’چائلڈ پورن‘ کا مکروہ دھندا

تحریر: احسن جعفری

معلوم انسانی تاریخ میں اتنا انتشار شاید ہی کبھی دیکھنے میں آیا ہو جیسا اب روزانہ کی بنیاد پر دیکھنے میں آ رہا ہے۔ معاشی ابتری نے پورے سماج کے تانے بانے ادھیڑنے شروع کر دیئے ہیں۔ ہزاروں سال کے تہذیبی ارتقا کے نتیجے میں جنم لینے والی اعلیٰ ثقافتی اقدار قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نسلِ انسان کو ایک بہتر سماج، اعلیٰ تہذیب اور بلند ثقافت دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔ پاکستان جیسے سماجوں میں حالات اور بھی دگر گوں ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جس میں کوئی ایسا واقعہ رو نما نہ ہو جو انسانیت کو شرما نہ دے۔ ایسے ہزاروں واقعات میں سے کوئی ایک کارپوریٹ میڈیا پر جگہ بنا پاتا ہے اور پھر ریٹنگ اور بلیک میلنگ کے کھیل میں اسے کافی دنوں تک خوب اچھالا جاتا ہے۔
ایسا ہی ایک سانحہ قصور میں پیش آیا جب 6 سال کی زینب کو 4 جنوری 2018ء کو اغوا کے بعد جنسی درندگی کا نشانہ بنا کے بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔9 جنوری کو زینب کی لاش کچرے کے ڈھیر پر سے ملی۔ زینب نہ تو پہلی بچی تھی اور اِس بوسیدہ سماج میں نہ ہی آخری جس کے ساتھ یہ سب ہوا۔ غیر سرکاری تنظیم ’ساحل‘، جو بچوں سے ہونے والے جنسی زیادتی کے کیسوں کا ریکارڈبھی جمع کرتی ہے، کے مطابق سال 2016ء میں 4139 ایسے کیس رپورٹ ہوئے جو سال 2015ء کی نسبت 10 فیصد زیادہ تھے۔رپورٹ ہونے والے کیسوں میں 2410 لڑکیاں تھیں اور 1729 لڑکے تھے۔ جبکہ 100 بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔ جب یہ سطور تحریر کی جارہی ہیں تو زینب کے قاتل کو آج صبح سزائے موت دی جا چکی ہے۔ لیکن سب سے پہلے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ یہ مجرم اگر کسی بااثر اور دولت مند گھرانے سے تعلق رکھتا تو کیا اسے سزا مل پاتی؟ کیا قصور میں اس سے پہلے بھی سینکڑوں معصوم بچوں کیساتھ زیادتی کرنے اور اس قبیح فعل کی فلم بنانے کے واقعات رپورٹ نہیں ہوئے جنہیں منظر عام سے ہی غائب کر دیا گیا کیونکہ ان میں مقامی مالی اور سیاسی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ملوث تھے۔
پرتشدد عوامی مظاہروں، جن میں دو افراد کو پولیس نے قتل بھی کیا، کی وجہ سے زینب قتل کیس کے منظر عام پر آنے کے بعد مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر ’قوم کی اصلاح کرنے والوں‘ کا جمعہ بازار لگ گیا اور ایسی ایسی نادر تجاویز سامنے آئیں کہ بندہ سنتا رہے اور سر دھنتا رہے۔ایک طرف رجعتی مذہبی عناصر تھے کہ جن کا سارا زور پردے پر تھا۔ اب ان حضرات کو کون سمجھائے کہ بھائی لڑکیوں سے ہی نہیں بلکہ لڑکوں سے بھی جنسی زیادتی ہوتی ہے۔ دوسری طرف لبرل تھے کہ جو جنسی تعلیم کو ہی سارے مسئلے کا حل بتا رہے تھے کہ جیسے جنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں میں طاقت بھی آجاتی ہے اور وہ خود سے کئی گنا طاقتور مجرم کو پچھاڑنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ ایک خاص بات جو دونوں طرح کے ’مصلحین‘ کی جانب سے سننے میں آئی وہ تھی’’سخت سے سخت سرِ عام سزا‘‘ تاکہ پھر کوئی ایسا کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ ویسے اب تک لاکھوں کروڑوں لوگوں کو ریاستوں کی جانب سے سزائے موت دی جاچکی ہے لیکن لوگ قتل کرنے سے پھر بھی باز نہیں آتے۔
