بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام: بھیک کے ذریعے غربت میں کمی کا فلسفہ

[تحریر: قمرالزماں خاں]

جب پاکستان پیپلز پارٹی بنائی جارہی تھی تو اس کا اولین نعرہ، نقطہ نظر اور مقصد پاکستان سے غربت کا خاتمہ کرتے ہوئے ‘غریب اور امیر کے درمیان وسیع خلیج کو ختم کرکے یکساں سماجی ڈھانچہ استوار کرنا تھا۔اس مقصد کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کی جو’’نظریاتی اساس‘‘ وضع کی گئی اس کو 52صفحات پر مشتمل ’’پاکستان پیپلز پارٹی‘ بنیادی دستاویزات‘‘ میں واضح انداز میں تحریر کیا گیا تھا۔اس ساری تحریرمیں‘ جس کے جادو سے پاکستان کے ٹھہرے ہوئے سماج میں ایسا تلاطم پیدا ہواکہ پچھلے بیس سالوں پر محیط حکمران طبقے کے آہنی تسلط کو پاش پاش کردیا تھا‘ کہیں بھی نہیں لکھا تھا کہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقات،غریبوں اور بیواؤں کے افلاس کو ختم کرنے کے لئے ان کو بھیک دی جائے گی یا ان کو معاشرے میں ہمیشہ کے لئے عضو معطل بنا کررکھ دیا جائے گا۔پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی پیدائش کے وقت ایک ایسا منشور دیا تھا جس نے پورے سماج کے استحصال زدہ طبقے اور دھتکارے ہوئے لوگوں کو ان سرمایہ دارورں،جاگیرداروں،سیاسی مافیا،جرنیلوں اور بیوروکریسی کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح منظم کردیا تھااور ان ’’دیوزادوں‘‘ کو مٹی کے بتوں کی طرح چکنا چور کرکے رکھ دیا تھا۔ اس منشور میں کہیں کوئی’’مفاہمتی حکمت عملی،این آر او،عملیت پسندی یا وقتی مفادات کو مدنظر نہیں رکھا گیا تھا بلکہ تاسیسی دستاویزات نمبر 3میں واضع کیا گیا تھا کہ ’’ہمارے انداز فکر میں انقلاب آفریں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے، اب اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔لمبا راستہ اختیار کرنا کوئی خوشگوار کام نہیں جب کہ چھوٹا راستہ موجود ہو لیکن پاکستان کے حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ لمبا راستہ اختیار کیا جائے،ہمیں تجربے نے بتا دیا ہے کہ جب ایسے مسائل درپیش ہوں جن سے عوام اور ملک کی تقدری وابستہ ہو آسان اور چھوٹا راستہ دراصل منزل سے آشنا نہیں کرتا بلکہ سراب کی نشان دہی کرتا ہے‘‘۔ان دستاویزات میں بطور خاص معیشت کو ترجیح دی گئی تھی اور بالکل واضع انداز میں بھیک اور امدادی پروگرام کی بجائے معیشت کے خدوخال کو سرمایہ دارانہ بنیادوں سے نکال کر منصوبہ بند معیشت میں ڈھالنے کا عزم کیا گیا تھا،سرمایہ کے ارتکاز کو محنت کا استحصال قرار دیتے ہوئے اس کی واپسی کا مربوط پروگرام دیا گیا تھا اور صنعت و حرفت،زراعت،بنکنگ،انشورنس،جہاز رانی،معیشت کے عمومی ارتقا،صحت عامہ،بچت اور سرمایہ کاری،دولت کے ارتکاز،قومی دفاع اور عوا م کی شرکت کا حق،تعلیم اور یونیورسٹیوں کی خود مختاری،عورتوں کے لئے مساوی حقوق،نوجوانوں میں تحریک،فرسودہ قوانین کا خاتمہ،غیر طبقاتی سماج کاقیام سمیت درجنوں مسائل پر ایسی مفصل بحث کی گئی تھی جس میں پسماندگی،استعماری غلبے اوردقیانوسیت،ذاتی ملکیت سے نجات حاصل کرتے ہوئے وسائل،دولت اور ذرائع پیداوار کو مشترکہ ملکیت بنانے اور نئے جہان کی تعمیر کے لئے پروگرام دیا گیا تھا۔اس سارے پروگرام میں ننانوے فی صد لوگوں کی عزت نفس اور عظمت کو پروان چڑھانے کے مقصد کوترجیح دی گئی تھی۔

