’می ٹو‘
خواتین کے معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور جنسی استحصال کا اگر جائزہ لیا جاتا تو سب سے زیادہ مظلوم محنت کش طبقے کی خواتین ہیں۔
خواتین کے معاشی، معاشرتی، ثقافتی اور جنسی استحصال کا اگر جائزہ لیا جاتا تو سب سے زیادہ مظلوم محنت کش طبقے کی خواتین ہیں۔
’’مستقبل کے تاریخ دان اگر روس کے انقلاب کے بارے میں لکھیں گے تو انہیں ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے کہ روس کا انقلاب بھوکی عورتوں اور بچوں سے شروع ہوا جو کہ روٹی کا مطالبہ کر رہے تھے۔‘‘
اٹل حقیقت ہے کہ محنت کش طبقہ ہی اس درندہ صفت نظام کا گورکن ہے جو اس نظام کو دفن کر کے صنفی اور جنسی تفریق سمیت تمام تر تعصبات کو ختم کر دے گا۔
پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں خواتین بھیڑ بکریوں سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں، مگر پھر بھی بہت سی خواتین سوچے سمجھے بغیر اپنا غلامانہ کردار قبول کئے ہوئے ہیں۔
پاکستان جیسے غریب اور پسماندہ ملک میں جہاں مہنگائی آسمان چھو رہی ہے وہاں محنت کش خواتین کی زندگیاں دن بدن بدتر ہوتی جارہی ہیں۔
تمام تحریکوں، ہڑتالوں، جنگوں اور انقلابات کے اندر محنت کش خواتین کی شاندار انقلابی روایات ہمیں آج بھی عورت کے لازوال انقلابی کردارپر یقین دلاتی ہیں۔
لینن نے انقلاب کے بعد لکھا کہ ’’خواتین مزدوروں کی حمایت اور شراکت کے بغیر یہ انقلاب اس طرح فتحیاب نہیں ہو سکتا تھا۔‘‘
طبقاتی جدوجہد اور پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کمپئین (PTUDC) کی جانب سے 5 مارچ 2017 ء کو حیدرآباد پریس کلب میں ’’خواتین پر جبر اور آزادی کی جدوجہد‘‘ کے عنوان سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔
عورت ہمیشہ سے سماجی طور پر غلام نہیں تھی مگر کچھ مخصوص حالات کی وجہ سے جب اس سے معاشی خود مختیاری چھین لی گئی اور ان کو سماجی طور پر غلام کیا گیا۔
حد یہ ہے کہ غیرت کے نام پر معصوم زندگیوں کے چراغ گل کرنے والے اس ’غیرت مند‘ معاشرے میں کوئی لڑکی 10 منٹ تک سڑک پر کھڑی نہیں رہ سکتی جس سے اس معاشرے کی غیرت کا ٹھیک ٹھیک اندازہ ہو جاتا ہے۔
دہشت گردی، جرائم، جنسی تشدد، قتل و غارت، استحصال وغیرہ، یہ سب کوئی الگ الگ مظاہر نہیں ہیں بلکہ اس گراوٹ، اذیت اور وحشت کے مختلف اظہار ہیں جس کا شکار یہ معاشرہ ہو چکا ہے۔
ساری عمر ناانصافیوں کے نظام کو قائم رکھنے والے ’ناصح‘ بن کر پورے سماج کو اپنے انداز میں چلانے کے خواہش مند نظر آتے ہیں۔
بنیادی طور جنسی تفریق اور جنسی بنیادوں پر استحصال اور جبر کا ذمہ دار کوئی فرد یا قانون سازی کی کوئی کمی نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی یہ پورا نظام ہے۔
سماج ان سنگین اور اندوہناک جرائم، تشدد اور زندہ جلا کر ماردینے کے واقعات پر ’’معمول‘‘ کا ردعمل ظاہر کررہا ہے، گویا کچھ ہوا ہی نہیں۔
| تحریر: لال خان | عمران خان کے جلسوں میں جس ہولناک رجحان کا اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے وہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور ان کی بے حرمتی کا تسلسل ہے۔ ان جلسوں میں ہوس کے بچاریوں کی وحشت ناک حرکات ایک معمول بن چکی ہیں۔ […]