زینب قتل کیس کے ساتھ ہی ایک بحث منظرِ عام پر آئی اور اس نے سرمایہ دارانہ نظام کے ایک انتہائی غلیظ پہلو کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرائی اور وہ ہے ’’چائلڈ پورن انڈسٹری۔‘‘ آج پورن انڈسٹری دنیا بھرمیں تیزی سے پھیلتے کاروباروں میں سے ایک شمار کی جاتی ہے جو بذات خود اِس سماج کی مسلسل اخلاقی گراوٹ اور بڑھتی منافقت کی نشاندہی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پورن انڈسٹری کی آمدن کا مالیاتی حجم 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جس میں چائلڈ پورن کا حصہ 3 ارب ڈالر ہے۔امریکہ کا حصہ پورن انڈسٹری کی آمدنی میں 13 ارب ڈالر ہے۔چائلڈ پورن سے منسلک (خفیہ) ویب سائٹس میں سب سے بڑا حصہ امریکہ کا ہے جو کہ 50 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ چائلڈ پورن دیکھنے میں بھی امریکی سب سے آگے ہیں۔ گوگل ٹرینڈز کے اعدادو شمار کے مطابق 2005ء سے 2013ء کے درمیان چائلڈ پورن یا ٹین پورن سرچ میں تین گنا اضافہ ہوا۔ مارچ 2013ء میں کی گئی ایک سٹڈی کے مطابق تمام پورن سرچ کا 33 فیصد چائلڈ پورن سے تعلق رکھتا تھا۔ انٹرنیٹ پر کی گئی تمام سرچ کا 12 فیصد پورن سے متعلقہ ہے۔ ایک مشہور پورن سائٹ کے اعدادوشمار کے مطابق ان کی سائٹ سے 4.6 ملین گیگا بائٹ ڈیٹا فی دن کے حساب سے دیکھا گیا۔ انٹرنیٹ پر پائی جانے والی 12 فیصد ویب سائٹس پورن سے متعلقہ ہیں۔ ہر سیکنڈ میں 28000 افراد انٹرنیٹ پر پورن دیکھتے ہیں۔ امریکہ میں ہر 39ویں منٹ میں ایک پورن وڈیو بنائی جا رہی ہے۔انٹرنیٹ پر ہونے والی تمام ڈاؤن لوڈز کا 35 فیصد پورن ہے۔ سرچ انجنوں پر روزانہ 6 کروڑ 80 لاکھ سرچز بھی پورن کے بارے میں کی جاتی ہیں جن میں سے 116000 چائلڈ پورن سے متعلق ہوتی ہیں۔
اب ذرا اِن لرزا دینے والے اعداد و شمار کو دیکھیں اور غور کریں کہ یہ سماج کس طرف جا رہا ہے۔ بھلا آج سے صرف چند دہائیاں پیشتر اِس گراوٹ کا تصور بھی کیا جا سکتا تھا؟ بالعموم پاکستان جیسے معاشروں کو جنسی گھٹن کا شکار قرار دیا جاتا ہے، جو غلط بھی نہیں ہے، لیکن جیسا کہ مذکورہ بالا حقائق سے نظر آتا ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ سماج، جنہیں ’فری مارکیٹ‘ سرمایہ داری کے بڑے ماڈل قرار دیا جاتا ہے، کس حد تک جنسی جنون، سماجی پستی اور بیگانگی کا شکار ہیں۔ گراوٹ کی اِس کیفیت کو شاید الفاظ میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔
چائلڈ پورن اور انسانی اسمگلنگ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔یونیسیف کی ایک رپورٹ کے مطابق سالانہ 12 لاکھ بچے اسمگل کئے جاتے ہیں جن کی عمریں 12 سے 14 سال کے درمیان ہوتی ہیں۔ جنسی کاروبار کے لئے انسانی اسمگلنگ ایک منافع بخش کاروبار بنتا جا رہا ہے جس کے مالیاتی حجم کا تخمینہ تقریباً 32 ارب ڈالر سے تجاوز کر رہا ہے۔