مگر اب پاکستان پیپلز پارٹی کے چوتھے اقتدار میں جس بات پر سب سے زیادہ فخر کیا جاتا ہے اس کو ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اس پروگرام کو غذائی قلت اور افراط زرکے پھیلاؤ کے منفی اثرات کا تدارک کرنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے،اس پروگرام میں بطور خاص غریب خواتین کی غربت کے خاتمے اور معاشرے کے کمزور اور غیر فعال اراکین کی بحالی کو ترجیح قرارد یا ہے۔بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جسے 2008ء میں شروع کیا گیاتھا ‘کی ویب سائٹ کے ایک وضاحتی بیان میں درج کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق اس پروگرام سے پاکستان کے چار کروڑ افرادمستفید ہورہے ہیں۔یہ افراد جن میں خواتین کی اکثریت اس پروگرام سے کس طرح ’’مستفید‘‘ ہورہی ہیں اس کا اندازہ تو کسی ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘کے دفتر کے اندر اور باہر کے مناظر دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے،جہاں سینکڑوں خواتین تپتی دھوپ اور ٹھٹھرتی سردی میں عورت ذات کے تقدس،پاکیزگی،نسوانیت اور حرمت کو بری طرح پامال کیا جاتا ہے،اس پروگرام سے جتنی غربت کم ہوئی اس کے بارے میں ’’سوشل پالیسی اینڈ ڈیویلپمنٹ سینٹر‘‘ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے چھ سال سے پاکستان میں مزید ایک کروڑ اسی لاکھ لوگ غربت کی کھائی میں گر چکے ہیں اور ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام ‘‘میں ہر سال 60/70ارب روپے جھونکنے کے باوجود تیس لاکھ پاکستانی مزید غریب ہوجاتے ہیں۔ غربت میں کمی کرنے والے اس نام نہاد انکم سپورٹ پروگرام میں کچھ لوگوں کی غربت کم ہوئی ہے اور یہ لوگ اس پروگرام کو چلانے والے ٹھیکے دار ہیں جن کو صرف فارم پرکرنے کی مد میں چار ارب روپے کی خطیر رقم مل چکی ہے، باقی معاوضہ علیحدہ سے ہے۔اگر مشکوک ناموں اور فرموں والے ان ٹھیکے داروں نے اتنا مال کمایا ہے تو پھر بدعنوانی میں لتھڑے ہوئے حکمرانوں نے اس بہتی ہوئی گنگا میں کتنی بار ہاتھ منہ اور جسم دھوئے ہوں گے!اگرمختلف سطحوں پر ہونے والی بدعنوانی اور اس ذلت کو فراموش کربھی دیا جائے جو اس پروگرام سے ’’فیض یاب‘‘ ہونے والی خواتین اور غریب لوگوں کا مقدر بن چکی ہے تو یہ سوچ بذاتِ خود انتہائی گھٹیا اور ڈھٹائی پر مبنی ہے کہ ایک خاندان کو ملازمت یا روزگار کا موقع دینے کی بجائے ایک ہزار روپے ماہانہ دیکر یہ سمجھ لیا جائے کہ اس سے غربت سکڑ رہی ہے۔

