اداریہ جدوجہد:-
امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے حالیہ دورہ پاکستان نے سرمایہ دارانہ سفارت کی منافقت، پاکستانی اشرافیہ کی اطاعت اور امریکی سامراج کی بے بسی کو خوب بے نقاب کیا ہے۔ پاکستان کے کرپٹ حکمران (فوجی اسٹیبلشمنٹ سمیت) امریکہ سے زیادہ ’’امداد‘‘ نکلوانے کی چکر میں تھے جبکہ جان کیری یہ حقیقت جانتے بوجھتے ہوئے بھی ’’ڈو مور‘‘ پر زور دیتا رہا کہ وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتے۔ امریکی سامراج کا جھکاؤ واضح طور پر ہندوستان کے ’’مطالبات‘‘ کی طرف تھا جس کی وسیع و عریض منڈی کی اشد ضرورت امریکی ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو ہے۔
متضاد مفادات رکھنے والے امریکی سامراج اور پاکستانی ریاست کی ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں ’’شراکت‘‘ حسب توقع بے سود ثابت ہوئی ہے۔ 1979ء میں ڈالر جہاد سے جنم لینے والا دہشت گردی کا ناسور پھیلتا ہی چلا جارہا ہے۔سامراجی، ریاستی اور غیر ریاستی دہشت گردی کا گھن چکر 2001ء میں امریکی جارحیت کے بعد سے اور بھی خونخوار ہو گیا ہے۔
پاکستان کی ریاست اگر داخلی تضادات اور پیچیدگی کے باعث دہشت گردی کے خاتمے میں ناکام رہی ہے تو امریکی سامراج کی صورتحال بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ 9/11 کے بعد بش، چینی اور رمز فیلڈ کے ٹولے نے قومی پرستی کے نعرے لگا کر افغانستان پر حملہ کرنے میں کوئی دیر نہیں کی تھی۔بعد ازاں انتہائی ڈھٹائی سے جھوٹے الزامات لگا کر عراق پر بھی امریکی فوجیں چڑھا دی گئیں۔سامراج کے پالیسی ساز اپنی قوت کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے تھے۔ عراق اور افغانستان کے عوام پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کا کوئی حساب نہیں ہے۔ لاکھوں مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ بے گھر ہوگئے۔ان گنت زندگیاں برباد کرنے کے باوجود امریکی سامراج کا ’’مشن‘‘ بری طرح ناکام و نامراد ہوا۔ امریکی خزانہ خالی ہوگیا، فوج کی کمر تقریباً ٹوٹ گئی اور اسلامی بنیاد پرستوں کو پھلنے پھولنے کے نئے مواقع اور علاقے میسر آئے۔
عراق اور افغانستان کی جنگوں نے امریکی ریاست پر 5 ہزار ارب ڈالر کا اضافی قرضہ چڑھا دیا ہے۔یہ قرضہ فی امریکی شہری 16 ہزار ڈالر بنتا ہے۔ دونوں ممالک میں 25 لاکھ امریکی تعینات کئے گئے اور کئی افراد ایک سے زیادہ بار تعینات ہوئے۔ عراق اور افغانستان میں اب تک 57 ہزار امریکی فوجی ہلاک، زخمی یا عمر بھر کے لئے اپاہج ہو چکے ہیں۔ دنیا کو ’’محفوظ‘‘ بنانے کے نام پر کی جانے والی جارحیت نے مشرق وسطیٰ اور جنوب ایشیا کو انتشار اور شدید عدم استحکام سے دوچار کردیا ہے۔ عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر ’’اسلامک اسٹیٹ‘‘ کا قبضہ ہے جبکہ زیادہ تر افغانستان بدستور طالبان کے تسلط میں ہے۔باراک اوباما کی طرح امریکہ کی عسکری قیادت بھی واضح طور پر اعتراف کر رہی ہے ہیں یہ جنگ مزید کئی سال تک جاری رہے گی اور نیم فوجی، غیر تربیت یافتہ گروہوں کے سامنے دنیا کی سب سے طاقتور فوج بے بس ہے۔ سابق انٹیلی جنس افسر جم گورلے کے مطابق ’’اب یہ بات ناقابل تردید انداز میں واضح ہوگئی ہے کہ امریکی فوج اپنا ایک بھی اسٹریٹجک مقصد پورا نہیں کرپائی۔ جنگ ہماری فوجوں کی بدترین شکست پر منتج ہوئی ہے۔‘‘
افغانستان میں امریکی سامراج کی شکست عراق سے بھی زیادہ شرمناک ہے۔ یہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ بن چکی ہے اور دوسری عالمی جنگ سے چار گنا زیادہ عرصے سے امریکی فوجیں افغانستان میں مزاحمت سے برسر پیکار ہیں۔ 14 سال بعد اوباما نے سامراجی سفارت کی روایتی لچھے دار زبان میں فرمایا ہے کہ ’’جنگ ذمہ دارانہ طریقے سے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔‘‘ یہ جملہ جتنا بے معنی ہے اسی قدر بیہودہ بھی ہے۔
