پاکستان: سرمایہ داری کا عبرت کدہ

[تحریر:پارس جان]
عہدِ حاضر میں پاکستان سرمایہ دارانہ تہذیب و تمدن، اخلاقیات و معاشیات، رسوم و رواج اور طرزِ ارتقا کا شاید سب سے بڑا عجائب خانہ ہے۔بیہودہ نقالی پر مبنی یہ نظام یہاں روزِ اول سے ہی کسی نہ کسی مداری کی ڈگڈگی پر ناچ کر اپنے تقاضے پورے کرتا رہا ہے۔نِت نئے مداریوں کی آمد اور ناچنے کے نئے نویلے رجحانات اور تقاضوں کی وجہ سے اب تو سارا آنگن ہی ٹیڑھا میڑھا ساہو گیا ہے۔پاؤں جگہ پر پڑتے ہی نہیں۔کیا کوئی ایسا ذی شعور بچا ہے جو اس بات کی وکالت کر سکے کہ پاکستان ایک ناکام ریاست نہیں ہے؟شاید کوئی نہیں۔اور اگر کوئی ہے تو اسے بام پر لایا جائے تاکہ پتھرائی ہوئی آنکھیں خیرہ ہو سکیں۔معیشت کا کونسا ایسا شعبہ ہے جہاں سے دھڑام دھڑام کی آواز یں نہیں آ رہیں۔ریاست کا کونسا ادارہ ایسا ہے کہ جہاں سے تڑخنے کی صدا نہیں سنی جا سکتی۔نا اہل اور طفیلی حکمران طبقہ ایک بند گلی میں پھنس گیا ہے اور دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کے ہلکان ہوا جا رہا ہے۔درندگی اور بربریت کو ایک معمول قرار دے کر اسے اپنا لینے کا درس دیا جا رہا ہے۔جھوٹ اور مکاری کو مستند اخلاقی اقدار کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔نام نہاد قائدین کی صف میں سے کونسا ایسا چہرہ ہے جو بے نقاب نہیں ہوا مگر پھر بھی زہر آلود مسکراہٹیں ہیں کہ خود اپنا مذاق اڑا رہی ہیں۔معززین اور شرفا (جج،جرنیل،صحافی،سیاستدان،تاجر،بیوروکریٹ) میں سے کون ہے جو سرِ بازارا ننگا نہیں ہوا مگر بے لباسی کو شاہی لباس سمجھ کر اس پر اترایا جا رہا ہے۔جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کو خود ان کے مبلغین اور داعی پہچاننے اور ا ن کادفاع کرنے سے قاصر نظر آ رہے ہیں۔حکمران طبقے کی سیاست بے غیرتی،بے شرمی،بے حسی اور جعلسازی کی بہترین تجربہ گاہ بن چکی ہے۔اب یہاں بے یقینی کے علاوہ کچھ بھی یقینی نہیں رہا۔اگر کچھ مستحکم ہے تو وہ ہے عدم استحکام اور اگر کچھ منظم اور مربوط ہے تو وہ ہے متواتر اور لگاتار انتشار۔
پاکستانی معیشت عملی طور پر کب کی دیوالیہ ہو چکی۔نہ ماننے والے خود فریبی کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں۔IMF نے ابھی حال ہی میں مالیاتی اعتبار سے سب سے زیادہ ضرورت مند ممالک کی جو لسٹ شائع کی ہے اس میں پاکستان سرِ فہرست ہے اور باقی انتہائی غریب ترین ممالک میں سے کوئی اس کے نزدیک نزدیک بھی نہیں۔پاکستان کا بجٹ خسارہ تیزی سے بڑھتے ہوئے 17 کھرب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔ریونیو جنریشن کی حقیقی مادی بنیادوں کو تو کب سے کالے دھن کا دیمک چاٹ چکا ہے۔FBR جیسے اداروں کی کھوکھلی نعرے بازی سے اب کسی قسم کے افاقے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو بھی پہلے ہی مرحلے میں نقادوں اور سامراجی آقاؤں کی طرف سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ ٹیکس چوروں اور نادہندگان کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے۔پہلے ہی بہت دیر ہو چکی ہے۔مرض ناقابلِ علاج سطح پر پہنچ گیا ہے۔اب کوئی دوا کارگر نہیں ہو سکتی۔سب تدبیریں الٹی ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ادائیگیوں کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر GDP کے 31 فیصد کے برابر قرضے کی اشد ضرورت ہے۔