مزدور رہنما کامریڈ کرامت حسین مرحوم کی انقلابی زندگی پر ایک نظر

[تحریر: زبیر الرحمن]
مزدور رہنما کامریڈ کرامت حسین کبیر والہ، ملتان میں یکم اپریل 1957ء میں پیدا ہوئے اور17 جنوری 2014ء کو جسمانی طور پر ہم سے جدا ہو گئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے میں ہی حاصل کی۔ بعد ازاں فیصل آباد زرعی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخلہ لیا۔ وہ زرعی یونیورسٹی میں طلبہ کی روائتی تنظیم ’’انقلابی کونسل‘‘ کے بانیوں میں سے تھے۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی اچھے مقرر تھے۔ تنقیدی نقطہ نگاہ سے سوچنے کی عادت شروع سے ہی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد مزدور کسان پاٹی (میجر اسحاق گروپ)کے سرگرم کارکن بننے۔ اس کے بعد مزدور دشمن جرنیل ضیاالحق کے دور میں کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کے مزدوروں کی جدوجہد میں شریک رہے۔ اس تحریک میں سینکڑوں مزدوروں کو سیٹھوں کے کہنے پر پولس نے قتل کر دیا تھا۔ بعد ازاں کامریڈ کرامت کراچی منتقل ہو گئے۔ سب سے پہلے انہوں نے فاروق ٹیکسٹائل ملزلانڈھی میں ملازمت اختیار کی۔ اس کے بعد کئی ادارون میں کام کرتے رہے۔ آخر کار KESC میں مستقل ملازمت اختیار کر لی اور کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان میں شامل ہو گئے۔ شروع میں کرامت حسین KESC کی ڈیموکریٹک یونین کے سرگرم رہنما تھے۔ ایک موقعے پر یونین کی جانب سے KESC کے مزدوروں کے مسائل پر کمیونسٹ پارٹی کی رہنمائی میں رسالہ بھی نکالہ کرتے تھے جس میں فتح محمد سومرو، طارق اور صفدر بھی پیش پیش تھے۔ پھر انھوں نے KESC بچاؤ تحریک کا آغاز کیا۔ جب KESC کے مزدوروں نے’ نجکاری مخالف اتحاد ‘ تشکیل دیا تو کرامت حسین کو اس کا پہلا کنوینر منتخب کیا گیا۔ اس’ اتحاد‘ میں کراچی شہر کی مختلف مزدور تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں شریک تھی۔ بعد ازاں مزدوروں کے دیرینہ مسائل کے حل کے لےئے لیبر یونین میں شامل ہو گئے اور اس میں مرکزی کردار ادا کیا۔ 2011ء میں 4500 کو جبراٌ رٹائرڈ کرنے کی اسکیم (سازش) کے خلاف مزدروں کو متحد کرنے اور جدوجہد جاری رکھنے اور اسکیم کو مسترد کرنے کی پاداش میں کرامت حسین مرحوم کو انتظامیہ نے مزدوروں کو بھڑکانے کے الزام میں ملازمت سے بر طرف کر دیا۔ وہ یونین کے سیکریٹری اطلاعات تھے۔ کبھی بھی دوسرے مزدور رہنماؤں کی طرح KESC کی گاڑیوں کوذاتی سرگرمی کے لئے استعمال نہیں کیا۔
کرامت حسین موٹر سائیکل پر یا پیدل خود پریس ریلیز اخبارات کو پہنچاتے تھے۔ یونین کے فنڈز کو کرامت حسین کبھی بھی اپنے ذاتی استعمال میں نہیں لائے۔ انھوں نے اپنی سخت بیماری کے دوران بھی یونین فنڈز سے کوئی پیسے حاصل نہیں کئے۔ انکی کوئی جائیداد تھی نہ کوئی اپنا مکان۔ وہ اپنے سالے کے مکان میں رہائش پزیر تھے اور وہیں رحلت کر گئے۔ انکے تین بچے زیر تعلیم ہیں۔ وہ KESC کے نظریاتی محاذ کے مرکزی رہنما اور اثاثہ تھے جس کی گواہی طارق، فتح محمد سومرو اور KESC کے سارے مزدوردیں گے۔ KESC کی نجکاری کے خلاف چلائی جانے والی تحریک میں نظریاتی رہنمائی اور درست تناظر کرامت حسین مزدوروں کی رضا مندی سے پیش کرتے تھے اور اس پر عمل درآمد کرواتے تھے۔ کبھی کبھی یونین کے دائیں بازو کے رجعتی اور کمزور خیالات کے رہنماؤں سے مباحثہ کرتے اور بحث میں بھڑک بھی جاتے تھے لیکن آخر کار سب کی اجتماعی رائے کو مقدم سمجھ کرتحریک کو آگے بڑھاتے تھے۔
