراغ گل ہورہا ہے۔ محنت کش عوام کی سیاسی روایت کے اس چراغ کو گل کرنے کی ہر کوشش پارٹی قیادت پر براجمان ٹولہ اپنی موقع پرستی، نظریاتی انحراف اور عوام دشمن رویوں کے ذریعے کر رہا ہے۔ تقریباً 20 سال قبل کرسٹینا لیمب نے اپنی کتاب ’’ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ ’’آج اگر بھٹو قبر سے نکل کر آجائے تو اپنی پارٹی کو پہچان نہیں پائے گا۔‘‘ 20 سال بعد اگر پارٹی کی کیفیت دیکھی جائے تو بھٹو شاید قبر میں واپس جانے کو ہی ترجیح دے گا۔ جاگیردار، سرمایہ دار اور قبضہ گروپ ہوں، ضمیر فروشی اور بدعنوانی کے سپیشلسٹ یا پھر ضیا الحق کی باقیات…بھٹو کے قاتل ہر نظرئیے اور ہر فرد کو قیادت نے پارٹی پر مسلط کر دیا ہے اور پارٹی کو اپنے خون سے سینچنے والے نظریاتی کارکنان خون کے آنسو بہا رہے ہیں۔
4 اپریل کو بھٹو کا یومِ شہادت کتنا پھیکا پڑ گیا ہے۔ جیسے کسی تہوار کی کشش کمرشلائز ہو کر مٹ جایا کرتی ہے۔ جیسے لوگوں کی جدوجہد کی روایت کاعلم سرنگوں ہوگیا ہو۔ جیسے کسی راستے کے نشان مٹ گئے ہوں۔ جیسے اس نظام کے خلاف لڑائی اور جدوجہد کے تجدیدِ عہد کے نام پر کسی قبضہ گروپ نے کوئی بدنما پلازہ بنا دیا ہو۔ جیسے عوام کی پارٹی، پارٹی ہی نہ رہی ہو۔
ایک وقت تھا کہ بھٹو کی برسی پر ملک بھر سے محنت کش عوام اسکے مزار پر سلام کرنے نہیں بلکہ شعوری یا لاشعوری طور پر اجتماعی وچن دینے جاتے تھے۔ اس عزم کا اعادہ کرتے تھے کہ بھٹو کو قتل کرنے والے نظام اور حکمران طبقات سے انتقام لیے بغیر چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ لیکن جوں جوں پارٹی قیادت کو ’’وفاداری‘‘ کے عوض حکومتیں ملتی گئیں، یہ روایت بھی مسخ کی جانے لگی۔ 1980ء کی دہائی سے ہی پارٹی کی وراثتی قیادت نے پارٹی کی روح، یعنی انقلابی سوشلزم کو مجروع کرنا شروع کردیا، پارٹی کے جسم سے اس کی انقلابی روح ہی نکالنی شروع کردی جس سے پارٹی کی تنزلی تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔ درندہ صفت مارگریٹ تھیچر کی جارحانہ سرمایہ داری کی معاشی پالیسیاں اپنائی گئیں۔ محترمہ کے بقول ’’نظریات کو پچھلی نشست‘‘ پر دھکیل دیا گیا۔ نظریات جب پچھلی نشست پر چلے جائیں تو موقع پرستی، مفاد پرستی، بدعنوانی اور فریب ڈرائیونگ سیٹ پر آجایا کرتے ہیں۔ یہی ہوا۔ 1980ء کی دہائی میں سی آئی اے کی طرف سے ایجاد کی جانے والی’’مصالحت کی سیاست‘‘ کو ہی رفتہ رفتہ پارٹی کا ’’نظریہ‘‘ بنا دیا گیا۔ بینظیر بھٹو کی یہ ’’مصالحت‘‘ وہ ڈھلوان تھی جس پر پارٹی لڑھکتی چلی گی اور آج سیاسی، نظریاتی اور تنظیمی گراوٹ کی کھائی میں جاگری ہے۔ اسی مصالحت کے نام پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جنم لینے والی پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی پارٹی بنایا گیا۔ سامراجیوں کے چرنوں میں پارٹی کو جھکا دیا گیا۔ جہاں سیاسی طو ر پارٹی کو ایک سرمایہ دارانہ (اور وہ بھی ٹھگ سرمایہ داری پر مبنی) سیاست میں ڈبودیا گیا وہاں بالائی ڈھانچوں پر قیادت کے پسندیدہ ٹھگ، لٹیرے، رسہ گیر، بلیک میلر، سمگلر، مافیا سرمایہ دار اور ’’بائیں بازو‘‘ کا لبادہ اوڑھے مزدور وں کے غدار بٹھا دئیے گئے۔ پارٹی کے نامساعد حالات میں قربانیاں دینے والے کارکنان کی قربانیوں کو سرمائے کی منڈی میں جنس بناکر نیلام کیا گیا، ان کی بولیاں لگائی گئیں۔ انقلابی تحریک برپا کرنے اور سیاسی جدوجہد کرنے والی نسل کو یا تو خرید کر پھینک دیا گیا یا پھر بھوک، افلاس اور محرومی میں دھکیل کر برباد کردیا گیا۔ عوام جو سیاسی روایت کے طور پر پارٹی کی حمایت کرتے اور ووٹ دیتے رہے ان کو بھیڑ بکریا ں اور ’’مریدین‘‘ سمجھ کر پارٹی کے لیڈروں کی شہادتوں کو رودالیاں بنا دیا گیا۔ محض کیڑے مکوڑوں سے زیادہ قیادت کی نظر میں ان کا کوئی مقام نہیں رہا۔ کوئی متبادل نہ ہونے کے سبب محنت کش عوام اس پارٹی کو پوجتے رہے، اس کے لیے لڑتے رہے اور پھر اپنی اپنی موت مرتے رہے۔