پہلے ہی گزشتہ چارسالوں میں حکومت 15 ارب ڈالر کے لگ بھگ قرض لے چکی ہے۔بجٹ کا تقریباً نصف اب سود کی ادائیگیوں کی نظر ہو جایا کرے گا۔IMF، ورلڈ بینک اور دیگر مالیاتی ادارے پہلے ہی مالیاتی پالیسیوں اور معاہدوں پر عملدرآمد کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔وہ مزید کڑی شرائط عائد کریں گے اور جن پر عمل کروانے کی نہ صرف حکومتی بلکہ ریاستی گنجائش ختم ہوتی جا رہی ہے۔اگلی حکومتوں کے لیے مسائل کئی گنا بڑھ جائیں گے۔داخلی قرضے دن بدن مہنگے ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا بڑھتا ہوا حجم روپے کو مزید سستا کر رہا ہے جس کی وجہ سے بیرونی قرضے بہت تیزی سے مہنگے ہو رہے ہیں۔بینک اور مالیاتی ادارے جو اس بربادی سے بھی ریکارڈ شرح منافع حاصل کر رہے ہیں انہوں نے اس بحران سے صرفِ نظر کرنے کے لیے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔سٹیٹ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق بیرونی کمپنیوں نے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں 41 ملین ڈالر کا سرمایہ کما کر باہر منتقل کیا ہے جس کی شرحِ ترقی 99 فیصد سے بھی زائد ہے۔گزشتہ 9 ماہ میں بینکوں کے منافعوں میں 26 فیصد سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔ان تمام تر اعدادو شمار کا حقیقی پیداواری معیشت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔سارے کا سارے مالیاتی شعبہ دن بدن مجرد کردار کا حامل ہوتا جا رہا ہے۔ترسیلاتِ زر میں معمولی سا بھی تعطل بہت بڑے لیکویڈیٹی کے بحران کا باعث بن سکتا ہے۔اپنی جسمانی استطاعت سے تیز بھاگنے والے منہ کے بل گر جایا کرتے ہیں۔پیداواری معیشت میں سے بیرونی سرمایہ کاری مسلسل باہر جا رہی ہے۔بجلی کے بحران اور امن وامان کی صورتحال سے مزید بڑے انخلا کے امکانات روشن ہو رہے ہیں۔سب سے بڑے صنعتی شہر کراچی سے سرمایہ کاری کے انخلا کو روکنے کے لیے اور سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے ریاستی پالیسی سازوں نے دوبارہ سپریم کورٹ کو کراچی کے حالات پرلفظی جگالی کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔
حکومت بجلی، گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کے ذریعے ریاستی ا خراجات کو پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ترقیاتی بجٹ بچا ہی کتنا ہے جس میں سے مزید کٹوتیاں کی جا سکیں ؟ ابھی کچھ دن قبل سپریم کورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ CNG کے ایک کلوگرام پر 35 روپے یا اس سے بھی زیادہ کمائی کی جا تی رہی ہے۔یہی حال LPG اور باقی گیس اور پیٹرولیم کی مصنوعات کا بھی ہے۔گیس کی قیمتوں میں کمی کے حالیہ سپریم کورٹ کے احکامات کے بعد مالیاتی مسائل مزید مشتعل ہو جائیں گے۔عالمی معاشی بحران کی وجہ سے اگرچہ تیل کی عالمی کھپت میں کمی واقع ہوئی ہے مگر ایران اور اسرائیل کے درمیان سیاسی کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔جنگ فوری طور پر نہ بھی ہو تو بھی سٹے باز آنے والے دنوں میں قیاس آرائیوں سے تیل کی قیمتوں کو بہت تیزی سے اوپر لا سکتے ہیں۔پھر جنگ کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ایسی صورت میں اگر تیل کی عالمی سپلائی لائن متاثر ہوتی ہے تو پاکستان کا بھرکس نکل جائے گا۔ یہاں افراطِ زر جس سطح تک جا سکتا ہے اس کا شاید کوئی اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا۔
