’’دراندازی‘‘

اداریہ جدوجہد:-

پشاور میں ایئربیس پر دہشت گردی کے حملے پر پاک فوج کے ترجمان نے چند گھنٹوں بعد ہی یہ بیان داغ دیا کہ اس حملے کی منصوبہ بندی، تربیت اور کنٹرول وغیرہ سب افغانستان سے ہوا تھا۔ دوسرے دن افغانستان کے صدارتی محل کے جوابی بیان کے مطابق افغانستان کی سرزمین سے کسی قسم کی کوئی دہشت گردی کی کاروائی نہیں ہوسکتی۔ اشرف غنی کے پاس افغانستان میں اقتدار کا اختیار کس حد تک ہے؟ بیان سے تو ظاہرہوتا ہے کہ افغانستان کے چپے چپے پر اس کا کنٹرول ہے۔ لیکن اگراس کے بقول افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی نہیں ہورہی تو پھر کیا تقریباً ہر روز کابل میں دہشت گردی کے حملے اس سے پوچھ کر کئے جاتے ہیں؟ اگر اشرف غنی کا بیان مضحکہ خیز ہے تو پھرپاک فوج کا الزام بھی بڑی حد تک تلخ زمینی حقائق کی پردہ داری کے مترادف ہے۔
سرخیوں کے انبار میں ایک سطر اخبارمیں یہ بھی تھی کہ اس دہشت گردی کی کاروائی میں ’’اندر‘‘ سے بھی کسی کے ملوث ہونے کا خدشہ ہے۔ ماضی میں اس طرح کے ہر حملے میں داخلی عناصر کی وسیع شمولیت کے شواہد بعد میں منظر عام پر آتے رہے ہیں۔ لیکن کارپوریٹ میڈیا کی جانب سے مذہبی اور قومی شاونزم کی اس بوچھاڑ اور کرپٹ و مطیع صحافت میں بھلا کہاں کسی کی جرات ہوسکتی تھی کہ اس ’’اندر‘‘ کے پہلو پر بھی غور کیا جاسکے؟
افغانستان سے لے کر برما تک جو 1577ء میں ایک سلطنت ہوا کرتی تھی آج تقسیم در تقسیم ہونے والے اس برصغیر کی ہر سرمایہ دارانہ ریاست نہ صرف داخلی جبر جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ بیرونی ’’دراندازی‘‘ میں بھی ملوث ہے۔ پرویز مشرف نے اپنے تازہ ترین ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ اعتراف کیا ہے کہ یہ دراندازی ہماری مجبوری ہے، اگر افغانستان کی جانب بھارت اپنا تسلط کروائے گا تو ہم بھی اپنی پراکسیاں بنائیں اور چلائیں گے۔ پچھلی 4 دہائیوں سے یہ پراکسی جنگیں ہر طر ف سے ایک دوسرے ملک کے اندر جاری بھی ہیں اور ان کے خاتمے کا کوئی امکان بھی موجودہ نظام میں نظر نہیں آتا۔ ان پراکسی جنگوں کا مقصد اثر ورسوخ اور تسلط بڑھانا ہے۔ اس ’’اثرورسوخ‘‘ کی ضرورت کیا ہے؟ مال مال اور مال! چاہے وہ معدنیا ت اور دوسرے قدرتی وسائل کی شکل میں ہو یا پھر منڈیوں اور تجارتی راہ داریوں کے ذریعے… ہر وہ چیز یا عمل جس سے ان حکمرانوں، اسلحہ ساز صنعت اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کے منافعوں کی شرح میں اضافے ہوسکیں! چاہے اس کے لیے کتنا خون بہا دیا جائے، کتنی معصوم زندگیوں کے چراغ بجھادیئے جائیں، کتنی بستیوں کو اجاڑ دیا جائے یا کتنے ہی معاشروں کو برباد کردیا جائے، اس سفاک نظام کے آقاؤں اور پجاری دانشوروں کے لیے یہ بے معنی اور غیر متعلقہ ہے۔ منافعے کے نظام میں منافع ہی اولین ترجیح ہے جسے ’’قومی غیرت‘‘، ’’قومی مفادات‘‘ اور ’’قومی سا لمیت‘‘ کے غلاف میں چھپا کر ظلم کی ہر حد کو عبور کرناجائز بنا دیا جاتا ہے۔
