نیپال: حسین وادی میں موت کا رقص!

| تحریر: قمرالزمان خان  |

25 اپریل اور 12 مئی کو ریکٹر اسکیل پر بالترتیب 7.8 اور 7.3 کی شدت سے آنے والے زلزلے کے متعدد جھٹکوں نے دنیا کی خوبصورت ترین جگہ نیپال کو موت کی وادی میں تبدیل کردیا ہے۔ زلزلے کی پہلی سیریل میں اب تک معلوم اموات کی تعداد 9 ہزار کے قریب جبکہ 12مئی کو آنے والے زلزلے کے پہلے جھٹکے میں 82 سے زائد ہوچکی ہیں، اموات میں ہر روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ پہلے زلزلے کے فوراََ بعد 14000 زخمیوں کا تخمینہ لگایا گیا تھا، جس کو اب بیس ہزار سے زائد کہا جارہا ہے۔ نیپال میں انفراسٹرکچر اورطرز زندگی کی گراوٹ دیکھ کر بالخصوص مکمل زمین بوس ہوجانے والی بستیوں تک رسائی اور ریسکیو نہ ہوپانے کی وجہ سے درست طور پر اموات اور زخمیوں کا قطعی تخمینہ لگانا کسی کے بس میں نہیں۔

زلزلے کے جھٹکوں کے ساتھ آنے والی گڑاگڑاہٹ نے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے دلوں کو دہلا کر کمزور کیا ہوا ہے۔ بے بسی کا عالم یہ ہے کہ لوگ زلزلے کی آواز کے ساتھ ہی بھاگنے کی بجائے رونا شروع کردیتے ہیں۔ موت نے نیپال کے کل 75 اضلاع میں سے 32 کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ زلزلے کے دونوں مراکز ’’ایوریسٹ ‘‘کے بلند ترین پہاڑکے دائیں بائیں کے علاقے بنے، مگر ہندوستان اور چین کے متعدد علاقے بھی زلزلے کے ان جھٹکو ں کی زد میں آئے، جہاں سے بھی متعدد اموات کی تواتر سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ نیپال میں زلزلے آنا کوئی اچانک افتاد والا معاملہ نہیں ہے بلکہ نیپال ہزاروں سالوں سے زلزلوں کی زد میں ہے۔ 1934ء، 1988ء اور اب 2015ء میں آنے والے زلزلے زیادہ شدت کے حامل قراردیے جاتے ہیں جن میں ہزاروں اموات ہوئی، مگر زلزلوں کے چھوٹے موٹے جھٹکے لگتے رہتے ہیں۔ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ مسلسل حرکت میں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین کی ایک تہہ (انڈین ٹیکٹونک پلیٹ) آہستہ آہستہ ایک دوسری تہہ ( یوریشین ٹیکٹونک پلیٹ) کے نیچے دھنس رہی ہے۔ کرۂ زمین کی پرت پر موجود یہ دو بڑی سلیں دو انچ سالانہ کی شرح سے ایک دوسرے میں ضم ہو رہی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ماؤنٹ ایورسٹ اور اس کے ارد گرد کے پہاڑ آہستہ آہستہ اوپر سرک رہے ہیں جس کے باعث اس خطے میں جھٹکے محسوس ہوتے رہتے ہیں۔ برطانیہ کی اوپن یونیورسٹی کے جِیو سائنس کے شعبے کے پروفیسر ڈیوڈ رودری کے بقول ’یوریشئن پلیٹ ہمالیہ کے پہاڑوں کو انڈین پلیٹ کے اوپر آہستہ آہستہ دھکیل رہی ہے جس کے نتیجے میں دو تین مقامات ایسے ہیں جہاں یہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ چند مقامات جہاں پر زمین قدرے نرم ہے، وہ زیادہ سرکتے ہیں جس کے نتیجے میں زلزلے آتے ہیں۔ پہلے زلزلے کے بعد اب تک تین ہفتے سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود لاشیں نکلنے کا عمل جاری ہے۔ متاثرہ 32 اضلاع میں سے 12 اضلاع بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ تین لاکھ سے زیادہ عمارتیں پوری یا جزوی طور پر تباہ ہوئی ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ تباہ کن زلزلے سے 80 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 35 لاکھ لوگوں کو فوری طور پر کھانے اور پینے کے لیے پانی کی ضرورت ہے۔ نام نہاد عالمی برادری سے جتنی امداد پہنچی ہے وہ نیپال کے غربت زدہ سماج کی اشک شوئی کے قابل بھی نہیں۔ ابھی تک بڑی تعداد میں منہدم عمارات اور گھروں میں انسان دبے ہوئے ہیں، جن کو نکالنا تو درکنار وہاں تک پہنچنے کے لئے درکار ہوائی جہاز اور ہیلی کاپٹرز مطلوبہ تعداد میں میسر نہ آنے کی وجہ سے ریسکیوکا کام پہلے زلزلے کے ایک ہفتہ بعد ہی محدود کردیا گیا تھا۔ یہ ایک اور المیہ ہے کہ دبے ہوئے انسان ایک ایک سانس گنتے ہوئے دم توڑرہے ہیں۔

