پاکستان:معاشی انہدام، سیاسی زلزلوں اور سماجی دھماکوں کی طرف گامزن

[تحریر:پارس جان]
پاکستان کی جو اس وقت حالتِ زار ہے اس کا ذمہ دار نہ تو کوئی شیطان ہے اور نہ ہی کوئی رحمان اسے حالیہ بحران سے نکال سکتا ہے۔بلکہ یہ ایک خونی اور وحشتناک نظام کے شکنجے میں پھنسی انسانیت کی دل سوز روداد ہے۔یہ ایک قریب المرگ درندہ صفت سرمایہ دارانہ نظام کی ہٹ دھرمی اور کرم فرمائی ہے جو انسانی جانوں اور جذبات کو بھی اپنی شرح منافع کی بڑھوتری کے لیے اوزار کے طور پر استعمال کرنے کے باوجود جب اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا تو پھر اس نے نسلِ انسانی کی بقا پر ہی جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔یہ نظام اور ریاست نا قابلِ حل تضادات میں پھنس چکے ہیں۔اس معاشی اور سیاسی جکڑبندی میں یہ انتشار اور خلفشار فروعی،جزوی یا مصنوعی نہیں بلکہ حقیقی اور ابدی شکل اختیار کر چکا ہے۔یہ درحقیقت دو دنیاؤں کی رسہ کشی ہے۔میڈیا کی تخلیق کردہ جعلی اور چمکیلی دنیا کے بوجھ تلے ایک زندہ،جیتا جاگتا اور زندگی اور موت کی کشمکش سے دوچار انسانی سماج ہے۔وہ سطح پر نمودار ہونا چاہتا ہے۔ انسانیت کو اس بند گلی سے باہر نکالنا چاہتا ہے مگر اس کی حقیقی قوت یعنی محنت کش طبقہ ابھی مکمل طور پر تیار نہیں ہو پا رہا۔طبقاتی جنگ ایشوز اور نان ایشوز کے مسلسل اور متواتر تصادم میں الجھ کر رہ گئی ہے مگر پھر بھی جاری و ساری ہے۔ایک طبقاتی سماج میں یہ رک بھی تو نہیں سکتی۔
حقیقی ایشوز اور سماجی مسائل کا ایک انبار ہے۔پانی،بجلی،گیس،امن و امان،روزگار ناپید ہو چکے ہیں۔اشیائے خور دو نوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔کونسی بیماری ہے جو یہاں پھیل نہیں رہی مگر علاج خریدنے کی استطاعت بھی رخصت ہو چکی۔ابتدائی تعلیم اول تو نصف سے زائد آبادی کو میسر ہی نہیں اور جو دستیاب بھی ہے اس کا معیار قابلِ رحم ہے۔علم کا لیبل لگا کر جہالت بھی انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جا رہی ہے۔حال ہی میں وفاقی حکومت کے 8000 سے زیادہ گھوسٹ سکولوں کا سکینڈل بھی منظرِ عام پر آ گیا ہے۔مہنگائی کا عفریت سماجی تانے بانے کو کھوکھلا کر رہا ہے۔ خونی اور جذباتی رشتے ٹوٹ کر بکھر رہے ہیں۔ٹرانسپورٹیشن نہ صرف انتہائی مہنگی ہو چکی ہے بلکہ انفراسٹرکچر کی بوسیدگی کی وجہ سے سفر کرنا ایک روحانی،جسمانی اور نفسیاتی اذیت کی شکل اختیار کر چکا ہے۔سینی ٹیشن اور نکاسی کا نظام مکمل برباد ہو چکا ہے۔گلیوں اور شاہراہوں پر جگہ جگہ غلاظت اور تعفن نے سانس لینا تک محال کر دیا ہے۔مگر حاوی فکر،دانش،سیاست،اخلاقیات،مذہب،فن،ادب، ثقافت،نصاب سب مل کر نہ صرف یہ کہ ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کر رہے بلکہ ان کو حل کرنے اور اس عذاب سے نجات حاصل کرنے کی خواہش،جستجو اور مطالبے کا ہی گلا گھونٹ رہے ہیں۔
