فرسودہ سیاست کی جعلی کشمکش!

اداریہ جدوجہد:-

عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ بڑے مینڈٹ کے نتیجے میں مضبوط حکومتیں بنتی ہیں۔ یہ مفروضہ ماضی کے ’’اچھے‘‘ دنوں میں تو شاید کسی حد تک درست ہو جب معیشت کا بحران کم تھا اور جمہوری یا فوجی اقتدار نسبتاً مستحکم ہوا کرتے تھے۔ لیکن اگر پچھلے ڈیڑھ سال کا جائزہ لیا جائے تو ’’بڑے مینڈٹ‘‘ کی موجودہ حکومت مسلسل لڑکھڑاتی اور لرزتی ہوئی نظر آتی ہے۔ معیشت کی بدحالی اور سماج کا خلفشار بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ حکومت ہویا نام نہاد اپوزیشن، اس نظام زر کے نمائندوں کی سیاست میں گھٹیا قسم کی الزام تراشی، اخلاق سے گری ہوئی بحث و تقرار اور بیہودگی کی آخری حدودں کو چھوتے ہوئے طعنوں کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔ بیان بازیاں کھوکھلی اور بے معنی ہیں۔ حکمران طبقے کا برسر اقتدار دھڑاہر مسئلے پر ہچکچاہٹ کا شکار نظر آتا ہے۔ فیصلے کرنے کا اعتماد سرے سے ناپید ہے۔ ریاستی جبر کے ذریعے اگر کوئی فیصلہ کن قدم اٹھانے کی کوشش کی بھی جاتی ہے تو خونریزی گلے پڑ جاتی ہے اور حکومت پہلے سے زیادہ پسپائی کی کیفیت اختیار کر لیتی ہے۔
لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہوا ہے نہ مہنگائی کم ہونے کا کوئی امکان ہے۔ جرائم بڑھ رہے ہیں اور بیروزگاری کے سمندر میں روزگار کے بچے کھچے ’’جزائر‘‘ بھی نجکاری کے ذریعے ختم کئے جارہے ہیں۔ روزانہ کے حساب سے قرض لے کر ملک چلایا جارہا ہے۔ 80 ممالک میں کئے گئے امریکی وزارت خزانہ کے حالیہ سروے کے مطابق پاکستان کے عوام اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ (پچاس فیصد) خوراک پر خرچ کرتے ہیں۔ جہاں روٹی پوری نہیں ہورہی وہاں تعلیم، علاج، رہائش اور ٹرانسپورٹ جیسی بنیادی ضروریات زندگی کی کیا کیفیت ہو گی؟مرکز اور صوبوں میں حکمران جماعتوں کے اراکین پارلیمنٹ نے لوٹ مار کی انتہا کر رکھی ہے۔ تھانہ کچہری کی سیاست، جو غنڈہ گردی کے لئے منافقانہ سی اصطلاح ہے، زوروں پر ہے۔
عمران خان اور طاہرالقادری کی بڑھک بازی اور لانگ مارچ کی تیاریوں نے موجودہ حکومت کا رہا سہا بھرم بھی خاک میں ملا دیا ہے۔ ایسے حالات میں ملک کی سب سے مظلوم دستاویز یعنی آئین کی شقیں بھی حکمرانوں کو یاد آجاتی ہیں۔ آرٹیکل 245 کے تحت دارالحکومت کی ’’سیکیورٹی‘‘ فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کبھی کیا جاتا ہے اور کبھی واپس لے لیا جاتا ہے۔ یہ اضطراب ظاہرکرتا ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمران کتنے بے بس اور خوفزدہ ہیں۔ مسئلہ قادری یا عمران خان کی کھوکھلی دھمکیوں اور جعلی دھرنوں کا نہیں بلکہ حکمرانوں کی اپنی کمزوری کا ہے جن کا اقتدار کھوکھلا اور بے بنیاد ہے۔