کامریڈ کرامت نے اپنی ذات تک ہی اپنے نظریات کو محدود نہیں کیا بلکہ انکے تینوں بیٹے ترقی پسند خیالات اور اپنے والد کی سچائی اور بے غرض جدوجہد پر فخر کرتے ہیں۔ کرامت حسین KESC کی یونین کی علاوہ پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کیمپئین (PTUDC) کراچی کے سرگرم کارکن تھے اور پانچ سال تک صدر رہے۔ تا دم مرگ بھی کامریڈ PTUDCکراچی کے صدر کے عہدے پر فائز تھے۔ اس کے علاوہ وہ وہ عالمی مارکسی رجحان (IMT) کے رکن بھی تھے۔ KESC کے مزدوروں کے علاوہ PTCL، پی آئی اے، واپڈہ اساتذہ، ڈاکٹرز، طلبہ، کسانوں، پی سی ہوٹل کے مزدوروں، کے پی ٹی اور پاکستان سٹیل سمیت تمام جدوجہد کرنے والی یونینوں کے شانہ بشانہ ہر وقت ان کی جدوجہد میں عملی طور پر شریک رہے۔ وہ تھے تو بہت دبلے، نازک، نفیس اور ہنس مکھ لیکن نظریاتی اعتبار سے بڑے آہن، اٹل، مضبوط اور دبنگ تھے۔ کرامت حسین کراچی، ملتان، فیصل آباد اور ملک بھر کے محنت کشوں کے ساتھ دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد سے نہ صرف وابستہ تھے بلکہ ان کی جدوجہد کے ساتھ ہمیشہ یکجہتی کا اظہار کرتے رہے۔ وہ وال سٹریٹ قبضہ تحریک سے بہت متاثر تھے اور عالمی انقلاب اور سوشلزم پر غیر متزلزل یقین رکھتے تھے۔ آخری دنون میں جب وہ شدید بیمار تھے تو ان کے دیرینہ ساتھی کامریڈ جنت حسین سے ’طبقاتی جدوجہد ‘رسالہ اور 8 مارچ 2014ء کی کانگریس کا مجوزہ ’عالمی تناظر‘ فوری طور پر پہنچانے کو کہا۔ تاہم اسی دوران ان کی طبیعت بگڑ گئی اور وہ ہم سے جدا ہوگئے۔
آخری دنوں میں آغا خان ہسپتال میں ’امراض گردہ‘ کے شعبہ میں داخل تھے۔ ہسپتال انتظامیہ نے آپریشن کے لئے چار لاکھ چالیس ہزار روپے کا مطالبہ کیا۔ پھر ایک اور ہسپتال نے 000 54 روپے میںآپریشن کرنے پر رضا مندی ظاہر کی۔ کرامت حسین کو پٹیل ہسپتال گلشن اقبال میں منتقل کر دیا گیا جہاں وہ موت سے جرات مندانہ مقابلہ کرتے ہوئے ہم سے رخصت ہو گئے۔ وفات کے بعدبھی پٹیل ہسپتال کی انتظامیہ نے 6000 روپے اور آغا خان ہسپتال نے 25 ہزار روپے موت کا کرایہ وصول کر لیا۔ میری کرامت حسین مرحوم کے ساتھ 25 سال پر مشتمل انقلابی رفاقت تھی۔ وہ ایک سچے بالشویک تھے جو تمام عمر مارکسزم کے نظریات کے لئے لڑتے رہے۔
آج کرامت حسین جیسے ہزاروں لاکھوں انقلابی محنت کش ان کی طرح سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس وقت بھی اسپین، پرتگال، اٹلی، یونان، ترکی، اندونیشیا، تھائی لینڈ، بوسنیا، پاکستان اور ہندوستان سمیت دنیا بھر کے محنت کش نجکاری، بیروزگاری اور معاشی حملوں کے خلاف تحریکیں برپا کررہے ہیں۔ حال ہی میں کراچی میں پیپلز لیبر بیورو کا پریس کلب میں ہو نے والا عظیم الشان جلسہ، جس میں PTUDC کے کامریڈز نے نجکاری کے خلاف لیف لیٹ بانٹے اور رسالے فروخت کئے، اس انقلابی انگڑائی کا اظہار ہے۔ اسی طرح پھر کوٹ ادو میں PTUDC کی جانب سے نجکاری مخالف جلسے کا انعقاد، پیپلز یونٹی کے پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف لاہور، ملتان، فیصل آباد اور راو لپنڈی میں عظیم الشان جلسے، پاکستان واپڈاہائیڈرو ورکرز یونین کی ملک گیر نجکاری مخالف تحریک، پورے ملک میں PTUDC کی جانب سے قائم کردہ مزدور رابطہ کمیٹیاں واضح علامات ہیں سرمایہ دارانہ نظام کے دن گنے جاچکے ہیں۔ اس ظالم، جابرانہ اور غیر انسانی نظام کے خلاف جدوجہد کو تیز کر کے ہی کامریڈ کرامت اور ان جیسے لاتعداد جانباز انقلابیوں کو خراج عقیدت پیش کیا جاسکتا ہے۔ کامریڈ کرامت کے بارے میں شمس الغنی نے خوب کہا ہے کہ

عرصہ دہر کی بے پایاں سیاہ روزی میں
تو کرامت تھا، کر امات دکھانے والے
زحمت چارہ گری بھی نہ ہمیں دی تو نے
ایسا ہوتا ہے کہیں، چھوڑ کے جانے والے