گزشتہ دس بارہ سالوں میں ٹیلی کمیونیکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی میں جتنی بھی سرمایہ کاری ہوئی ہے، کریڈٹ فنانسنگ کے ذریعے مصنوعی طور پرجو مڈل کلاس بنائی گئی ہے اوراعداد وشمار کے ہیر پھیر سے حاصل کیے گئے گروتھ ریٹ سے جس جدیدیت کو جنم دیا گیا ہے، ان سب نے پسماندگی کو ختم کرنے کی بجائے اس سے یارانے بنا لیے ہیں۔اس سے چونکہ روزگار پیدا نہیں ہوا بلکہ بیروزگاری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اس لیے بڑے پیمانے کی لمپنائزیشن نے جنم لیا ہے جو اب قوم پرستی،فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کے مصنوعی غبارے میں بھری گئی ہواکی شکل میں اپنا سیاسی اظہار کر رہی ہے۔معیشت کا سماجی شعبہ بھیانک حد تک کسمپرسی کی حالت میں ہے۔انفراسٹرکچر،ٹرانسپورٹ،تعلیم،علاج،سڑکیں،سینی ٹیشن کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔بارشوں اور سیلاب نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے۔انفراسٹرکچر میں بہتری تو درکنار اس کو مزید برباد ہونے سے بچانے کے لیے جتنی بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اس کی اس مردار حکمران طبقے اور ان کے سامراجی خداؤں کی مالیاتی گنجائش ہی نہیں ہے۔آنے والے دنوں میں معیارِ زندگی میں گراوٹ بہت تیزی سے ہو گی۔انفراسٹرکچر کے شعبے میں کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری معدنیات کے شعبے میں کی جا رہی ہے۔اس سے عالمی مالیاتی سرمائے کی لوٹ کھسوٹ مین تو کئی گنا اضافہ ہوا ہے مگر روزگار اور سماجی بہبود میں کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ کک بیکس، کمیشنوں اور دلالی کے اوپر ریاستی دھڑوں کا داخلی تصادم مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔
امریکہ کے متوازی چین، ایران، سعودی عرب کی ایک دوسرے سے منسلک یا متصادم مداخلت نے پاکستانی ریاستی مشینری اور اداروں کو مختلف متحارب مگر باہمی انحصار کے کچے دھاگے سے بندھے ہوئے گروہی رجحانات کے محلول میں تبدیل کر دیا ہے۔افغانستان،بلوچستان،پشتونخواہ،گلگت،کراچی اور اب سندھ میں بھی مختلف شکلوں اور درجوں کی ایک پراکسی جنگ جاری ہے جس میں معصوم اور نہتے عوام کامخصوص قوموں،نسلوں اور فرقوں سے تعلق کی بنیاد پر قتلِ عام کیا جا رہا ہے۔مگر سامراجیوں کی لوٹ مار ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔روس بھی ایک دفعہ پھر سنجیدہ مداخلت کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ بھی بہتی گنگا میں س ہاتھ دھو سکے۔کبھی چار ملکی کانفرنس کی بات کی جاتی ہے تو کبھی سات نکاتی صنعتی ایجنڈے کا لالچ دیا جاتا ہے۔ریاستی ایجنسیوں اور مختلف اداروں کے وہ حصے جو پہلے سے کی گئی بندر بانٹ سے زیادہ مطمئن نہیں ہیں وہ روسی کرم فرماؤں کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے چین ہیں مگر نہ صرف امریکی وظیفہ خوار بلکہ چینی دلال بھی ان کی راہیں مسدود کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔پیوٹن کے دورے کی منسوخی، جنرل کیانی کا فوری وزٹ، حنا ربانی کھر کی صفائیاں یہ سب اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔اس صورتحال سے فوج سمیت ریاست کے تمام اداروں، جو پہلے ہی انتہائی حساس عدم توازن کا شکار ہیں، میں دراڑیں مزید گہری اور فیصلہ کن ہو سکتی ہیں۔