اخباری کالم زیادہ تر شعور کو پست کرنے کے لیے لکھے جاتے ہیں اور اس کی مناسب قیمت وصول کی جاتی ہے۔ٹاک شوز میں زرخرید کٹھ پتلیاں لفظوں اور زخموں کی تجارت میں مصروف ہیں۔موسیقی کانوں میں رس کی جگہ زہر گھول رہی ہے۔میڈیا رجعت اور قدامت کا علمبردار بن کر روح اور احساس کو مجروح کر رہا ہے۔نان ایشوز کی بھرمار نے تصنع اور جعلسازی کی سب حدوں کو پامال کر دیا ہے۔عدلیہ کی خودمختاری، قومی سلامتی، پارلیمان کی بالادستی، جمہوریت کا دفاع، آئین کا تقدس اور اس قسم کی دیگر بکواسیات سن سن کر لوگوں کے کان پک گئے ہیں۔ہر ایک عوامی ایشو پر درجنوں نان ایشوز کی تہہ چڑھا دی گئی ہے۔ایشوز اور نان ایشوز تہہ در تہہ باہم برسرِ پیکار ہیں۔یہ بالکل زمین کی پرتوں کی طرح ہے۔جیسے زمین کی اوپری سطح کے نیچے بے شمار باریک پرتیں ہوتی ہیں جو جگہ بدلتی رہتی ہیں اور بالآخر زلزلے کا موجب بن جاتی ہیں۔پاکستانی سماج کی کیفیت بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ہر ایشو کے اوپر ان گنت نان ایشوز کی پرتیں ہیں جو متغیر اورمتحرک ہیں۔سارے کا سارا پاکستان انہی فالٹ لائنز پر واقع ہے۔وقتاً فوقتاً یہ پرتیں اوپر نیچے ہو کر چھوٹے چھوٹے سماجی زلزلوں کو جنم دیتی رہتی ہیں۔عام طور پر ان کا اظہار رجعتی شکلوں میں ڈھل جاتا ہے۔اوپری سطح ظاہری طور پر ابھی خاموش اور پرسکون ہے۔اس میں کوئی بہت بڑی ہلچل نہیں ہے۔مگر ایک باریک بینی پر مبنی مشاہدے کی بنیاد پر بہت آسانی سے ایک غیر معمولی سماجی زلزلے کی پیشگوئی کی جا سکتی ہے۔مگر ریکٹر سکیل پر اس ممکنہ بھونچال کی شدت کا اندازہ لگانا مشکل ہی نہیں ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

رینگتی معیشت
میڈیا میں جس حقیقت کو سب سے زیادہ نظر انداز کیا جاتا ہے وہ معیشت کا آئے روز گہرا ہوتا ہوا زوال ہے۔جھوٹے اعداد وشمار اور فرضی قیاس آرائیوں کے ذریعے ایک مصنوعی اعتماد حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ خود فریبی کی انتہا ہے۔توانائی کے بحران پر سنجیدگی سے کوئی بات کرنے کو تیار ہی نہیں۔IPP’s کی بدمعاشی کے آگے حکمران بے بس اور لاچار بھی ہیں اور حصے دار بھی۔ بے شمار منافعے نچوڑ لینے اور سبسڈیز سے مستفید ہونے کے باوجود وہ حکومت سے مزید 61 ارب روپے کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ بجلی کی پیداوار کو سوفیصد کیا جا سکے۔اگر یہ رقم دے بھی دی جاتی ہے جس میں یقیناًمناسب کمیشن تمام عہدیداروں کو ملے گا تو کچھ عرصے بعد اس سے بھی بڑا مطالبہ سامنے آئے گا۔لیکن قومی خزانے میں اس کی گنجائش ہی نہیں ہے۔گردشی قرضہ پہلے ہی 600 ارب سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔بیرونی سرمایہ کاری سکڑتی سکڑتی ایک ارب ڈالر کے قریب رہ گئی ہے۔ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 11ارب ڈالر کی خوفناک حد تک کم ہوچکے ہیں۔ معیشت کو زندہ رکھنے کا واحد راستہ قرضے ہیں یا پھر پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اور لگاتار اضافہ ہے۔ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں تیزی سے گری ہیں۔یہاں بھی تھوڑی بہت کمی کر کے اب پھر آہستہ آہستہ قیمتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ دیگر معاشی عوامل کو ملا کر دیکھا جائے تو قیمتوں میں جز وقتی گراوٹ زیادہ خوشگوار نتائج کو جنم نہیں دے سکتی۔عمومی رجحان قیمتوں میں بڑھوتری کا ہی ہے اور رہے گا۔اگرچہ ڈالر کی قیمت بھی غیر مستحکم ہے مگر روپے کی تقابلی قیمت میں پھر بھی گراوٹ جاری ہے۔