محرومی کا ادراک

اداریہ جدوجہد:-

سرمایہ دارانہ نظام میں کارپوریٹ میڈیا کا اہم طریقہ واردات یہ ہے کہ عمومی طور پر وہ درست خبریں دیتے ہیں جو تقریباً سچ ہی ہوتی ہیں۔ لیکن موضوعات اور سرخیوں کا تعین وہ بڑی احتیاط سے حکمران طبقے کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ یہ ’عمومی درست خبریں‘ وہ عوام میں اپنا اعتماد پیدا کرنے کے لئے اس لئے دیتے ہیں کہ جب کبھی کوئی ایسی خبر آئے جس سے نظام زر کی حاکمیت پر بھاری ضرب لگنے کا خطرہ ہو تو اس کو انتہائی ڈھٹائی سے ایسے توڑا مروڑا جائے کہ عوام اس جھوٹ کو بھی سچ ہی جانیں۔ ایسا صرف میڈیا ہی نہیں سیاستدان بھی کرتے ہیں، فریبی یار بھی عناد میں کر جاتے ہیں اور نامور دانشور بھی یہ طریقہ واردات بڑی مکاری سے استعمال کرتے ہیں۔
یہ فریب اور دھوکے کی شاید سب سے زہریلی قسم ہوتی ہے۔ انسان کے کردار کے اس ہولناک پہلو سے بڑے بڑے عاشق چوٹ کھا کر گھائل بھی ہوتے ہیں، یارانوں کو بھی ڈسا جاتا ہے اور نسل در نسل عوام کو سرمائے کی رکھوالی قیادتوں کے فریب میں مبتلا بھی کیا جاتا ہے۔
ہٹلر کے وزیر پروپیگنڈا جوزف گوئبلز کا ایک اور فارمولا بھی تھا: ’’جب جھوٹ بولوتو بڑا جھوٹ بولو…اور اتنی بار بولو کہ سچ لگنے لگے‘‘۔
اگر ہم آج کی سیاست اور ریاست کے پالیسی سازوں اور اشرافیہ کو دیکھیں، ان کی چالبازیوں کا بغور معائنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا دونوں نسخے مستعمل ہیں۔ تعمیر و ترقی کا واویلا ہے، ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جانے والے پراجیکٹوں کی بھرمار ہے، سرکاری پوسٹروں اور بینرز کی یلغار ہے یا پھر حسب معمول ’’کرپشن‘‘ اور ’’احتساب‘‘ کا شور ہے۔ یہ سب دیکھنے اور سننے والے بعض اوقات سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ملک بس خوشحالی اور ترقی کا گہوارہ بننے کو ہے یا پھر وہ حکمرانوں کی آپسی شعلہ بیانیوں اور نان ایشوز میں نفسیاتی طور پر الجھ جاتے ہیں ، بالخصوص ان کا تعلق اگر درمیانے طبقے سے ہو۔ اس پروپیگنڈا اور فریب کے پیچھے عوام کی وسیع اکثریت کی سلگتی ہوئی ضروریات کو انتہائی سفاکی اور عیاری سے چھپایا جاتا ہے۔
تعلیم کے شعبے کا جائزہ لیں تو اس مسلط سیاست کی تمام پارٹیاں 18ویں ترمیم (جسے جمہوریت کا عظیم کارنامہ قرار دیا جاتا ہے) کی آڑ میں اس بنیادی انسانی حق کو صلب کرنے اور لوٹ مار کا ہدف بنانے میں مصروف ہیں۔ سندھ سے لے کر بلوچستان، پنجاب اور پختونخواہ تک، ہر جگہ سرکاری تعلیمی اداروں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے یا سرکاری ملکیت میں رکھتے ہوئے فیسوں میں اضافے اور اساتذہ کی چھانٹی اور استحصال کے ذریعے نجی شعبے کی ساخت میں ڈھالا جا رہا ہے۔ سامراجی اجارہ داریاں اور قومی سرمایہ دار اب صنعتی شعبے میں شرح منافع میں گراوٹ کے پیش نظر تعلیم اور علاج کے شعبوں کو لوٹ لینے کے لئے دوڑے چلے آ رہے ہیں، سیاستدان اور ریاستی افسر کمیشن لیتے چلے جا رہے ہیں، عوام محروم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
آبادی کا ایک قلیل سا حصہ تو شاید دولت کے ترازو میں تلنے والی تعلیم خریدنے کی سکت رکھتا ہو لیکن نئی نسل کا بڑا حصہ نا خواندگی کے اندھیروں میں غرق ہو رہا ہے۔ مارکس نے واضح کیا تھا کہ ’’حالات انسانی شعور کا تعین کرتے ہیں‘‘۔ اس لئے ایک ایسے معاشرے میں ڈگریاں لے لینے سے بھی ’علم‘ حاصل نہیں کیا جاسکتا جہاں بھاری اکثریت غربت میں غرق اور تعلیم سے محروم ہو۔
ناخواندگی اور جہالت دو الگ چیزیں ہیں۔ محنت کش طبقہ صرف کتابوں سے نہیں سیکھتا۔ پاکستان جیسی سرمایہ داری کی پسماندہ اشکال میں تو تعلیم محنت کشوں کے لئے عیاشی بن جاتی ہے۔ لیکن وہ زندگی کے تجربات اور محنت اور سرمائے کے تضاد سے جنم لینے والے پیداواری عمل کے دوران وہ کچھ سیکھتے ہیں جو دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی بھی سکھانے سے قاصر ہوتی ہے۔ تاہم سماجی، ثقافتی اور سائنسی ترقی کے لئے مروجہ علوم بھی ناگزیر ہوتے ہے۔
نجکاری معاشرے کی بھاری اکثریت کو سہولیات یا بنیادی حقوق کے حصول سے برطرف کر کے وہ قہر مچاتی ہے کہ سارا معاشرہ انقلاب یا رد انقلاب کے چھوٹے بڑے دھاروں میں بہنے لگتا ہے۔ تحریکوں، انقلابی تنظیموں یا پارٹیوں کے عمل میں جو ادراک آج کے عہد میں تمام تر عذابوں سے گزر کر بھی حاصل کیا جارہا ہے وہ انقلاب کی تیاری میں کارآمد ثابت ہو گا۔ حکمرانوں کی دانش کا دور گزر چکا ہے، ان کی معیشت اور سماجیات تاریخی طور پر متروک ہے۔ ایک نئے دور کے آغاز کی امنگ بھی معاشرے کی کوکھ میں کروٹ لے رہی ہے۔ اس نظام کی سیاست اور دوسرے اداروں کی غلاظت جہاں سماج میں تعفن پھیلائے ہوئے ہے وہاں بغاوت کی چنگاریاں بھی بھڑک رہی ہیں۔ کل پیرا میڈیکل سٹاف، نرسز اور ینگ ڈاکٹرزمیدان میں آئے تھے، آج اساتذہ سراپا احتجاج ہیں۔ سرکاری شعبوں کے محنت کش بظاہر بے ترتیب وقفوں کے ساتھ متحرک ہو رہے ہیں، لیکن جلد یا بدیر پورے طبقے کو یکجا ہو کر آنا ہوگا۔ اس سے پہلے شاید 1968-69ء کی طرح طلبہ اور نوجوانوں کی تعلیم اور روزگار سے محرومی اس نظام کے کھلواڑ کا ادراک انہیں عطا کرے، جوان لہو کی توانائی پورے معاشرے کو ہلا کے رکھ دے اور مزدوروں، دہقاتوں اور غریبوں کے دبے ہوئے جذبات شعلہ بن کر بھڑک جائیں۔ یہی انقلاب کا آغاز ہو گا!