بین الاقوامی قوانین میں چائلڈ پورن کو ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کے باوجود 3000 ایسی خفیہ ویب سائٹس پائی گئی ہیں جو چائلڈ پورن چلا رہی ہیں۔ چائلڈ پورن کو عموماً ڈارک ویب یا P2P انٹرنیٹ کے ذریعے ہی حاصل کیا جاتا ہے۔ ڈارک ویب کو بعض اوقات ڈیپ ویب بھی کہا جاتا ہے لیکن ڈارک ویب‘ ڈیپ ویب کا ایک بہت ہی تھوڑا سا حصہ ہے۔ ڈیپ ویب انٹرنیٹ کی وہ سائٹس اور سروسز ہیں جو عام استعمال کرنے والوں کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔ جیسے کہ بینک اپنے کھاتے داروں کی معلومات، یوزر نیمز، پاس ورڈ، پن کوڈ وغیرہ ڈیپ ویب میں رکھتے ہیں جن کو کسی بھی سرچ انجن سے سرچ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی ڈیپ ویب میں ایسی سائٹس اور سروسز بھی ہیں جو مختلف قوانین کے تحت ممنوع ہیں۔ مثلاً چائلڈ پورن، اسلحے اور منشیات کی خرید و فروخت، ہیکنگ، حتیٰ کہ کرائے کے قتل کی ’’خدمات‘‘ فراہم کرنے والے افراد اور گینگ۔ اس سے ہٹ کے بھی ایسے ایسے دھندے ہیں جن کا سن کر بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ ممنوعہ سائٹس اور سروسز مخصوص سافٹ ویئر اور پاس ورڈ کے بغیر استعمال نہیں کی جا سکتیں۔ انہی ممنوعہ سائٹس اور سروسز کو ڈارک ویب یا ڈارک نیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ چائلڈ پورن ممنوع ہونے کی وجہ سے مہنگا ہے اس لئے اس کیلئے ’’کونٹینٹ‘‘ بھی نئے سے نئے درکار ہوتے ہیں تاکہ ’’معزز کسٹمر‘‘، جن کی اکثریت امیروں سے تعلق رکھتی ہے، اکتاہٹ کا شکار نہ ہو جائیں۔یہاں یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ ڈارک ویب کو استعمال کرنے والوں میں زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے لوگ شامل ہیں۔ ایف بی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈارک ویب پر موجود ایک پورن سائٹ کے 200,000 رجسٹرڈ یوزر تھے۔ ایک رجحان جو اس غلیظ انڈسٹری میں انتہائی تیزی سے فروغ پا رہا ہے وہ ہے براہ راست نشریات یا ’’Live Streaming‘‘… ایک بار پھر یہ ایسی کیفیت ہے جس کا تصور بھی کوئی ذی شعور انسان نہیں کر سکتا لیکن دنیا ایسے درندوں سے بھری پڑی ہے اور سکول شوٹنگ یا سیریل کلنگ کی طرح یہ غلاظت بھی اِسی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے۔ لائیو اسٹریمنگ کسٹمر کی مانگ کے مطابق بھی دکھائی جاتی ہے اور نشانہ بننے والے بچے یا بچی سے بعض دفعہ اپنی مرضی کے الفاظ تک ادا کروائے جاتے ہیں۔ بعض مواقع پر انتہا درجے کا تشدد بھی کیا جاتا ہے۔ ایسے ’آن ڈیمانڈ‘ ظلم کی قیمت بھی اسی حساب سے کئی گنا زیادہ وصول کی جاتی ہے۔ سالانہ رجسٹریشن فیس کے علاوہ 65 سے 80 ڈالر فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ اتنی ادائیگی دولت مند لوگ ہی کر سکتے ہیں جو بالعموم بڑے ’’مہذب‘‘ اور ’’کامیاب‘‘ تصور کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ کے ذریعے سے ادائیگی کے جدید ترین طریقے متعارف ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ادائیگی کرنے والوں کی شناخت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ ورچوئل کرنسی جیسے کہ ’بِٹ کوائن‘ کی ادائیگی کا درست ماخذ تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے جس کی وجہ سے پورن انڈسٹری کو ادائیگی اب عموماً ورچوئل کرنسی میں ہی ہوتی ہے۔