صرف حکومت میں شراکت دار ہی بوکھلاہٹ کا شکار نہیں ہے۔ عمران خان کی حالت اس سے بھی بدتر ہے۔ وہ بے نقاب نہ ہونے کی خوش فہمی اور ہوجانے کے خوف میں بیک وقت مبتلا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کرے۔ طاہرالقادری کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ انقلاب کے ان دونوں بیوپاریوں کے پاس سرمایہ دارانہ نظام کی معیشت، سیاست اور ریاست کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ عوام کے چند مسائل کے گرد نعرے بازی کی کوشش کی جارہی ہے جسے محنت کش عوام کی وسیع پرتوں میں پزیرائی ملی ہے نہ ہی مل سکتی ہے۔
لانگ مارچ کی اصطلاح سب سے پہلے انقلاب چین کے دوران دنیا بھر میں مشہور ہوئی تھی۔ یہاں ہر دوسرے روز ’’لانگ مارچ‘‘ کروانے والے ’’عالم‘‘ اور ’’کامل‘‘ سیاسی شعبدے بازوں کو شاید یہ بھی علم نہیں کہ ماؤ زے ڈونگ کی رہنمائی میں ہونے والا لانگ مارچ 1927ء سے 1949ء تک، 22سال تک جاری رہا تھا۔ 1925-27ء کے انقلاب میں 80 ہزار کمیونسٹوں کے قتل عام کے بعد کمیونسٹ پارٹی نے شہروں سے دیہاتوں کا رخ کیا تھا۔ سرخ فوج کی دیہاتوں میں پسپائی، کسانوں کی فوج میں شمولیت اور بعد ازاں بیجنگ جیسے بڑے شہروں کی طرف پیش قدمی کو بحیثیت مجموعی لانگ مارچ کہا جاتا ہے۔ اس کٹھن سفر کا ہر سنگ میل بھوک ، پیاس اور موسم کی شدت سے نڈھال انقلابی فوج کے سپاہیوں نے اپنے لہو سے تحریر کیا تھا۔ لیکن سرخ فوج کے لانگ مارچ نے 1949ء کے انقلاب پر فیصلہ کن نتائج مرتب نہیں کئے تھے۔ انقلاب کو حتمی فتح بیجنگ، نان جنگ، شنگھائی، کین ٹان اور دوسرے صنعتی شہروں میں محنت کشوں کی انقلابی ہڑتالوں اور فیکٹریوں پر قبضوں کے ذریعے حاصل ہوئی تھی۔
چین کا لانگ مارچ سرمایہ داری کے خاتمے پر منتج ہوا تھا لیکن طاہرالقادری اور عمران خان کی سیاست اسی نظام سے شروع ہو کر اسی میں ختم ہوجاتی ہے۔ یہ لوگ اپنا اور اپنے کارپوریٹ پشت پناہوں کا تمام ترسرمایہ سیاست کی منڈی میں پھینک دیں تو بھی 22 سال تو درکنار، 22 دن کا لانگ مارچ نہیں کر سکتے۔ یہ کرائے کے لانگ مارچ ہیں جن میں دہاڑی پر ’’کارکنان‘‘لائے جاتے ہیں، کاروں اور موٹر سائیکلوں کے پٹرول کے پیسے ملتے ہیں اور لذیذ کھانوں کے لنچ باکس ’’انقلابیوں‘‘ میں تقسیم ہوتے ہیں۔ اگر 14 اگست کا ’’لانگ مارچ‘‘ اسلام آباد پہنچ کر دھرنے میں تبدیل ہوتا ہے تو یہ سب کتنے دن چلے گا؟ اگر حکومت تشدد کرتی ہے تو یہ کھیل رچانے والے سیاسی رہنما اسے کس حد تک برداشت کریں گے؟ اگر خون بہتا ہے تو کس مقصد کے لئے؟ ہمیشہ کی طرح ’’منظم انتشار‘‘ پیدا کیا جائے گا، میڈیا چینل اور اخبارات مبالغہ آرائی پر مبنی سرخیاں شائع کر کے ریٹنگ بڑھائیں گے،عوام کو ایک اور نان ایشو میں الجھانے اور پھر یہ سارا ڈرامہ غیر محسوس طریقے سے ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ لیکن یہ منظم انتشار حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکل کر ایک بے قابو انارکی میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے۔ مڈل کلاس کی ایک چھوٹی سی پرت کے علاوہ عوام ان سیاسی ڈراموں کا حصہ پہلے کبھی بنے ہیں نہ اب بنیں گے۔ لوگ پاگل نہیں ہیں کہ اپنا پیسہ، وقت اور توانائی ایک ایسے رجحان کے لئے خرچ کریں جو سب کچھ بدلنے کا نعرہ لگا کر کچھ نہ بدلنے کا ارادہ رکھتا ہو!