نظریہ سازش (Conspiracy Theory) انتہائی پیچیدہ عوامل کو انتہائی میکانکی انداز میں سادہ اور قابلِ فہم بنانے کی کوشش کرتا ہے اور اسی لیے عام طور پر غلط نتائج اخذ کرنے کا باعث بن جاتا ہے۔ اس کے مطابق سب کچھ طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے اور سب کچھ منصوبہ سازوں کے کنٹرول میں ہے۔حالیہ عالمی اور ریاستی بحران میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔بے لگام اور ہیجان آمیزحرکت ہے اور سفر نہ ہونے کے برابرہے۔طے کچھ اور کیا جا تا ہے اور عملاً کچھ اور ہو جاتا ہے۔بیج کوئی بوتا ہے اور فصل کوئی کاٹتا ہے۔پراکسی لڑائیوں میں طاقتوں کا توازن مسلسل بدلتا رہتا ہے۔مختلف جگہوں اور مقامات پر افراد اور ادارے مختلف سٹریٹیجک صف بندی کا حصہ نظر آتے ہیں۔دوست دشمن، اتحادی مخبر اور ایجنٹ ڈبل ایجنٹ بن جاتے ہیں۔بلوچستان میں FC،ملٹری اور پولیس مختلف ایجنڈوں سے منسلک نظر آرہے ہیں۔یہی حال کراچی میں ہے جہاں رینجرز اور پولس کے متضاد سیاسی،ریاستی اور آخری تجزیے میں مالی مفادات ہیں جو صورتحال کی گھمبیرتا میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔اسی لیے کراچی کو رینجرز یا فوج کے حوالے کرنے کی بحث کسی عوام دوستی پر مبنی سوچ کی پیداوار نہیں ہے بلکہ ریاستی باہمی لڑائیوں میں طاقتوں کے توازن میں تبدیلی کی طرف اشارا ہے اور اگر یہ ہو بھی جائے تو اس سے لڑائی کی شدت اور نوعیت کم ہونے کی بجائے ایک خانہ جنگی کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔
امریکی انتخابی امیدواروں کے پاکستانی ایجنسیوں اور فوج کے کردار پر معنی خیز مزاکرے نے ایک دفعہ پھر صورتحال کی پیچیدگی کو اور بھی واضح کر دیا ہے۔ان میں سے جو بھی فتح یاب ہو گا وہ شمالی وزیرستان میں آپریشن کے لیے دباؤ بڑ ھائیں گے اور اس آپریشن کے خلاف اندرونِ خانہ مزاحمت میں بھی اضافہ ہو گا۔پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اب کبھی بھی پہلے جیسے مستحکم نہیں ہو سکیں گے مگر اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ امریکہ کا اثرورسوخ کم ہو جائے گا بلکہ وہ فوجی سے لے کر سفارتی،تمام حربے استعمال کریں گے تاکہ وہ پاکستانی ایجنسیوں کو اپنی غیر مشروط اطاعت پر مجبور کر سکیں۔اب وہ پاکستانی عوام کے دل جیتنے کے لیے غیر سرکاری سطح پر این جی اوز کے ذریعے نئے امدادی پراجیکٹس شروع کر رہے ہیں اور میڈیا پر اپنے وفادار وں کے ذریعے اس کا بہت شور شرابہ بھی کر رہے ہیں مگر پاکستان میں ا مریکہ کے خلاف عوامی نفرت دن بدن بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں انتخابات قریب آتے ہوئے نظر آ رہے ہیں تمام سیاستدان امریکہ کو لعن طعن کر کے گرتی ہوئی سماجی حمایت کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن معاشی انحصار اور کمزوریوں کی وجہ سے ریاستی ادارے اور سیاستدان امریکہ کے ساتھ فیصلہ کن قطع تعلق نہیں کر سکتے بلکہ وہ آنے والے دنوں میں اس کی مزید کاسہ لیسی کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔
ریاست کو بحران سے نکالنے کے لیے جوڈیشل ایکٹو ازم سے بہت زیادہ توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ خوش گمان دانشور اور قائدین، عوام کی بھی امیدوں کا مرکز سپریم کورٹ کو بنانے کے درپے ہیں۔انتظامی،پارلیمانی اور حتیٰ کہ معاشی معاملات میں بھی عدالتی مداخلت برھتی ہی چلی جا رہی ہے۔خود ’مسیحائے اعظم‘ چیف جسٹس صاحب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ 17 جج سارے ملک کا نظم و نسق نہیں چلا سکتے۔حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے ابھی تک کسی بھی عوا می مسئلے کو ایڈریس نہیں کیا ہے اور نہ وہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔سانحہ بلدیہ ٹاؤن پر سپریم کورٹ کی خاموشی اس کی سب سے بڑی دلیل ہے۔مگر ریاستی معاملات بھی جوڈیشل ایکٹو ازم کے ذریعے سلجھنے کی بجائے اور الجھتے چلے جا رہے ہیں۔یکے بعد دیگرے تمام نان ایشوز کو پہلے عدلیہ کے ذریعے منظرِ عام پر لا یا جاتا ہے اور پھر میڈیا پروفیشنلز کے ذریعے انہیں خوب اچھالا جاتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ عدلیہ نے ابھی تک کسی بھی مقدمے میں کوئی واضح اور واشگاف فیصلہ نہیں کیا ہے۔البتہ ایک وزیرِ اعظم کو رخصت کرنے کا سہرا ضرور چیف جسٹس صاحب کے سر باندھا جا سکتا ہے۔خط والے معاملے کو آخر کار انتہائی چالاکی سے دفن کر دیا گیا ہے۔ضرورت پڑنے پر یہ گڑھا مردہ پھر اکھاڑا جا سکتا ہے۔NRO، میمو سکینڈل،ایبٹ آباد کمیشن،بھٹو ریفرینس،بے نظیر شہادت کیس،ملک ریاض،ارسلان افتخار کیس ان سب کا عوام کی زندگیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے اس لیے ان کو شعوری طور پر طول دیا جا رہا ہے۔بہت زیادہ دباؤ بڑھ جانے اور جعلی عدالتی کاروائی کا پردہ فاش ہو جانے کے خوف میں بالآخر اصغر خان ریفرنس پر انتہائی محنت کے بعد ایک غیر واضح اور مجرد سا فیصلہ تیار کر کے میڈیا کے شعبدہ گروں کے حوالے کر دیا گیا ہے تاکہ وہ عدلیہ کی عظمت کا ڈھندورا پیٹتے رہیں۔اصل میں اس فیصلے کی رو سے کسی کو بھی نہ تو کوئی سزا دی گئی ہے اور نہ کوئی پابندی یا جرمانے عائد کیے گئے ہیں بلکہ عملدر آمد کی ذمہ داری انتہائی کمزور پیپلز پارٹی کی حکومت پر عائد کر دی گئی ہے جو کوئی بھی فیصلہ کرنے یا کسی کو بھی سزا دینے یا دلوانے کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکے ہیں۔عدالتی فیصلے کے ابہام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام سیاستدان ایک دوسرے کو مجرم قرار دے رہے ہیں۔ اسلم بیگ اور اسد درانی میڈیا پر برملا اعترافِ جرم کر رہے ہیں اور اپنے جرم کو ملکی مفاد اور قومی سلامتی کے لیے ضروری قرار دے رہے ہیں۔کوئی بھی ان کا محاسبہ کرنے یا سزا دینے کی جسارت نہیں کر سکتا۔کچھ دن بے معنی میڈیا ٹرائل کے بعد اس معاملے کو اس طرح فراموش کر دیا جائے گا جیسے یہ کبھی ہوا ہی نہیں تھا۔
کچھ ہفتے قبل تک اچانک بلوچستان کے مسئلے کا بہت شور وغل تھا اور مینگل سرداروں کی سپریم کورٹ میں آمد کی انتہائی ڈرامائی توضیحات پیش کی جا رہی تھیں۔اس سارے ٹوپی ڈرامے کا مقصدمستقبل میں بلوچستان میں نئے سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کے حوالے سے تھا۔لیکن در اصل سیاسی سیٹ اپ کوئی بھی بنے بلوچستان میں اب سرمایہ دارانہ بنیادوں پر امن بحال نہیں کیا جا سکتا۔ بلوچستان کا مسئلہ تو جیسے حل ہو گیا ہے کہ اب دوبارہ سپریم کورٹ اور میڈیا نے کراچی میں بربریت پر مگرمچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیئے ہیں۔