امریکی سیکرٹری دفاع چک ہیگل کے بقول ’’امریکی تسلط نے افغانستان کو محفوظ، جمہوری اور خوشحال مستقبل حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے…افغان ریاست کابل کا دفاع کر سکتی ہے…‘‘ باقی کے افغانستان کا ذکر کرنا موصوف شاید بھول گئے ہیں۔ چک ہیگل نے یہ بھی نہیں بتایا کہ سرکاری طور پر انخلا کے بعد بھی ’’جمہوری اور خوشحال‘‘ افغانستان میں دس ہزار امریکی فوجی بدستور تعینات اور ڈرون حملے مسلسل جاری رہیں گے۔ ان جنگوں نے سامراج کے حتمی آلہ کار کی حیثیت سے امریکی فوج کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکہ کے عسکری تجزیہ نگار ولیم گریڈر کے مطابق ’’ناقابل تسخیر ہونے کے خبط نے ہمیں ایسے تنازعات میں الجھا کے رکھ دیا ہے جن میں فتح ناممکن ہے۔‘‘
افغانستان میں کھلی شکست کی ہزیمت سے بچنے کے لئے امریکہ کو طالبان کے مختلف دھڑوں سے بھی مذاکرات کرنے پڑے ہیں تاکہ اس نازک مرحلے پر وسیع خانہ جنگی سے بچا جاسکے۔ بی بی سی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی کو اپنی حکومت بچانے کے لئے طالبان کو کئی حکومتی عہدے آفر کرنے پڑے ہیں: ’’جن تین آدمیوں کو صدر اشرف غنی حکومت میں شامل کرنا چاہتے تھے ان میں پہلا ملا ظریف ہے جو پاکستان میں طالبان کا سفیر رہ چکا ہے اور گزشتہ کچھ عرصے سے کابل میں نسبتاً کھلی زندگی گزار رہا ہے۔ دوسرا وکیل متوکل ہے جو طالبان کا سابق وزیر خارجہ ہے۔ تیسرا غیرت باہیر ہے جوکہ گلبدین حکمت یار کا قریبی رشتہ دار ہے۔‘‘ نمروز ، قندھار اور ہلمند میں طالبان کے نامزد گورنر تعینات کرنے کے لئے بھی مذاکرات کیے گئے ہیں۔یاد رہے کہ ان تینوں صوبوں میں ہی امریکی اور برطانوی فوجوں کا سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔ ’’ہم دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتے‘‘ کی بڑھک مارنے والے امریکی سامراج کی اس سے زیادہ تذلیل اور کیا ہوسکتی ہے؟ یہ مذاکرات بہر حال ناکام رہے اور طالبان نے حکومت کا حصہ بننے سے انکار کر دیاکیونکہ امریکہ کی کٹھ پتلی ’’جمہوری‘‘ حکومت کا انجام انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ وہ مستقبل قریب میں ہی پورے ملک پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ بی بی سی کے مطابق ’’اس بات کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ حکومت میں طالبان کی شمولیت سے مزاحمت ختم ہوسکتی ہے کیونکہ طالبان کے کئی کمانڈر ہر قسم کی مصالحت کے خلاف ہیں۔‘‘ یہ ہیں ’’دہشت کے خلاف‘‘ جنگ کے حقیقی ثمرات جس کا ایندھن لاکھوں انسان اب تک بن چکے ہیں۔
امریکی سامراج پاکستانی ریاست کو ’’مزید کرنے‘‘ (Do More) پر زور دے رہا ہے جبکہ بدعنوان پاکستانی حکمرانوں کا سارا زور ’’مزید امداد‘‘ پر ہے۔ شدید معاشی بحران اور خسارے سے دوچار امریکی ریاست اپنے حواریوں کی طرف مونگ پھلی کے دانے پھینکنے کے قابل بھی نہیں رہی ۔ پاکستان کے حکمران ایک طرف عوام کو آئی ایم ایف کے قرض تلے دفن کرتے جارہے ہیں تو دوسری طرف چین اور ’’برادر اسلامی ممالک‘‘ سمیت ہر سامراجی قوت کو اپنی ’’خدمات‘‘ بیچنے یا کرائے پر دینے کے لئے بیتاب ہیں۔ ملک کی اسٹریٹجک اہمیت، ریاستی ادارے، محنت کی منڈی، زرعی زمین اور عسکری قوت سمیت سب کچھ برائے فروخت ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ’’حب الوطنی‘‘ اور ’’ملکی سالمیت‘‘ کا درس بھی عوام کو دیا رہا ہے۔
یہاں کے مزدور، کسان اور نوجوان سامراجی ڈاکہ زنی اور مذہبی دہشت گردی کی بھٹی میں نسل در نسل سلگ رہے ہیں۔ حکمران طبقے کی معاشی دہشت گردی شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ ریاستی جبر، ثقافتی گھٹن، سماجی انتشار اور مذہبی بنیاد پرستی نے معاشرے کو مسخ کرکے رکھ دیا۔ قومی، جنسی، مذہبی اور سب سے بڑھ کر طبقاتی استحصال اپنے عروج پر ہے۔ محنت کش عوام فی الوقت خاموش ہیں لیکن جبر و استحصال کے سامنے ہمیشہ پسپا نہیں رہیں گے۔ سامراج کی وحشت اور بنیاد پرستی کی دہشت درحقیقت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ دونوں رجعتی قوتیں سرمایہ دارانہ نظام کی ناگزیر پیداوار ہیں۔ حکمران طبقے کے تمام دھڑے اس خونی کھیل میں برابر کے شریک ہیں جس میں عوام کا قتل عام بارود یا پھر بھوک اور غربت سے کیا جارہا ہے۔ محنت کش عوام کا اجتماعی شعور اس استحصال، جبر اور قتل و غارت گری کے طبقاتی کردار کا ادراک جلدنہ کہ بدیر حاصل کرے گا۔ سماج میں یہ معیاری جست محنت کشوں کی طبقاتی جڑت اور انقلابی تحریک کو جنم دے گی۔ طبقاتی جنگ میں فتح ہی محنت کش طبقے کو اس نظام کی ذلت اور محرومی سے نجات دلا سکتی ہے!