حکومت سٹیٹ بینک کو ڈکٹیٹ کر کے مزید نوٹ چھاپنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔اس سے افراطِ زر میں مزید اضافہ ہو گا جو پہلے ہی دراصل 25 فیصد (غیر سرکاری ) سے تجاوز کر چکا ہے۔یوں روپیہ انتہائی سستا ہو جائے گا۔پہلے ہی تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔بیرونی ادائیگیاں عدم توازن کا شکار ہیں۔داخلی قرضے سارے کے سارے بینکاری نظام کے لیے خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔صرف 22 جون سے یکم جولائی تک تقریباً 11 کھرب روپے کے قرضے سٹیٹ بینک اور کمرشل بینکوں سے حاصل کیے گئے۔ 90 ارب روپے کے بانڈز کا اجرا بھی کیا گیا مگر مالیاتی خسارہ مسلسل بڑھتا جا رہا ہے۔ مالیاتی خسارہ بھی بڑھ رہا ہے۔ خسارے کے بجٹ کا خسارہ بھی مزید بڑھے گا۔ حکومت بجٹ خسارے کوقابو کرنے کے لیے بہت سی انعامی بانڈز سکیم متعارف کرا رہی ہے مگر یہ زیادہ پائیدار حکمتِ عملی نہیں ہے۔FBR کی تمام تر بہتر کارکردگی کے باوجود گزشتہ برس کے ٹیکس اہداف میں 32ارب سے زائد کا خسارہ ہے۔انتخابی فوبیے کے پیشِ نظر حکومتی اخراجات میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ متوقع ہے۔یوں بحران کو انہدام میں تبدیل ہونے میں شاید زیادہ وقت نہ لگے۔
ایسی صورتحال میں بہت جلد معاشی ٹیم کو IMF سے رجوع کرنا پڑے گا اور اگر IMF سے نئے سٹینڈ بائی پروگرام پر اتفاقِ رائے ہو جاتا ہے اور دیگر بیرونی امداد بھی حاصل کر لی جاتی ہے تو جزوی یا وقتی طور پر معیشت کو ضرور سہارا ملے گا مگر جن شرائط پر یہ قرضے اور امداد حاصل کی جائے گی وہ شرائط انہدام کو تاخیر زدہ کر کے آنے والے دنوں میں اور بھی زیادہ مشتعل کرنے کا باعث بنیں گی۔حکومت کی قرضے واپس کرنے اور سود کی ادائیگی کی استطاعت مسلسل سکڑ رہی ہے۔پہلے ہی بجٹ میں سب سے بڑا حصہ قرضوں کے سود کی ادائیگیوں کی مد میں رکھا گیا ہے۔اس بات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ مستقبل میں پاکستان کو دیوالیہ قرار دے دیا جائے۔16 جولائی کے روزنامہ جنگ میں شائع ہونے والی کریڈٹ ریٹنگ کی عالمی ایجنسی موڈیز انویسٹر سروس نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ آئندہ ایک یا دو سال میں پاکستان کے نادہندہ ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔اس وقت پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ CAA1 ہے جو تشویشناک حد تک خراب ہے۔ حتیٰ کہ انگولا، بنگلہ دیش،ایل سلواڈور، مصر، بوٹ سوانا، نیمیبیا،فیجی،ہنڈراس،کمبوڈیا اور گوئٹے مالا جیسے ممالک بھی پاکستان سے بہتر ہیں۔اسی رپورٹ میں مزید زور دیا گیا ہے کہ کمرشل بینکوں کو بھی اپنی پالیسی کا از سرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ایسی صورتحال میں اگر ملک کو پھر کسی قدرتی آفت سیلاب یا زلزلے وغیرہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو انفراسٹرکچر اور خاص طور پر زراعت کی مزید بربادی سے قحط سالی اور سماجی انتشار کے راستے مزید ہموار ہو جائیں گے۔

ریاست کا داخلی تناؤاور بیرونی دباؤ