اس خطے کے حکمران صحت مند سرمایہ داری تو استوار نہیں کرسکے، یورپ کی طرز پر سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی بھی تاریخی فریضہ پورا نہیں کرسکے۔ ایسے میں جب یہ نظام تاریخی طور پر متروک ہو کر ترقی یافتہ مغرب میں بھی سوائے معاشی و سماجی تنزلی کے کچھ نہیں دے پا رہا تو یہاں اس سے کسی زخمی بھوکے درندے سے کم کی امید رکھنا محض خوش فہمی ہی ہے۔ اور پھر ’’امن کی آشا‘‘ پیدا کرنا، دوستی اور شائستہ ہمسائیگی کی کاوش کرنا اور ان حکمرانوں سے یہ امید کرنا کہ یہ اس خطے میں امن اور بھائی چارے کی کیفیت پیدا کرسکتے ہیں محض نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن کا اظہار ہے۔
اس ریاست اور فوج سے دہشت گردی کے خاتمے کی توقعات لگانے اور لگوانے سے پہلے اس بات پر غور کی ضرورت ہے کہ پراکسی جنگوں کا ’’سٹرٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی کے تحت آغاز کس نے کیا تھا۔ پراکسی جنگیں اگر دہشت گردی نہیں ہیں تو پھر کیا ہیں؟جب دولت، مراعات، ریاستی طاقت اور کمائی کا ذریعہ ہی یہ پراکسی جنگیں ہوں تو وہ بھلا ان کا خاتمہ کیسے اور کیونکر کرسکتے ہیں؟البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے یہ اپنی کچھ پراکسیوں کے خلاف ملٹری آپریشن کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ چونکہ اس خطے کی ہر ریاست کی کم وبیش یہی پالیسی ہے اس لیے ان پراکسی جنگوں کے بکاؤ جنگی سردار زیادہ اچھی ’’آفر‘‘ کے لیے وفاداریاں تبدیل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتے۔ وہ تو جنگ اور خونریزی کے بیوپاری ہیں اور اپنا مال اسی گاہک کو بیچیں گے جو زیادہ دام ادا کرتا ہو۔ گاہکوں کے درمیان ہونے والے تضادات، تنازعات اور تناؤ پھر ملکی سالمیت اور قومی غیرت کے تصادم بنا دئیے جائے ہیں۔ چونکہ مکمل اور بڑی جنگوں کی ان بوسیدہ قومی ریاستوں میں اہلیت اور جرات ہی نہیں رہی اس لیے یہ حکمران پراکسی جنگوں پر ہی اکتفا کرنے پر مجبور ہیں۔ عوام تو اس لالچ اور ہوس کی آگ میں ایندھن کا درجہ ہی رکھتے ہیں، خون تو غریب محنت کشوں یا نچلے عہدے کے سپاہیوں کا ہی بہتا ہے۔ لیکن ان جنگوں اور خونریزیوں کو بھی ایک جنگ کے بغیر ختم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ جنگ طبقاتی جنگ ہے۔ اس کو محنت کش طبقہ ایک سوشلسٹ انقلاب کی صورت میں جیت کر ہی نہ صرف اس بربریت کو صفحہ ہستی سے مٹا سکتا ہے بلکہ یہاں امن و آشتی، خوشحالی اور آج تک ان دیکھی سماجی و معاشی ترقی کے لیے پورے خطے کے انسانوں کو ایک سوشلسٹ فیڈریشن میں یکجا اور یکجان کر سکتا ہے!