جب کوئی نظام انسانی سماج کو آگے نہ بڑھا پا رہا ہو تو طرح طرح کی غلاظتوں اور انسان دشمن رویوں کو ہی جنم دے سکتا ہے۔ ہر طبقاتی سماج کی طرح سرمایہ داری میں بھی اپنی محنت سے تمام دولت پیدا کرنے والے انسانوں کی اکثریت بدترین محرومی کی زندگی گزار رہی ہوتی ہے اور سماج کی اِس اجتماعی پیداوار پر کام چور اور نکھٹو اقلیت قبضہ کر کے عیاشیاں کر رہی ہوتی ہے۔ اسی سے بیگانگی جنم لیتی ہے جسے آج سرمایہ داری عروج پر لے گئی ہے۔ کہیں انواع و اقسام کے کھانے کھا کر بھی نیت نہیں بھرتی تو کہیں کچرے کے ڈھیروں پر سے خوراک کی تلاش نظر آتی ہے۔ بچوں پر ہونے والا جنسی تشدد اور چائلڈ پورن ایسے ہی نظام اور سماج کی پیداوار ہے جس میں انسان دوسرے انسانوں اور انسانیت سے ہی بیگانہ ہو چکا ہے۔ ایک طرف وہ ہیں جو لبِ دریا تشنگی کا شکار ہیں اور دوسری طرف وہ کہ جن کے جنبشِ ابرو پر حورانِ جناں چھلکتے جام لیے حاضرِ خدمت ہیں۔ ایسا سماج کسی صورت انسانی نہیں ہو سکتا نہ ہی انسانی قدروں کو جنم دے سکتا ہے۔ قلت اور کثرت کے یہ مظاہر عجیب گل کھلاتے ہیں۔ جہاں غربت انسانی احساس کو مجروح اور گھائل کر کے رکھ دیتی ہے وہاں دولت کے بے انتہا انبار بھی روح کی ایسی غربت کو جنم دیتے ہیں جسے مٹانے کی کوشش میں پھر نہ صرف انسانی بلکہ حیوانی قدروں کو بھی پیروں تلے روند دیا جاتا ہے۔ ایسے مکروہ دھندوں میں بھی امیروں کی ہوس کا نشانہ غریب طبقات کے بے آسرا بچے ہی بنتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ہر چیز بازار کی جنس بن جاتی ہے چاہے وہ انسانی رشتے ہوں یا ان رشتوں سے جڑے لطیف جذبات و احساسات۔ منڈی کی مانگ میں اضافے کیلئے اشتہار بازی کو یوں استعمال کیا جاتا ہے کہ کہیں ماں کی بچوں سے انمول محبت کو بھی گھی کے ڈبے میں بند کر دیا جاتا ہے توکہیں باپ اور بیٹی کی لازوال چاہت کو بستر کے گدے کا محتاج بنا دیا جاتا ہے۔ اشتہار بازی پہ سالانہ 500 ارب ڈالر سے زیادہ اخراجات کیے جاتے ہیں۔ اتنی دولت اگر انسانوں کی فلاح اور ضروریات کی تکمیل پر خرچ کی جائے تو دنیا کا نقشہ بدل سکتا ہے۔
کسی سماج میں انسانوں کی خواہشات اور ترجیحات کا تعین آخری تجزئیے میں مروجہ نظام ہی کر رہا ہوتا ہے اور سرمائے کے اِس نظام نے انسان سے انسانیت چھین کر اسے ہوس کا پجاری بنا کے رکھ دیا ہے۔ جس کی زندگی کا مقصد صرف اور صرف دولت کا حصول ہے۔ اور یہ دولت ایسی چیز ہے جو جتنی حاصل ہوتی ہے اسے مزید حاصل کرنے کی ہوس اسی قدر بڑھتی جاتی ہے ۔ جب تک اس غیر انسانی نظام کو اکھاڑ پھینکا نہیں جاتا تب تک ساری اصلاحات اور قانون سازیاں ادھوری اور بے سود ہی رہیں گی۔