ایک دفعہ پھر پاکستان کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے سوال پر بہت زیادہ شور و غل کیا جا رہا ہے۔ٹائی کوٹ میں ملبوس ذہین معزز مبصرین اور ناقدین اس مملکتِ خداداد کی سالمیت کے لیے کافی پریشان دکھائی دیتے ہیں اور وہ غور وفکر میں مشغول ہیں کہ کیسے اس عظیم ریاست کو بچایا جا سکے۔ریاست کے تمام ادارے ایک طرف تو آپس میں شدید متصادم ہیں تو دوسری طرف خود اندر سے بھی شکست و ریخت کا شکار ہو رہے ہیں۔ہر ادارہ دوسرے سے لڑتے لڑتے خود اپنے آپ سے لڑنا شروع کر دیتا ہے۔علاقائی اور ملکی قوتوں کے لیے اتنی نحیف اور کمزور ریاستیں ہمیشہ اپنے مفادات کے لیے بہترین تجربہ گاہ ثابت ہوتی ہیں۔جیسے ایک بے یار و مددگار نوجوان اور حسین لڑکی پر سب کو بے انتہا ترس اور پیار آتا ہے اور سب اپنی اپنی خدمات پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔بظاہر تو اس وارفتگی کے پیچھے انسانی جذبہءِ ایثار کارفرما ہوتا ہے مگر درپردہ انتہائی حیوانی عزائم سر پٹخ رہے ہوتے ہیں اور ہر کوئی ہمدردی کا نقاب اوڑھ کر اس دوشیزہ کی عزت لوٹنے کے چکر میں ہوتا ہے۔یہی حال اس وقت پاکستان کی معاشی طور پر دم توڑتی ہوئی اور منتشر ہوتی ہوئی لیکن بیک وقت بے شمار قدرتی اور جغرافیائی وسائل سے مالامال ریاست کا ہے۔امریکہ کے ساتھ جزوی تناؤ میں دیگر قوتیں اسی طرح ان وسائل کی لوٹ مار میں مگن ہیں اور اس لوٹ مار سے ریاست کا عدم استحکام مزید بڑھتا جا رہا ہے۔اور پھر امریکہ کو بھی نئے اور پرانے وفاداروں کی کمی نہیں ہے بلکہ جتنے لوگ ان کے دائرہِ اثر سے نکل کر جاتے ہیں اس سے زیادہ دوسرے دروازے سے داخل ہو جاتے ہیں۔یوں تو تمام سامراجی قوتیں اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی ہیں مگر ’پاک چین دوستی ‘ کا تو کوئی جواب ہی نہیں۔
پاکستان چونکہ ایک قومی ریاست سے زیادہ ایک جبری وفاقیت پر مبنی ملک ہے جس میں ماضی کی باقیات اور مستعار لی گئی جدیدیت کے ناجائز تعلقات سے جتنی محرومیوں نے جنم لیا ہے ان میں بیرونی قوتوں کے لیے مداخلت کے انتہائی آسان،سستے اور مضبوط امکانات موجود ہیں۔ایک طرف حکمران طبقے کی پرلے درجے کی ثقافتی گراوٹ اور ریاستی اداروں کی اشرافیہ کی کاسہ لیسی کی خصلت کی وجہ سے یہاں ہر کوئی کسی بھی وقت کسی کے بھی ہاتھوں بکنے کے لیے تیار رہتا ہے اور پھر اگر اس سے بھی زیادہ معاوضے کی پیشکش کر دی جائے تو مخالف فریق کے ساتھ پیار کی پینگیں بڑھانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔یوں ہر لمحے ریاستی ادروں میں خلفشار بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔مگر دوسری طرف نیچے سماجی عدم توازن بھی اتنا گہرا ہے کہ قومی محرومیوں اور مذہبی اشتعال کو مزید مشتعل کرتے ہوئے سماج کی لمپنائزڈ پرتوں تک سستی رسائی حاصل کرنا بے حد آسان ہو جاتا ہے اور اس منڈی میں پہلے ہی نامور اور مصدقہ دلال موجود ہیں جن کی ریاستی پشت پناہی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی اور یوں ان پریشر گروپوں کو نہ صرف سیاسی دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر ان کو مسلح کر کے ایک خونی کھلواڑ کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔عالمی اسلحہ ساز ادارے بھی اس سارے عمل کی پشت پر موجود رہتے ہیں اور بے شمار معصوم اور نہتے انسانوں کو اپنی جانوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔
حال ہی میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ منافرتوں میں درجنوں معصوموں کو گلگت، بلوچستان،کراچی میں قتل کیا گیا ہے۔آنے والے دنوں میں اس درندگی کو ملک کے طول وارض تک بڑھا نے کی کوشش کی جائے گی اور انفرادی ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ امام بارگاہوں اور عبادت گاہوں کو بھی نشانہ بناکے خون کی ہولی کھیلی جا سکتی ہے مگر اس درندگی سے ملائیت کی وحشت کے خلاف عوام کی نفرت مزید بڑھے گی اور یہ فرقہ وارانہ سوچ اب چھوٹی سی عوامی حمایت بھی کبھی حاصل نہیں کر پائے گی۔اسی طرح قومی اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔نئے صوبوں کے لیے اور ان کے خلاف مصنوعی تحریکوں کے ذریعے اجتماعی شعور کو مسخ کیا جا رہا ہے اور اس سارے پتلی تماشے کی ڈوریاں پھر کسی نہ کسی ریاستی ایجنسی کے ہاتھ میں ہوتی ہیں جو خود کسی سامراجی قوت کی دلالی کے فرائض سر انجام دے رہی ہوتی ہے۔ان ریاستی اداروں کا یہ ٹکراؤ ایک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔خودکش حملے اور مختلف ایجنسیوں اور سکیورٹی فورسز پر ایک دوسرے کی خونریزی مزید بڑھ سکتی ہے۔پشتونخواہ اور بلوچستان میں دھماکے پھر معمول بن گئے ہیں۔یہ کیفیت ایک دفعہ پھر دیگر صوبوں اور شہروں کا رخ کر سکتی ہے۔
ریاست کے معاشی انحصار اور سیاسی خصی پن نے بالآخر ایک طویل ٹوپی ڈرامے کے بعد ریاست کو نیٹو سپلائی بحال کرنے پر مجبور کر ہی دیا۔یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ یہ کوئی اصولوں کی جنگ نہیں تھی بلکہ سیدھی سیدھی مال کی تقسیم کے اوپر مختلف قوتوں کی آپس میں ناراضگی تھی جس کو بہت سارے’خیر خواہان‘ کی رضامندی کے بغیر ہی ختم کرنا پڑ گیا ہے۔اس کے عوض کولیشن سپورٹ پروگرام کے تحت 2 ارب ڈالر کے لگ بھگ وصول کیے جانے کی امید ہے اور ساتھ ہی IMF سے بھی معاملات کرنے کی راہ ہموار ہو گی۔نیٹو سپلائی میں تعطل کے اس دورانیے میں جتنی بھی گفت و شنید جاری رہی اس میں انسانی جانوں کے ضیاع اور قومی خود مختاری جیسے ایشو محض عوام کی دل پشوری کے لیے میڈیا پر اچھالے جاتے رہے جبکہ اندر ونِ خانہ ہر ایک ٹینکر پر معاوضے پر تکرار چلتی رہی۔اور با لآخر ہیلری کو کہنا پڑا کہ ہم جائز معاوضہ دینے کے لیے تیار ہیں مگر بھتہ نہیں دیں گے۔مجبوراً اسٹیبلشمنٹ کے رال ٹپکاتے ہوئے بھیڑیوں کو اپنی منشا سے بہت کم پر ہی اکتفا کرنا پڑگیا۔یہ سیدھی سیدھی انسانی جانوں کے اوپر سودے بازی کی جا رہی تھی اور اس دورانیے میں اور اس کے بعد بھی ڈرون حملے پوری شدو مد سے جاری و ساری ہیں۔
مگر اس سارے عمل میں فوج کے اندر اور باہر فوجی اشرافیہ کا اصلی چہرہ بری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ایک تو عوام نے اس سارے عمل کو بہت قریب سے دیکھا اور وہ یہ سوچنے پر ضرور مجبور ہوں گے کہ نیٹو سپلائی کو اس وقت بند کیا گیا تھا جب امریکیوں نے اندر گھس کر سلالہ میں فوجی پوسٹ کو نشانہ بنایا۔اس سے پہلے جب عام لوگوں کو ڈرون حملوں میں قتل کیا جاتا رہا تو محض اخباری بیانات تک ہی احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا رہا اور سپلائی بحال کرتے وقت بھی ڈرون حملوں پر پابندی کی کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔دوسری طرف فوج کے اندر بھی محنت کش اس سارے عمل سے آنے والے دنوں میں اہم اسباق حاصل کریں گے۔