گزشتہ برس بھی اسی طرح کا ایک ڈرامہ کیا گیا تھا جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تھا۔اس کے بعد کراچی میں قتل و غارت میں کمی آنے کی بجائے کئی گنا اضافہ ہو گیا تھااب کے بار بھی ایسا ہی ہو گا۔حال ہی میں ایک رپورٹ منظرِ عام پر آئی ہے جس کے مطابق 2007 ء میں کراچی میں 841 افراد قتل ہوئے،جبکہ 2008 ء میں 1142،2009ء میں 1083،2010 ء میں 1485،2011ء میں 1789افراد قتل ہوئے اور 2012ء کے 9 ماہ میں1800 سے زیادہ افراد قتل ہو چکے ہیں۔اورسیاسی خلفشار سے صاف ظاہر ہے کہ یہ گراف مسلسل اوپر کی طرف ہی جاتا رہے گا۔جوں جوں انتخابات قریب آئیں گے اس کی شدت بڑھتی چلی جائے گی۔حکمران پہلے سے جاری مصالحتی ایجنڈے کو جاری رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ متحارب ریاستی دھڑا اس سیاسی اتحاد کو توڈ کر نیا زیادہ قابلِ بھروسہ مفاہمتی ایجنڈا لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انتخابات کی بحث ایک معمے کی شکل اختیار کرتی چلی جا رہی ہے۔آصف علی زرداری کی موجودہ حکومت عوامی حلقوں میں تو کبھی بہت مقبول رہی ہی نہیں تھی بلکہ محض دائیں بازو کے ضعف اور خستہ حالی کی وجہ سے اپنے آپ کو برقرار رکھے ہوئے تھی مگر اب اپنے امریکی آقاؤں کا اعتماد بھی بہت تیزی سے کھوتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔جیسے حامد کرزئی جو کبھی امریکہ کی آنکھوں کا تارا ہوا کرتا تھا اب ان کی آنکھوں میں خس کی طرح رڈکنے لگا ہے۔پاکستان میں بھی امریکی اب سنجیدگی سے متبادل کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔آصف علی زرداری سے انہیں ایک تو یہ گلہ ہے کہ وہ فوج اور ISI کے آگے بہت نرم خو ثابت ہوا ہے اور امریکی جانتے ہیں کہ زرداری اتنا بدعنوان اور غیر مقبول ہے کہ وہ ISI کے سامنے زیادہ جرات سے کھڑا نہیں ہو سکتا،دوسرا ان کو یہ بھی گلہ ہے کہ زرداری کے نہ صرف چینی افسر شاہی کے ساتھ بھی معاشقے بڑھتے جا رہے ہیں بلکہ اب وہ روسیوں کی طرف بھی کنکھیوں سے دیکھ رہا ہے۔امریکہ کو اندازہ ہے کہ گوادر اور گلگت سمیت چین پاکستان کا سب سے بڑا فائدہ اٹھانے والا ملک ہے اور بھلا رقیبوں کے گل چھروں کو کون برداشت کرتا ہے۔مگر مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک اس حکومتی سیٹ اپ کا کوئی سنجیدہ متبادل بھی سامنے نہیں آ پا رہا ہے۔نواز شریف امریکیوں کو یہ باور کروانے کی کوششیں کر رہا ہے کہ وہ ایجنسیوں کے ساتھ زیادہ سخت طریقے سے پیش آ سکتا ہے لہذا اسے خدمت کا ایک اور موقع دیا جائے۔وہ قوم پرستوں اور بنیاد پرستوں کے ساتھ اتحاد بنا کر اپنی انتخابی پوزیشن بہتر بنانے کی کوشش کر رہا ہے مگر دوسری طرف اس کی پارٹی کے اندر فالٹ لائنز برھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔تحریکِ انصاف کی حکومت پر ریاستی پالیسی سازوں میں اتفاقِ رائے ہونے کی بجائے اختلافات اور بھی شدت اختیار کرتے چلے جا رہے ہیں۔وہی میڈیا جو عمران خان کو ’ابنِ مریم ‘بنا کر پیش کر رہا تھا اب اس کی ریاستی آشیر باد کا واویلا کرتے نہیں تھکتا۔عمران خان کو خود نہیں پتہ کہ کون تحریکِ انصاف میں ہے اور کون نہیں۔کون آئے گا اور کون واپس چلا جائیگا۔بنیاد پرست فضل الرحمان کی قیادت میں ایک نیا سیاسی اتحاد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انتخابات میں خاطر خواہ نشستیں حاصل کر کے اقتدار میں حصہ بقدرِ جسہ وصول کیا جا سکے اورریاستی آقاؤں کے اشارے پر اپنی حمایت نواز شریف یا کسی بھی دوسرے حکومتی الائینس کے پلڑے میں ڈال دی جائے۔