اگر ہر سال ساٹھ ارب روپے سے پاکستان میں بھاری انڈسٹری(اسٹیل ملز،ٹولز فیکٹریز،جہاز ساز کارخانے،بجلی پیدا کرنے والے کارخانوں کی صنعتیں،تیل نکالنے والی رگوں کی فیکٹریاں،ریلوے لوکو موٹو،بڑی بسوں اور ٹرکوں کو بنانے کے کارخانے وغیرہ) لگانے کا آغاز کیا جائے توہر سال کم از کم ساٹھ ہزار خاندانوں کو تاحیات عزت و آبرو والی ملازمت مہیا کی جاسکتی ہے جس میں اسکا معیار زندگی آئیڈیل نہیں تو غربت کی لکیر سے کافی اونچا اٹھ سکتا ہے۔اس انڈسٹریلائیزیشن سے محض سالانہ ساٹھ ہزار افراد (ایک خاندان میں اگر اوسطاََپانچ افراد ہوں توسالانہ تین لاکھ اور پانچ سال میں 15لاکھ افراد) کو براہ راست روزگار ہی مہیا نہیں ہوگا بلکہ اس معاشی دائرے کی وسعت سے دیگرکروڑوں لوگ بھی مستفید ہوسکتے ہیں۔اس بھاری رقم‘ جس کو اس نام نہاد ’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ میں جھونکا جارہا ہے فزیکل انفراسٹرکچر بطور خاص بجلی کی فراہمی کے معاملے میں خرچ کرکے بحران سے نکلا جاسکتا ہے اور پانی کے ذریعے بہت ہی سستی بجلی پیدا کی جاسکتی ہے جس سے مہنگائی کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ ایک لاکھ میگا واٹ بجلی کی گنجائش اور 59ہزار میگاواٹ کے ادھورے منصوبوں کو پایہ تکمیل پہنچا کر نہ صرف انڈسٹریلائیزیشن کے راستے کی بڑی رکاوٹ دور کی جاسکتی ہے بلکہ تیل کی درآمد پر ذرمبادلہ کے بھاری اخراجات میں تخفیف کی جاسکتی ہے۔اگر واپڈا کی بجلی پوری اور 24گھنٹے مہیا ہو تو روزانہ پرائیویٹ جنریٹرز میں جلنے والے کروڑوں لٹر پیٹرول،ڈیزل اور اتنی ہی گیس کو بچایا جاسکتا ہے۔ ہر سال ساٹھ ارب روپے ضائع کرنے والے پروگرام پر اس پروگرام کی انچارج محترمہ کو ملک کااعلیٰ اعزاز دینے والے لوگوں کو چاہئے تھا کہ اس اعزاز کو ’’ملک میں بھیکاریوں میں اضافہ‘‘ کی بنا پر دیتے نہ کہ غربت میں تخفیف کرنے کے الزام میں۔اتنی مہنگائی جس میں پانچ افرادکے ایک متوسط کنبے کا کسی طور بھی تیس دنوں کا راشن،بجلی،گیس،پانی کا بل، شہر کے اندرکے سفری اخراجات،(نجی شعبے کے قبضے میں) تعلیم اور صحت کی خریداری پر ہی بیس ہزار سے کم خرچہ نہیں ہوتاپھر خوشی غمی ایک علیحدہ خرچہ ہے،پیدائش اور موت دونوں کا ہی خرچہ تیس ہزار روپے سے بھی تجاوز کرجاتا ہے۔ ایک ایسے ملک میں جس میں حکومت کے مطابق 34فی صد اور ورلڈ بنک کے مطابق64فی صد لوگ غربت کی لکیر کے نیچے رہتے ہوں بے روزگاری کی شرح حکومت کے مطابق 12فی صد اور حقیقی طور کئی گنا زیادہ ہو، مہنگائی کا طوفان ہر ہفتے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہو‘ وہاں غربت،افلاس اور پسماندگی کا حل روزگار کے وسائل پیدا کرنے سے ہوتا ہے،بھیک یا خیرات سے مسئلہ حل نہیں ہوسکتا’’ دیگر مقاصد ‘‘شاید حاصل کئے جاسکتے ہوں۔سب سڈی یا امداد ان ممالک میں لوگوں کو دی جا سکتی ہے جہاں ایک دو فی صد محتاجی کی زندگی گزار رہے ہوں،جس ملک میں اکثریت کی زندگی غربت اور افلاس کی چکی تلے پس رہی ہو وہاں امدادی رقوم کی بجائے ملکی معیشت،روزگار کے مواقع،زرمبادلہ بچانے اور کمانے کے راستے تلاش کرنا پڑتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی پر قبضہ گیر موجودہ قیادت نے اگر ذوالفقار علی بھٹو کے وژن کا مطالعہ کیا ہو یا پاکستا ن پیپلز پارٹی بنانے کے مقاصدپڑھے ہوں جو اسکی تاسیسی دستاویزات میں لکھے ہوئے ہوں تو ان کو پتا چلتا کہ’’بھٹو ازم‘‘عزت نفس دینے کا نام ہے چھیننے کا نہیں۔