کیونکہ جتنی بھی لوٹ مار فوجی طریقوں سے کی جا رہی ہے اس سے صرف دو فیصد افسران کی ہی پانچوں انگلیاں گھی میں ہیں باقی فوج کے اندر محنت کش نہ صرف یہ کہ بہت برے حالاتِ زندگی میں کام کرنے پر مجبور ہیں جس کی ایک مثال ہم گیاری حادثے میں دیکھ چکے ہیں بلکہ انہیں عوامی نفرت اور طنز و تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے اس بات کے بھی خدشات تقویت اختیار کرتے جا رہے ہیں کہ اگر سماج میں ایک عوامی بغاوت کا لاوا پھٹتا ہے اور ایک بڑی انقلابی قوت کی غیر موجودگی میں محنت کش اقتدار پر قبضہ کرنے میں فوری طور پر کامیاب نہیں ہوتے تو اس معرکے کے طوالت اختیار کرنے پر فوج کی نچلی صفوں سے جونیئر افسران کے ساتھ مل کر اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فوج کا مورال بلند کرنے کے لیے انہیں حال ہی میں ینگ ڈاکٹرز کی شاندار تحریک کو توڑنے کے لیے بھی استعمال کیا گیا تاکہ زرخرید میڈیا کے ذریعے فوج کے حق میں عوامی جذبات کو ابھارا جا سکے اور ساتھ ہی فوج کے ٹاؤٹ ملاؤں اور کالعدم مذہبی تنظیموں سے نیٹو سپلائی کے خلاف ایک تحریک بھی شروع کروائی جا رہی ہے تاکہ اس خجالت کو کم سے کم کرکے دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کیا جا سکے اور اپنے براہِ راست یا بلواسطہ اقتدار کو طول دیا جا سکے۔لیکن اگر آئندہ فوج کبھی اقتدار کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گی تو اس سے اس سارے فوجی نظم و نسق پر کاری ضرب لگنے کے امکانات اور بھی روشن ہو جائیں گے۔
ان سارے خطرات سے نمٹنے کے لیے عدلیہ اور میڈیا کی خدمات حاصل کی جاتی رہی ہیں۔عدلیہ درحقیقت ریاست کے اداروں پر عوامی اعتماد کو بحال کرنے کی ان تھک کوششوں میں مصروف ہے مگر مڈل کلاس کی چند پرتوں کے علاوہ اسے بڑے پیمانے پر کامیابی نصیب نہیں ہو پائی۔اسی لیے وہ اور زیادہ جارحانہ اقدامات کرنے پر مجبور ہو رہی ہے اور حال ہی میں ISI کے سیاسی ونگ کو ختم کرنے کے احکامات بھی صادر فرمائے گئے ہیں۔اسی کشمکش میں چیف جسٹس کے بیٹے کو ننگا کیا گیا تو ساتھ ہی اس نظام کے سارے وظیفہ خوار اور نام نہاد معززین بھی اپنے مکروہ چہروں کے ساتھ بے نقاب ہو گئے۔یہ لڑائی جوں جوں آگے بڑھے گی اور بھی اس نظام اور اس کے کارندوں کو سرِ عام رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عدلیہ سمیت اس ریاست کے کسی بھی ادارے میں کرپشن ختم ہونے کی بجائے اور بڑھانا خود اس نظام کے بقا کی ضرورت بن چکا ہے۔چیف جسٹس اور ان کی ٹیم کو جس ریاست کو بچانے کا کام سونپا گیا ہے وہ غیر فطری ریاست اب منطقی انجام کی طرف رواں دواں ہے۔ایک کی جگہ دس وزیرِ اعظم بھی ہٹا دیئے جائیں تو اب کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کیا جا سکتا۔ہر نیا وزیرِ اعظم پہلے سے زیادہ عوام دشمن پالیسیاں لاگو کرنے پر مجبور ہو گا۔مقدس عدلیہ کو شاید اس بات کا اندازہ نہیں کہ گردوں کے کاروبار پر پابندی کے احکامات دے دینے سے گردہ فرشی میں کمی نہیں ہو سکتی بلکہ اعضا بیچ کر بہت سارے بے روزگار نوجوان اپنے بزرگوں کا علاج اور دیگر بنیادی ضروریات کی تکمیل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اس نظام کے اندر یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جائے گا۔