رحمن ملک سے لے کر یوسف رضا گیلانی اور منظور وٹوتک، بھٹو کے قاتل ضیاء الحق کے دلالوں کو پارٹی کے سرخیل لیڈر اور وزیر اعظم بنا یا گیا۔ جب بھٹو کو پھانسی دی جارہی تھی تو پیپلز پارٹی کی موجود قیادت میں سے بیشتر جشن منارہے تھے، مٹھائیاں بانٹ رہے تھے۔ اب یہ ’’بھٹو کے وارث‘‘ کہلاتے ہیں! قیادت نے انقلابی یا نظریاتی تو دور کی بات، کوئی سیاست ہی نہیں کی۔ صرف کاروبار کیا اور کالے دھن سے راتوں رات کھرب پتی ہونے والے ملک ریاض جیسے نودولتیے کے ہاتھوں پارٹی کا مقدر بیچ دیا۔ پچھلے دور اقتدار میں ’’جمہوریت کے تسلسل‘‘ کا کھلواڑ کرکے معاشی بربریت اور بدعنوانی کا جو بازار گرم کیا گیا اس پر بعض اوقات سامراجی ادارے بھی دانت پیستے نظر آئے۔ صرف پانچ سال میں سات ہزار ارب روپے کا قرضہ پہلے سے تباہ حال عوام پر لاد دیا گیا اور نجکاری کے سب سے مکروہ طریقہ کار، یعنی ’’پبلک پرائیویٹ پارٹنر‘‘ شپ کا خنجر محنت کشوں کی پیٹھ میں گھونپا گیا۔
بھٹو جن نظریات کے بلبوتے پر اس ملک کی تاریخ کا سب سے مقبول لیڈر بنا تھا ان کوبتدریج مٹانے کا عمل عرصے سے جاری ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ دائیں بازو اور مذہبی سیاست کی ہر عوام دشمن سیاسی قوت اورفسطائی گروہ کی سب سے بڑی خیر خواہ پیپلز پارٹی کی قیادت نظر آتی ہے۔ ہزاروں پارٹی کارکنان کے قاتلوں کو سیاسی ڈھال فراہم کی جارہی ہے۔ کہیں کوئی کسر رہ نہ جائے، اس خطرے کے پیش نظر فرقہ وارانہ قتل عام میں ملوث جنونی مذہبی گروہوں کے ساتھ ’’دوستانہ تعلقات‘‘ استوار کئے جارہے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کی ’’مصالحت‘‘ کو آصف علی زرداری نے پوری ذمہ داری سے منطقی انجام تک پہنچایا ہے۔
بھٹو نے لکھا تھا کہ وہ تاریخ میں زندہ رہے گا۔ ضیاء الحق نے بھٹو کو جسمانی طور پر قتل کیا لیکن اس کے ان ’’ورثا‘‘ نے بھٹو کو تاریخی طور پر قتل کرنے کا عمل شروع کررکھا ہے۔ لیکن کسی روایت کے ختم ہوجانے سے نئی روایات کے جنم لینے کا عمل نہیں رک سکتا۔ زرداری، زردار قیادت اور اس کی رجعتی پالیسیاں جاری رہیں تو بطور سیاسی روایت پیپلز پارٹی کی موت یقینی ہے۔ لیکن محنت کش عوام کوتو جینا ہے، آئندہ نسلوں کے مستقبل اور محنت کرنے والے طبقے کو تاریکی اور بربادیوں میں ڈوبنے نہیں دینا ہے۔ اگر پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت نے 4 اپریل کو قتل کردیا ہے تو کیا؟ یہ یوم مئی کا خون تو نہیں کرسکتے، اگر 4 اپریل کسی فرد کی شہادت سے منسوب ہے تو یکم مئی محنت کش طبقے کے گمنام سپاہیوں کی شہادت، قربانی اور جدوجہد کا امین ہے۔ جب تک طبقات موجود ہیں طبقاتی جدوجہد مر نہیں سکتی۔ محنت کش طبقے سے اسکی ایک روایت اگر چھین بھی لوگے تو وہ ایک بار پھر تاریخ کے میدان اتر ے گا اور انقلابی سوشلزم کی ایک نئی روایت تراش لائے گا۔ ہر دھوکے، ہر غداری اور ہر پسپائی کے بعد محنت کش پھر ابھرتے ہیں۔ یہ تاریخ کی گواہی اور انسانی سماج کا قانون ہے۔ محنت کش طبقہ افق پر لالی پھیلانے والے خورشید کی طرح پھر طلوع ہو گا کیونکہ اندھیر بہت ہوچکا ہے۔ اس کو اگر پرانی سیاسی روایت سے محروم کردیا گیا تو بھی وہ ناقابلِ مصالحت طبقاتی جنگ کی کہیں زیادہ بلند اور عظیم روایت کے ذریعے پھر سے سوشلسٹ انقلاب کی منزل کی جانب گامزن ہوگا۔
رات جب کسی خورشید کو شہید کرے
تو صبح ایک نیا سورج تراش لاتی ہے!