مگر دوسری طرف بنیاد پرستوں میں پھوٹ بھی بڑھتی جا رہی ہے۔جماعتِ اسلامی شدید سیاسی تنہائی کا شکار ہو چکی ہے اس لیے وہ اب ریاست اور عالمی مالیاتی سرمائے کے دوسرے دھڑوں کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔حتیٰ کہ منورحسن نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکہ کے خلاف روس سے امداد لینا شرعی طور پر درست اور وقت کی ضرورت ہے۔تاریخ کا اس سے بڑا مضحکہ اور تمسخر اور کیا ہو سکتا ہے؟ عملی طور پر پاکستان کے سیاسی افق پر کوئی بھی سیاسی،مذہبی یا قوم پرستوں کی پارٹی فعال اور مربوط قوت کی شکل میں موجود نہیں ہے۔ مقبول اور نامور سیاستدانوں کا درحقیقت کسی بھی پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔وہ سرمایہ کاروں یا تنخواہ داروں کی طرح کبھی ایک پارٹی میں سرمایہ کاری یا نوکری کرتے ہیں توکبھی دوسری پارٹی میں زیادہ مواقع دیکھ کر ادھر کھسک جاتے ہیں۔سیاسی ثقافت بھی عمومی سماجی ثقافت اور نفسیاتی معیارات کا شاخسانہ ہی ہوتی ہے۔پیپلزپارٹی نے عوامی سیاست کو کب کا خیر باد کہہ دیا ہے۔اب وہ دوبارہ مظوم بننے کی کوشش بھی کریں گے تو شاید سیاسی ہمدردی بڑے پیمانے پر حاصل نہ کر پائیں۔سندھ کارڈ کو بچانے کے لیے وہ عوام کے دشمن اور محنت کشوں کے قاتل جاگیرداروں کو گلے لگا رہے ہیں۔پنجاب میں ق لیگ کے ساتھ انتخابی اتحاد بنایا جا رہا ہے۔وہ ریاست کی B ٹیم بن کر اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں اور یہ ممکن بھی ہے کہ اگر متبادل سیاسی اتحاد پر اتفاقِ رائے نہیں بن پایا تو سامراجیوں اور ریاستی اداروں کو اسی سیٹ اپ میں کچھ جمع تفریق کر کے اس کو جاری رکھنا پڑ جائے۔مگر اس سے عدم استحکام کم ہونے کی بجائے اور بڑھے گا۔محنت کش طبقے کی تحریک تاخیر کا ضرور شکار ہو سکتی ہے مگر زیادہ متشدد اور زور آور انداز مین حملہ آور ہو گی۔پیپلز پارٹی کو طبقاتی بنیادوں پر چیرتی ہوئی نئے انقلابی اوزار کو جنم دے گی۔محنت کش طبقہ ہی انسانیت کی بقا اور تہذیب کے دفاع کی واحد امید ہے۔ آؤ اسے تیار،مسلح،متحد اور منظم کریں۔
سرمایہ دارانہ انارکی نے انسانی سماج کے پرخچے اڑا دیئے ہیں۔شہروں کو جنگلوں اور بیابانوں میں تبدیل کر دیا ہے۔آج کا انسان حیران و پریشان اور مفلو ک الحال ان جنگلوں اور بیابانوں میں مارا مارا پھر رہا ہے۔وہ خود اپنے آپ سے یکسر بیگانہ ہو چکا ہے۔وہ اپنے معیار اور کردار سے روپوش ہو کر محض کھانے اور جنسی لوازمات کی تلاش میں دیوانہ ہوا جا رہا ہے۔یہ اس کا طرہ امتیاز تو نہیں۔بھوک اور ہوس اس کے شایانِ شان تو نہیں۔لاکھوں سال کی محنت سے مرصع انسانی ضمیر،روح،احساس اور تعظیم کی ساری راحت اور لذت فلسفیانہ عرق کی شکل میں انتہائی شفاف اور خوبصور ت غلاف اوڑھے ہم مارکس وادیوں کے تناظر اور لائحہ عمل میں مجتمع ہو چکی ہے۔اسے سماج میں ابھی اپنا اظہار کرنا ہے۔یہ ایک انتہائی بھاری بھرکم ذمہ داری اور تاریخی فریضے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔اب انسانوں کی لاچارگی اور بے بسی کا یہ تماشا دیکھا نہیں جاتا۔شاید وقت آ گیا ہے۔آؤ انسانوں کو ان کی انسانیت ایک پر وقار طریقے سے لوٹا دیں تاکہ وہ زمین پر کیڑوں کی طرح رینگنے کی بجائے آسمانوں کی تسخیر کا مزہ چکھ سکے۔