انتخاب یا انقلاب
آج کل انتخابات کی تیاریاں عروج پر ہیں۔ ریاستی اداروں کی تشویش دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے۔وہ نئے سیٹ اپ کے لیے سارے اہم فریقین کو متفق کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ابھی تک ان کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔ہر آئے روز انتخابات کی ضرورت شدت اختیار کرتی جا رہی ہے مگر نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے پیچیدگیاں بھی بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ اول تو اس سارے بحران میں ریاست کے پاس پیپلز پارٹی کی نام نہاد عوامی حکومت سے زیادہ کوئی بہتر متبادل موجود ہی نہیں۔ پھر دایاں بازو اس حد تک کمزور ہے کہ وہ اس پارلیمنٹ کے اوپر فیصلہ کن حملہ کرنے سے قاصر ہے۔اس پارلیمنٹ میں تمام اسٹیبلشمنٹ کے دلال ہی تو ہیں پھر یہ کیسے ہو گیا کہ حکومت توہینِ عدالت بل آسانی سے پاس کروانے میں کامیاب ہو گئی۔ ق لیگ اور ایم کیو ایم کو حکومت گرانے کے لیے جب چاہے استعمال کیا جا سکتا ہے مگر خود ان پارٹیوں اور امریکی اور ریاست کے مختلف دھڑوں کے مفادات بھی اسی سیٹ اپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور آئندہ سیٹ اپ پر شکوک و شبہات وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
عمران خان کو سب کا متفقہ وزیرِ اعظم بنانے کی کوشش بری طرح ناکام ہوئی ہے اسی لیے وہ اب یہ کہنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ انتخابات میں کسی کے ساتھ بھی اتحاد کیا جا سکتا ہے۔ریاست کے سنجیدہ دھڑے دوبارہ نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں مگر وہ پہلے کی نسبت آج کئی گنا زیادہ کمزور ہو چکا ہے اور اس کی مقبولیت کا گراف بھی باقی تمام کی طرح نیچے جا رہا ہے۔سب سے بڑے صوبے میں بد انتظامی اور بد امنی نے ماضی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ایسے میں تمام صوبوں کے قوم پرستوں کی اکثریت کو نواز شریف کے ساتھ اتحاد کرنے پر آمادہ کیا جا رہا ہے اور چونکہ وہ نظریات سے توبہ تائب ہو چکے ہیں اس لیے اس میں کسی قسم کی مشکلات پیش نہیں آ رہیں۔ ضرورت پڑنے پر ملاؤں کو بھی ایک نئے اتحاد میں پرو کر نواز شریف کی گود میں بٹھایا جا سکتا ہے۔یوں دوبارہ نوازشریف کو بیساکھیوں کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جا رہا ہے۔اگر پھر بھی مسئلہ حل نہیں ہوتا تو عمران خان کو بھی اس اتحاد میں شامل کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔لیکن ان تمام آپشنز پر ابھی ریاست کا اعتماد مکمل طور پر بحال نہیں ہو پا رہا۔پھر امریکی اور چینی مفادات میں تناؤ کا اونٹ بھی کسی کروٹ بیٹھتا نظر نہیں آتا۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات تاخیر کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔فخر الدین جی ابراہیم کے بے داغ ماضی کو میڈیا پر منوا کر عوام کو یہ باور کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ریاست شفاف انتخابات کروانے میں سنجیدہ ہے۔عوام اس سارے تماشے سے الگ بنیادی ضروریات کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ اس سیٹ اپ کو ہٹا دینے کے بعد ایک عبوری سیٹ اپ ہی طوالت اختیار کر جائے۔