بھٹو نے اپنے نظریات میں حقوق دینے کی بات کی تھی بھیک دینے کا وعدہ نہیں کیا تھا۔ذوالفقارعلی بھٹو نے اپنے مختصر دور حکومت میں پورے ملک میں بطور خاص کامرہ،ٹیکسلا، لاہور، واہ اور کراچی میں بھاری صنعتیں لگانے،سکولوں، کالجز اور یونیورسٹیز کی تعمیر اور تعلیم کو غیر طبقاتی بنیادوں پر مہیا کرنے،صحت کی سہولیات عام کرنے کے لئے علاج گاہوں کی تعمیر اور وسعت‘ میڈیکل کالجوں میں اضافہ،پینے کے پانی کی فراہمی،ملک بھر کے تمام شہروں میں انڈر پاس اور اوور برج بنانے،گیس کی فراہمی اور دیگر عوامی خدمات مہیا کرنے کے لئے دولت کی پیدائش کے ذرائع میں اضافہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ لاکھوں محنت کشوں کو غیرممالک میں کام کے مواقع دلوائے جو اب تک وہاں سے اربوں ڈالر زرمبادلہ کما کرپاکستان بھیج رہے ہیں۔’’بھٹو ازم‘‘کا مطلب پیپلز پارٹی کے فلسفے کے مطابق ذرائع پیداوار کو نجی شعبے کی ملکیت سے نکال کر عوامی ملکیت میں لینا تھا ’’پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ‘‘ جیسے غدارانہ خیالات کی آبیاری نہیں تھی۔غربت میں کمی صرف اسی وقت ہوسکتی ہے جب غریبوں کے تحفظ پر مبنی فلسفے پر یقین کیا جائے اور اس پر عمل درآمد کیا جائے،امیروں،سرمایہ داروں،ٹھیکے داروں، کاروباری کارٹیلز کے مفادات کے لئے چلایا جانے والے نظام میں غریبوں کو صرف ذلت آمیز بھیک ہی دی جاسکتی ہے۔’’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘‘ کی سب سے بڑی خرابی جس کاادراک حکمران طبقہ کو ہے اوروہ شائد یہی نتائج حاصل کرنا چاہتے تھے وہ اس پروگرام کے ذریعے جدوجہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی عمومی نفسیات کو مسخ کرکے ہاتھ پھیلانے،بے چارگی،خود ترسی اور خود کو لاچارو بے کار اوربھیکاری سمجھ کر دوسروں پر انحصار کرنے کی نفسیات کو فروغ دے رہے ہیں،یہ تاریخی طور پر مجرمانہ پالیسی ہے جس پر آج جو بھی کہا جائے آنے والے کل کو‘ ایک بھیانک جرم کے طور پر یاد کیا جائے گا۔پاکستان سے غربت،افلاس اور بے روزگاری سمیت تمام معاشی،سماجی، سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی نظریات کی 1967-68ء اور1970ء سے زیادہ آج ضرورت اور افادیت ہے مگر ضرورت ہے کہ اسی پیپلز پارٹی کو آج پھر سے زندہ کیا جائے جو سرمائے اور سامراج کی اطاعت کی بجائے اس سے ٹکرانے کا حوصلہ اور عزم رکھتی ہو،یہ کام پاکستان پیپلز پارٹی کے بنیادی کارکنان اور نظریاتی حامیوں پر ایک لمبے عرصے سے قرض کی صورت میں چلا آرہا ہے۔

متعلقہ:

ملتان میں پی ایس ایف کا شاندار کنونشن؛ جو رکے ہوئے ہیں دریا انہیں رکا مت سمجھ

کوئی تو کوہِ ستم کو گرائے گا۔۔۔۔

۔84واں یوم جنم ! ذوالفقار علی بھٹوکی روح سسک رہی ہے!!

صادق آباد میں سینکڑوں کارکنوں کا پاکستان پیپلز پارٹی کی پالیسیوں کے خلاف مظاہرہ

دسمبر27 کے زخم کب بھریں گے؟