ڈھائی کروڑ آبادی والا نیپال قدرتی حسن اور دلپذیر نظاروں سے بھرا پڑا ہے، دنیا کی بلند ترین دس میں سے آٹھ چوٹیاں یہیں پر ہیں۔ چالیس بڑی اور دنیا بھر میں قابل ذکرپہاڑی چوٹیاں بھی نیپال کے ’’ہمالیائی سلسلے‘‘ میں ایستادہ ہیں۔ نیپال کی خوبصورتی اور قدرتی حسن کے برعکس آبادی غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں زندگی بسر کررہی ہے، تمام سماجی اور معاشی اشارئیے 180 ممالک کی فہرست میں آخری نمبروں پر ہیں۔ نیپال کی بادشاہت، جمہوریت اور نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں کے پاس نیپالی عوام کو غربت سے نکالنے کے لئے کوئی حل نہیں ہے۔ سب کا راستہ سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ پر مبنی عالمی سامراجی نظام ہے۔ زلزلہ زدہ نیپال میں لوگ خوف کے بعد پینے کے صاف پانی اور گندے پانی کی نکاسی کے مسائل کا شکار ہیں۔ گندے پانی کی وجہ سے وبائی امراض تیزی سے پھوٹ رہے ہیں جن سے اموات کی نئی سیریل جنم لے سکتی ہے۔ ماضی میں انگریز سامراج نے نیپال کے گورکھوں پر مبنی سب سے موثراور خوفناک فوجی یونٹس سے پورے برصغیر پر اپنے ظلم واستبداد کی دھاک بٹھائی تھی، 25 مئی کے ہولناک زلزلے کو بھی اسکی تباہی اور بربادی کی بنا پر ’’گورکھا زلزلہ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ گورکھا نام کا ضلع بھی سب سے زیادہ متاثر ہونے والے اضلاع میں شامل ہے۔ کچھ علاقوں میں زلزلہ سے علاقہ 100 فی صد تک تباہ ہوچکا ہے۔
عرصہ دراز سے چھوٹے بڑے زلزلوں کی وجہ سے پہلے سے ہی پسماندہ طرز تعمیر اور زلزلوں کا مقابلہ نہ کرنے والی عمارات کے ڈھانچے کمزور ہوچکے ہیں۔ اس لئے آفٹر شاکس سے بھی بڑے جھٹکوں کی طرح کے جانی اور مالی نقصا نات تواتر سے ہورہے ہیں۔ اس وقت بھی کٹھمنڈو، بھکتا پور، للت پور اوردیگر اضلاع میں گنجان آبادیوں کے درمیان ہزاروں مکان انتہائی مخدوش اور خطرناک حالت میں کھڑے ہیں۔ معمولی ریکٹر سکیل کا زلزلے کا جھٹکا نئی تباہی کو جنم دینے کے لئے کافی ہے۔ خوف زدہ آبادیاں کھلے آسمان تلے رہنے کو ترجیح دے رہی ہیں۔ زمین کی بلندترین جگہ پر انسان کس قدر پست بود وباش اور معاشرت کے ساتھ رہنے پر مجبور ہے، یہی سرمایہ داری نظام کا بھیانک اور انسان دشمن تضاد ہے۔ دنیا بھر سے سیاح ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنے اوراس طلسماتی پہاڑوں کا نظارہ کرنے آتے ہیں مگر یہاں کے رہنے والے انسانوں کی بے بسی، پسماندگی اور غربت کانظارہ زلزلے کی تباہ کاری نے کرادیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی معراج کے موجودہ عہد میں اگرچہ زلزلوں، سونامی، سمندری طوفانوں پر مکمل قابو تو نہیں پایا جاسکتا مگر ان آفات کی تباہ کاریوں کو ایک حد تک کنڑول کیا جاسکتا ہے۔ مگر اسکے لئے انسان کی زندگی کو سب سے اہم سمجھنا اور قراردینا ضروری ہے۔
