کوئلوں کے دلال

اداریہ جدوجہد:-

کسی بھی معاشرے میں معروض کتنا ہی کٹھن اور تاریک کیو ں نہ ہو، لیکن جب اس میں رائج نظام کا وقت ختم ہو جائے تو یہ کبھی مستحکم نہیں ہوسکتا۔ جب انتشار شدت پکڑ جائے تو حکمران ریاست کے مقد س ادارے بے نقاب ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ انکی گھناؤنی اصلیت اور کردار عوام کے سامنے کھل جاتے ہیں۔ عدالتوں کی طرز تعمیر میں عدلیہ کا رعب، تقدس اور خوف استوار کرنے کی خصوصی اہمیت ہوتی ہے۔ لیکن جوں جوں انتشار بڑھتا ہے، عدلیہ اور فوج کا استعمال بڑھنے، ان کے سیاست اور معاشرے کے روزمرہ معاملات میں زیادہ مداخلت کرنے سے انکا بھرم کھل جاتا ہے۔ عام انسانوں کو یہ احساس ہو جاتا ہے کہ یہ بھی اسی حکمران طبقے کے ہی افراد اور آلہ کار، ادارے اور شخصیات ہیں جو بدعنوان بھی ہیں اور ظالم بھی، لٹیرے بھی ہیں اور عوام کی زندگیوں کو اذیت ناک بنانے والے جلا د بھی۔
کرپشن کے اس ڈرامے کی نئی ایپی سوڈ (قسط) میں جہاں سیاسی پارٹیاں او رلیڈر رسوا ہو ر ہے ہیں وہاں ججوں کے ریمارکس سے یہ بھی عیاں ہورہا ہے کہ وہ بھی اپنی ناجائز مرتبت کا چسکا لے رہے ہیں۔ انہوں نے بھی وہی فیصلہ دینا ہوتا ہے جو حکمران طبقے کے حاوی گروہوں کے مفادات اور انکے استحصالی نظام کے جاری رہنے کے لیے انکے ماہرین زیادہ مفید سمجھتے ہونگے۔ عمومی طور پر عدلیہ کاطریقہ واردات یہی ہوتا ہے کہ حکمران گروہوں کے تنازعات کو لٹکا کر پر تاخیر کردیا جائے کہ شاید اس التوا سے معاملات ٹھنڈے ہوجائیں اور یہ بوسیدہ نظام چلتا رہے۔ حکمرانوں کے اپنے ہی دھڑوں سے انکا اپنا نظام کہیں زیادہ ہی نہ بگڑ جائے۔ یہ فیصلوں میں تذبذب اور ہچکچاہٹ چاہے وہ سیاسی حکمرانوں کی ہو، فوجی جرنیلوں کی ہویا سپریم کورٹ کے ججوں کی ہو، ایک عدم اعتماد او ر غیر یقینی نفسیات کی غمازی کرتی ہے۔ حکمرانوں کا اعتماد تب ٹوٹنا شروع ہوتا ہے جب انکے نظام میں معاشرے کے ارتقا کو جاری رکھنے کی صلاحیت جواب دینے لگ جاتی ہے۔ اس نان ایشو میں بھی پاکستان کے عوام کم از کم اقتدار اور دولت کی ہوس میں حکمران طبقات کے مختلف حصوں کی وحشت تو دیکھ ہی رہے ہیں، عدلیہ کا بھرم بھی ٹو ٹ رہا ہے۔ انصاف کے ان اونچے اونچے مندروں میں بیٹھے یہ بھگوان بھی اپنے طبقے کے دھڑوں کے خود پجاری بھی ہیں۔ شاید یہ بھگوان عام انسانوں کو صرف فریب دینے اور مایہ کی بوچا کرنے پر مجبور کرنے کے لیے ہی ان مندروں میں سجائے جاتے ہیں۔
اسی طرح فوج کا بے دریغ استعمال بھی اس کی ساکھ اور معاشرے پراسکے تسلط میں دراڑیں ڈال رہا ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کسی عام انسان سے پوچھا جائے تو اس کو یہ معلوم نہیں ہوگا کہ اس ملک کی فوج کا چیف آف سٹاف کون ہے۔ لیکن یہاں تو کوئی اور بات ہی نہیں۔ وردی اور اس پر لگے ہوئے میڈل اور مختلف ڈیزائنوں کے بیج بھی عدلیہ کی عمارت کی طرح رعونت اور برتری کے نشان ہی ہیں۔ کوئی درزی کسی کو کوئی وردی پہنا سکتا ہے لیکن چھڑیوں سے لے کر کندھوں پر لگے ستاروں تک کا جو رعب اور دبدبہ ذرائع ابلاغ عوام کی نفسیات پر مسلط کرتے ہیں، وہ فوج کی معاشرے اور اقتصادی امور میں بڑھتی ہوئی مداخلت کو بھی عیاں کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ نے جس طرح سپہ سالارکی تبدیلی کا ایک جنون بنایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمرانوں کا اب فوج پر انحصار کتنا بڑھ گیا ہے، اور اس انحصار کے عوض یہ جرنیل حکمرانوں کے بہت سے حصوں کو بھی اس لوٹ مار میں مات کرگئے ہیں۔ لیکن جب معیشت کا زوال ہو، مال کی قلت بڑھنی شروع ہو جائے تو حکمرانوں کی سیاست اور ریاست میں خلفشار اور چھینا جھپٹی شدت اختیار کر جاتی ہے۔ میڈیا جو اس نظام کا سب سے زہریلا اوزار ہے اپنی ریٹنگ کے چکر میں بعض اوقات دھڑے بازی کی اس لڑائی کو اس انتہا پر لے جاتا ہے کہ ان اداروں کے بارے میں اس کا اپنا بنایا ہو ا بھرم ہی ٹو ٹ جاتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ سیاست، ریاست، میڈیا اور ملائیت میں جس حد تک خلفشار بڑھ چکا ہے اس سے ان کا اپنا نظام او راسکابے ہودہ کردار ننگا ہوگیا ہے۔ محنت کش عوام خاموش بھی ہیں لیکن ان حقائق کا ادراک بھی حاصل کررہے ہیں۔ ریاست کھوکھلی اور بنجر ہوچکی ہے۔ یہ سب حکمرانوں کے اس نظام کے عالم نزاع کی غمازی کرتا ہے۔ اس کیفیت میں اگر محنت کشوں کی تحریک ابھرے گی تو ایک انقلابی سرکشی کے عمل میں ان کو ریاست کے اداروں کی اصلیت سمجھنے میں زیادہ کاوش نہیں کرنا پڑے گی۔ اس کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ ریاست کی تشکیل محنت کش طبقے اور اسکی پارٹی کے لیے نسبتاً آسان ہوجائے گی۔