فی الوقت محنت کش طبقہ سیاست سے بیگانہ ہے۔ سماج میں کوئی انقلابی تحریک موجود نہیں ہے لیکن یہ کیفیت ہمیشہ موجود نہیں رہے گی۔ معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور سطح کے نیچے مچلتی ہوئی بغاوت نے پہلے سے لاغر اور کمزور حکمرانوں کے عدم اعتماد کو آخری نہج پر پہنچا دیا ہے۔ حکمران طبقے کی حرکتیں ثابت کرتی ہیں کہ ان کو اپنے نظام پر بھی اعتماد نہیں ہے۔ اس مرتے ہوئے نظام پر ویسے بھی وہی حکمرانی کرسکتے ہیں جن میں ڈھٹائی، بے حسی، عیاری، مکاری، ہوس اور فریب کا ملغوبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہو۔ تھوڑی آگے کی سوچ رکھنے والا کوئی بھی ذی شعور اور حساس انسان ایسی حاکمیت کو قبل کرنے سے انکار کردے گا۔
لینن نے انقلاب کی سب سے پہلی نشانی حکمرانوں کے بے قابو ہوتے ہوئے داخلی تضادات اور اختلافات کو قرار دیا تھا۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ جب کوئی نظام معاشی اور اقتصادی طور پر متروک ہو کر تاریخی ارتقاء کے عمل کو جامد کر دے تو سماجی گھٹن بڑھنے لگتی ہے۔ بڑھتا ہوا تعفن اور سیاسی عدم استحکام اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ ایک انقلاب کے ذریعے نظام کو اکھاڑ پھینکنے کا وقت آگیا ہے۔ اگر سرمایہ داری کے ناسور کو انسانی سماج پر سے کاٹ کر نہ پھینکا گیا تو اس کی بدبو اور غلاظت پورے معاشرے کو بربریت کی تاریک موت میں دھکیل دے
گی۔
لانگ مارچوں اور دھرنوں سے زمانے اور سماج کو یکسر بدل دینے والے انقلابات نہیں آیا کرتے۔ پاکستان کے انقلاب کا گڑھ اسلام آباد نہیں کراچی ہے۔ فیصل آباد،ملتان، لاہور، گوجرانوالہ ، راولپنڈی، حیدر آباد، حب، کوئٹہ اور پشاور جیسے صنعتی اور معاشی لحاظ سے اہم شہروں کا پرولتاریہ وہ سماجی قوت ہے جو انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرے گی۔ کسی کو اپنے شہر یا دیہات سے اسلام آباد ’’مارچ‘‘ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ جاگیروں اور فیکٹریوں پر کسانوں اور مزدوروں کے قبضے ہوں گے۔ ہر گلی کوچے میں عوام کی انقلابی کمیٹیاں بنیں گے۔ 1968-69ء میں یہ سب کچھ ہوچکا ہے جب کراچی سے لے کر لاہور اور پشاور سے لے چٹاگانگ تک نوجوانوں اور محنت کشوں کی نے ملکیت کے رشتوں اور مروجہ سیاست کے خلاف بغاوت کر دی تھی۔ یہ سوشلسٹ انقلاب تھا جو لینن اسٹ قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے مکمل نہ ہوسکا۔ لیکن حکمران ہمیشہ اتنے خوش قسمت نہیں رہیں گے۔ دولت کی اس سیاست کو چیر کر محنت کشوں کی ایک اور تحریک ابھرے گی۔ قیادت کے فقدان کا المیہ اس بار نہیں دہرایا جائے گا کیونکہ آج اس ملک میں انقلابی قوتیں جس نظریاتی اور تنظیمی معیار پر تیار ہیں پہلے کبھی نہ تھیں۔ ایسی قوتیں رجعتی ادوار کے سیاسی ویرانوں میں گمنام ہی رہتی ہے۔ صرف انقلابی حالات میں ہی یہ لینن اسٹ رجحان منظر عام پر آکر سرمایہ داری کی بربریت سے سوشلسٹ نجات تک کے رستے کو منور کرتے ہیں۔