471305606بدقسمتی سے سرمایہ داری نظام کے لئے سب سے اہم انسانی زندگی نہیں بلکہ ’’شرح منافع‘‘ ہے۔ زندگی بچانے کے اقدامات میں منافع کا پہلو پیچھے رہ جاتا ہے۔ اگر ایٹمی حملوں سے بچنے کے لئے حکمرانوں کے لئے محفوظ ’’کمین گاہیں ‘‘ بن سکتی ہیں تو پھر جاپان، نیپال، انڈونیشیا، کشمیر، کوئٹہ، ایران، ترکی اور دیگر درجنوں ممالک کے سینکڑوں خطرناک شہروں میں طرز تعمیر بدل کر انسانی جانوں کے زیاں کے خطرے کو کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ مگر سرمایہ دار کبھی ایسا کام نہیں کریں گے جس میں پیسے تو خرچ ہوں مگر اسکے بدلے میں منافع حاصل نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی ایک تہائی آبادی کو پینے کے لئے، زراعت بلکہ زندگی کی بقاء کے لئے پانی فراہم کرنے والے ’’کوہ ہمالیہ‘‘ کی گود میں زندگی بسر کرنے والے نیپالی زلزلہ زدگان پانی کی ایک ایک بوندکوترس رہے ہیں۔ نیپال تو اس وقت قدرتی آفت کی زد میں ہے مگر کٹھمنڈو ائیرپورٹ پر چوکنے گورکھا حکام ’’امدادی سامان‘‘ کو نہ جانے کن وجوہات پر آگے جانے سے پہلے کڑی جانچ پڑتال سے گزار رہے ہیں۔ سرمایہ داری کی ’’انسانیت‘‘، انسان دوستی اور ’’امداد‘‘ کے اندر کیا کیا چھپا ہوتا ہے؟ کٹھمنڈو ائیر پورٹ کا ماحول اور ’’درآمدی سامان ‘‘ کے لئے معمول کی جانچ پڑتال سے اس صورتحال کو سمجھا جاسکتا ہے۔ چیکنگ کی استثنا کے مطالبے ثابت کرتے ہیں کہ جاسوسی کرنے یا جاسوسی کا خطرہ محسوس کرنے والوں کو مرتے، بلکتے انسانوں اور بے بسی کی فضا سے زیادہ اپنے ’’مفادات‘‘عزیز ہیں۔ چین ‘پاکستا ن اور ہندوستان کے حکمران بھی آفت کی اس گھڑی کو اپنے سامراجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ امدادی سامان سے لیس فوجوں کی زلزلہ زدہ علاقو ں میں موجود گی از خود خفیہ گھناؤنے مقاصد کو ظاہر کرتی ہے۔ جو فوجیں اپنے ممالک میں عوام دشمن کاروائیو ں میں ملوث ہوں اور متعددفوجی آپریشن جاری و ساری ہوں وہ بیرونی ملک میں انسانی ہمدردی کے تحت نہیں بلکہ اپنے تزویراتی مقاصد کی ترویج کے لیے جاتی ہیں۔ اتنے بڑے پیمانے پر المیے کے بعد بھی حکمران طبقات کی ہوس ختم ہونے کی بجائے بڑھی ہے جس کی بنیاد منافع خوری کا یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔

پہاڑوں، پانی کے ذخائر، گلیشیئرز، قدرتی وسائل، دلکش نظاروں کی جنت میں دوزخ سے بری زندگی اور اکیسویں صدی میں قرون وسطیٰ کی معاشرت اور انفراسٹرکچر ثابت کرتی ہے کہ سرمایہ داری نظام ’’انسانوں‘‘ کی بجائے منافع اور شرح منافع کمانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لونڈی کا کردارادا کررہا ہے۔ زلزلہ پروف رہائش گاہیں بھی بنائی جاسکتی ہیں، انتہائی خطرے کی زد میں شہروں کو محفوظ جگہوں پر منتقل کرنے کے وسائل بھی موجود ہیں اور کسی سونامی یا طوفان کی آمد سے قبل بڑے پیمانے پر آبادیوں کو محفوظ مقامات پر منتقل بھی کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس سے بھی اہم بات ہے کہ ایسی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر وسائل خرچ کرنے کی ضرورت ہے جو ٹیکٹونیک پلیٹس کے ٹکرانے، رگڑ پیداکرنے اور اس عمل کے نتیجے میں بے پناہ توانائی کے اخراج کو انسان کے خلاف بربادی پھیلانے والے عامل کی بجائے اسی طرح بدل دیا جائے جیسے پانی کی منہ زور طاقت کو کافی حد تک انسان مخالف عامل سے انسان دوست طاقت میں تبدیل کیا گیا۔ مگر اس کے لئے صرف ایک ہی تبدیلی سب سے پہلے ضروری اور لازم ہے۔ وہ یہ کہ دھرتی کے تمام وسائل خواہ وہ قدرتی وسائل ہوں یا انسانی محنت کی شکل میں، کا استعمال ملٹی نیشنلز، ذاتی یا مخصوص گروہوں کے مفادات کی بجائے تما م نسل انسانی کے مشترکہ مفادات کے لئے کیا جائے۔ کیوں کہ ذاتی ملکیت کی موجودگی میں ادویات بیماروں کے لئے استعمال نہیں ہوسکتیں، تعمیراتی سامان سے زلزلہ سے بچانے والی عمارات نہیں بنائی جاسکتیں، حتیٰ کہ پینے کا صاف پانی تک مہیانہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ یہ سب بیچنے کے لئے بنائی جاتی ہیں، انسانوں کی ضروریات کے دام وصول کئے جاتے ہیں۔ سرمایہ داری نظام اور اسکو قائم رکھنے والی قوتیں نیپال سمیت دنیا بھر کی تمام قدرتی آفات کا شکار ہونے والے انسانوں کے نقصان کی ذمہ دار ہیں۔ دولت کی پیدائش اجتماعی عمل کے ذریعے کی جاتی ہے جبکہ اصراف انفرادی عمل بنادیا گیا ہے۔ یہ پاگل پن، دنیا کو تباہی سے دوچار کررہا ہے۔ برصغیر کو ماضی میں ’سونے کی چڑیا‘ اسکے وسائل اور دولت کی بنیاد پر کہا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ پچھلے دس ہزار سالوں میں 32 کے قریب سامراجی حملہ آوروں نے یہاں لوٹ مار کی غرض سے حملے کئے۔ وہ وسائل آج بھی موجود ہیں جن پر اقلیتی طبقے کا قبضہ ہے۔ اس خطے سے ذاتی ملکیت کے نظام کو ختم کرکے ہی وسائل کو انسانی مفادات کے لئے خرچ کیا جاسکتا ہے تاکہ سانجھ کے سماج میں مشترکہ مفادات کے لئے تما م وسائل بروئے کارلائے جائیں اور اسی دنیا میں خیالی جنت سے کروڑوں گنا بہتر حقیقی جنت تعمیر کی جاسکے۔

متعلقہ:

عذابوں کے سمندر میں دریاؤں کا سیلاب!

کشمیر، جسے سرمایہ داری نے تاراج کر ڈالا!