لوگ اس سارے عمل سے مکمل طور پر مایوس ہو چکے ہیں۔خاص طور پر محنت کش طبقے کے لیے انتخابات میں دلچسپی کا کوئی ایک پہلو بھی باقی نہیں بچا۔ان کی اپنی روایتی پارٹی کے دورِ اقتدار نے ان کو اتنا مایوس کر دیا ہے کہ وہ زخموں سے نڈھال دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی کوششیں کر رہے ہیں۔پیپلز پارٹی اپنی تاریخ کے فیصلہ کن دور میں داخل ہو چکی ہے۔قیادت مختلف حیلوں اور بہانوں سے عہدوں اور اختیارات کی بندر بانٹ کے ذریعے پارٹی امور کو چلانے کی کوشش کر رہی ہے مگر پارٹی کی اوپر کی صفوں میں خلفشار کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ رہا ہے۔پارٹی سے جڑے عوام بھی میڈیا کی طرف سے جعلی مسلط کردہ متبادلوں کو پہچان لینے کی وجہ سے ابھی تک پارٹی کے خلاف کوئی بڑی بغاوت نہیں کر پارہے ہیں۔موجودہ قیادت پارٹی کو اس سطح پر لے آئی ہے جہاں اس کے لیے ریاست کی بی ٹیم بن کر ہر صورت میں اقتدار میں رہنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔وہ عوامی سیاست کو مکمل طور پر خیر باد کہہ چکے ہیں۔ممکنہ انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں یہ ممکن ہے کہ یہ ایک روایت کے طور پر پیپلز پارٹی کے آخری انتخابات ثابت ہو جائیں۔اقتدار سے باہر جانے کی صورت میں پارٹی اوپر سے پھوٹ در پھوٹ کا شکار ہو سکتی ہے اور اقتدار میں پھر مناسب حصہ مل جانے کی صورت میں نیچے سے ایک بغاوت پارٹی کی تقدیر کا فیصلہ کر سکتی ہے۔لیکن اگر وفاق میں پیپلز پارٹی کو اقتدار سے علیحدہ کر بھی دیا جاتا ہے تو پھر بھی عوامی لاوا زیادہ عرصے تک پارٹی کی حدود میں مقید نہیں رہ سکے گا بلکہ اسے پھاڑ کر ایک انقلابی کیفیت کو جنم دے گا۔محنت کشوں کے تمام اداروں میں چھوٹی چھوٹی مگر کٹی ہوئی تحریکیں موجود ہیں ان واقعات کے تھپیڑے انہیں ایک پلیٹ فارم پر مجتمع کر یں گے۔مڈل کلاس میں بھی اضطراب مسلسل بڑھ رہا ہے۔نوجوان ڈاکٹروں کی حالیہ تحریک اس کی بہترین مثال ہے۔اگرچہ سیاسی تربیت نہ ہونے اور ایک جمہوری مرکزیت پر مبنی تنظیمی سٹرکچر کی عدم موجودگی کی وجہ سے تحریک تعطل کا شکار ہوئی ہے مگر یہ وقفوں وقفوں سے جاری رہے گی اور اگر یہ کامیاب ہوتی ہے تو نہ صرف محنت کشوں بلکہ مڈل کلاس کی دیگر پرتوں کو لڑنے کا حوصلہ،عزم اور شکتی دے جائے گی۔اس کے بعد نوجوان صحافیوں اور اساتذہ وغیرہ کی تحریکیں بھی بن سکتی ہیں۔ حالات سے تنگ آ کر اور مجموعی صورتحال میں تبدیلی کے عمل کو محسوس کرتے ہوئے عشروں سے محض تماشائی بنے طلبا میدانِ عمل میں اتریں گے اور محنت کشوں کا علم تھام لیں گے۔مارکسسٹوں کی بروقت اور مستعد مداخلت اس ساری مساوات میں ایک مستقل عامل کا کردار اد ا کرتے ہوئے اس گلے سڑے نظام کا قلع قمع کرے گی اوربرصغیر کی سوشلسٹ فیڈریشن کی بنیاد بنے گی۔

متعلقہ:

میڈیا، عدلیہ اور سرمائے کا بیہودہ رشتہ بے نقاب

غلام میڈیا

تبدیلی، مگر کیسی؟

پاکستان: کرائے کی معیشت اور بجٹ کا دھوکہ

پاکستان؛ ناکام ریاست کی بدمست وحشت